کیا خدا تعالیٰ کا حقیقی ولی اپنے کشف اور الہام کے ذریعہ تصحیح احادیث کر سکتا ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحب کشف والہام تھے۔اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل تھا۔پیشگوئیوں کے مطابق آپ علیہ السلام کا مقام ومرتبہ حکم وعدل کا ہے۔
آپ علیہ السلام نے اپنی تصانیف میں مختلف احادیث بیان فرمائی ہیں۔بعض غیر احمدی علماء آپ علیہ السلام کے دلائل میں بیان کردہ احادیث پر جرح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ احادیث ضعیف ہیں اور راویوں پر بحثیں شروع کر دیتے ہیں۔راویوں پر جرح اپنی ذات میں بہت اہمیت کا حامل مضمون ہے۔امام مسلم(پیدائش 821ء وفات 875ء، پیدائش 206ھ، وفات 261ھ ) صحیح مسلم کے مقدمہ میں ایک باب باندھتے ہیں کہ
’’باب:ہمیشہ ثقہ اور معتبر لوگوں سے روایت کرنا چاہیے اور جن لوگوں کا جھوٹ ثابت ہو ان سے روایت نہ کرنا چاہیے۔
جان لو!خدا تجھ کو توفیق دے، جو شخص صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور ثقہ اور متہم (جن پر تہمت لگی ہو کذب وغیرہ )راویوں کو پہچانتا ہو اس پر واجب ہے کہ نہ روایت کرے مگر اس حدیث کو جس کے اصل کی صحت ہو اور اس کے نقل کرنے والے وہ لوگ ہوں جن کا عیب فاش نہ ہوا ہو اور بچے ان لوگوں کی روایت سے جن پر تہمت لگائی گئی ہے یا جو عناد رکھتے ہیں بدعتی لوگوں میں سے۔ اور دلیل اس پر جو ہم نے کہا یہ ہے کہ اللہ جلّ جلالہٗ نے فرمایا کہ
(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ(الحجرات 7))
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم تکلیف دو کسی قوم کو نادانی سے، پھر کل کو پچھتاؤاپنے کئے ہوئے پر۔ ‘‘
(صحیح مسلم تالیف :امام مسلم بن الحجاج، ترجمہ علامہ وحید الزمان جلد اول صفحہ 36تا37)
احادیث کی صحت جاننے کے لیے راویوں کے حالات زندگی کا جاننا ضروری ہے۔ اس حوالے سے محدثین نے بہت محنت کرکے راویوں کے حالات اکٹھے کیے ہیں اور یہ اتنی بڑی خدمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کو اس کی جزا دے سکتا ہے۔
صحیح اور ضعیف روایات کے بارے میں جاننے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ کوئی صاحب الہام وکشف کسی حدیث کی صحت کے متعلق بذریعہ کشف یا الہام بتا دے۔ متقدمین میں کئی علماء اس بات کے قائل تھے کہ ولی بذریعہ کشف یا الہام احادیث کی صحت معلوم کر سکتا ہے۔
حضرت محی الدین ابن عربیؒ اپنی تصنیف ’’فتوحات مکیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’وہ(ولی) اس نبی کا حکم اخذ کرتا ہے اور اپنے رب کی دلیل پر عمل کرتا ہے۔ ایسی ضعیف حدیث جس میں وضع کرنے والے راویوں کے طریقہ سے ضعف پایا گیا اور اُس پر عمل کرنا ترک کر دیا گیا حالانکہ وہ حدیث نفس الامر میں صحیح ہوتی ہے اور وہ وضع کرنے والا جس سے اس حدیث میں صدق بیان کیا گیا اس نے اسے خود وضع نہیں کیا اور محدث اس شخص کے ثقہ نہ ہونے کی بنا پر اس کے قول سے نقل کرنے میں اس حدیث کو رد کر دیتا ہے جب کہ وہ وضع کرنے والا اس کے ساتھ منفرد ہو یا حدیث کا مدار اسی پر رکھا گیا ہو۔
اور جب اس حدیث میں ثقہ راوی کی شرکت ہوگی جس نے اس کے ساتھ اس حدیث کو سنا ہو۔ اس حدیث کو اس ثقہ کے طریق سے قبول کر لیا جاتا ہے۔
یہ ولی اس روح سے سنتا ہے جو اس پر حقیقت محمد مصطفیٰﷺ سے القا کرتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے حضور رسالت مآبﷺ کے ساتھ حضرت جبریل علیہ السلام کی حدیث کو سنا جس کی اسلام وایمان اور احسان کے بارے میں حضرت جبریل علیہ السلام تصدیق کرتے تھے اور جب ولی القا کرنے والے روح سے سنتا ہے تو وہ اس میں اسی صحابی کی مثل ہے جو تابعی کے بالعکس رسو ل اللہﷺ کے منہ مبارک سے اس علم کے ساتھ سنتا ہے جس میں شک نہیں کیونکہ وہ اسے ظن کے غلبہ کے طریق پر صدق میں مؤثر ارتفاع تہمت کے لئے قبول کر لیتا ہے اور اپنے رواۃ کے طریق سے کوئی حدیث صحیح ہوتی ہے اور وہ حدیث اس مظہر کا معائنہ کرنے والے مکاشف کو حاصل ہوتی ہے تو وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ؟تو آپﷺ انکار کر دیتے ہیں اور اسے فرماتے ہیں کہ میں نے یہ نہیں کہا اور نہ اس کے ساتھ حکم دیا ہے۔ پس وہ صاحب مکاشفہ اپنے رب کی دلیل سے اس حدیث پر عمل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اگرچہ اہل نقل اس کے طریق کی صحت کی بنا پر اس پر عمل کرتے ہیں اور وہ نفس الامر میں ایسے نہیں ہوتی اور اس کے مثل امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم کے صدر میں بیان کیا ہے۔ کبھی کبھی یہ صاحبِ مکاشفہ اس حدیث کے وضع کرنے والے کو جان لیتا ہے کہ وہ ان کے گمان میں صحیح حدیث ہوتی ہے اس صاحب مکاشفہ کو یا تو حدیث وضع کرنے والے کا نام بنا دیا جاتا ہے یا اس کے لئے اس شخص کی صورت کھڑی کر دی جاتی ہے۔ ‘‘
(فتوحات مکیہ از شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، ترجمہ علامہ صائم چشتی صفحہ31تا32، ناشران علی برادران تاجران کتب جھنگ بازار فیصل آباد )
الہام اور کشف کے ذریعہ تصحیح احادیث کو جائز سمجھنے والے کئی بزرگان تھے۔
’’متقدمین میں سے شیخ محمد اکبر محی الدین بن علی المعروف ابن عربی الطائی المالکی (638ھ)اور ان کے بعد اکثر صوفی مزاج علماء (مثلاً خلعی اور سیوطیؒ وغیرہ )نے الہام، کشف اور خواب کے ذریعے تصحیح احادیث کو جائز رکھا ہے۔ چنانچہ شیخ محی الدین ابن عربی ’’فتوحات المکیہ‘‘میں متعدد مقامات پر لکھتے ہیں۔ عرفت صحۃ الحدیث بصحۃ کشفہ وصحۃ کشفہ بصحۃ الحدیث (میں نے کشف کے ذریعہ حدیث کی صحت کا عرفان حاصل کیا اسی طرح کشف کی صحت کا عرفان حدیث کی صحت سے کیا۔ )
(ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت از غازی عزیز صفحہ نمبر 42فاروقی کتب خانہ الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور)
خواب اور بیداری میں براہ راست رسول کریمﷺ سے فتویٰ دریافت کیے جاتے تھے۔
’’خاتم الاولیاء شیخ الکل محی الدین ابن عربی 17رمضان المبارک 560ھ بروز پیر اندلس (سپین) کے مشہور شہر ’’مرسیہ‘‘میں پیدا ہوئے۔ ……حضرت ابن عربیؒ نے خود لکھا ہے کہ میں نے کئی بار بیداری اور خواب میں حضرت رسول اللہﷺ کی زیارت کی اور آپﷺ سے فتویٰ دریافت کیا۔ ‘‘
(فتوحات مکیہ جلد چہارم صفحہ 552)(زیارت نبیﷺ بحالت بیداری (حصہ دوم )محمد عبد المجید صدیقی ایڈوکیٹ صفحہ 98)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحب کشف والہام ہیں اس لیے آپ علیہ السلام نے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث اپنی کتب میں تحریر فرمائی ہیں اور ان کو رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی بیان کیا ہے تو یقینا ًوہ حدیث رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ہی ہے خواہ محدثین اس حدیث پر جرح ہی کرتے ہوں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی الہام کی بنیاد پر کسی حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیتا۔
(از:ابن قدسی )
٭…٭…٭