خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفانرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
غزوۂ غطفان میں رسول اللہﷺنے حضرت عثمانؓ کو مدینےکاامیرمقررفرمایاتھا
مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ اہلِ مکّہ نےحضرت عثمان ؓکو شہید کردیا ہے۔اس موقعے پر حضورﷺ نےانتہائی صدمے اور غصّے میں تمام صحابہ کو ببول کے درخت کے نیچے جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی کہ اگر یہ خبر درست ہوئی تو ہم عثمانؓ کا بدلہ لیے بغیر اس جگہ سے نہیں ٹلیں گے
پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍جنوری 2021ء بمطابق 29؍صلح 1340 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 29؍ جنوری 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت عثمانؓ کی غزوات میں شرکت کا ذکر کرتا ہوں۔غزوۂ بدرکےمتعلق ذکرہوچکاہے کہ آپؓ اس میں شامل نہ ہوسکے تھے۔ غزوۂ غطفان جو محرم یا صفر3 ہجری میں ہوا اس میں رسول اللہﷺنے حضرت عثمانؓ کو مدینےکاامیرمقررفرمایاتھا۔بنو غطفان کےقبائل بنوثعلبہ اور بنومحارب نے مدینےپراچانک حملےکی غرض سے نجد کےمقام ذی امر میں جمع ہونا شروع کیا توآنحضورﷺ نے پیش بندی کےطورپر ساڑھےچارسو صحابہ کی جماعت کے ساتھ ادھر کا رُخ کیا۔ دشمن کو آپؐ کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ آس پاس کی پہاڑیوں میں روپوش ہوگیا۔ لڑائی کا خطرہ وقتی طورپر ٹل جانےکےبعد آنحضورﷺ واپس تشریف لے آئے۔
غزوۂ احد تین ہجری میں ہوا۔حضرت عثمانؓ اس میں شریک ہوئے۔ دورانِ جنگ تیراندازوں کی غفلت کے نتیجےمیں خالد بن ولید کو پلٹ کر حملہ کرنے کا موقع ملا۔اس دوران حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کےبعد، اُن کی آنحضورﷺ سے مشابہت کےباعث حضوراکرمﷺ کی شہادت کی افواہ پھیل جانے سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان منتشر ہوجانے والے صحابہ میں حضرت عثمانؓ کانام بھی بیان کیاجاتا ہے۔قرآن شریف میں ان لوگوں کےایمان و اخلاص اور اس وقت کے حالات کومدِّنظر رکھتے ہوئے خداتعالیٰ نے انہیں معاف فرمادیاتھا۔
صلح حدیبیہ کے موقعے پر سفارت کاری میں حضرت عثمانؓ کا جو کردار رہا اس کےمتعلق حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ایک خواب دیکھی کہ آپؐ اپنے صحابہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ اس وقت حرمت والے مہینوں میں سے ذوقعدہ کا مہینہ قریب تھا۔ آپؐ نے اس خواب کی بِنا پر صحابہ کو عمرے کی تیاری کی تحریک فرمائی۔ چونکہ اس موقعے پر جنگی مقابلہ مقصود نہیں تھا اس لیے آپؐ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے جنگی ہتھیار ساتھ نہ لیں البتہ دستور کے مطابق اپنی تلواروں کو نیاموں کے اندر مسافرانہ طور پر رکھا جاسکتا ہے۔ حضورﷺ نے مدینے کے گردونواح میں آباد بدوی لوگوں کو بھی ساتھ چلنے کی تحریک فرمائی لیکن اُن میں سے نہایت قلیل تعداد کے علاوہ کوئی ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس سفر میں امّ المومنین حضرت امِّ سلمہ آپؐ کے ہم رِکاب تھیں۔
ذوالحلیفہ پہنچ کر حضورﷺ نے قربانی کے ستّرا ونٹوں پر نشان لگانے اور احرام باندھنے کا ارشاد فرمایا۔ اسی طرح قریش کے حالات کا عِلْم حاصل کرنےکےلیے بسر بن سفیان نامی خبررساں کومکّے کی طرف روانہ فرمایا۔اس نے واپس آکر اطلاع دی کہ قریشِ مکّہ بہت جوش میں ہیں اور آپؐ کو روکنے کا پختہ عزم کیے ہوئے ہیں۔حتیٰ کہ ان میں سے بعض نے اپنے جوش کے اظہارکےلیے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں۔اسی طرح مسلمانوں کو روکنے کےلیے قریش نے ایک دستہ خالد بن ولید کی کمان میں آگے بھجوا رکھا ہے۔ اس اطلاع کے ملنے پر، تصادم سے بچنے کے لیے آپؐ نے صحابہ کو مکّے کے معروف راستے سے ہٹ کرسمندر کےقریب، دشوار گزار راستے کو اختیار کرنے کا حکم دیا۔ جب آپؐ نئے راستے پرمکّے سے ایک منزل یعنی نَو مِیل کے فاصلے پر حدیبیہ کےقریب پہنچے تو حضورﷺ کی اونٹنی ’القصوا‘ یک لخت پاؤں پھیلا کر بیٹھ گئی اور باوجود اٹھانے کے نہ اٹھی۔ حضورﷺ نے اس خدائی اشارے کے تابع، حرم کی عزت کے لیے قریش کا ہرطرح کا مطالبہ ماننے کے عزم کا اظہار فرمایا اور صحابہ کو حدیبیہ کے مقام پر ڈیرے ڈالنے کا حکم دیا۔
اس مقام پر قبیلہ خزاعہ کا سردار بدیل بن ورقا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور رؤسائے قریش کے بدارادوں سے آگاہ کیا۔آپؐ نے فرمایا کہ ہم صرف عمرے کی نیّت سے آئے ہیں اور قریش سے سمجھوتے کےلیے بھی تیار ہیں۔ قریش مجھ سے جنگ بند کرکے مجھے دوسرے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کےلیے آزاد چھوڑ دیں۔اگر قریش نے اس تجویز کو رد کیا تو مَیں جنگ کےلیے تیار ہوں۔بدیل پر آپؐ کی تقریر کا بہت اثر ہوا اور اس نے قریش تک آپؐ کی یہ تجویز پہنچائی۔ قریش کے جوشیلے اور غیرذمہ دار لوگ توکوئی بات سننے پرآمادہ نہ ہوئے البتہ اہل الرائے افراد نے تجویز کو سنا۔ قبیلہ ثقیف کے بااثر رئیس عروہ بن مسعود نے قریش کو یہ سمجھاکر کہ محمد(ﷺ) نے ایک عمدہ تجویز تمہارے سامنے رکھی ہے، انہیں اعتماد میں لیا اور مزید مذاکرات کےلیے حضورﷺ کے پاس آیا۔
عروہ اصولاً حضورﷺ کی رائے سے متفق تھا، اس نے بس قریش کی سفارت کا حق ادا کرتے ہوئے اُن کے حق میں زیادہ سے زیادہ شرائط منوانے کی کوشش کی۔ مذاکرات کےبعد واپس جاکر عروہ نے قریش کو کہا کہ مَیں نے قیصروکسریٰ کے دربار بھی دیکھےہیں لیکن جو عزت محمد(ﷺ) کے صحابی محمد کی کرتے ہیں ایسا مَیں نے کسی اَور جگہ نہیں دیکھا۔ عروہ کےبعد قریش کی جانب سے بنی کنانہ کا رئیس حلیس بن علقمہ سفارت کےلیے آیا۔ آنحضرتﷺ نے اُسے آتا دیکھ کر صحابہ کو فرمایا کہ اس شخص کے قبیلے والے قربانی کےمنظر کو پسند کرتےہیں فوراً اپنے قربانی کےجانور اس کے سامنے لاؤ۔ جب اس نے قربانی کےجانور اور تکبیروں کی آواز سنی تو اس بات کا اُس پر بڑا اثر ہوا۔ پھر مکرز بن حفص نامی شخص آیا جسے آتادیکھ کر حضورﷺ نے فرمایا کہ خداخیرکرے یہ آدمی تو اچھا نہیں۔ ابھی اس شخص سے بات چیت شروع ہی ہوئی تھی کہ مکّے کا نامور رئیس سہیل بن عمرو حاضر ہوگیا۔ سہیل کو دیکھ کر حضورﷺ نے فرمایا یہ سہیل آتا ہے،اب خدا نے چاہا تو معاملہ آسان ہوجائے گا۔
قریش کی سفارت کاری کےبعد حضوراکرمﷺنے محسوس کیا کہ آپؐ کی طرف سے بھی کوئی فہمیدہ شخص مذاکرات کے لیے بھجوایا جائے چنانچہ قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص خراش بن امیّہ کو اس کام کےلیے منتخب کیا گیا۔ حضورﷺ نے اسے اپنا اونٹ عطا فرمایا لیکن چونکہ ابھی یہ گفتگو ابتدائی مراحل میں تھی لہٰذا قریش کے جوشیلے نوجوان عکرمہ بن ابوجہل نے خراش کے اونٹ پرحملہ کرکے اسے زخمی کردیا۔مذاکرات کے ان ادوار کے دوران قریش کی جانب سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں بھی سامنے آتی رہیں۔ حرمت والے مہینے اور حرم کے علاقے میں ایسی حرکت پر مسلمانوں کو سخت طیش آیا لیکن حضورﷺ نے درگزرسے کام لیا۔
خراش بن امیہ سے اہلِ مکّہ کے سلوک اور ان سازشی سرگرمیوں کومدِّنظر رکھتے ہوئے آپؐ نے قریش کو ٹھنڈاکرنے کےلیے کسی بااثر آدمی کو بطورسفیر بھجوانے کا فیصلہ کیا۔اس مقصد کے لیے حضورﷺ کی نظرِانتخاب حضرت عمربن خطابؓ پر پڑی۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ مکّےکے لوگ میرے سخت دشمن ہیں اور میرے قبیلے کا کوئی بااثرآدمی اُن میں موجود نہیں۔ آپؓ نے حضرت عثمانؓ کا نام تجویز کیاجن کا تعلق قبیلہ بنوامیہ سے تھا۔ حضورﷺ نے اس تجویز کو پسند فرمایا۔
حضرت عثمانؓ کو آنحضرتﷺ نے اپنی جانب سے ایک تحریر بھی دی جس میں آپؐ کے آنے کا مقصد،یعنی عمرے کی ادائیگی کا ذکر کیا گیا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے ابوسفیان اور دیگررؤسائے قریش سے مذاکرات کیے۔ قریش اس بات پر بضد رہے کہ مسلمان اس سال عمرہ نہیں کرسکتے۔ حضرت عثمانؓ جب واپسی کی تیاری کرنے لگے توقریش کے شریر لوگوں نے حضرت عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کو مکّے میں روک لیا۔ ادھر مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ اہلِ مکّہ نےحضرت عثمان ؓکو شہید کردیا ہے۔
اس موقعے پر حضورﷺ نےانتہائی صدمے اور غصّے میں تمام صحابہ کو ببول کے درخت کے نیچے جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی کہ اگر یہ خبر درست ہوئی تو ہم عثمانؓ کا بدلہ لیے بغیر اس جگہ سے نہیں ٹلیں گے۔بیعت کے دوران حضورﷺ نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کرفرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔اسلامی تاریخ میں یہ بیعت، بیعتِ رضوان کےنام سے مشہور ہے۔ صحابۂ کرام اس بیعت کو ہمیشہ بڑے فخر اور محبت سے بیان کیا کرتے تھے۔
جب قریش کو اس بیعت کی اطلاع پہنچی تو وہ خوف زدہ ہوگئے۔انہوں نے حضرت عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کو آزاد کردیا اور مسلمانوں سے معاہدہ کرنے پر بھی آمادہ ہوگئے۔ صلح کی تمام تر گفتگو نہایت عمدہ ،مصالحانہ ماحول میں ہوئی اور شرائطِ صلح سہل طریق سے طےپاگئیں۔ معاہدے کےمطابق مسلمان اگلےبرس تین دن کےلیے عمرے کی غرض سے مکّہ آسکتے تھے۔ اگر کوئی مرد مکے والوں میں سے مدینہ جاتا تو خواہ وہ مسلمان ہی ہوتا، آنحضرتﷺ اسے مدینے میں پناہ نہ دے سکتے تھے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجاتا تو اہلِ مکہ اسے لوٹانے کے پابند نہ تھے۔ دونوں فریقین قبائلِ عرب کو اپنا حلیف بنا سکتے تھے۔ یہ معاہدہ دس سا ل کےلیے تھا جس دوران قریش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ بند رہنی تھی۔معاہدے کی دونقول تیار کی گئی تھیں،جن پر بطور گواہ حضرت عثمانؓ سمیت دونوں جانب کے معززین نے دستخط کیےتھے۔
خطبے کے آخرمیں حضرت عثمانؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدعاؤں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایاکہ پاکستان کے حالات کے لیے خاص طور پر دعا کریں۔ اب تو گھروں کی چاردیواری میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جہاں مولوی کہتا ہے پولیس والے پہنچ جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ بدفطرت افسران اورظالموں سے ملک کی اور ہماری جان چھڑائے اور ہر احمدی کو آزادی اور محفوظ طریق پر اپنے وطن میں رہنے کی توفیق ملے۔اگر یہ دعائیں جاری رہیں تو ہم ان شاء اللہ جلد یہ دیکھیں گےکہ مخالفین کا انجام نہایت عبرت ناک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے۔ آمین