حاصل مطالعہ

ہیروں پر سیاہی آخر کب تک؟

جمعرات مورخہ 15؍ اکتوبر 2020ء کو گوجرانوالہ (پاکستان) میں متعدد مشہور شخصیات کی تصاویرکے ساتھ موجود پاکستان کے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹرمحمد عبدالسلام صاحب کی قدآورتصویر پر چند نوجوانوں کی جانب سے سیاہی ملنے کا شرمناک واقعہ پیش آیا۔

بی بی سی کے مطابق یہ واقعہ گوجرانوالہ کے نیشنل سائنس کالج کے باہر رونما ہوا جس کی باقاعدہ وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پرڈالی گئی۔ اس ویڈیو میں دیکھے جانے والے نوجوانوں کا تعلق ’سٹیٹ یوتھ پارلیمینٹ‘ نامی تنظیم سے ہے۔

واضح رہے کہ اس روز ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل انعام ملنے کی 41ویں سالگرہ بھی تھی۔

اس تنظیم کے صدر شہیر سیالوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گوجرانوالہ سے ان کی تنظیم کے کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ شہر میں ایک کالج کے باہر جہاں ٹیپو سلطان اور علامہ اقبال کی تصاویر لگی ہیں وہیں ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر آویزاں ہے جس پر مبینہ طور پر لوگوں کو اعتراض ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک نوجوان تصویر پر کالے رنگ کا سپرے کرتا ہے جس کے بعد کچھ افراد احمدی مخالف نعرے بھی لگاتے ہیں۔

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54566198

اس افسوسناک واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے فزکس کے عالمی سائنسدان، محقق اور ریاضی دان پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے انگریزی روزنامہ ڈان میں ’’Salam‘s face blackened‘‘کے عنوان سے ایک فکرانگیزتحریر لکھی جس کا اردو ترجمہ دی سپرلِیڈ ڈاٹ کام میں ’’ہیروں پر سیاہی آخر کب تک؟ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ جوذیل میں پیش کیاجارہا ہے۔

آپ لکھتےہیں :

’’ہمارے وزیراعظم جب دنیا کو اسلاموفوبیا پر بھاشن دیتے ہیں تو عالمی دنیا طنزیہ مسکراتی ہے۔ جبری طور پر مذہب تبدیل ؟ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل؟پاکستانی پاسپورٹ کے حصول کے لیے کسی دوسرے مذہب کے پیشواپرلعنت کی شرط ؟ کیا ہے یہ سب ؟ درحقیقت یہ امتیازی سلوک ہمارے قانون کا حصہ بن چکا ہے۔

پاکستانی آئین غیر مسلموں کو برابر کے حقوق اور مساوی شہریت کی نفی کر رہا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر انسانی حقوق کی مختلف درجہ بندیوں میں پاکستان نیچے ہی نیچے جارہا ہے۔ حال ہی میں گوجرانوالہ میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا۔ حقارت اور نفرت دکھاتے ہوئے نوجوانوں کے ایک گروپ نے پروفیسر عبد السلام کے پوسٹر پر سیاہ رنگ چھڑکا اور فخریہ انداز میں اس کی ویڈیو بھی بنائی۔

پروفیسر عبد السلام ایک احمدی اور پاکستان کے واحد سائنس کے میدان میں نوبیل انعام یافتہ تھے جن کا 25سال پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ سلام وہ واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے سائنس کی دنیا میں گراں قدر کام کیے اور بڑا اثر ڈالا۔ یہ ویڈیو وائرل ہوئی اور اسے لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا۔ اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ وقتا فوقتا کسی نہ کسی بہانے سے نفرت کا یہ لاوا ابلتا رہتا ہے۔

اس ویڈیو میں نظر آنے والے عام پاکستانی ہیں۔ کم از کم پنجاب میں ایسا سرکاری طور پر حکم نہیں تھا۔ لیکن حکومتوں کا کیا ہے ؟ کیا قومی رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ سائنسی قابلیت کو عقائد کے معاملات سے دور رکھنا چاہیے؟ فوجی اسٹیبلشمنٹ ان چیزوں کو کس طرح دیکھ رہی ہے ؟ یہ سوالات نہ صرف کسی خاص فرد کی وجہ سے اہم ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ حکومت، صنعت اور تعلیمی میدان صرف اس صورت میں مناسب طریقے سے کام کرتے ہیں جب انفرادی صلاحیت اور قابلیت کو تسلیم کیا جائے۔ سلام کا معاملہ سائنسی تجربات میں استعمال ہونے والے’’ لٹمس ٹیسٹ‘‘ کی طرح ہے۔

جنرل ایوب نے پروفیسر سلام کو سائنسی مشیر مقرر کیا

جنرل ایوب خان نے عبد السلام کے احمدی ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کی اور انہیں اپنا سائنسی مشیر مقرر کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی طرح کیا۔ مگر 1974ء میں سیاسی فائدے کے لیے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کر لیا۔ ضیاءالحق پر نظریاتی طور پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ احمدیوں سے بہت محتاط تھے لیکن وہ سیاسی طور پر بھی بہت ہوشیار تھے۔ اسی وجہ سے عبدالسلام کو 1980ء میں نشان امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ اس کے بعد حالات بدلنے لگے۔

بینظیر بھٹو عبد السلام کے معاملے سے بالکل دور رہیں۔ نوازشریف نے بھی اسی پالیسی کی پیروی کی۔ 1992ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور میں تقریر کرتے ہوئے نواز شریف نے فارغ التحصیل سابق طلباء اور اساتذہ کی ایک لمبی فہرست پڑھ لی لیکن عبد السلام کا نام واضح طور پر خارج کردیا۔

معجزاتی طور پر نواز شریف نے آخرکار پروفیسر سلام کو ایک سائنسدان کی حیثیت سے تسلیم کر ہی لیا۔ 2016ء میں سی ای آر این (یورپی نیوکلیئر ریسرچ سنٹر) کے دورے کے دوران اس سائنسی ادارے اور پاکستان کے درمیان تعاون کی ایک مفاہمت ہوئی۔ یہاں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ نوازشریف یہ جان کر بہت متاثرہوئے تھے کہ سی ای آر این کی تحقیق کے اہم حصے یعنی ہِگز بوسن کی کامیاب تلاش میں پروفیسر سلام اور اسٹیون وینسبرگ کا کلیدی کردار تھا۔ نوازشریف کو پروفیسر سلام کے نام سے منسوب جنیوا میں واقع سڑک “ریو ڈی سلام‘‘پر گاڑی چلانے کے لیے بھی لے جایا گیاتھا۔

پروفیسر سلام اور ریاض الدین نے قومی ادارہ برائے طبیعیات تشکیل دیا

یہ قدرتی بات تھی کہ کسی کو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم سے ایک بنیادی سوال پوچھنا چاہیے تھا۔ یعنی سلام کے آبائی ملک میں ان کے نام پر کوئی قابل ذکر ادارہ کیوں نہیں تھا؟اس ضمن میں موزوں ادارہ قومی سنٹر برائے فزکس تھا جو اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے کیمپس میں واقع تھا۔

این سی پی 1980ء کی دہائی میں پروفیسر عبد السلام اور پی ایچ ڈی طالب علم ریاض الدین (1930-2013ء) نے مشترکہ طور پر تشکیل دیا تھا۔ ریاض الدین بھی ایک معروف طبعییات دان تھے جو بعد میں این سی پی کے بانی ڈائریکٹر بھی بنے۔ اگرچہ اس دور میں مایوس کن حد تک کم فنڈنگ کی گئی۔ تاہم اس کی دوبارہ شروعات 1999ء میں قائد اعظم یونیورسٹی کے مستعار لیے گئے کیمپس سے ہوئی۔ این سی پی کا اصل مقصد ایک منی آئی سی ٹی پی (بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبیعیات) بنانا تھاجو کہ پروفیسر سلام نے اطالوی شہر ٹریسے میں قائم کیا تھا۔ آئی سی ٹی پی (جس کا نام اب عبدالسلام-آئی سی ٹی پی رکھ دیا گیا ہے) نے جدید علمی، سائنسی افکار کو خوشگوار اور فکری طور پر متحرک ماحول دیتے ہوئے دنیا بھر سے ہزاروں محققین کی میزبانی کی ہے۔

این سی پی کا نام ڈاکٹر عبد السلام سے منسوب کرنے میں مذہبی جماعتیں حائل رہیں

یہ ادارہ بین الاقوامی تعاون اور سائنسی تحقیقات کے لیےوسیع مواقع فراہم کرتا ہے۔ پروفیسر سلام کی 20ویں برسی کے بعد، اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے این سی پی کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ قارئین کو یاد دلانے کے لیے کہ اس وقت کیا ہوا تھا۔ مَیں 2018ء میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ 29؍دسمبر2016ء کو، پاکستان کے صدر نے، وزیر اعظم پاکستان کی سفارش کردہ ایک سمری پر اپنے دستخط کیے جس کی رو سے قائد اعظم یونیورسٹی میں موجود نیشنل سنٹر فار فزکس کا نام تبدیل کر کے’’عبد السلام سنٹر فار فزکس‘‘رکھا جانا تھا۔

اس سے قبل، وزیر مملکت برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے 26؍دسمبر 2016ء کو سمری کی جانچ پڑتال کر کے اس کی منظوری دی تھی۔ اس کے بعدطے شدہ طریقے کے مطابق این سی پی کے نام کی تبدیلی کےلیے اس سمری کو قائد اعظم یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔

ملکی اعلیٰ قیادت بشمول صدر مملکت اور وزیراعظم کی دستخط شدہ یہ سمری قائد اعظم یونیورسٹی کو موصول ہوئی جسے آگے این سی پی کو بھی بھیج دیا گیا تاہم ڈرامائی طور پر اسے مسترد کر دیا گیا۔ ایک جدید ریاست کے لیے ماتحت عہدیداروں کا جان بوجھ کر اور کھلے عام اعلیٰ اتھارٹی کے احکامات کو تسلیم نہ کرنا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ وزیر اعظم اور صدر کے براہ راست احکامات ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے گئے۔ یوں نیشنل سنٹر فار فزکس کا نام تبدیل نہ کیا جاسکا۔ واضح رہے کہ یہ مذہبی تعصب کی بڑی مثال تھی۔

موجودہ سائنسی مرکز فوج کے زیر انتظام کسی کو جواب دہ نہیں

میرے خیال میں سیاسی قیادت پوری طرح سے سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ این سی پی کا کردار کیا ہے۔ اب پاک فوج کے اسٹریٹجکپلانز ڈویژن کی مالی اعانت میں، این سی پی اعلیٰ سکیورٹی اداروں کے ریٹائرڈ افسران کے لیے جنت سے کم نہیں۔ مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں عالیشان رہائش گاہوں میں اچھی زندگی گزار ی جارہی ہے۔ وہ صرف خود کو ہی جواب دہ ہیں کسی بھی حکومت کو نہیں۔

خاردار تاروں اور مسلح محافظوں کے حصار میں قلعہ نما یہ جگہ اب کائنات کی نوعیت پر تحقیق کرنے والے کسی اعلیٰ سوچ کے حامل ماہر طبیعیات کی میزبان نہیں ہے۔ سلام جن سائنسی امور پر قابل عزت ٹھہرے انہیں پھر آسانی سے دھتکار دیا گیا۔ وہ شاید سب سے عمدہ مثال تھے مگر وہ تنہا نہیں۔ پاکستان کی دھرتی کسی بھی غیر مذہب کے افراد کو قبول نہیں کرتی۔ ‘‘

بحوالہ:

https://thesuperlead.com/super-blog/5093/

انگریزی کالم کے لیے دیکھیں :

https://www.dawn.com/news/1589090

(مرسلہ:ڈاکٹرطارق احمدمرزا۔ آسٹریلیا)

(ادارہ الفضل کا اس کالم کے تمام مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button