الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
ذکرِ نصیبین
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن جولائی اگست 2013ء میں مکرم طارق حیات صاحب کے قلم سے تاریخی شہر نصیبینؔ کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔
نصیبین کو قدیم نقشوں میں Nisibis اور آجکل Nusaybinکے ہجوں سے دکھایا جاتا ہے۔ ترکی کا یہ شہر شام کے بارڈر سے صاف نظر آتاہے۔ تاریخ کے تقریباً ہر دَور میں یہ شہر قابل ذکر رہا اورموجودہ عراق یعنی قدیم میسوپوتامیہ کے شمال میں واقع ہونے کی وجہ سے دو عظیم الشان سلطنتوں، رومیوں اور ساسانیوں کی باہمی جنگ وجدال کی تاریخ میں مذکور ہوتا آیا ہے اورمشرقی عیسائیت کے مذہبی تعلیمی مرکز کے طور پر معروف رہا ہے۔
مَیں شام کے شہر القامشلی کے چرچ بنام ’’دیر مار یعقوب النصیبینی‘‘ کے ماتحت ادارے میں سریانی زبان سیکھ رہا تھا۔ عیسائی بزرگ ’’مار یعقوب نصیبینی‘‘ نصیبین کے سریانی عیسائی گھرانے میں پیداہوئے اور تعلیم مکمل کرکے نصیبین کے چرچ کا اسقف (بشپ)بن گئے۔ اس عالم فاضل شخص نے شہرنصیبین میں سریانی زبان کی تعلیم کا ایک بہت بڑا مدرسہ بنوایا۔ ان کی وفات 338ء میں ہوئی۔ عثمانی دَور کے آخر میں سریانی لوگوں نے اناطولیہ (موجودہ ترکی)سے متفرق وجوہات کی بِنا پرموجودہ ملک شام کی طرف ہجرت کی توچرچ اوراس میں قائم عیسائی بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا مدرسہ اسی بزرگ استاد کے نام پر بنایا۔ اس چرچ کی ایک دیوار پر اس کی تعمیر کا سال 1936ء درج ہے۔
دراصل القامشلی اور نصیبین ایک ہی شہر تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے بعد 1920ء سے1945ء تک یہاں فرانسیسی قابض رہے اور اُن کے جانے کے بعد ترکی اور شام میں یہ طے پایا کہ ریلوے لائن کو حد فاصل تسلیم کرلیا جائے۔ یوں آدھا شہر ترکی میں چلا گیا اور باقی آدھا ملک شام کی ملکیت ٹھہرا جو القامشلی کے نام سے معروف ہوگیا۔
نصیبین کی اہمیت اجاگر کرنے والابنیادی ترین امر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ’’مسیح ہندوستان میں ‘‘ میں درج فرمایا ہے کہ روایات کے مطابق واقعہ صلیب کے بعد (کتاب ’’روضہ الصفا‘‘ میں مندرج تفصیل کے مطابق) نصیبین کے بادشاہ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو خط لکھ کر اپنے پاس بلایاتھا، ایک انگریز نے بھی اس روایت کی تائید کی ہے اور بادشاہ کا وہ خط بھی شائع کیا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بھی یقین تھاکہ یہاں کے آثار کی تلاش سے کچھ ٹھوس دلائل ضرور ہاتھ آسکتے ہیں۔ مثلاً کوئی تحریر یا کتبہ وغیرہ سامنے آسکتا ہے یا کسی حواری کی قبر دریافت ہوسکتی ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ کے متعلق بھی لکھا ہے کہ وہ اصفہان (فارس یا ایران)سے اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ پہنچنے تک موصل، نصیبین اور عموریہ میں قیام پذیر رہے تھے۔ پھر آنحضورﷺ سے رات کے وقت آن کر ملاقات کرنے والے لوگوں کو بھی نصیبین کے یہودی بتایا جاتا ہے۔
نصیبین اور دیگر دو مقامات میں بعض آثار اور شواہد کی تلاش کے لیے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک وفد تشکیل دیامگر وہ بوجوہ روانہ نہ ہوسکاتھا۔ اس وفد کے امیر حضرت مرزا خدابخش صاحبؓ نامزد ہوئے اور حضرت میاں جمال الدین صاحبؓ اورمولوی حکیم قطب الدین صاحبؓ بدوملہوی بذریعہ قرعہ اندازی اس وفد میں شامل ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس وفد کے ممبران کے لیے بطورخاص توجہ فرمارہے تھے چنانچہ مکتوبات احمد میں مرزا خدا بخش صاحب کو ضروری نوٹس لکھوانے کے لیے مالیرکوٹلہ سے قادیان بھجوانے جیسے امور کا ذکر حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ سے خط و کتابت میں بھی جابجا مل جاتا ہے۔ وفد کے سفر کے اخراجات کے لیے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے 4؍اکتوبر 1899ءکوبذریعہ اشتہار ایک پُرزور تحریک فرمائی جس پر لبیک کہتے ہوئے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ نے مرزا خدا بخش صاحبؓ کا خرچ اپنے ذمہ لے لیا اور باقی دو افراد کے اخراجات نواب محمد علی خان صاحبؓ نے بھجوادیے۔ چند دیگر اصحاب نے بھی چندہ دیا جس پر حضورؑ نے تعریفی کلمات ارشاد فرمائے۔ پھر 12، 13، 14 نومبر 1899ء کو ان اصحاب کی روانگی کا جلسہ ہواجو بہت دھوم دھام سے منعقد ہوا، اس میں بیرونجات سے بھی بہت سے احباب شامل ہوئے اور حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کی تقاریر بھی ہوئیں۔
1899ء کے اس اجتماع میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بہت لمبی اور پُراز معانی تقریر فرمائی جس میں فرمایا:
’’…جس دن سے میں نے نصیبین کی طرف ایک جماعت کے بھیجنے کا ارادہ کیا ہے۔ ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس خدمت پر مامور کیا جائے اور دوسرے کو رشک کی نگا ہ سے دیکھتا ہے اور آرزو کرتا ہے کہ اس کی جگہ اگر اس کو بھیجا جائے تو اس کی بڑی ہی خوش قسمتی ہے۔ بہت سے احباب نے اس سفر پر جانے کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا، لیکن میں ان درخواستوں سے پہلے مرزا خدا بخش صاحب کو اس سفر کے واسطے منتخب کر چکا تھا اور مولوی قطب الدین اور میاں جمال دین کو ان کے ساتھ جانے کے واسطے تجویز کر لیا تھا۔ اس واسطے مجھے ان احباب کی درخواستوں کو ردّ کرنا پڑا۔ تاہم میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے بصد مشکل اور سچے اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی پاک نیتوں کے ثواب کو ضائع نہیں کرے گا اور وہ اپنے اخلاص کے موافق اجر پائیں گے۔
دور دراز بلا د اورممالک غیر کا سفر آسان امر نہیں ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ اس وقت سفر آسان ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ کس کو علم ہو سکتا ہےکہ اس سفر سے کون زندہ آئے گا۔ چھوٹے چھوٹے بچے اور بیویوں اور دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر جانا کوئی سہل بات نہیں ہے۔ اپنے کاروبار اور اپنے معاملات کو ابتری اور پریشانی کی حالت میں چھوڑ کر ان لوگوں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے اور انشراح صدر سے اختیار کیا ہے۔ جس کے لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ بڑا ثواب ہے۔ ایک تو سفر کا ثوا ب ہے، کیونکہ یہ سفر خدا تعالیٰ کی عظمت اور توحید کے اظہار کے واسطے ہے۔ دوسرے اس سفر میں جو جو مشقتیں اور تکلیف ان لوگوں کو اٹھانی پڑیں گی، ان کا بھی ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا، جبکہ
مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ (سورۃ الزلزال:8)
کے موافق وہ کسی کی ذرّہ بھر نیکی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا، تو اتنا بڑا سفر جو اپنے اندر ہجرت کا نمونہ رکھتا ہے۔ اس کا اجر کبھی ضائع ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ صدق اور اخلاص ہو۔ ریا اور دوسرے اغراض شہرت و نمودکے نہ ہوں اور میں جانتا ہوں کہ برو بحر کے شدائد ومصائب کو برداشت کرنا اور ایک موت کو قبول کر لینا بجز صدق کے نہیں ہو سکتا۔ بہت سے بھائی ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں گے اور میں بھی ان کے واسطے دعاؤں میں مصروف رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مقصد میں کامیاب کرے اور خیرو عافیت سے واپس لاوے اور سچ تو یہ ہے کہ ملائکہ بھی ان کے واسطے دعائیں کریں گے اور وہ ان کے ساتھ ہوں گے۔
اب میں یہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اس موقع پر ہماری جماعت نے دو قسم کی مروّت اور ہمت دکھائی ہے۔ ایک تو یہ گروہ ہے جنہوں نے سفر اختیار کیا اور اپنے آپ کو سفر کے خطرات میں ڈالا ہے اور ان مصائب اور شدائد کے برداشت کرنے کو تیار ہو گئے ہیں جو اس راہ میں انہیں پیش آئیں گی۔ دوسرا وہ گروہ ہے جنہوں نے میری دینی اغراض و مقاصدمیں ہمیشہ دل کھول کر چندے دیے ہیں …۔ ‘‘
(ملفوظات جلداول۔ صفحہ 224تا225)
اس دوران حضرت مسیح موعودؑکو تحریک ہوئی کہ یہ لوگ دورانِ سفر آپؑ کے پیغام کی اشاعت کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں اس پرآپؑ نے اپنی زیر تصنیف کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ کو روک کر عربی کتاب ’’لجۃ النور‘‘ تصنیف فرمائی۔ نیز تجویز فرمائی کہ فونوگراف میں اپنے دعاوی کے متعلق چار گھنٹے کی عربی تقریر ریکارڈ کرکے وفد کو ہمراہ دیں تا ان علاقوں کے لوگ بھی آپؑ کا پیغام سن لیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحقیقی تصنیف ’’مسیح ہندوستان میں ‘‘کے باب چہارم میں اُن شہادتوں کا بیان فرمایاہے جو تاریخی کتابوں سے آپؑ کو ملیں۔ پہلی فصل ان شہادتوں کے ذکر میں ان اسلامی کتابوں سے لی گئی ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کی سیاحت کو ثابت کرتی ہیں اور آغاز میں ایک مشہور تاریخی کتاب ’’روضۃ الصفا‘‘ کے صفحہ 130 تا 135 میں بزبان فارسی لکھی گئی عبارت کا ترجمہ اور تنقیح درج فرمائی جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں یہاں حضور علیہ السلام نصیبین کے جغرافیہ کی بابت لکھتے ہیں :
’’حضرت مسیح علیہ السلام سیر کرتے کرتے نصیبین تک پہنچ گئے تھے۔ اور نصیبین موصل اور شام کے درمیان ایک شہر ہے جس کو انگریزی نقشوں میں نسی بس کے نام سے لکھا ہے۔ جب ہم ملک شام سے فارس کی طرف سفر کریں تو ہماری راہ میں نصیبین آئے گا اور وہ بیت المقدس سے تقریباً ساڑھے چارسو کوس ہے اور پھر نصیبین سے قریباً 48میل موصل ہے جو بیت المقدس سے پانسومیل کے فاصلہ پر ہے اور موصل سے فارس کی حد صرف سو میل رہ جاتی ہے اس حساب سے نصیبین فارس کی حد سے ڈیڑھ سو میل پر ہے اور فارس کی مشرقی حد افغانستان کے شہر ہرات تک ختم ہوتی ہے یعنی فارس کی طرف ہرات افغانستان کی مغربی حدپر واقع ہے…۔ ‘‘
(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ: 67، 68)
تاریخی کتب میں نصیبین کو کبھی عراق کے شہر کے طور پر بتایا جاتا ہے اور کبھی ترکی اور کبھی شام۔ دراصل یہ شہر سلطنت روم اور فارس کی سرحد پر واقع تھا اوردنیا کی موجودہ سیاسی تقسیم کے اعتبار سے یہ شہر ترکی میں واقع ہے اور شام سے متصل۔
نصیبین کے لیے تجویز شدہ وفد کیوں نہ روانہ ہوسکا؟ اس حوالے سے تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ ’’مگر افسوس کہ حکومت افغانستان کی طرف سے بعض مشکلات پیش آجانے کے سبب وفد کو رک جانا پڑا۔ ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد سوم۔ صفحہ160)
اسی حوالے سے حضرت مسیح موعوؑ دفرماتے ہیں :
’’اگرچہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سفر جو تجویز کیا گیا ہے۔ اگر نہ بھی کیا جاتا، تو بھی خداتعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے اس قدر شواہد اور دلائل ہم کو اس امر کے لیے دے دیئے ہیں جن کو مخالف کا قلم اور زبان توڑ نہیں سکتی، لیکن مومن ہمیشہ ترقیات کی خواہش کرتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ حقائق اور معارف کا بھوکا پیاسا ہوتا ہے۔ کبھی ان سے سیر نہیں ہوتا۔ اس لیے ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ جس قدر ثبوت اور دلائل اور مل سکیں۔ وہ اچھا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 223)
………٭………٭………٭………