احمدیت کے علمبردار دو گروہوں کے صدی کے سفر کا تقابلی جائزہ (قسط نمبر 6)
مبلغین کی تیاری
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جماعت کے نونہالوں کو عیسائیت، الحاداور مغربی تہذیب سے بچانے اور انہیں اسلام کا مخلص خادم بنانے کے لیے 15؍ستمبر 1897ء کو قادیان میں ایک مثالی اسلامی درس گاہ کے قیام کی بذریعہ اشتہار تحریک فرمائی۔ حضوؑر نے لکھا:’’اگرچہ ہم دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اس سچے معبود پر ایمان لاویں جس پر ایمان لانے سے نور ملتا ہے اور نجات حاصل ہوتی ہے، لیکن اس مقصد تک پہنچنے کے لیے علاوہ ان طریقوں کے جو استعمال کیے جاتے ہیں ، ایک اَور طریق بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک مدرسہ قائم ہوکر بچوں کی تعلیم میں ایسی کتابیں ضروری طور پر لازمی ٹھہرائی جائیں جن کے پڑھنے سے ان کو پتہ لگے کہ اسلام کیا شے ہے۔ اور کیا کیا خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اور جن لوگوں نے اسلام پر حملے کیے ہیں وہ حملے کیسے خیانت اور جھوٹ اور بے ایمانی سے بھرے ہوئے ہیں …… میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایسی کتابیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے میں تالیف کروں گا بچوں کو پڑھائی گئیںتو اسلام کی خوبی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی ……اس لیے میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ سے اسلامی روشنی کو ملک میں پھیلائوں‘‘ ۔اس مدرسہ کا افتتاح 3جنوری 1898ء کو ہوا۔
(تاریخ احمدیت جلد 2،صفحہ 1،2۔ ایڈیشن 2007ء)
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی رضی اللہ عنہما کی وفات سے جماعت میں جو زبردست خلا پیدا ہوا ،اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت تشویش ہوئی اور خدائی تصرف کے ماتحت حضور علیہ السلام کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ جماعت میں قادر الکلام اور دینی خدمت کا جذبہ رکھنے والے علماء پیداکرنے کا مستقل انتظام ہونا چاہیے۔چنانچہ اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے حضور علیہ السلام نے بہت سے احباب کے سامنے یہ امر پیش فرمایا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایسی اصلاح ہونی چاہیے کہ یہاں سے واعظ اور علماء پیدا ہوں ،جو ان لوگوں کے قائمقام بنیں جو گزرتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ مختلف بزرگان کی تجویز پر حضور علیہ السلام نے مدرسہ تعلیم الاسلام میں ہی دینیات کی ایک شاخ کھولنے کا فیصلہ فرمایا ۔ چنانچہ جنوری 1906ء میں یہ شاخ کھل گئی اور’’ مدرسہ احمدیہ‘‘ کی بنیاد پڑی۔
( تاریخ احمدیت جلد 2،صفحہ412،413۔ ایڈیشن 2007ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1919ء میں عربی کالج کے قیام کو عملی شکل دینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ، اور 15؍ اپریل 1928ء کو جامعہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔
( تاریخ احمدیت جلد 5،صفحہ 18،19۔ ایڈیشن 2007ء )
قیام پاکستان کے بعدانتہائی نامساعد حالات کے باوجود اس اولوالعزم خلیفہ نے اس مادر علمی کے پرچم کو بھی بلند رکھا اور چنیوٹ اور احمد نگر سے ہوتا ہوا یہ ادارہ ربوہ میں آباد ہوا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جوہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں ، تاکہ ہم ہرایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کر سکیں ۔ اس کے متعلق میرے بڑے بڑے ارادے اور تجاویز ہیں ۔ اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے زندگی دی اور توفیق دی ، اور پھر اپنے فضل سے اسباب عطا کیے اور ان اسباب سے کام لینے کی توفیق ملی تو اپنے وقت پر ظاہر ہوجاویں گے۔ غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میںتبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ اس لیے کہ یہ میرا کام ہے کہ تبلیغ کروں۔ میں جا نتا ہوںکہ یہ بڑا ارادہ ہے، اور بہت کچھ چاہتا ہے ، مگر اس کے ساتھ ہی میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آوے گا، میرا خدا قادر ہے جس نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے وہی مجھے اس سے عہدہ برا ٓء ہونے کی توفیق اور طاقت دے گا۔ کیونکہ ساری طاقتوں کا مالک تو وہ آپ ہی ہے‘‘۔
منصب خلافت، انوار العلوم جلد 2، صفحہ 37۔ ایڈیشن جون 2008ء قادیان)
حضرت مصلح موعودؓ کے بسائے ہوئے اس مقدس شہر میں جامعہ احمدیہ کی وسیع و عریض عالیشان عمارت اور طلباء کے قیام کے ہوسٹل تعمیر ہوئے۔ پھر واقفین اور مبلغین کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن قائم کیا گیا۔اور طاہر ہوسٹل، نور ہوسٹل اور محمود ہوسٹل کی خوبصورت اور بلند و بالا عما رات تعمیر ہوئیں۔اور اس ادارے نے ہزاروں خوشنما پھل اور پھول پیدا کیے۔
یکم اکتو بر 2005ء وہ تاریخی دن تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے لندن میں بر اعظم یورپ کے پہلے جامعہ احمدیہ کا افتتاح فرمایا، اس بابرکت موقعہ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’انشا اللہ ایک دن آئے گا کہ ہر ملک میں جامعہ احمدیہ کھولنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو جماعتِ احمدیہ کا خالص دینی تعلیم سکھانے والا ادارہ ہے۔ خالص وہ لوگ یہاں داخل ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کی ہیں‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل 28اکتوبر 2005ء صفحہ 1۔جلد 12، شمارہ 43)
پھر دس مارچ 2017ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’ اس وقت ربوہ اور قادیان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے اور جرمنی میں بھی جامعہ ہیں ، جن میں یورپ کے رہنے والے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ کینیڈا میں جامعہ احمدیہ ہے جو وہاں باقاعدہ حکومتی ادارے سے منظور ہو چکا ہے، وہاں بعض دوسرے ممالک سے بھی طلبا ء آسکتے ہیں اور آئے ہوئے ہیں ، پڑھ رہے ہیں۔غانا میں جامعہ احمدیہ ہے ، اس سال وہاں بھی اس کی شاہد کی پہلی کلاس نکلے گی ، جہاں اس وقت مختلف ممالک سے آئے ہوئے طلباء زیر تعلیم ہیں، بنگلہ دیش میں بھی جامعہ احمدیہ ہے۔ انڈونیشیا میں بھی جامعہ احمدیہ کو شاہد کے کورس تک بڑھا دیا گیا ہے‘‘۔
( الفضل انٹرنیشنل 31مارچ 2017ء صفحہ 6۔جلد 24،شمارہ 13)
اس کے علاوہ تنزانیہ، کینیا، سیرالیون اور نائیجیریا میں بھی جامعہ احمدیہ قائم ہے۔ ان تمام جامعات کی مکمل اور جدید سہولیات سے آراستہ تدریسی عمارتیں نیز اساتذہ اور طلباء کی رہائشی عمارتیں ہیں۔ دینی اور روحانی تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی غذا کا بھی پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ غرض قادیان کی مقدس بستی میں ایک سو بارہ سال قبل بویا گیا یہ بیج اب ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں پیوست اور شاخیں اطراف عالم میں پھیل چکی ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل و احسان سے اب جماعتِ احمدیہ اس ربانی حکم کو عملی طور پر پوراکرنے کے دور میں داخل ہورہی ہے کہ مختلف اقوام رنگ اور نسل کے لوگ تفقہ فی الد ین کے بعداپنی اپنی قوموں کی طرف لوٹ کر انذار وتبشیر کا کام سر انجام دیں۔ اب دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ان 13 جامعات سے فارغ التحصیل طلبا شہر شہر اور ملک ملک پھیل رہے ہیں، اور خلافت کے سلطان نصیر بن کر تبلیغ اسلام کے جہاد اکبر میں مصروف ہیں۔
اب ’تبلیغ اسلام کی دیوانی‘ جماعت کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیںتو یہ بات روز روشن کی طرح عیاںہوتی ہے کہ یہ جماعت اِس نظام سے بھی بے نصیب ہے۔سو سالہ تاریخ میںدینی تعلیم کے لیے مخصوص عمارت مکمل تدریسی نظام کے ساتھ دنیا کے کسی گوشے میں موجود نہیں۔دنیاوی آسائشوں سے منہ موڑ کر دین اسلام کی خاطر زندگیاں وقف کرکے دینی تعلیم کے حصول کے بعد اہل و عیال اور عزیز رشتہ داروں سے جدا ہوکر دنیا کے کسی دوسرے ملک میں خدمت دین کے نظام سے یہ جماعت یکسر محروم ہے۔مولوی محمد علی صاحب کی سوانح عمری ’’مجاہد کبیر‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہے۔جس میں ان کے حالا ت زندگی ،علمی اور انتظامی کامیابیوں کا ذکر ہے ۔ اس پوری کتاب میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ احمدیہ انجمن لاہور کے قیام کے بعد حضرت امیر نے مبلغین اور واعظین پیدا کرنے کے لیے کسی ادارے کی بنیاد رکھی ہو۔یا اس کے لیے عملی کوشش کی ہو، البتہ مسلم ہائی سکول کی تعمیر کا ذکر موجود ہے کہ’’ دسمبر 1924ء میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور 15فروری 1925ء کو اس کا افتتاح ہوا۔اس سے پہلے1918ء میں انجمن نے بدّو ملہی میں بھی ایک سکول کھولا‘‘۔( مجاہد کبیر صفحہ 178،ایڈیشن دسمبر 1962ء۔ ناشر احمدیہ اشاعت اسلام لاہور)
محترم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’دوسراکام احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا یہ ہے کہ وہ مرکز میں ایسے مبلغین اسلام تیار کرے ، جنہیں تبلیغ و دعوت اسلام کے لیے ہندوستان یا ہندوستان سے باہر غیر ممالک میں بھیجا جاسکے اس مقصد کے لیے بدّو ملہی اور لاہور کے ہائی سکول بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں، جن میں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکوں کو ضروری دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ دینیات کی تعلیم کا علیحدہ انتظام بھی ہے ۔ شروع میں تو اشاعت اسلام کالج لاہور کے نام سے یہ مدرسہ چلتا رہا جس میں دینیات کے طلباء کو لیا جاتا تھا ، بعد میں اس نام کو ہٹا کر صرف ان طلباء کے لیے تعلیم دینیات کا انتظام کیا گیا جو اپنے آپ کو تبلیغ دین کے لیے وقف کریں ‘‘۔
(مجدد اعظم جلد سوم صفحہ 337۔ ایڈیشن اوّل، مارچ 1944ء)
پھراگلامنظریوں سامنے آتاہے:’’مورخہ25دسمبر 1963ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مسلم ٹائون لاہور میں ادارہ تعلیم القرآن کی افتتاحی تقر یب عمل میں آئی۔گذشتہ جلسہ سالانہ پر مجلس معتمدین نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جماعت کی ایک پرانی تجویزجس کی تحریک حضرت امیر مرحوم مولانا محمد علی صا حب نے فرمائی تھی یعنی ادارہ تعلیم القرآن کی تعمیر اس کی تکمیل ہونی چاہیے۔1905ء میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود نے بڑی تشویش کا اظہار فرمایا کہ ہمارا سلسلہ علماء سے خالی ہوتاچلا جارہا ہے …… 1906ء میں ایک رجسٹر کھولا گیا جس میں ایسے نوجوانوں کے نام درج کیے گئے ، ان میں مولانا شیح عبد الرحمٰن مصری، چوہدری فتح محمد سیال اور چند اور احباب کے نام تھے…… انجمن نے لاہور میں قیام کے فورا ًبعد اشاعت اسلام کالج کھولا ۔ حضرت امیر مولانا صدر الدین اس کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ حضرت امیر مولانا محمد علی صاحب طلباء کو قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے اورتفسیر پڑھاتے تھے …… یہ کالج کسی نہ کسی رنگ میں زندہ رہا ، کبھی محض ایک دو طالب علم مسجد کے کونہ میں بیٹھ کر پڑھتے تھے ، اور کبھی باقاعدہ معلمین اور متعلمین کا ادارہ بن جاتا تھا۔ یہ سلسلہ کسی نہ کسی رنگ میں چلتا رہا پھر یکا یک منقطع ہو گیا ۔ ہمارے ممبران اس کمی کو بڑی شدت سے محسوس کر رہے تھے ۔ حقیقت یہ ہے ایسے اداروں کا نہ ہونا قوم کی موت کے مترادف ہوا کرتا ہے۔ ادارہ تعلیم القرآن کا آغاز ایک قدم ہے۔ ہمارے دوست گذشتہ سالوں میں مایوسی کی باتیں کیا کرتے تھے، اور ایک جمود طاری تھا۔ آپ کو مبارک ہو وہ جمود ٹوٹ چکا ہے‘‘۔
( پیغام صلح 29جنوری 1964ء صفحہ 5۔ جلد 52، شمارہ 4)
پھر آنے والے سالوں میں یہ مبارک سلسلہ بھی یکا یک منقطع ہو گیا ، اور اس وقت احمدیہ انجمن کا یہ ادارہ:’’لاہور احمدیہ سکول آف ایجو کیشن ان ریلیجن‘‘ ’’Lahore Ahmadiyya school of education in Religion‘‘ کے نام سے کہیں موجود ہے ۔
اس جما عت کے مرکزی اخبار پیغام صلح میں سالوں کے وقفے کے بعد یہ اعلان شائع ہوتا ہے:’’لاہور احمدیہ سکول آف ایجو کیشن ان ریلیجن کے تین سالہ مبلغ کورس کے پہلے سال کے داخلے شروع ہیں۔کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک ۔گریجویٹ حضرات کو ترجیح دی جائے گی۔ ملازمت سے ریٹائرڈ، تعلیم یافتہ حضر ات داخلے کے اہل ہیں۔ دوران تربیت مفت قیام و طعام، علاج معالجہ اور معقول ماہوار وظیفہ دیا جائے گا ، جو طلباء کی تعلیم ،تجربہ اور قابلیت کے مطابق ہوگا۔ تعلیم کاآغازیکم جنوری 2010ء کے بعد ہوگا ۔ احباب جماعت اور ان کے بچے جو دینی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں اپنی درخواستیں 10 فروری 2010ء تک زیر دستخطی کو ارسال فرمائیں‘‘۔
(پیغام صلح یکم تا 31دسمبر 2009ء صفحہ 10۔ جلد96،شمارہ 23،24)
پھر اگلا اعلان تین سال کے وقفے کے بعد شائع ہوا:’’تمام احباب جماعت کو مطلع کیا جاتا ہے کہ لیزر کی نئی کلاس برائے سال 2013ء کا آغاز یکم ستمبر 2013ء سے ہو رہا ہے۔تمام نوجوان طلباء جو لیزر کی نئی کلاس میں داخلہ لینے کے خواہشمند ہیں وہ اپنی درخواست تعلیمی اسناد کے ساتھ 15اگست 2013ء تک انجمن کے دفتر میں جمع کروا دیں ۔ داخلہ کے امیدوار کے لیے میٹرک پاس ہونالازمی ہے۔ طالب علم کے قیام وطعام کا انتظام انجمن کے ذمہ ہوگا ، اور طالب علم کو معقول وظیفہ بھی دیا جائے گا‘‘۔
(پیغام صلح یکم تا 30جون 2013ء صفحہ 14۔ جلد100،شمارہ 11،12)
موجودہ امیر بیان کرتے ہیں:’’ہمارے مشنری سکول کا موٹو بھی ہے،(To which height can I not rise)وہ کونسی اونچائی ہے جس تک میں نہیں پہنچ سکتا۔ یہ جذبہ ہمیں پادری ڈالتے ہیں‘‘۔
(پیغام صلح یکم تا 30اپریل 2018ء صفحہ 5۔ جلد 3، شمارہ7،8)
اس جماعت کا ماضی اور حال بزبان خود پکار رہاہے کہ حقیقی بلندیاں ان کے نصیب میں نہیں، اور مستقبل بھی یقینا ًاِسی بات کی گواہی دے گا، کیونکہ وہ ذات عالی صفات جس نے یہ اعلان کیا : ’’ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اِک بلندی کی طرف‘‘ اس مقدس ذات کے مقام، مرتبے اور تعلیم سے اس جماعت کو مس ہی نہیں۔اور ان کے ارادے ہی برخلاف شہر یار ہیں۔
ایم ٹی اے
مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کا نظام جماعتِ احمدیہ کے لیے محض ایک سائنسی ایجاد نہیں۔ قرآن مجید اور احمدیت کی صداقت کا ایک زبردست نشان ہے۔ یہ محض ایک تکنیکی پروگرام نہیں، امام اور جماعت کے باہمی تعلق اور بے پناہ محبتوں کا مظہر ہے۔ اس ٹی وی کی نس نس میںقربانیوں اور عقیدتوں کا زندہ لہو دوڑتا ہے۔ اس جماعت پر خدائے کریم کا یہ عجیب فضل ہے کہ جوں جوں جماعت میں وسعت پیدا ہوتی گئی، اور ظاہری فاصلے بڑھتے گئے، اُس قادر کریم نے اپنی بارگاہ سے مطلوبہ ذرائع پیدا فرما کر اس دنیاوی وسائل کے اعتبار سے غریب جماعت کی دسترس میں کر دیے ۔ مسیح محمدیؐ کے غلاموں کے لیے فضائوں کو مسخر کیا گیا۔ایم ٹی اے پھل ہے قدیم نوشتوں میں موجود پیشگوئیوں کا اور زندہ جاوید نمونہ ہے امام عالی مقام اورخلفائے احمدیت کی پاکیزہ خواہشات اور دعائوں کی قبولیت کا۔ 26دسمبر 1936ء کو جلسہ سالانہ کے موقعے پر پہلی دفعہ لائوڈ اسپیکر استعمال کیا گیا تو خلیفۂ وقت نے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان قرار دیا: ’’میں سمجھتا ہوں یہ بھی حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک نشان ہے، کیونکہ رسول کریم ﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ مسیح موعود اشاعت کے ذریعہ دین اسلام کو کامیاب کرے گا، اور قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کا زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نشان کی صداقت کے لیے پریس جاری کر دیے اور پھر آوازپہنچانے کے لیے لائوڈ اسپیکر اور وائر لیس وغیرہ ایجاد کرائے‘‘۔
( روزنامہ الفضل29دسمبر 1936ء صفحہ 5،کالم 4۔جلد 24، شمارہ 154)
مورخہ 7جنوری 1938ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں پہلی بارخطبہ جمعہ کے لیے لائوڈ اسپیکر استعمال کیا گیا ، اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’اب وہ وقت دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہوگا،ابھی ہمارے حالات ہمیں اس چیز کی اجا زت نہیں دیتے، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں،اور ابھی علمی دقتیں بھی ہمارے راستے میں حائل ہیں۔لیکن اگر یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں توجس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب کے زمانہ میں ہی یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں گی …… یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے عالی شان انقلاب کی تمہید ہوگی جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہوجاتے ہیں‘‘۔
(روزنامہ الفضل قادیان 13جنوری 1938ء صفحہ 1،2۔ جلد 26،شمارہ 10)
رات بھر پگھلا دُعا میں اشک اشک اسکا وجود
تب کہیں یہ صبح نکلی ہے چمن پہنے ہوئے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 12دسمبر 1902ء کو الہام ہوا:’’ یُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِِ‘‘ ایک منادی آسمان سے پکارے گا۔
(تذکرہ صفحہ 365،ایڈیشن ششم،2006نظارت نشرو اشاعت،قادیان)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’میں جانتا ہوں کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اب یہ فیصلہ ہے کہ مسیح محمدیؐ کے لیے آسمان کی فضائیں مسخر کی جائیں گی اور ان تمام مراتب میں جو آسمانی سفروں سے تعلق رکھتے ہیں ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں کو سب دنیا کی دوسری قوموں اور انسانوں پر ایک برتری عطا ہو گی ۔ پس یہ آسمانی سفر کا آغاز ہوا ہے‘‘۔
(خطاب فرمودہ یکم اپریل 1996ء۔ بمقام محمود ہال لندن)
پس خدائے قادر و قدیر کے فضلوں سے اس عالی شان انقلاب کا آغاز مورخہ 31جنوری 1992ء کو ہوا جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ پہلی بار مواصلاتی سیارے کے ذریعہ براعظم یورپ میں دیکھا اور سنا گیا۔اس بابرکت موقعے پر حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’آج کا دن احمدیت کی تاریخ میں ایک بہت ہی مبارک دن ہے۔ یہ جمعہ جماعت کی دوسری صدی کے آغاز میں ایک بہت ہی عظیم سنگ میل نصب کر رہا ہے اور جماعت کو جمع ہونے کے ایک نئے دور میں داخل کر رہا ہے ۔جماعتِ احمدیہ ہی ہے جس کے ذریعہ سے خطبات کے نظام کو سب سے پہلے موا صلاتی رابطوں کے ذریعے صوتی لحاظ سے نہ صرف ایک برّ اعظم میں بلکہ دنیا کے بہت سے برّ اعظموں میںدور دراز کے ممالک تک پہنچانے کی توفیق ملی…… آج کا جمعہ جماعتِ احمدیہ کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی صداقت کے اظہار کے لیے ایک بہت عظیم الشان نشان بن کر ظاہر ہوا ہے ۔صوتی لحاظ سے ہی نہیں آج تصویری لحاظ سے بھی بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی مر تبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اِس عاجز غلام اور خلیفۃ المسیح کو یہ توفیق ملی ہے کہ ایسا خطبہ دے رہا ہے اور ایسا جمعہ پڑھا رہا ہے جو ایک بہت ہی طاقتور برّاعظم کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صوتی لحاظ سے بھی پہنچ رہا ہے اور تصویری لحاظ سے بھی پہنچ رہا ہے……دنیا کو اِن ذرائع سے جمع کرنا اور دین میں جمع کرنا اور خطبہ کے ذریعہ جمعہ کے دن جمع کرنا ، یہ وہ سارے مقدّرات ہیں جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت سے اور ان آیاتِ کریمہ سے ہے جن کا میں نے ذکر کیا ہے، یعنی سورۃ جمعہ، سورۃ صف، سورۃ توبہ اور سورۃ فتح کی ان پیشگوئیوں سے ہے جن کامظہر آج دنیا میں صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے غلام یعنی جماعتِ احمدیہ ہے۔ اور یہ ایسا اعزاز ہے جو مل چکا ہے ، اور دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اب اس اعزاز کو جماعتِ احمدیہ سے چھین نہیںسکتیں‘‘۔
(خطبہ جمعہ 31جنوری 1992ء ۔خطبات طاہر جلد 11،صفحہ 73،74۔طبع اوّل اپریل 2013ء)
مورخہ 21اگست 1992ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ سیٹلائٹ کے ذر یعہ چار بر اعظموں(یورپ،ایشیاء،افریقہ اور آسٹریلیا) میں نشر ہونا شروع ہوئے۔اس موقعہ پر فرمایا: ’’ مجھے یاد ہے کہ میں نے اُن سے کہا تھا کہ جب آسمان سے جماعت پر فضلوں کی بارشیں نازل ہوں گی تو کیا تمہاری چھتریاں اور سائبان ان بارشوں کو روک سکیں گے ۔ وہ رحمتوں کے بادل جو افق تا افق پھیلے ہوں ، اور رحمتوں کے وہ بادل جو آج چار بر اعظموں میں پھیل چکے ہیں ، اور خدا کے فضلوں کی بارشیں برسا رہے ہیں ، کہاں ہے وہ دنیا کا مولوی جو اس کی راہ میں حائل ہوسکے ؟ کون سی ان کی چھتریاں ہیں کون سے ان کے سائبان ہیں جو خدا کے فضلوں کو روک سکتے ہوں‘‘۔
(خطبہ جمعہ 21اگست 1992ء۔خطبات طاہر جلد 11 ،صفحہ 574۔طبع اوّل اپریل 2013ء)
مورخہ 31جولائی 1993ء سے عالمی بیعت کے بابرکت سلسلے کا آغاز ہوا۔ 31دسمبر 1993ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ماریشس سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، اور ایم ٹی اے کی12گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا۔ مورخہ 7جنوری 1994ء سے ایم ٹی اے کی باقاعدہ روزانہ نشریات کا آغازہوا ، اور یورپ میں تین گھنٹے ، ایشیا اور افریقہ میں روزانہ بارہ گھنٹے کے پروگرام نشر ہوناشروع ہوئے۔ ( الفضل انٹر نیشنل 3جولائی 1999ء صفحہ 13۔جلد 6،شمارہ 31۔ احمدیہ گزٹ کینیڈا۔ مئی جون 2003ء صفحہ 12۔جلد 31شمارہ 5،6)
عرش سے تا فرش اک نظارہ و آواز تھا
جب وہ اُترا جامۂ نور سخن پہنے ہوئے
یکم اپریل 1996ء کو اکناف عالم ایک نئی شان کے ساتھ بقعۂِ نور بنے ،جب اس خورشید کا نور چوبیس گھنٹے ظہور ہونے لگا۔ اس تاریخی دن کے موقعہ پر محمودہال لندن میں ایک پر مسرت تقریب منعقد ہوئی ، اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کی تاریخ ، مقاصد ،درپیش مشکلات اور افضال الٰہی پر جذب و کیف کے عالم میں وجد آفریں خطاب فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا دیکھو کس شان سے پورا فرمایا ہے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی۔ کل پرسوں کی بات ہے کہ ریڈیو کی باتیں کرتے تھے تو اپنے اندر یہ مقدرت نہیں پاتے تھے کہ ہم کوئی انٹرنیشنل ریڈیو ہی قائم کر سکیں ۔ کجا وہ دن اور کجا دوتین سال کے عرصہ میں یہ احمدیت کے قافلے کا پھلانگتا ہوا سفر، جو پہلے زمین پر چھلانگیں مار رہا تھا ، اب آسمانوں پر اڑنے لگا ہے اور آسمان سے پھر زمین پر اترتا ہے اور اپنا پیغام لیکر پھر اپنے سفر پر رواں دواں ہوتا ہے یہ نظام خدا نے ہمیں عطا فرمایا ہے ، اور یہ اس الہام کی برکت ہے نہ کہ ہماری کوششوں کی …… یہ ساری باتیں اللہ کے فضلوں کی طرف انگلیاں اٹھا رہی ہیں ،جس طرح اُسی کی تقدیر ہے جس نے کچھ فیصلے کیے ہیں، اور اُسی کے فضل ہیںکہ آج ہمیں چنا گیا ہے ،ورنہ ہم تو دنیا کی خاک بنکر اُڑچکے ہوتے،اور ہمارا کوئی بھی وجود باقی نہ رہتا ……یہ ایک بین الاقوامی گواہ ہے جو احمدیت کی صداقت کے لیے اُٹھ کھڑاہواہے۔ ایک عالمی گواہ ہے جو احمدیت کو اللہ کی طرف سے عطا ہوا ہے کہ جب میں تمہاری تائید میں ہوں گاتو دنیا کیا ہے اور دنیا کے غلام کیا ہیں ، ان سب کو تمہاری تائید کرنی ہوگی ،کہ جب آسمان سے تائید کی آواز اُٹھتی ہے تو زمین والوں کی مجال نہیں مگر اس تائید کے حق میں وہ اپنی آوازیں بلند کریں ، اس کے سوا ان کا چارہ نہیں……عاجزی کے ساتھ شاہراۂِ اسلام کی ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں ، آپ جو کل چل رہے تھے آج دوڑ رہے ہیں ۔آپ جو آج دوڑ رہے ہیں ان کو فضا میں اڑنا بھی نصیب ہوا ہے ‘‘۔
( خطاب فرمودہ یکم اپریل 1996ء۔ بمقام محمود ہال لندن۔https://www.youtube.com/watch?v=5LZ9mqBImV0)
مورخہ14اکتوبر 1994ء کومسجد بیت الرحمٰن میری لینڈ، او ر اس کے احاطے میں قائم ہونے والے ایم ٹی اے ارتھ سٹیشن کا افتتاح عمل میں آیا۔ مورخہ 5جولائی 1996ء سے ایم ٹی اے گلوبل بیم پر نشر ہونے لگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے زیر سایہ چند افراد پر مشتمل ایک ٹیم جو ٹیلی ویژن اور براڈکاسٹنگ کے اسرار و رموز سے کلیۃً ناآشنا تھی ،آپ کے پر شفقت سائے میں پروگراموں کی ریکارڈنگ، ترتیب و تدوین، براڈکاسٹنگ اور مانیٹرنگ کا کام شروع کرتی ہے اور آج میر کارواں کی دعائوں کی برکت سے ایم ٹی اے جدید ترین ڈیجیٹل کمپیوٹرائزڈ سرورکے ذریعہ اکناف عالم میں نشر ہورہا ہے۔ مسجد فضل اور مسجد بیت الفتوح میں نئی اور جدیدسہولتوںسے آراستہ سٹوڈیوز ہیں،اور ان کی مدد کے لیے ایشیا، افریقہ،امریکہ اور جزائر میں تمام ترسہولتوں سے مزین سٹوڈیوز قائم ہیں۔محمد عربی ﷺ کی زبان بولنے والوں تک اس کے غلام کامل اور ظِل کا پیغام پہنچانے کے لیے ’’ ایم ٹی اے3 العربیہ ‘‘ کا آغاز ہوا، اوربراعظم افریقہ کو نور اسلام سے منور کرنے کے لیے’’ایم ٹی اے افریقہ‘‘ جاری ہوچکا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ایک الہام ہے مبارک سو مبارک آسمانی تائیدیں ہمارے ساتھ ہیں۔اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَجْرُکَ قَائِمٌ وَ ذِکْرُکَ دَائِمٌ ۔تیرا اجر قائم اور ثابت ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔جب ہم ان الہاموں کو دیکھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو دیکھتے ہیں ،پھر جماعتِ احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کو دیکھتے ہیںتو یقیناً ہمارے دل تسلی پکڑتے ہیں کہ وہ دن دور نہیںجب ہم اسلام اور احمدیت کی فتح اور آنحضرت ﷺ کا جھنڈا ساری دنیا میں لہراتا ہوا دیکھیں گے…… پس یہ ایم ٹی اے3کا جو چینل ہے یہ بھی خدائی تائیدات کا ایک نشان ہے اور یہ چیزیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ وقت دور نہیںجب اسلام اور احمدیت کا جھنڈا تمام دنیا پر لہرائے گا‘‘۔
( الفضل انٹر نیشنل 25مئی 2007ء صفحہ 11۔ جلد14، شمارہ21)
ایک اَور موقعے پر فرمایا:’’ایم ٹی اے انٹر نیشنل کے اللہ کے فضل سے اب 16 ڈیپارٹمنٹ ہیں،کار کنان کی تعداد بھی سینکڑوں میں چلی گئی ہے۔ اس وقت ایم ٹی اے کی نشریات بارہ سیٹلائٹس پر دنیا بھر میں نشر کی جارہی ہیں ، اور دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں اس روحانی مائدہ کا فیض نہ پہنچ رہا ہو۔ایم ٹی اے اولیٰ ، ایم ٹی اے الثانیہ ، ایم ٹی اے 3العربیہ ، ایم ٹی اے افریقہ 1، ایم ٹی اے افریقہ 2چینلز پر سترہ مختلف زبانوں میںرواں تر جمے پیش کیے جا رہے ہیں۔ جن میں انگریزی ، عربی ،فرنچ، سپینش، جرمن ،بنگلہ ، سواحیلی،افریقن انگریزی، انڈونیشین، ٹرکش، بلغارین، بوسنین، ملیالم، تامل، رشین ،پشتو اور سندھی شامل ہیں‘‘۔ ( الفضل انٹرنیشنل لندن 14ستمبر 2018ء صفحہ 15۔ جلد25،شمارہ 37)
16دسمبر 2005ء جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں خوشیوں سے معمور ایک دن تھا جب اِس زمانے کے’’سچے‘‘ کی بستی میں موجود اس کے جانشین کی آواز براہ راست ہوا کے دوش پر اکناف عالم میں پھیلی۔ اور مورخہ 28اپریل 2006ء کو دنیا کے آخری کنارے سے احمدیت کی صداقت کی گواہی دی گئی اور فجی سے خلیفۃ المسیح کا خطبہ جمعہ براہ راست ساری دنیا میں نشر ہوا۔ 27مئی 2008ء کو لنڈن کے مشہورومعروف پر شکوہ ہال ایکسل کنونشن سنٹر (ExCel Convention Centre)سے صدائے خلافت فلک گیر ہوئی ، اس دن قادیان اور ربوہ میں منعقد ہونے والے اجتماعات کو بھی براہ راست نشریات میں شامل کیا گیا ، اور یوں تین مقاما ت سے بیک وقت نعرہ ہائے تکبیر اور ’غلام احمد کی جے‘ کا نعرہ تمام عالم میں سنائی دیا۔
(الفضل انٹر نیشنل 5اکتوبر 2018ء صفحہ 10،11۔ جلد 25،شمارہ40)
مورخہ 30دسمبر2002ء کو بورکینا فاسو میں براعظم افریقہ کے پہلے احمدیہ ریڈیو سٹیشن کا افتتاح عمل میں آیا ،اور تین مختلف زبانوں میں روزانہ13 گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا۔
( الفضل انٹر نیشنل 28مارچ 2003ء صفحہ 12۔جلد 10،شمارہ 13)
خداتعالیٰ کے فضل سے اِس و قت جماعت کے ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد 21ہے ۔ جن میں مالی میں پندرہ ، بورکینا فاسو میں چار، سیرالیون میں دواسٹیشنز شامل ہیں۔مالی میں دس ریڈیو اسٹیشنز پر روزانہ اٹھارہ گھنٹے اور باقی پانچ سے روزانہ گیارہ گھنٹے کی نشریات پیش کی جاتی ہیں۔ مورخہ 7فروری 2016ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے لندن میں اسلام کی حقیقی اور پُرامن تعلیم کی تشہیر کے لیے ’’وائس آف اسلام‘‘ کے نام سے ڈیجیٹل ریڈیو اسٹیشن کا افتتاح فرمایا۔ جس کی نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں۔
( الفضل انٹر نیشنل20 جنوری 2017ء صفحہ 14۔ جلد 24،شمارہ 3۔الفضل 19اکتوبر 2018ء صفحہ 11، 12۔جلد 25، شمارہ 42)
دوسری طرف حسرت و یاس کا منظر ہے ۔ریڈیو اور ٹی وی چینل کا قیام تو بہت دور کی بات ہے، احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کو آج بھی یہ توفیق نہیں کہ جامع دارالسلام میں ان کے جو پروگرام ہوتے ہیں انہیں ایک سے زائد کیمرے سے ریکارڈ کر سکیں۔یوٹیوب پر موجود ان کے خطبات جمعہ اور سالانہ دعائیہ کی تقاریر اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہیں۔ حضرت امیر قوم نے 25دسمبر 2009ء کو سالانہ دعائیہ کے موقعہ پر بیان کیا:’’ریکارڈنگ سٹوڈیو بھی تیار ہوچکا ہے ، اس کے ذریعہ ہم اپنی تمام تقریبات کو تمام ممالک میں آواز کے ساتھ دکھا سکیں گے ، اور اس طرح ہر جگہ احمدی احباب یہاں کی جانے والی تقاریر اور تقریبات سے مستفید ہو سکیں گے ۔ ہماری اس خواہش کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقت بنا دیا‘‘۔
( پیغام صلح یکم تا 31جنوری 2010ء صفحہ 4۔ جلد 96شمارہ 25، 26)
اس ریکارڈنگ سٹوڈیو کے جلوے کب اور کس ملک میں نظر آتے ہیں، اور ان تقریبات کے نظارے سے کون کون سے ممالک کے احمدی مستفید ہو رہے ہیں اس حقیقت سے تا حال پرد ہ نہیں اٹھا۔ہاں تقریباً پانچ سال کے وقفے کے بعد حضرت امیر بیان کرتے ہیں:’’حضرت مسیح موعود نے اپنی نظم ’’ گراما فون سے آرہی ہے صدا‘‘ کے ذریعہ جدید ایجادا ت کا بھر پوراستعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی ۔ آج کے مبارک دن 3مئی 2014ء کو میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ میں مرکز میں تمام جماعت اور گھر والوں سے دور آسٹریلیا (سڈنی)میں بیٹھا ہوا اس جدید ایجاد کی وجہ سے مخاطب ہو رہا ہوں …… میں آج آسٹریلیا (سڈنی) سے اس ٹرانسمیشن کے ذریعہ جماعت کے تمام بچوں اور بزرگوں سے مخاطب ہوں ، اور مبارکباد دیتا ہوں کہ آج ہماری جماعت ’’احمدیہ انجمن لاہور‘‘ جو آج سے سوسال پہلے ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور‘‘ کے نام سے قائم ہوئی اپنے پورے سو سال کر رہی ہے‘‘۔
(پیغام صلح یکم تا 31مئی 2014ء ، صفحہ 1۔ جلد 101، شمارہ 9،10)
’منور دل‘ لوگوں کی یہ جماعت سوشل میڈیاکا سہارا لے کر اپنے قیام کے سو سال کا جشن منا رہی ہے ، اور جدید ایجا دات کا بھر پور استعمال کر رہی ہے۔
آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے
پس تاریخ شاہد ہے اور حقائق گواہ ہیں کہ کون دلی صدق کے ساتھ اس سفر پر رواں دواں ہے اور کون لاف و گزاف سے کام لے رہا ہے۔
وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خُدائے نشاں نہ ہو
تائیدِ حق نہ ہو مدد آسماں نہ ہو
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 19؍فروری 1995ء کو مسجد فضل لندن سے ایم ٹی اے کے ذریعہ عالمی درس القر آن کے آخر پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے 7 جنوری 1938ء کے خطبہ جمعہ کے دوران عالمی درس وتدریس والی پیشگوئی کاذکر کرتے ہوئے فرمایا، کہ میری عمر اس وقت دس سال تھی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کل کو یہ بچہ کھڑا ہو گا اور اس پیشگوئی کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اس نصیحت آموز درس کے دوران حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:’’بعض لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ ایک خلیفہ کے پہلے خلیفہ سے تضادات ڈھونڈتے رہیں،ایک خلیفہ کے وقت کے نبی سے تضادات ڈھونڈتے رہیں،ایک نبی کے دوسرے انبیاء سے تضادات ڈھونڈتے رہیں،اور ایک نبی کے اللہ سے تضادات ڈھونڈتے رہیں… پیغامیوں نے دیکھو کیا کیا، ساری زندگی اس بات پہ ضائع کر دی ، ساری عمر اپنی گنوا دی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان تضادات ڈھونڈتے رہے…… ان فتنوں کی یاد بھیانک ہے ۔حضرت مصلح موعود کے زمانے میں یہ فتنے پیدا ہوتے رہے،حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانے میں یہ فتنے پیدا ہوتے رہے۔ جما عت کے ایک حصے کو جو اِن فتنوں کا بانی تھا ان کو تو خدا نے کاٹا ہی ، مگر بعض نادان اور کم علم اور کم فہم بھی اس طرح ساتھ کاٹے گئے اور نقصان اٹھا گئے……یہ سمجھنے کی بجائے کہ خدا نے جس کو زمامِ امامت عطا فرمائی ہے وہ گہری مصلحتوں کے بغیر بات نہیں کر سکتا، وہ اعلیٰ مفادات کے حفاظت میں باتیں کرتا ہے۔اس مقصد کو پانے کی بجائے لفظوں کو پکڑ لیتے ہیں…… اگر آپ نے ایک خلیفہ کی بیعت کی ہے تو درست کی ہے، اس خلیفہ کو خدا نے مقرر فرمایا ہے ، وہ کمزور ہو، ناکارہ ہوخدا پنے تقرر کی غیرت رکھتا ہے اور حفاظت فرماتا ہے، اور اس کے مخالفین کو ضرور نامراد کیا کرتا ہے۔ پس ہر وہ اختلاف جو مخالفت سے ہواہے ، وہ اس پودے کی طرح ہے اجۡتُثَّتۡ مِن فَوۡقِ الأَرۡضِ مَا لَہَا مِن قَرَارٍاسے تو ضرور اکھاڑا جائے گا ، وہ شجر خبیثہ ہے اس کو قرار نہیں ملے گا…… خدا کی تائید میرے ساتھ ہے ،رہے گی، اور ہر خلیفہ کے ساتھ جب تک مسیح موعود علیہ السلام کے اعلیٰ مقاصد پورے نہیں ہوتے اسی طرح جاری رہے گی، اور جو شخص اس سے تعلق کاٹے گا اس کا خدا سے تعلق کاٹا جائے گا، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے‘‘۔
(اقتباس درس القرآن فرمودہ 19فروری 1995ء )
(https://www.alislam.org/v/6130.html)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭