متفرق مضامین

المبشرات اور نبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

(عبدالرحمٰن)

حضرت اقدس محمدرسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نبوت میں سے صرف مبشرات باقی ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ مبشرات کیا ہیں ؟آپؐ نے فرمایا کہ رؤیائے صالحہ۔ ذیل کی سطروں میں یہ دیکھا جائے گا کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ نے جس قسم کی نبوت کے اجرا کی تصریح فرمائی ہے، کیاحضرت مسیح موعودؑ کی نبوت اسی قسم کی ہے؟

علماء کی طرف سے اس حدیث کی مختلف جہات سے شرح کی گئی ہیں۔ ان تشریحات پر مشتمل چند حوالہ جات اور ان سے اخذ شدہ نتائج کو مضامین کے لحاظ سے منقسم کر کے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

انذار اور تبشیر دونوں شامل ہیں

مُھلَب اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’وحديثُ أبى هريرة خَرَجَ لَفظُه عَلى العُمُومِ، ومَعناهُ الخُصُوص؛ وذَالِك أنّ المُبَشّراتِ هِىَ الرُؤيا الصَادِقَةُ مِنَ اللّٰهِ الّتى تَسُرّ رَأئيَها وقَد تَكُونُ صَادِقَة مُنذِرَة مِنَ اللّٰهِ تَعَالىٰ لاتَسُرّ رأئيَهايُرِيها اللّٰهُ المُؤمِنَ رِفقًا بهِ ورَحمَة لَه؛ لِيَستَعِدّ لِنُزُولِ البَلاءِ قَبلَ وُقُوعِه فَقَولُہ : لَم یَبقَ بَعدِی اِلّا المُبَشِّراتِ خَرَجَ عَلی الاَغلَبِ مِن حالِ الرُؤیا۔ ‘‘

(شرح صحيح البخارى لابن بطّال :9/ 519)

یعنی حضرت ابو ہریرہؓ کی بیان فرمودہ حدیث کے الفاظ عام ہیں مگر اس کے معنی خاص ہیں۔ یہ اس لیے کیونکہ مبشرات اللہ کی طرف سے سچے خواب ہیں جو دیکھنے والے کو خوش کرتے ہیں۔ رؤیاکبھی سچے ہونے کے ساتھ ساتھ منذر بھی ہوتےہیں جس سے دیکھنے والا خوش نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ مومن کو رحم کرتے ہوئے دکھاتا ہے تاکہ وہ مصیبت کے لیے اس کے آنے سے پہلے تیار ہو جائے۔ پس حضورﷺ کا قول (مبشرات) خوابوں کی غالب حالت کی وجہ سے آیا ہے۔

علامہ المعلمی لکھتے ہیں :

’’والرؤيا التي هِیَ مِنَ اللّٰهِ تَعَالىٰ قَد تَكُونُ مُنْذِرَة، وإنّما أُطلِقَ عَلَيها ’’المبشّرات‘‘ فِي الحَدِيثِ السَّابِقِ تَغلِيبًا۔ ‘‘

(آثارُ الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني :4/ 331)

یعنی رؤیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں وہ منذر بھی ہوتے ہیں حدیث میں رؤیا کے لیے ’’مبشرات‘‘کا اطلاق غلبہ کی وجہ سے کیا گیا ہے کیونکہ ان کا اکثر حصہ مبشرات پر مبنی ہوتا ہے۔

دیگر بہت سے علماء نے بھی اس کی تصریح کی ہے۔ مثلاًمولوی محمد بدر عالم صاحب میرٹھی لکھتے ہیں :

’’یہ ضروری نہیں ہے کہ سچے خواب ہمیشہ خوشی و مسرت کے متعلق ہوں۔ رنج و غم کے متعلق بھی ہو سکتے ہیں مگر رؤیا صالحہ میں یہ حصہ مغلوب ہوتا ہے اور بشارت کا حصہ غالب۔ ‘‘

(ختم نبوت صفحہ45)

خلاصہ یہ کہ مبشرات تغلیب کی وجہ سے کہا گیا ہے، منذرات بھی اس تصریح میں شامل ہیں۔

المبشرات میں الہام اور مکاشفات بھی شامل ہیں

علامہ السندی لکھتے ہیں :

’’مُبَشِّرَات النُّبُوَّة أَي مِمَّا يظْهر للنَّبِي من الْمُبَشِّرَات حَالَة النُّبُوَّة وَهِي بِكَسْر الشين مَا اشْتَمَل على الْخَبَر السائِرِ مِن وَحي والهام ورؤيا وَنَحْوهَا وَلَا يَخفي انّ الاِلهامَ لِلأولِيَاء أَيْضا بَاقٍ فَكَأَنَّ المُرَادَ لَم يَبْقَ فِي الْغَالِبِ الّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَة‘‘

(حاشية السِّندِي على سُنَنِ النِسائي:2/.190۔.189)

مبشرات نبوت یعنی جو نبی پر نبوت کے مقام (پر فائز ہونے ) پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور یہ(لفظ مبشرات) شین کی زیر سے ہے۔ اس میں وحی و الہام اور رؤیا وغیرہ (کی صورت میں ظاہر ہونے والی)تمام اخبار شامل ہیں۔ اور یہ بات مخفی نہیں کہ اولیاء کا الہام بھی باقی ہے پس یہاں مراد یہ ہے کہ مبشرات کا صرف رؤیا والا حصہ اکثریت میں باقی ہے۔

صرف رؤیا کا ذکر کیوں کیا؟

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر المبشرات میں وحی، الہام اور مکاشفات بھی شامل ہیں تو صرف رؤیا کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟علامہ ابو حیان اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ أَعْطَى مِثَالًا مِنَ الْبُشْرَى وَهِيَ تَعُمُّ جَمِيعَ الْبَشَر۔ ‘‘

(البحرُ المُحيطِ في التفسير :5/173)

حضرت اقدس رسول اللہﷺ نے بشریٰ کی وہ مثال (یعنی رؤیا) دی ہے جو تمام انسانوں کا احاطہ کرتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ مبشرات میں الہام اور مکاشفات بھی شامل ہیں۔ رؤیا کا ذکر ان کے عام ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

امت میں الہام، وحی اور مکاشفات جاری ہونے کا اعتراف

علامہ الشاطبی سلف کے کشوف اور الہامات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’ وَيَكْثُرُ نَقْلُ مِثْلِ هَذَا عَنِ السَّلَفِ الصَّالِحِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ۔ ‘‘

(الموافِقات :2/ 456)

اس طرح کے (الہامات و کشوف) سلف صالح سے اور ان کے بعد آنے والے علماء اور اولیاء سے کثرت سے منقول ہیں۔

علامہ ابن حجر لکھتے ہیں :

’’فَلَمَّا فَاتَ هَذِهِ الْأُمَّةَ كَثْرَةُ الْأَنْبِيَاءِ فِيهَا لِكَوْنِ نَبِيِّهَا خَاتَمَ الْأَنْبِيَاءِ عُوِّضُوا بِكَثْرَةِ الْمُلْهَمِينَ۔ ‘‘

(فَتحُ الباري لابن حجر :7/ 51)

یعنی یہ امت حضورﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کے باعث کثرت انبیاء سے محروم ہے ان کو اس کے عوض ملہمین کی کثرت دی گئی۔

امام الغزالی لکھتے ہیں :

’’ومِن أوّلِ الطّريقةِ تَبتَدِئُ المُكاشِفاتُ والمُشاهِداتُ، حَتّى أنّهم فِي يَقظَتِهِم يُشاهِدُون المَلائِكَةَ، وَأرواحَ الأنبِياءِ ويَسمَعُونَ أصواتاً ويَقتَبِسُونَ مِنهُم فَوائدَ ثُمّ يَترَقّى الحالُ مِن مُشاهِدةِ الصُّوَرِ والأمثالِ، إلى دَرَجات يَضِيقُ عَنها النُّطقِ۔ ‘‘

(المُنقِذُ مِنَ الضَّلالِ صفحہ: 178)

یعنی طریقت کے راستے ہیں مکاشفات و مشاہدات سے آغاز ہوتا ہے پھر (سالک) جاگتے ہوئے ملائکہ اور انبیاء کے ارواح کو دیکھتے ہیں اور آوازیں سنتے ہیں اور ان سے فوائد حاصل کرتے ہیں پھر صورتوں اور امثال کے مشاہدے سے ان مدارج کی طرف ترقی کر جاتے ہیں زبان جن کے بیان سے عاجز ہے۔

خلاصہ یہ کہ امت میں کشوف و الہامات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ سالکین ان کے ذریعہ فوائد علمیہ اور عملیہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔

الہامات میں غیب کی خبریں بھی شامل ہیں

علماء نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ الہام غیب کی اخبارپر مشتمل ہو سکتا ہے۔

علامہ الخازن اہل سنت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’وأنه يجوز أن يُلهِمَ اللّٰهُ بعضَ أولِيائِه وقوعَ بعضِ الوَقائعِ في المُستقبلِ فَيُخبِر بِه وهو مِن إطلاعِ اللّٰهِ إياه على ذلك۔ ‘‘

(تفسير الخازن لبابُ التأويلِ في معاني التنزيل :4/ 353)

یعنی یہ جائزہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض اولیاء کو مستقبل کی بعض خبریں الہام کرے اور ان کے بارے میں بتائے وہ اللہ تعالیٰ کا اطلاع دینا ہے اس (ولی) کو اس (خبر ) کے بارے میں۔

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی امت محمدیہ میں اجرائے الہام پر ایک تفصیلی بحث کرکے لکھتے ہیں :

’’اس بحث سے ثابت ہوا کہ تمثیلات ثلاثہ قرآنیہ جن میں غیر نبی کا بعض مغیبات پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مطلع ہونا پایا جاتا ہے بلا مزاحمت ثابت ہیں اور ان تمثیلات کے نسبت فریق اول کا یہ خیال کہ وہ پہلی امتوں سے مخصوص ہیں یا یہ عذر کہ اس امتِ محمدیہ یا خاص کر صحابہ سے پچھلے اولیاء کی اطلاعِ غیب پر اسلام میں کوئی شہادت پائی نہیں جاتی صحیح نہیں۔‘‘

(اشاعۃ السنۃ جلد7نمبر 7صفحہ211)

نتائج

مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ

1)ہر قسم کی نبوت ختم ہو گئی ہے سوائے آنحضرتﷺ کی نبوت کے۔

2)آنحضرتﷺ سے مخصوص نبوت میں سے صرف مبشرات والا حصہ باقی ہے۔

3)مبشرات میں انذار بھی شامل ہے۔ صرف غلبہ کے باعث یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔

4)مبشرات میں کشوف، الہامات بھی شامل ہیں۔

5)امت محمدیہ میں کشوف اور الہامات کا سلسلہ جاری ہے۔

6)کشوف اور الہامات میں غیب کی اخبار بھی شامل ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اس حدیث کی بحث میں فرماتے ہیں:

النبوۃُ تَتَجَزَّی وَ جُزء مِنھا باق بَعدَ خاتَمِ الانبِیَاءِ۔(المَسوَیشرح مؤطا:2/387)

یعنی نبوت بہت سے اجزا پر منقسم ہے اور ان میں سے ایک جز خاتم الانبیاءکے بعد بھی باقی ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ یہ جزمبشرات و منذرات رؤیا والہام و کشوف سب پر مبنی ہے۔

علماء نے جو مختلف زمانوں میں مبشرات کی تشریح کی ہے حضرت مسیح موعودؑ نے سب کے اہم نکات ایک ہی جگہ کمال فصاحت سے درج فرما دیے ہیں۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :

’’قد قال رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَم یَبقَ مِنَ النبّوۃ الَّا المبشرات ای لم یَبقَ مِن اَنواعِ النّبوۃ الَّا نَوع واحِد وھِیَ المُبَشِّرات…و لَیسَ فی ھٰذا النَّوعِ الَّا المُبشّرات او المُنذِرات مِن الامُورِ المُغیبة اَو اللطائِفِ القرآنیةِ والعُلُومِ اللَدُنِیَّةِ۔ ‘‘

(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ60تا61)

یعنی مبشرات میں کشوف، الہامات، منذرات، امور غیبیہ لطائف قرآنیہ اور علوم لدنیہ سب کچھ داخل ہے۔

نبی کون ہوتا ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ نبی ہونےکے لیے بنیادی شرط کیا ہے؟قاضی عیاض نبی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’وَالْمَعْنَى: أَنَّ اللّٰهَ تَعَالَى أَطْلَعَهُ عَلَى غَيْبِهِ، وَأَعْلَمَهُ أَنَّهُ نَبِيُّهُ فَيَكُونُ نَبِيٌّ۔ ‘‘

(الشفا بتعريفِ حقوقِ المصطفىٰصفحہ310)

یعنی خدا تعالیٰ اسے غیب پر اطلاع دے اور اس کو بتائے کہ وہ نبی ہے۔

علامہ الایجی لکھتے ہیں :

’’وأما في العُرفِ فهُوَ عِندَ أهلِ الحَق مَن قال لَهُ اللّٰهُ أرسَلتُكَ أو بَلِّغهُم عَنِّي ونَحوَه مِنَ الألفاظِ وَلا يُشتَرَطُ فِيهِ شَرط ولا استِعدَاد بَل اللّٰهُ يَختَصُّ بِرَحمَتِه مَن يَشَاءُ مِن عِبادِه وَهُوَ أعلَمُ حَيثُ يَجعَل رسالاتِه‘‘

(كتاب المواقِف صفحہ337)

یعنی عرف میں اہل حق کے نزدیک نبی وہ ہے جس کو خداتعالیٰ مخاطب کر کے فرمائے کہ میں نے تجھے مبعوث کیا ہے اور میری طرف سے پیغام پہنچا یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ہوں۔ اس کے لیے کسی اور شرط اور استعداد کی قید نہیں لگائی جاتی۔ خدا تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مختص کر لیتا ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کسے نبی بنانا ہے۔

علامہ عبد الرحمٰن بن حسن المیدانی لکھتے ہیں :

’’وأنّٰى له أن يَستَكمِل سَائِرَ الأجزاءِ، ولَو استَكمَلَها فَلا يَكُونُ نبياً إلَّا بالاِصطِفاء الرَّباني۔ ‘‘

(كواشِف زُيُوف فی المَذاھِبِ الفِکرِیّۃِ المُعاصِرَۃِ صفحہ305)

یعنی ایک شخص سارے اجزائے نبوت اپنے اند کیسے سمیٹ سکتا ہے؟اگر وہ سب اجزائے نبوت کو اپنے اندر مکمل کر بھی لے تب بھی وہ نبی نہیں کہلا سکتا جب تک خداتعالیٰ اس کا اصطفاء نہ کرے۔

پس ثابت ہوا کہ نبی کے لیے یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو خود مقرر کرے اور نبی بنائے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت

اب سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کس قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ ذیل میں آپؑ کے کچھ حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں :

’’ بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اِس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ153-154)

یعنی خدا تعالیٰ نے صریح طور پر آپ کو نبی کا خطاب دیا۔

’’نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صدہا مرتبہ استعمال کیا ہے مگر اس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الٰہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے۔

لکل ان یصطلحسو

خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرتﷺ کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے مگر یہ نبوت آنحضرتﷺ کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور ا ٓنحضرتﷺ کی سچائی دکھلائی جائے۔‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ341)

’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعوی کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہِ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرتﷺ کے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی اور میری نبوت آنحضرتﷺ کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت‘‘۔

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22 صفحہ154 حاشیہ)

’’اے نادانو! میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرتﷺ کی اتباع سے حاصل ہے سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکمِ الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔

و لکل ان یصطلح۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ503)

’’یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے۔ یعنی سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ۔ ‘‘

(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20صفحہ354)

’’مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفیٰﷺ ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا۔ پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی علیہ الصلوٰۃ و السلام۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ216)

’’ہم میں اور ہمارے مخالف مسلمانوں میں صرف لفظی نزاع ہے اور وہ یہ کہ ہم خدا کے اُن کلمات کو جو نبوت یعنی پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے اسم سے موسوم کرتے ہیں اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیشگوئیاں بذریعہ وحی دی جائیں یعنی اس قدر کہ اُس کے زمانہ میں اُس کی کوئی نظیر نہ ہو اس کا نام ہم نبی رکھتے ہیں۔ کیونکہ نبی اُس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بہ کثرت آئندہ کی خبریں دے مگر ہمارے مخالف مسلمان مکالمہ الٰہیہ کے قائل ہیں۔ لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکالمات کو جو بکثرت پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے نام سے موسوم نہیں کرتے حالانکہ نبوت صرف آئندہ کی خبر دینے کو کہتے ہیں جو بذریعہ وحی و الہام ہو۔ اور ہم سب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ شریعت قرآن شریف پر ختم ہوگئی ہے صرف مبشرات یعنی پیشگوئیاں باقی ہیں۔ ‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ189)

’’ پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا کہ

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ (اٰل عمران:111)

اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ (الفاتحہ:7,6)

اُن کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ اُمّت محمدؐ یہ ناقص اور ناتمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہرتی تھی۔ اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا تھا اُس کا سکھلانا بھی عبث ٹھہرتا تھا۔ مگر اس کے دوسری طرف یہ خرابی بھی تھی کہ اگر یہ کمال کسی فرد اُمت کو براہ راست بغیر پیروی نور نبوت محمدیہ کے مل سکتا تو ختم نبوت کے معنے باطل ہوتے تھے پس ان دونوں خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے مکالمہ مخاطبہ کاملہ تامہ مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو عطا کیا جو فنافی الرسول کی حالت تک اتم درجہ تک پہنچ گئے اور کوئی حجاب درمیان نہ رہا اور اُمّتی ہونے کا مفہوم اور پیروی کے معنے اتم اور اکمل درجہ پر ان میں پائے گئے ایسے طور پر کہ اُن کا وجود اپنا وجود نہ رہا۔ بلکہ اُن کے محویت کے آئینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود منعکس ہوگیا اور دوسری طرف اتم اور اکمل طور پر مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ نبیوں کی طرح اُن کو نصیب ہوا۔

پس اس طرح پر بعض افراد نے باوجود اُمتی ہونے کے نبی ہونے کا خطاب پایا کیونکہ ایسی صورت کی نبوت نبوت محمدیہ سے الگ نہیں بلکہ اگر غور سے دیکھو تو خود وہ نبوت محمدؐ یہ ہی ہے جو ایک پیرایۂ جدید میں جلوہ گر ہوئی۔ یہی معنے اس فقرہ کے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے حق میں فرمایا کہ

نَبِیُّ اللّٰہِ۔ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ

یعنی وہ نبی بھی ہے اور اُمّتی بھی ہے ورنہ غیر کو اس جگہ قدم رکھنے کی جگہ نہیں مبارک وہ جو اِس نکتہ کو سمجھے تا ہلاک ہونے سے بچ جائے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20صفحہ312)

’’میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں وہی نبوت محمدیہﷺ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے…میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے۔‘‘

(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 412)

’’اُس تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے اور تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گذر چکیں اُن کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمدیہؐ اُن سب پر مشتمل اور حاوی ہے۔ اور بجز اِس کے سب راہیں بند ہیں۔ تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں اس لئے اِس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہئے تھا کیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے اس کے لئے ایک انجام بھی ہے لیکن یہ نبوت محمدیہؐ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اِس میں فیض ہے اِس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے مکالمہ مخاطبہ کا اُس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا۔ مگر اِس کا کامل پیرو صرف نبی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نبوت کاملہ تامہ محمد یہؐ کی اس میں ہتک ہے ہاں اُمّتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اُس پر صادق آ سکتے ہیں کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ ؐ کی ہتک نہیں بلکہ اُس نبوت کی چمک اِس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے اور جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیّت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو۔ اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔ جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے۔ ‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20صفحہ311)

نتائج

مندرجہ بالا حوالہ جات سے واضح ہوا کہ

1۔ حضرت مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ نے صریحاً نبی فرمایا ہے۔

2۔ آپ کی نبوت حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی نبوت کا ظل ہے نہ کوئی الگ نبوت۔

3۔ سب کچھ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کے طفیل ملا۔

4۔ آپ کی نبوت مکالمہ و مخاطبہ کی کثرت پر مبنی ہے۔

5۔ مکالمہ و مخاطبہ غیبی امور پر مشتمل ہے۔

6۔ آپ پر تشریعی وحی نازل نہیں ہوئی۔

حضرت عیسیٰؑ پر وحی

علماء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عیسیٰؑ نزول کے وقت نبی ہوں گے اور آپؑ پر وحی نازل ہو گی۔ علامہ محمد ادریس صاحب کاندھلوی لکھتے ہیں:

’’انبیائے کرام اپنے منصب نبوت سے کبھی معزول نہیں ہوتے اس لئے کہ حق تعالیٰ علیم و خبیر ہے…عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد منصب نبوت کے ساتھ موصوف ہوں گے…حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد نبی ہوں گے مگر شریعت محمدیہ کے تابع ہوں گے اور کتاب و سنت کی متابعت کریں گے۔‘‘

(عقائد الاسلام صفحہ80-81)

مولوی عبد الرشید صاحب، حضرت عیسیٰؑ کے متعلق لکھتے ہیں :

’’اس لئے ان کو بعد نزول وحی رسالت نہ ہو گی۔ دوسرے اولیائے امت کی طرح ان کو بھی الہام ہو گا۔ ‘‘

(ختم نبوت اور نزول عیسیٰؑ صفحہ18)

اسی طرح مولوی عبد الغنی پٹیالوی لکھتے ہیں :

’’نزول کے بعد ان پر وحی الہام ہو گی نہ وحی نبوت۔‘‘

(ھدایۃ الممتری عن غوایۃ المفتری صفحہ33)

یاد رہے کہ ان علماء کے نزدیک وحی نبوت سے مراد تشریعی وحی ہے۔ چنانچہ مولوی عبد الغنی پٹیالوی خود ہی تصریح کرتے ہیں کہ

’’بے شک عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو وحی نبوت نہ لائیں گے کیونکہ بحکم قرآنی اکملت لکم دینکم …دین کامل ہے اور وحی نبوت کی حاجت نہیں بلا ضرورت کام کرنا شان خدا وندی کے خلاف ہے۔ ‘‘

(ھدایۃ الممتری عن غوایۃ المفتری صفحہ33)

علامہ الالوسی لکھتے ہیں :

’’فالمنقطع إنما هو وحي التشريع لا غير۔ ‘‘

(روح المعاني :13/ 61)

یعنی تشریعی وحی منقطع ہوئی ہے نہ کہ دوسری۔

خلاصہ یہ کہ علماء بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ نبی ہوں گے مگر ان پر وحی شریعت نازل نہیں ہو گی البتہ وحی الہام نازل ہو گی۔

نبوت کی حقیقت کون جانتا ہے؟

علماء کو یہ بھی مسلم ہے کہ نبوت کی حقیقت کو سوائے نبی کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ امام الغزالی لکھتے ہیں :

’’لا يَعرِفُ حقِيقةَ النّبُوةِ إلّا النَّبِي۔ ‘‘

(إحياء علوم الدين :3/ 8)

یعنی نبوت کی حقیقت کو سوائے نبی کے اور کوئی نہیں جانتا۔

علامہ المازری اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں :

’’ولا يَلزَمُ العلماءَ أن تَعرِف كُلّ شَيء جُملَة وتَفصِيلاً وقَد جَعَلَ اللّٰهُ سُبحَانَهُ للعُلَمَاء حَدّا تَقِفُ عِندَه فَمِنها ما لا تَعلَمُهُ أصلا ومنها ما تِعلَمُهُ جُملَة ولا تَعلَمُهُ تَفصِيلا وهذا مِنهُ۔ ‘‘

(المعلم بفوائد المسلم :3/ 203)

یعنی علماءکے لیے ضروری نہیں کہ ان کو سب کچھ اجمالاً اورتفصیلاً معلوم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے علماء کے لیے ایک حد رکھی ہے وہ اس تک ہی پہنچ سکتا ہےبعض ایسی چیزیں ہیں جن کو وہ بالکل نہیں جان سکتے بعض ایسی ہیں جن کو اجمالاً جان سکتے ہیں مگر تفصیلاً نہیں۔ یہ مسئلہ(یعنی نبوت) اسی قسم سے ہے۔ یعنی ایک عالم کو عمومی طور پر تو معلوم ہو سکتا ہے مگر تفصیلاً نہیں۔ مولوی سید بدر عالم صاحب میرٹھی لکھتے ہیں :

’’انصاف یہ ہے کہ نبوت و وحی کی حقیقت سوائے نبی کے دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ ‘‘

(ختم نبوت صفحہ52)

ساری بحث کا حاصل یہ ہوا کہ

1۔ حضرت مسیح موعودؑ اس لیے نبی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپؑ کو صریحاً نبی فرمایا ہے۔

2۔ آپؑ کی نبوت حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی نبوت کا ظل ہے۔ کوئی الگ نبوت نہیں ہے۔

3۔ آپؑ کو فنافی الرسول ہونے کی وجہ سے یہ مقام ملا۔

4۔ آپؑ کی نبوت صرف مبشرات پر مشتمل ہے۔ جس کےتسلسل کا فرمان حضورﷺ نے جاری فرمایا ہے اور علمائے امت نے مبشرات میں منذرات، وحی و الہام و کشوف سب شامل تسلیم کیے ہیں۔

5۔ علماء کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ بحیثیت نبی تشریف لائیں گے البتہ ان پر تشریعی وحی نازل نہ ہو گی صرف وحی الہام ہو گا۔ پس حضرت مسیح موعودؑ بھی بحیثیت نبی تشریف لائے، شریعت محمدیہ کے تابع تھے اور وحی الہام کے مورد تھے۔

6۔ نبوت کی حقیقت صرف نبی ہی جانتا ہے۔ اور نبی نے ہمیں بتا دیا کہ’’خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے۔ ‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ341)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button