خدا تعالیٰ کو شناخت کرنے کا طریق
ایک دہریہ سے ملاقات کے دوران فرمایا :’’طبائع میں اختلاف ہوتا ہے ۔ بعض طبائع میں ایسی استعداد ہوتی ہے کہ وہ حق کے قبول کرنے میں جلدی کرتی ہیں اور بعض ایسی بھی ہوتی ہیں کہ حق ان کی سمجھ میں تو آجاتا ہے مگر دیر بعد اور بعض ایسی بھی ہیں کہ ان میں قبول حق کی استعداد دبتے دبتے ایک وقت بالکل زائل ہی ہوجاتی ہے ۔خداتعالیٰ جس کا وجود مخفی درمخفی اور نہاں درنہاں ہے ہم نے اس کو ایسا نہیں مانا کہ وہ ایک ہیولیٰ ہے ۔ ایسا ایک انسان جس کو سچا شوق،حقیقی جوش اوردلی تڑپ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کو پہچانے اس کے لئے تمام گزشتہ قصص اور واقعات پر نظر ڈال کر غور کرنا ازبس مفید ہوسکتا ہے۔ تاریخ ایسے انسان کے واسطے رہبری کرسکتی ہے ۔تاریخ اورتمام واقعات سلَف بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں بتاتے کہ خداکو خداکے عجائبات قدرت اورتصرفات سے جوکہ وہ بذریعہ اپنے الہامات،وحی اور مکالمات دنیا پر ظاہرکرتا ہے پہچان سکتے ہیں ۔ اس راہ سے بڑھ کر اورکوئی یقینی راہ خداتعالیٰ کی شناخت کی ہر گز نہیں ہے ۔ جن لوگوں کو وہ خاص کرلیتا ہے اورحصّۂ معرفت ان کو عطاکرتا ہے ان پر وہ مکالمہ مخاطبہ کا فیضان جاری کرتا ہے ۔ مشتاق کی تسلّی اور تسکین کے لئے دیدار یا گفتار دوہی چیزیں ہیں ۔ جہاں دیدار نہیں ہوسکتا وہاں گفتاردیدار کی جابجا اورقائم مقام ہوجاتی ہے ۔ ایک مادرزاد نابینا گفتارہی کے ذریعے شناسائی کرسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ چونکہ غیر محدود ہے اوراس کی ذات ایسی نہیں کہ اس کی رئویت اوردیدارجسمانی چیزوں کی طرح ہوسکے۔ اس واسطے اُس نے اپنی گفتار جس کو بالفاظ دیگر الہام،وحی ،مکالمات کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے، دیدار کے قائمقام رکھ دی ہے ۔کم ہیں جن کودیدار ہوتا ہو۔ اکثر گفتار ہی کے ذریعہ تسلّی پاتے اورطمانیت حاصل کرتے ہیں۔
کلام اللہ کا امتیاز
اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھلا یہ کیونکر معلوم ہوکہ وہ گفتار جو انسان سنتا ہے واقعی خداکا کلام ہے کسی اور کا نہیں؟
سواس کے لئے یادرکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ کے کلام کے ساتھ خدائی طاقت ،جبروت اورعظمت ہوتی ہے۔ جس طرح تم لوگ ایک معمولی انسان اور بادشاہ کے کلام میں فرق کرسکتے ہو اسی طرح اس احکم الحاکمین کے کلام میں بھی شوکت وسطوتِ سلطانی ہوتی ہے جس سے شناخت ہوسکتی ہے کہ واقعی یہ کلام بجزخدائے عزّوجل کے اور کسی کا نہیں ۔
ملہمین کی علامات
دوسرابڑابھاری نشان اس شناخت اورتمیز کا یہ ہوتا ہے کہ جس انسان سے خداتعالیٰ کلام کرتا ہے وہ خالی نہیں ہوتا بلکہ اس میں بھی خدائی شان جلوہ گر ہوتی ہے اوروہ بھی ایک گونہ خدائی صفات کا مظہر اورجلو ہ گاہ ہوتا ہے ۔ اس میں وہ لوازم پائے جاتے ہیں ۔اس میںایک خاص امتیاز ہوتا ہے ۔علوم غیبی جو سفلی خیالات کے انسانوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتے وہ ان کو عطا کئے جاتے ہیں ۔ اس کی دعائیں قبول کرکے اس کو اطلاع دی جاتی ہے اور اس کے کاروبار میں خاص نصرت اور مدد کی جاتی ہے اورجس طرح خداسب پر غالب ہے اور اس کو کوئی جیت نہیں سکتا اسی طرح انجامکار وہ بھی غالب اور ہر طرح سے مظفر ومنصور اورکامیاب وبامراد ہوجاتے ہیں ۔
غرض یہ نشان ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے عقلمند انسان کو ضرورتاً ماننا ہی پڑتا ہے کہ خدابھی ضرور ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں سے بھی گفتگو اورملاقات کا اتفاق ہوا ہے جو مصنوعات سےصانع کو پہچاننے اور شناخت کرنے کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اس طریق کو ہم نے آزمایا بھی ہے۔ مگر یادرکھو کہ یہ راہ ٹھیک نہیں، ادھوری ہے۔ اس راہ سے انسان کو حقیقی معرفت اوریقین کامل جو انسان کی عملی حالت پر اثر ڈال سکے ہر گز ممکن نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ بس یہی ہوتا ہے کہ خداہونا چاہئے۔ مگر ہے اورہونا چاہئے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
معرفت کاملہ
اس بیان سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ معرفت بھی وہی فائدہ بخش ہوسکتی ہے جس سے انسان میں ایک تبدیلی بھی پیدا ہو۔ ایک شخص جوبینائی اورقوت رئویت کا دعویٰ کرے مگر اس کے دعوے کے ساتھ کوئی عملی ثبوت نہ ہو اور وہ کھڑا ہوتے ہی دیواروں سے ٹکریں کھائے کیا اس کا دعویٰ قابل پذیرائی ہوسکتا ہے ؟ہرگزنہیں ۔ کارآمد صنعت کمال ہی ہے۔ نیم مُلّاں خطرۂ ایمان اورنیم حکیم خطرۂ جان مشہور مقولے ہیں ۔ پس کامل معرفت کی تلاش کرنا شرط ہے اوروہ اس راہ سے میسّر آسکتی ہے جو راہ انبیاء دنیا میں لائے ۔
ایک دہریہ تو وہ ہے جو صانع کے وجود کا منکر ہے اوریہ گروہ قدیم سے ہے۔ مگرمَیں کہتا ہوں فرض کرلو کہ دنیا میں ایسا ایک بھی متنفّس نہیں تو بھی ہر وہ جس کوکامل معرفت نہیں وہ بھی دہریہ ہے۔ جب تک کامل معرفت نہ ہو اس وقت تک کچھ نہیں ۔ جس طرح ایک دانہ بھوک کو اورایک قطرہ پیاس کو نہیں مٹاسکتے اسی طرح خشک ایمان جس کے ساتھ کمال معرفت اپنے تمام لوازم کے ساتھ نہیں نجات نہیں دلاسکتا ۔ جس طرح وہ انسان زندہ نہیں رہ سکتا جس کو بھوک کے وقت کھانا اور پیاس کے وقت پانی دیکھنا تک بھی نصیب نہیں ہوا۔اسی طرح وہ بھی ہلاک ہوجائے گا جس نے بھوک کے وقت ایک دانہ دیکھ لیا یا کھالیا اور ایک قطرہ شدید پیاس کے وقت دیکھ لیا یاپی بھی لیا ہو ۔ پس بعینہٖ اسی طرح سے معرفت کامل ہی موجب نجات ہوسکتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ان محسوسات میں بھی کامل علم اور معرفت ہی کا اثر ہوتا ہے ۔ ایک انسان کے پاس خواہ ایک شیر یا بھیڑیا آجاوے مگر جب تک وہ شیر کو شیر اوربھیڑیئے کو بھیڑیا بمع ان کے تمام لوازم اورخواص کے یقین نہیں کرلیتا ان سے کوئی خوف نہیں کرتا۔ ایک زہریلے سانپ کو جوانسان ایک چوہا یقین کرتا ہوگا وہ اس سے ہرگز گریز اورپرہیز نہ کرے گا مگر اس علم کے ساتھ ہی کہ یہ ایک زہریلا سانپ ہے اوراس کا کاٹنا گویا پیغامِ اَجل ہے وہ اس سے خوف کرے گا اورمعاً الگ ہوجاوے گا ‘‘۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 591۔ 593ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
٭…٭…٭