کیا ظلی اور تابع نبی کے الفاظ نئے اورغیر اسلامی ہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں ظلی،تابع نبی وغیرہ کی اصطلاحیں دیکھ کر غیر احمدی علماء اس طرح اعتراض کرتے ہیں کہ گویا یہ کوئی غیر اسلامی الفاظ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ انہی مفاہیم کے ساتھ جس مفہوم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں تحریرفرمائے ہیں پرانے بزرگ علماء کی کتب میں بھی پائے جاتے ہیں۔
چنانچہ اس کی ایک مثال حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کی ہے۔ آپ ایک نامور محدث ومجاہد، شاہ عبد الغنی دہلویؒ کے فرزند، شاہ عبد العزیزدہلویؒ، شاہ رفیع الدین دہلویؒ اور شاہ عبد القادر دہلویؒ کے بھتیجے اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے پوتے تھے۔
سید احمد بریلویؒ نے سکھوں کے خلاف جو جہاد کیا تھا آپ اس میں اُن کے دست راست رہے اور بالآخر بالاکوٹ ضلع ہزارہ میں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ آپ بعض روایات کے مطابق بالاکوٹ میں ہی سید احمد بریلویؒ کے ساتھ مدفون ہیں۔ ان کی مشہور کتاب تقویۃ الایمان ہے۔ اس کے علاوہ اصول فقہ، منصب امامت، عبقات، مثنوی سلک نور اور تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین بھی ان کی تصانیف ہیں۔
وہ اپنی کتاب’’منصب امامت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ
٭…’’امام رسول کا نائب اور امامت ظل رسالت ہے۔ نائب کے احکام کو منیب سے پہچانا اور ظل کی حقیقت کو اصل سے معلوم کیا جاتا ہے‘‘
(منصب امامت از شاہ اسمٰعیل شہیدؒ صفحہ 8)
٭…’’پس جو کوئی مذکورہ تمام کمالات میں انبیاء اللہ سے مشابہت رکھتا ہوگا اس کی امامت تمام کاملین سے اکمل ہو گی۔ پس یہ ضرور ہوگا کہ اس امام اکمل اور انبیاء اللہ کے درمیان سوائے نبوت کے امتیاز ظاہرہ نہ ہوگا۔ پس ایسے شخص کے حق میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر خاتم الانبیاءﷺ کے بعد کوئی شخص مرتبہ نبوت سے سرفراز ہوتا تو بے شک یہی اکمل الکاملین سرفراز ہوتا جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے لو کان نبیا من بعدی لکان عمر اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا ‘‘
(منصب امامت از شاہ اسمٰعیل شہیدؒ صفحہ 85)
٭…’’امامت سے مراد یہ ہے کہ انبیاء کرام کے کمالات میں مشابہت تامہ حاصل ہو ‘‘
(منصب امامت از شاہ اسمٰعیل شہیدؒ صفحہ 83)
ایک اور بزرگ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی ہیں۔ آپ کا مکمل نام شیخ احمد سر ہندی ابن شیخ عبد الاحد فاروقی ہے۔ پیدائش26؍جون1564ءاوروفات10؍ دسمبر 1624ءکو ہوئی۔ آپ دسویں صدی ہجری کے نہایت ہی مشہور عالم و صوفی تھے۔ آپ کو سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی بھی حاصل رہی اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے۔ سرہند میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔
بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کے بعد تجدید دین کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مجددمبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ علما ءکا اتفاق ہے کہ دوسرے ہزار سال کے مجدد آپ ہی ہیں اسی لیے آپ کو مجدد الف ثانی کہتے ہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ
’’کمل تابعان انبیاء علیھم الصلوۃ والتسلیمات بحجت کمال متابعت وفرط محبت بلکہ بمحض عنایت وموہبت جمیع کمالات انبیاء متبوعہ خود را جذب می نمایند وبکلیت برنگ ایشاں منصبغ می گردند حتی کہ فرق نمی ماند درمیان متبوعان وتابعان الا بالاصالت والتبعیتہ و الاولیتہ والا خریتہ ‘‘
’’انبیائے علیھم الصلوٰۃ والسلام کے کامل تابعدار کمال متابعت اور زیادہ محبت کے باعث بلکہ محض عنایت و بخشش سے اپنے متبوع انبیاء کے تمام کمالات کو جذب کر لیتے ہیں اور پورے طور پر ان کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں حتی کہ تابعوں اور متبوعوں (یعنی نبی اور امتی) کے درمیان سوائے اصالت اور تبیت( اصل اور تابع ) اور اولیت اور آخریت (اول اور آخر)کے کچھ فرق نہیں رہتا۔‘‘
(اردو ترجمہ مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندی دفتر اول صفحہ 568)
پس ان حوالہ جات سے واضح ہوا کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے اگر اپنی کتب میں ظلی یا تابع نبی کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں تو آپؑ سے قبل بزرگان امت نے بھی انہی معنوں میں ان الفاظ کو استعمال کیا ہوا ہے۔ گو یہاں واضح ہو کہ اگر پہلے بزرگوں نے یہ اصطلاحیں استعمال نہ بھی کی ہوتیں تب بھی حضرت مسیح موعودؑ پر کوئی اعتراض نہ ہوتا کیونکہ آپ کی حیثیت رسول کریمﷺ کی پیشگوئی کے مطابق حکم اورعدل کی ہے اور آپ مامور من اللہ تھے۔ لہٰذا بزرگان امت کا ان اصطلاحوں کا انہی معنوں میں استعمال کرنے کے حوالہ جات دکھانےسے ہمارا مقصد مخالفین کے سامنے اتمام حجت کرنا ہے۔
(ابن قدسی)
٭…٭…٭