جنوری 1932ء: تحریک مصالحت اور اس کا اثر
تبلیغی نظام چونکہ جماعت مومنین کے باہمی اتفاق و اتحاد اور جذبہ اخوت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حضرت مصلح موعودؓ نے تبلیغ پرزور دینے کے ساتھ 8؍ جنوری کے خطبہ جمعہ ہی میں جماعت سے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم اس نئے سال کو اس غرض کے لیے وقف کر دیں کہ جماعت سے تمام لڑائیاں جھگڑے تفرقے اور عناد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مٹا دیں۔ اس سلسلہ میں احبابِ جماعت کو یہ خاص ہدایت بھی فرمائی کہ جو شخص اپنے دوسرے بھائی سے کسی وجہ سے نہیں بولتا۔ یا اس سے عداوت اور بغض رکھتا ہے وہ فوراً اپنے بھائی کے پاس جائے اور اس سے خلوص دل کے ساتھ صلح کرلے اور آئندہ کے لیے کوشش کرے کہ آپس میں کوئی لڑائی اور جھگڑا نہ ہو۔
(الفضل 14؍ جنوری 1932ء۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍ جنوری 1932ء)
حضورؓ کے اس خطبہ کا جماعت پر حیرت انگیز اثر ہوا اور جماعت کے دوستوں نے اپنی رنجشوں اور کدورتوں کو حضور کے اشارہ پر چھوڑ دیا۔ حتیٰ کہ لوگوں نے مالی نقصان گوارا کرکے خطبہ سنتے یا پڑھتے ہی صلح کر لی۔ مستثنیات تو ہر معاملہ میں چلتی ہیں۔ تاہم شاذ و نادر ہی کوئی ایک شخص ہوگا جو اس سعادت سے بکلی محروم رہا ہو۔
(رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ قادیان 32-1931ء صفحہ 77)
حضرت مصلح موعودؓ کی قیمتی نصیحت
جماعت میں صلح و آشتی کا یہ خوشکن نظارہ دیکھ کر حضورؓ نے 29؍جنوری 1932ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ مگر ساتھ ہی نصیحت فرمائی:
’’میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ لوگ اپنے دلوں کو دوسروں کی نسبت صاف کر لیں اور خواہ وہ مظلوم ہی کیوں نہ ہوں صلح کر لیں۔ میری یہ نصیحت نامکمل رہے گی اور فتنوں کا سدباب پوری طرح نہیں ہو گا جب تک میں اس کا دوسرا حصہ بھی بیان نہ کروں اور وہ یہ ہے کہ نہ صرف دوسروں کے متعلق ہر قسم کی کدورت سے اپنے دلوں کو صاف کرو بلکہ اس امر کو بھی مدنظر رکھو کہ کسی مظلوم کا معافی مانگ لینا ایسی بات نہیں جو تمہارے لئے خوشی کا موجب ہو سکے بلکہ خوشی صرف اسی کے لئے ہے جس نے معافی مانگی اور تمہیں خوشی اس وقت حاصل ہو گی جب تم اپنے خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اگر دوسروں کے حقوق کو تم نے غصب کیا ہوا ہے تو وہ حقوق ادا کر دو۔ اور اگر تم پر کسی کا مالی یا جانی یا اخلاقاً حق ہے تو وہ اسے دے دو۔ ورنہ اگر تم دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے تو خواہ دوسرا شخص تم سے ہزار معافی مانگے اس کا درجہ تو بڑھتا جائے گا لیکن تمہارا جرم اور گناہ بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتا جائے گا کیونکہ وہ شخص میرے کہنے پر تمہارے پاس گیا۔ اور اس نے مظلوم ہونے کے باوجود تم سے معافی مانگی۔ مگر تم نے باوجود ظالم ہونے کے اور باوجود اس کے معافی مانگ لینے کے اس کے حقوق کی ادائیگی کا خیال نہ کیا۔ اور تم نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ وہ نیچا ہو گیا پس اپنے نفوس کو اس غرور میں مبتلا نہ ہونے دو کہ ہم نے دوسرے کو نیچا دکھا دیا کیونکہ وہ معافی مانگ کر نیچا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اونچا ہو گیا۔ کیونکہ اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور خلیفہ وقت کی بات مانی مگر تم جو اس وقت اپنے آپ کو اونچا سمجھ رہے ہو دراصل نیچے گر گئے جس طرح انسان جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکتا ہے اتنا ہی اس کا درجہ بلند ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ حدیثوں میں آتا ہے جو شخص خدا کے لئے نیچے جھکتا ہے۔ خدا اس کو اوپر اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اسے ساتویں آسمان پر لے جاتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے بھائی سے معافی مانگتا ہے وہ نیچے نہیں گرتا بلکہ اس کا درجہ بلند ہوتا اور خدا کے حضور بہت بلند ہو جاتا ہے۔ ‘‘
( الفضل 4؍ فروری 1932ء )
دوبارہ تحریک اور زبردست انتباہ
کچھ عرصہ بعد جبکہ جماعتی مخالفت زوروں پر تھی جماعت کے ایک طبقہ میں اندرونی مناقشات نے پھر سر اٹھایا۔ اور اس تحریک کے اثرات زائل ہوتے نظر آئے تو حضورؓ نے 26؍ مئی 1935ء کو پھر توجہ دلائی کہ
’’کوئی احمق ہی اس وقت اپنے بھائی سے لڑ سکتا ہے۔ جب کوئی دشمن اس کے گھر پر حملہ آور ہو ایسے نازک وقت میں اپنے بھائی کی گردن پکڑنے والا یا تو پاگل ہو سکتا ہے یا منافق۔ ایسے شخص کے متعلق کسی مزید غور کی ضرورت نہیں وہ یقیناً یا تو پاگل ہے اور یا منافق اس لئے آج چھ ماہ کے بعد میں پھر ان لوگوں سے جنہوں نے اس عرصہ میں کوئی جھگڑا کیا ہو۔ کہتا ہوں کہ وہ توبہ کریں توبہ کریں۔ ورنہ خدا کے رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا اور وہ تباہ ہو جائیں گے منہ کی احمدیت انہیں ہرگز ہرگز نہیں بچا سکے گی۔ ایسے لوگ خدا کے دشمن ہیں۔ رسولﷺ کے دشمن ہیں۔ قرآن کے دشمن ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمن ہیں۔ ایسے لوگ خون آلود گندے چیتھڑے کی طرح ہیں جو پھینک دیئے جانے کے قابل ہیں۔ اس لئے ہر وہ شخص جس نے اپنے بھائی سے جنگ کی ہوئی ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ خدا کا غضب اس پر نازل ہو وہ ہمیشہ کے لئے صلح کرلے اور پھر کبھی بھی نہ لڑے۔ ‘‘
(الفضل 12؍جون 1935ء)
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ 18تا19)
٭…٭…٭