آیت خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ حضرت عیسیٰ ؑکے دوبارہ نہ آنے پر زبردست دلیل ہے
یہی ایک آیت زبردست دلیل ہے اس امر پر جو ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ نہیں آئیں گے بلکہ آنے والا اس اُمت میں سے ہوگا۔ کیونکہ وہ نبی ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبوت کا فیضان حاصل کرسکتا ہی نہیں جب تک وہ آنحضر ت ؐسے استفادہ نہ کرے جو صاف لفظوں میں یہ ہے کہ آپ کی اُمّت میں داخل نہ ہو۔ اب خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ والی آیت تو صریح روکتی ہے پھر وہ کس طرح آسکتے ہیں۔ یا ان کو نبوت سے معزول کرو اور ان کی یہ ہتک اور بے عزتی روا رکھو اور یایہ کہ پھر ماننا پڑے گا کہ آنے والا اسی اُمت میں سے ہوگا۔
نبی کی اصطلاح مستقل نبی پر بولی جاتی تھی مگر اب خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ کے بعد یہ مستقل نبوت رہی ہی نہیں۔ اسی لیے کہا ہے۔ ؎
خارقے از ولی مسموع است
معجزہ آں نبی متبوع است
پس اس بات کو خوب غور سے یاد رکھو کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نبوت کا شرف پہلے سے حاصل ہے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پھر آئیں اور اپنی نبوت کو کھو دیں۔ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل نبی کو روکتی ہے البتہ یہ امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بڑھانے والا ہے کہ ایک شخص آپ ہی کی اُمّت سے آپ ہی کے فیض سے وہ درجہ حاصل کرتا ہے جو ایک وقت مستقل نبی کو حاصل ہوسکتا تھا۔ لیکن اگر وہ خود ہی آئیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ پھر اس خاتم الانبیاء والی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے اور خاتم الانبیاء حضرت مسیح ٹھہریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا بالکل غیر مستقل ٹھہر جاوے گا۔ کیونکہ آپؐ پہلے بھی آئے اور ایک عرصہ کے بعد آپ رخصت ہوگئے اور حضرت مسیح آپؐ سے پہلے بھی رہے اور آخر پر بھی وہی رہے۔ غرض اس عقیدہ کے ماننے سے کہ خود ہی حضرت مسیح آنے والے ہیں بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے جو کفر ہے۔
اس کے علاوہ قرآن شریف کی اَور آیت بھی جو صاف طور پر مسیح کی آمدِ ثانی کو روکتی ہے اور وہ وہی آیت ہے جو کل بھی میں نے بیان کی تھی یعنی
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المائدۃ:118)
اگر حضرت مسیح قیامت سے پہلے دنیا میں آئے تھے اور چالیس برس تک رہ کر انہوں نے کفّار اور مشرکین کو تباہ کیا تھا جیساکہ اعتقاد رکھا جاتا ہے۔ پھر کیا خدا تعالیٰ کے سامنے ان کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ
یا یہ کہنا چاہیے تھا کہ میں نے تو کافروں اور مشرکوں کو ہلاک کیا اور ان کو جا کر اس شرک سے نجات دی کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو خدا نہ بنائو۔
اس آیت پر خوب غور کرو۔ یہ ان کی دوبارہ آمد کو قطعی طور پر ردّ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ختمِ نبوت والی آیت بھی ان کو دوبارہ آنے نہیں دیتی۔ اب یا تو قرآن شریف کا انکار کرو یا اگر اس پر ایمان ہے تو پھر اس باطل خیال کو چھوڑنا پڑے گا اور اس سچائی کو قبول کرنا پڑے گا جو میں لے کر آیا ہوں۔
یہ پکی بات ہے کہ آنے والا اسی اُمّت سے ہوگا اور حدیث
عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْل
سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص مثیلِ مسیح بھی تو ہو۔ اگرچہ محدثین اس حدیث کی صحت پر کلام کرتے ہیں مگر اہلِ کشف نے اس کی تصدیق کی ہے اور قرآن شریف خود اس کی تائید کرتا ہے۔ محدثین نے اہلِ کشف کی یہ بات مانی ہوئی ہے کہ وہ اپنے کشف سے بعض احادیث کی صحت کرلیتے ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح نہ ہوں اور بعض کو غیر صحیح قرار دے سکتے ہیں۔ یہ حدیث اہلِ کشف نے جن میں روحانیت اور تصفیہ قلب ہوتا ہے صحیح بیان کی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا ہے قرآن شریف بھی اس کا مصدق ہے کیونکہ اس حدیث سے بھی سلسلہ موسوی کی طرح ایک سلسلہ کے قائم ہونے کی تصدیق ہوتی ہے اور قرآن شریف بھی سلسلہ موسویہ کے بالمقابل ایک سلسلہ قائم کرتا ہے۔ اسی کی طرف علاوہ اور آیات قرآنی کے
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ
بھی اشارہ کرتی ہے یعنی جو پہلے نبیوں کو دیا گیا تھا ہم کو بھی عطا کر۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ چودہ سو برس تک رکھا گیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو نابود کرنا چاہا اور اس قوم کو
ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ ( اٰلِ عمران : 113)
کا مصداق بنا دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کر کے یہ کہا
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا (المزّمل : 16)
یعنی یہ سلسلہ موسوی سلسلہ کے بالمقابل ہے۔ اور یہ عمارت موسوی عمارت کے مقابلہ پر ہے۔ جیسے اس میں اخیار ہیں ویسے ہی اس میں بھی اخیار ہیں۔ ایسا ہی اشرار بھی بالمقابل پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اگر کسی یہودی نے ماں سے زنا کیا ہوگا تو تم میں سے بھی ایسے ہوں گے اور اگر کوئی سوسمار کے بل میں گھسا ہوگا تو مسلمان بھی گھسیں گے۔
یہ کیسی مشابہت اور مماثلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے اب تعجب ہے مسلمانوں پر کہ وہ یہ تو روا رکھتے ہیں کہ اس امت میں سے یہود بن جاویں اور یہ پسند نہیں کر سکتے کہ اس امت میں سے کوئی مسیح بھی ہوجاوے۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں مسیح کو بھیجا گیا تھا۔ اس مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ اس امت میں بھی اس صدی پر مسیح آئے تا کہ اس امت کا فضل ظاہر ہو۔ اولیاء اللہ کے کشوف بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں اور جو نشانات اس وقت کے لیے رکھے ہوئے تھے وہ بھی اپنے اپنے وقت پر پورے ہوگئے۔ واقع شدنی امور ہوجاتے ہیں جو نہیں ہونے والے ہوتے وہ نہیںہوتے۔ اگر علماء کے معنے سچے ہوتے تو جو کچھ انہوں نے مانا ہوا تھا اس میں سے کچھ تو پورا ہوتا۔ اعانت اسلام کا زمانہ تو یہی تھا ۔پھر کیا وجہ ہے کہ خدا نے بقول ان کے کچھ بھی نہ کیا۔ انگریزوں کا تسلط
مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ (الانبیاء : 97)
کا مصداق ہوگیا اور
وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التکویر : 5)
کے موافق اونٹنیاں بیکار ہوگئیں جو اس آخری زمانہ کا ایک نشان ٹھہرایا گیا تھا۔ عشار حاملہ اونٹنیوں کو کہتے ہیں یہ لفظ اس لیے اختیار کیا گیا ہے تا یہ وہم نہ رہے جیسا بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیامت کے متعلق ہے ۔قیامت میں تو حمل نہ ہوگا اور ان کا بیکار ہونا یہاں تو الگ رہا، مکہ مدینہ کے درمیان بھی ریل تیار ہو رہی ہے۔ اخبارات نے بھی اس آیت اور مسلم کی حدیث سے استنباط کر کے مضامین لکھے ہیں۔ پس یہ اور دوسرے نشان تو پورے ہو گئے ہیں۔میںاگر صادق نہیں ہوں تو دوسرے مدعی کا نشان بتاؤ اور اس کا ثبوت دیکھو۔ بات یہ ہے کہ افتراء اور کذب کی عمر نہیں ہوا کرتی یہ جلد فنا ہو جاتے ہیں۔ مفتری کے ہلاک کرنے کے لیے خارجی قوت اور زور کی حاجت ہی نہیں ہوتی، خود ان کا افترا ان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ اور مفتری کے مقابل میں کبھی جوش نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل جس قدر جوش ہوا کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کے مقابل میں بھی ہوا تھا۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 114تا118۔ایڈیشن 1984ء)