متفرق مضامین

تخت لاہور کی انصاف پسندی سے مسلم پسندی تک

(ڈاکٹر قمر)

لاہور ہائی کورٹ نے ایک ’’با اثر خاندان ‘‘کو فوری اور مکمل ’’انصاف‘‘مہیا کرنے کے حوالے سے کافی شہرت حاصل کی ہوئی ہے۔ اس ’’با اثرخاندان ‘‘کو ’’انصاف‘‘کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے چھٹی والے دن بھی عدالت کھل گئی۔

پچھلے دنوں ایک درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ریمارکس نے ’’انصاف پسندی ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’اسلام پسندی ‘‘کو بھی چار چاند لگا دیے ہیں۔

ایک درخواست گزارایڈووکیٹ نے لکھا کہ پاکستانی قوانین کے تحت احمدی اپنی تبلیغ نہیں کرسکتے لیکن گوگل سرچ کے ذریعے یہ اپنی تبلیغ کررہے ہیں۔ تبلیغ کس طرح کر رہے ہیں کہ جب گوگل پر خلیفہ آف اسلام سرچ کیا جاتا ہے تو احمدیوں کے خلیفہ کے حوالے سے مواد آجاتا ہے۔ درخواست میں لکھا گیا کہ ان کے خلیفہ کا نام گوگل سرچ سے ہٹایا جائے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سرکاری وکیل کو ریمارکس دیے کہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانا بہت آسان ہے، حکومت ایسے کیسز کو خود دائر کرتی ہے، گوگل پر پچھلے 20سے 22دن سے یہ چل رہا ہے مگر حکومت سوئی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے تمام فریقین کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے مزید کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل کے استعمال پر پابندی لگائی جائے، سوشل میڈیا خود غلط نہیں بلکہ اس کا استعمال غلط ہوتا ہے، حکومت اگر پب جی پر پابندی لگاسکتی ہےتو ایسے اقدام پر فوری فیصلہ کیوں نہیں کرتی، آپ یہاں پر قانونی تحفظ تو لے لیں گے قبر میں خود جواب دے دیجیے گا، مجھے لگتا ہے ٹاپ مین کو بلانا پڑے گا۔

http://www.taghribnews.com/ur/news/486670/

https://www.express.pk/story/2120429/1/

https://urdu.siasat.pk/news/2020-12-23/news-70941

پھر خبرآئی کہ حکومت نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے وکی پیڈیا کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

(روزنامہ جنگ 26؍دسمبر 2020ء صفحہ 12لاہور ایڈیشن )

خلیفۃ المسلمین اور خلیفہ آف اسلام کا نام گوگل اور وکی پیڈیا سے ہٹانے کے لیے جس مستعدی کا مظا ہرہ کیا گیاہے کاش مسلمان اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے میں بھی اسی سرعت کا مظاہرہ کرتےاور حقیقی انصاف قائم کرنے والے ہوتے۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے خلافت کا قیام

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ خلافت کے قیام کے حوالے سے فرماتا ہے کہ

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (النور:56)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

یعنی نیک اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنائے گا۔ کسی ملک کی عدالت یا قانون اسے خلیفہ نہیں بنائے گا۔ پس اسلامی تعلیمات کی رو سے اس منصب کے قیام کے حوالے سے کوئی عدالت دخل اندازی نہیں کر سکتی کیونکہ یہ منصب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔

آخری زمانے میں خلافت کے قیام کے حوالے سے رسول کریمﷺ کی واضح پیشگوئیاں موجودہیں۔رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ

قَالَ حُذَیْفَۃُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللّٰہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَتَکُوْنُ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ اللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیًّا، فَتَکُوْنُ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَاللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ، ثُمَّ سَکَتَ۔

(مسند احمد حدیث نمبر 12034:کتاب الفضائل، باب:فصل: نبوت، خلافت اورملوکیت کے مراحل پر مشتمل سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ایک جامع حدیث )

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جب تک اللہ کو منظور ہوگا تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی، پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا، پھر طریقۂ نبوت پر گامزن خلافت ہوگی اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہوگا، پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا، پھر کاٹ کھانے والی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہو گا، پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد ظلم کی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک منظور ِخدا ہوگا، پھر جب اللہ چاہے گا وہ اسے بھی اٹھا لے گا، پھر طریقۂ نبوت پر گامزن خلافت آجائے گی پھر نبیﷺ خاموش ہوگئے۔‘‘

(مسند امام احمد بن حنبل مترجم، مسند الکوفیین صفحہ 116تا117، حدیث نمبر 18596)

خلافت راشدہ کے دو ادوار

اس حوالے سے حضرت شاہ اسمٰعیل شہید صاحب لکھتے ہیں کہ ’’پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سربلند ہوتی ہے اور ائمہ ہدیٰ میں سے کسی امام کو ظاہر کرتی ہے ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تختِ خلافت پر جلوہ افروز کر دیتی ہے اور وہی امام اس زمانے کا خلیفۂ راشد ہے اور وہ جو حدیث میں وارِد ہے کہ خلافتِ راشدہ کا زمانہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیس سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہو گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشدہ متصل اور تواتر طریق پر تیس سال تک رہے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت راشدہ کا زمانہ وہی تیس سال ہے اور بس! بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشدہ تیس سال گزرنے کے بعد منقطع ہو گی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت راشدہ کبھی آ ہی نہیں سکتی بلکہ ایک دوسری حدیث خلافتِ راشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَآءَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ مَاشَآءَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْ فَعُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَتَکُوْنُ مَاشَآءَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً فَیَکُوْنُ مَاشَآءَ اللّٰہُ اَنْ یَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ثُمَّ سَکَتَ۔

نبوت تم میں رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا اور بعدہٗ نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی جو اللہ کے منشا تک رہے گی پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا، پھر بادشاہی ہو گی اور اسے بھی اللہ جب تک چاہے گا رکھے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر سلطنت جابرانہ ہو گی جو منشائے باری تعالیٰ تک رہے گی پھر اسے بھی اٹھا لے گا اور اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو گئے اور یہ بھی امر ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت، خلافت راشدہ سے افضل انواع میں سے ہو گی یعنی وہ خلافت ’’منتظمہ محفوظہ‘‘ ہو گی۔ ‘‘

(منصب امامت از حضرت شاہ اسمٰعیل شہید، صفحہ117تا118۔ ناشر مکّی دارالکتب اردو بازار لاہور1994ء)

اگر حکومت یا عدالت کو اس بات پر اعتراض ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں بیٹھ کر اگر کوئی خلیفۃ المسلمین کے حوالے سے معلومات تلاش کرنا چاہے تو اسے احمدیوں کے خلیفہ کے بارے میں معلومات نہیں ملنی چاہئیں۔ تو پھر وہ رسول کریمﷺ کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق یا تو اس امر کی نشاندہی کریں کہ حقیقی معنوں میں تمام امت مسلمہ کا خلیفہ اس وقت کون ہے؟یا پھر اس بات کو تسلیم کریں کہ اگر ابھی خلافت قائم نہیں ہوئی تو حدیث کے مطابق اس وقت ظلم کرنے والی حکومت کا دور چل رہا ہے۔

عدالت نے درخواست گزار سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کس حیثیت سے خلیفۃ المسلمین کا نام ہٹانے کی درخواست کر رہا ہے ؟اگر وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے خلیفۃ المسلمین کا نام پسند نہیں کر رہا تھا تو وہ کون سا مسلمان ہے ؟ آیا وہ بریلوی ہے، دیوبندی ہے، اہل حدیث ہے یا شیعہ مسلمان ہے؟ کس مسلمان فرقے کی نمائندگی اس کے ذمہ ہے۔

اگر ان میں سے کسی ایک فرقے کا خلیفہ موجود ہوتا اوروہ فرقہ درخواست گزار کے فرقے کے خلاف ہوتا تو کیا پھر بھی وہ اسی طرح درخواست دیتا۔ اگر کسی ایک فرقے کے خلیفہ کو دیگر تمام فرقے بھی خلیفۃ المسلمین تسلیم کرتے تو پھر ایسے درخواست گزار کی درخواست قابل سماعت ہوسکتی تھی کہ تمام فرقوں کے ایک خلیفہ کی موجود گی میں کسی اور کو خلیفۃ المسلمین کہلانے کا کوئی حق نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر فرقہ اپنے علاوہ کسی اَور کو مسلمان ہی نہیں سمجھتا۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ سب نے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کر رکھے ہیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تو پھر یہ سب کیسے ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہوسکتے ہیں؟اس لیے درخواست گزار کی حیثیت ایک فرقے کے نزدیک مسلمان کی ہے تو دوسرے کے نزدیک کافر کی۔ پھر اس کی درخواست کس حیثیت سے سماعت کے لیے قبول کی گئی؟

اگر آئینی یا قانونی اعتبار سے درخواست قابل سماعت تھی تو ایک درخواست گزار کو پورے عالم اسلام کی نمائندگی کس آئین یا قانون کے تحت دی گئی؟درخواست خلیفۃ المسلمین کے متعلق تھی لیکن مسلمین سے مراد کیا صرف پاکستان کے مسلمان تھے؟ پاکستان کا آئین احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں ایسی صورت حال نہیں۔ وہاں احمدی مسلمان ہی ہیں۔ اس لیے ان تمام ممالک میں احمدیوں کے امام کو خلیفۃ المسلمین کہنے میں کوئی آئینی اور قانونی روک نہیں۔

جہاں تک تمام مسلمانوں کے ایک امام ہونے کا تعلق ہے تو رسول کریمﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق امت مسلمہ کا شیرازہ 73؍فرقوں کی شکل میں بکھر چکا ہے تو پھر کس طرح ساری امت کا ایک ایسا خلیفہ ہوجسے ساری دنیا کے مسلمان اپنا امام تسلیم کر لیں۔

رسول کریمﷺ کی پیشگوئی موجود ہے کہ

وَعَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِيْ مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوْا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ! قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي‘‘ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

(مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 171، کتاب:کتاب ایمان کا بیان باب:کتاب و سنت کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کا بیان)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہٖ ‌وسلم نے فرمایا :

’’میری امت پر ایسا وقت آئے گا جیسے بنی اسرائیل پر آیا تھا، اور وہ مماثلت میں ایسے ہو گا جیسے جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ بدکاری کی ہو گی تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا شخص ہو گا، بےشک بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی، ایک ملت کے سوا باقی سب جہنم میں ہوں گے۔ ‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم! وہ ایک ملت کون سی ہے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ ‘‘

جامع ترمذی میں روایت موجود ہے کہ

أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:تَفَرَّقَتِ الْيَهُوْدُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِيْنَ أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً وَالنَّصَارَى مِثْلَ ذَالِكَ وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً

(جامع ترمذی حدیث نمبر 2640، :کتاب: ایمان و اسلام باب: امت محمدیہ کی فرقہ بندی کا بیان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بھی اسی طرح بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ‘‘

سنن ابوداؤد کی روایت کچھ اس طرح ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:افْتَرَقَتْ الْيَهُوْدُ عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً .

(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 4596، کتاب:سنتوں کا بیان باب: سنت و عقائد کی شرح و تفسیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے، نصاریٰ اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی

اگلی روایت اس طرح ہے کہ

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَاحَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيْرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ. ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حِدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ:حَدَّثَنِي صَفْوَانُ نَحْوَهُ، قَالَ:حَدَّثَنِي أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ الْحَرَازِيُّ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنْمُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، أَنَّهُ قَامَ فِيْنَافَقَالَ: أَلَا إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِيْنَا، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً، وَإِنَّ هَذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْنَ ثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ فِي النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ، زَادَ ابْنُ يَحْيَى، وَعَمْرٌو فِي حَدِيثَيْهِمَا: وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ لِصَاحِبِهِ، وَقَالَ عَمْرٌو: الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ لَا يَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَهُ .

(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 4597، کتاب:سنتوں کا بیان باب: سنت و عقائد کی شرح و تفسیر)

معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر کہا: سنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: سنو! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے، بہتّر (72) فرقوں میں بٹ گئے، اور یہ امت تہتّر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی، بہتّر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور یہی الجماعةہے۔ ابن یحییٰ اور عمرو نے اپنی روایت میں اتنا مزید بیان کیا: اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جن میں گمراہیاں اسی طرح سمائی ہوں گی، جس طرح کتے کا اثر اس شخص پر چھا جاتا ہے جسے اس نے کاٹ لیا ہو ۔ اور عمرو کی روایت میں لِصَاحِبِهِ کے بجائے بِصَاحِبِهِہے۔ اس میں یہ بھی ہے: کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا باقی نہیں رہتا جس میں اس کا اثر داخل نہ ہوا ہو۔

حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور تصنیف غنیۃ الطالبینمیں 72فرقے گن کر بتائےگئے ہیںاور ثابت کیا ہےکہ اس حدیث کی سچائی ظاہر ہوگئی ہے۔

(غنیۃ الطالبین از حضرت سید عبد القادر جیلانی، ترجمہ امان اللہ خاں ارمان صفحہ 200ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور )

مشکوٰۃ کی جس روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اس کی شرح میں امام علی بن سلطان محمد القاریؒ لکھتے ہیں کہ

فتلک اثنان وسبعون فرقۃ کلھم فی النار والفرقۃ الناجیۃ ھم اھل السنۃ البیضاء المحمدیۃ والطریقۃ النقیۃ الاحمدیۃ

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح لعلامہ علی بن سلطان محمد القاری جزء اول کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ صفحہ 381 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان )

’’پس یہ بہتر فرقے ہیں کل کے کل دوزخ میں جائیں گے اور فرقہ نجات پانے والا وہ اہل سنت بیضاء محمدیہ اور صاف ستھرے طریقہ احمدیہ والا ہے۔‘‘

یہ ترجمہ کتاب ’’73اسلامی فرقے اور ان کی تاریخ وعقائد‘‘ از مفتی غلام سرور قادری سے لیا گیا ہے یہ کتاب مکتبہ مصباح القرآن جامعہ غوثیہ امین مارکیٹ گلبرگ لاہور نے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ امت 73فرقوں میں بٹ چکی ہے۔

پیشگوئیوں کے مطابق 72فرقے ایک طرف اور ایک فرقہ جسے الجماعۃبھی کہا گیا ہے وہ ایک طرف ہونا چاہیے۔ جماعت اسی لیے کہا گیا ہے کہ اس کا ایک امام ہوگا۔ اگر امام نہ ہو اسے جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ رسول کریمﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق 72ناری فرقے اس ایک الجماعۃسے الگ ہوں گے کیونکہ الجماعۃجنتی ہے۔

امت کے تمام فرقے ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فرقہ ناجیہ ہے۔ رسول کریمﷺ نےاس فرقہ ناجیہ کی پہچان کے لیے پیشگوئیوں میں کچھ نشانیاں بیان فرمائی ہیں جن سے اس کی پہچان ہو جاتی ہے۔

(1)پہلی تو یہی کہ وہ الجماعۃ ہوگی یعنی اس کا ایک امام ہوگا۔ صرف نام رکھنے سے کوئی الجماعۃنہیں بن جائے گی بلکہ اس کا ایک امام ہونا لازم ہے۔

(2)پھر فرمایا مَاانَا عَلَیْہِ وَاصْحَابِییعنی جو حالات اور واقعات مجھ پر اور میرے اصحاب پر گزرے ہیں وہی حالات اور واقعات اس فرقہ ناجیہ پر گزریں گے۔

رسول کریمﷺ اور آپ کے اصحاب کو اسلام اور قرآن کا نام لینے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آپﷺ کے اصحاب کو آپﷺ کی طرف نسبت کرنے سے شہید کیا جاتا تھا۔ آج جس جماعت کے ساتھ یہ سب سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ یقیناً جماعت احمدیہ مسلمہ ہی ہے۔

(3)حکومت پاکستان نے تو اس فرقہ ناجیہ کی پہچان بہت آسان بنا دی ہے۔ 1974ء میں قومی اسمبلی نے آئین میں تبدیلی کرکے جماعت احمدیہ کے علاوہ تمام فرقوں کو ایک طرف کر دیا۔ اب 72،ایک طرف تھے اور ایک، ایک طرف۔

چنانچہ اخبارات نے خبر لگائی :

’’قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی 72فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں۔ سب کے سب اس حل پر متفق اور خوش ہیں۔ ‘‘

دراصل اس اعلان کے ذریعہ رسول کریمﷺ کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی اور وہ ایک فرقہ جو دیگر 72فرقوں سے الگ تھا واضح ہو کر سامنے آیا۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام فرقوں کا آپس میں بھی اتفاق نہیں اور سب ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ بریلوی فرقہ کے امام احمد رضا خان بریلوی نے ایک کتاب ’’حسام الحرمین‘‘ یعنی حرمین کی تلوار لکھی۔ اس میں بریلویو ں کے علاوہ باقی تمام فرقوں یعنی دیوبندی، اہل حدیث وغیرہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ

’’حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ رکھنے والے تمام فرقے سب کافر اور مرتد ہیں باجماع امت دائرہ اسلام سے خارج ہیں ‘‘

(حسام الحرمین صفحہ 28)

اس کے جواب میں دیوبندیوں کی طرف سے ایک کتاب ’’المہند علی المفند ‘‘ یعنی ہند کی تلوار ایک سر پھرے بابے پر، خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے لکھی۔ اس کتاب میں سر پھرا بابا احمدرضا خان بریلوی کو کہا گیا اور ان کے ماننے والوں کی خبر لی گئی اور ان کے کفریہ عقائد تحریر کیے۔

رسو ل کریمﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام ہوچکا ہے۔ اب خواہ کوئی عدالت یا حکومت ہزار کوشش کرلے اس خلافت کے راستے میں کوئی روک پید ا نہیں کر سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اس کے ساتھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے حکم اور عدل امام الزمان علیہ الصلوٰۃ و السلام پر صدق دل سے ایمان لایا جائے اور آپ کے بعد جاری خلافت حقہ اسلامیہ کو قبول کرکے اپنی دنیا اور عاقبت کو سنوارا جائے، خدا تعالیٰ تمام امت مسلمہ کو اس حقیقت کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button