مستورات سے خطاب (1942ء) (قسط اوّل)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 26؍ دسمبر 1942ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور نہایت قیمتی نصائح سے نوازا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اُس کا عمل اُس کے قول کے مطابق نہ ہو۔ اسی طرح حضورؓ نے انفرادی اور اجتماعی اعمال کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے عملی زندگی میں اصلاح کے لیے نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرنے، شرک، چغل خوری اور غیبت سے بچنے کی طرف توجہ دلائی۔ نیز بچوں کی عمدہ تربیت کرنے اور اُن کو بہادر بنانے جیسے اہم امور کی ضرورت بیان فرمائی۔ حضورؓ نے اپنے خطاب کے آخر پر ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
تشہد،تعوذاور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
میںنے ابھی موٹر پر آتے ہوئے دیکھا ہے کہ تمام سڑکیں اور بازار مردوں سے بھرے ہوئے ہیں اور جلسہ گاہ قریباً خالی پڑا ہؤا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ اِس وقت تمہاری بھی یہی حالت ہے۔ قادیان کا جلسہ ایک مذہبی فریضہ ہے یہ دین سیکھنے کی جگہ ہے کھیل کود کی جگہ نہیں میلہ نہیں کہ جس کی روٹیاں تم کھانے آتی ہو۔ 365 دنوں میںسے 362دن تم اپنے کاموں کے لئے خرچ کر دیتی ہو صرف 3دن کے لئے تم قادیان میں آتی ہو وہ بھی اِدھر اُدھرپِھر کر خرچ کردیتی ہو اور سمجھتی ہو کہ تم نے خداتعالیٰ کا حق پورا کردیا درحقیقت میرے قلب کی حالت اِس وقت ایسی ہے کہ میرا دل اِس وقت کوئی تقریر کرنے کو نہیں چاہتا اور جو کچھ میں اِس وقت کہوں گا اپنے نفس پر جبر کرکے کہوں گا۔
دیکھو! منہ سے باتیں کرنا کسی کام نہیں آتا دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی خواہ وہ دینی ہو یا دُنیوی جب تک اُس کا عمل اُس کے قول کے مطابق نہ ہو صحابہؓ کام زیادہ کرتے تھے اور باتیں کم قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق زیادہ باتیں کیاکرتے تھے، منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر کہا کرتے کہ ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے، مومن تو بغیر قسمیں کھائے کہتے تھے مومنوں کے متعلق کہیں ذکر نہیں آتاکہ انہوں نے قسمیں کھائی ہوں لیکن منافقوں کے متعلق قرآن کریم میں آتاہے کہ وہ قسمیں کھاکھاکر کہتے تھے کہ تو اللہ کا رسول ہے حالانکہ وہ جھوٹے ہوتے تھے۔
اِذَا جَاءَکَ الْمُنٰـفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ (المنافقون:2)
عورتوں کے لئے ایک بہت بڑے تغیر کی ضرورت ہے تمہاری حالت تو بالکل مُردوں کی سی ہے نہ تمہارے دماغوں میں اتنی روشنی ہے کہ مفہوم کو عمدگی کے ساتھ سمجھ سکو، نہ تمہاری زبانوں میں اِتنی طاقت ہے کہ مَا فِیْ الضَّمِیْرکو ادا کرسکو۔کئی عورتیں آتی ہیںکہ جی ہم مصیبت زدہ ہیں ہماری بات سن لیجئے۔ وہ مجھے کئی ضروری کاموں سے روک لیتی ہیں۔ مرد ایسے دو سَو میں سے دس ہوتے ہیں مگرعورتیںسَو میں سے نوّے ہوتی ہیں۔مَیں سَوکام چھوڑ کر اُس کی بات سنتا ہوں کہ احمدی جماعت میں سے ہے، مصیبت زدہ ہے۔ ہمدردی کروں لیکن وہ میرا وقت ضائع کردیتی ہے۔عورتیں بہت لمبی چوڑی باتیں شروع کردیتی ہیں۔ مثلاً میں فلاں کے گھر اُس کے جنوبی دروازہ سے اُس کے صحن میں داخل ہوئی، اُس کا صحن بس یہی کوئی تین چار چارپائیوں کا ہوگا صحن سے گزرکر مَیں برآمدہ میں داخل ہوئی پھر میں اندر گئی یہ طریقِ گفتگو بتاتاہے کہ کام ہے ہی نہیں۔ سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تم اپنے لئے کام تجویز کرو۔ زمیندار عورتیں گھروں میںکام کرتی ہیںاُنہیں محنت کی عادت ہوتی ہے لیکن شہری عورتوں کو سِوائے باتوں کے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ امراء کی عورتیںنوکروںکو گالیاںدیتی رہتی ہیںسارا دن جھک جھک کرنے میں گزر جاتا ہے وہ پانچ منٹ نوکر کو صرف اِس لئے جھاڑتی ہے کہ تُونے پیالی کیوں صاف نہیں کی حالانکہ اگروہ خود کرے تو ایک منٹ میںپیالی صاف ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ قطب مینار پر صرف دو منٹ کے لئے چڑھتے ہیں لیکن اُس پر اپنا نام لکھ جاتے ہیں کہ فلاں بن فلاں اِس جگہ فلاں دن آیا تھا وہ گوارا نہیں کرتے کہ صرف دو منٹ کے لئے بھی آکر یونہی واپس چلے جائیں بلکہ اپنی نشانی چھوڑ کر جاتے ہیں۔ مینارۃ المسیحؑ ایک مقدس جگہ ہے بعض نادان اِس پر چڑھ کر اپنا نام لکھ جاتے ہیں۔ تم خدا کی اِس دنیا میں پچاس ساٹھ سال رہ کر جاتی ہو لیکن اتنا بھی نشان چھوڑکرنہیں جاتی ہو کیا تم کہہ سکتی ہو کہ تمہاری ماں، تمہاری دادی، تمہاری نانی وغیرہ تمہارے لئے کوئی نشان چھوڑکر گئی ہیں؟ بائیبل میں آتا ہے کہ آدم تیرے گناہ کی یہ سزا ہے کہ تیری بیٹی تجھے نہیں بلکہ اپنے خاوند کو چاہے گی اور تیرابیٹا تجھے نہیں بلکہ اپنی بیوی کو چاہے گا۔ ایک شخص آتا ہے کہتاہے ابّاجان خط آیا ہے بچّہ بیمارہے میں جائوں؟ تو باپ اُس کے احساسات کو مدِّ نظر رکھ کر اجازت دیدیتا ہے کہ جائو حالانکہ اگر وہ احسان شناس ہوتا احساس رکھتا تو ماں کو نہ چھوڑتا، باپ کو نہ چھوڑتا بلکہ اپنے بیوی بچوںکو چھوڑ دیتا وہ کہتا کہ سارے مر جائیں میں اپنے ماں باپ کو نہ چھوڑوں گا۔ تودنیا میں جن چیزوں کو تم نشان سمجھتی ہو وہ نشان نہیں بلکہ نشان مٹانے والے ہیں ایک ہی چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے اور وہ ہے
اَلْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ۔
وہ کام جو خداکے لئے کروگی باقی رہے گا۔ آج ابوہریرہؓ کی اولاد کہاں ہے، مکان کہاں ہیں؟ لیکن ہم جنہوں نے نہ اُن کی اولاد دیکھی، نہ مکان دیکھے، نہ جائیداد دیکھی ہم جب اُن کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔ چند دن ہوئے ایک عرب آیا اُس نے کہاکہ میں بلال ؓ کی اولاد میں سے ہوں اُس نے معلوم نہیںسچ کہا یا جھوٹ مگر میرا دل اُس وقت چاہتا تھا کہ میں اس سے چمٹ جائوں کہ یہ اُس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی۔ آج بلالؓ کی اولاد کہاں ہے، اس کے مکان کہاں ہیں، اس کی جائیداد کہاں ہے؟ مگروہ جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی وہ اب تک باقی ہے اور باقی رہے گی۔
پس سب چیزیں فنا ہوجاتی ہیں لیکن انسان کا عمل فنا نہیں ہوتا اور تم اِس طرف توجّہ نہیں دیتی ہو۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر شخص کا پرندہ ہم نے اُس کی گردن پر باندھ رکھا ہے
وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰـہُ طٰٓئـِـرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ (بنی اسرائیل:14)
اور وہ پرندہ کیاہے؟ اس کا عمل۔ اگروہ نیک ہوگا تواُس کا پرندہ بھی نیک ہوگا، اگر وہ بدہوگا تو وہ بھی بد۔پس عملی زندگی میں اصلاح کی کوشش کرو سینکڑوں ایسی ہوں گی جو دس سال سے آتی ہوں گی مگر انہوں نے ہر سال جلسہ پر آکر کیا فائدہ اُٹھایا؟ عمل دوقسم کے ہوتے ہیں۔ (1) انفرادی اور (2) اجتماعی۔ جب تک یہ دونوں قسم کے عمل مکمل نہ ہوں تمہاری زندگی سُدھر نہیں سکتی نہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ انفرادی اعمال نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، چندے دینا اور سچ بولنا اِس میںکوئی ضرورت نہیں کہ بیس پچیس اَور عورتیں ہوں جو تمہارے ساتھ مل کر یہ کام کریں یہ انفرادی اعمال ہیں جو ایک آدمی سے تعلق رکھتے ہیں کسی جتھے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام ایسے ہیں کہ ان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ ہمارے ساتھ اَور عورتیں شامل نہ تھیں اس لئے میں نے نماز نہیں پڑھی یا اس لئے روزہ نہیں رکھا کہ اور روزہ رکھنے والے نہ تھے۔ خداتعالیٰ قیامت کے دن اُس آدمی کو نہیں چھوڑے گا جو کہے گا کہ نماز اِس لئے نہیں پڑھی کہ جماعت نہ تھی یا روزہ اس لئے نہیں رکھا کہ اَور جماعت نہ تھی، زکوٰۃ اِس لئے نہیں دی کہ جماعت نہ تھی قیامت کے دن تم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ جماعت ساتھ نہ تھی اِس لئے ہم یہ کام نہ کرسکیں اِس لئے نماز چُھٹ گئی، حج چُھٹ گیا۔ یہ انفرادی کام ہیں اِن کو ایک آدمی اپنے طور پر کر سکتاہے خواہ اُس کے ساتھ اَور کوئی لوگ ہوں یا نہ ہوں۔
دوسرے اعمال اجتماعی اعمال ہیں۔ وہ ایسے کام ہیں جو مِل کرکئے جاتے ہیں جب تک جماعت ساتھ نہ ہو وہ کام مکمل نہیں ہوسکتے مثلاً باجماعت نماز مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں گوپسندیدہ ہے لیکن مرداگر باجماعت نماز نہیں پڑھے گا تو باوجود اس کے کہ وہ نمازیں پڑھتا ہوگاوہ قیامت کے دن مُجرم ہوگا۔ اگر تم باجماعت نماز نہیں پڑھوگی تواللہ تعالیٰ یہ نہیں کہے گاکہ تم مُجرم ہو اگر تم نماز باجماعت پڑھوگی تو مردوں سے اچھی ہوگی وہ دوسروں سے تمہیںزیادہ ثواب دے گا لیکن مرد اگر باجماعت نماز نہ پڑھے گا تو باوجود اِس کے کہ وہ وقت خرچ کرے گا دعاکرے گا خداکے حضور اُسے کہا جائے گاتمہاری نماز ناقص رہ گئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جہنّم میں جائے گا ہو سکتاہے کہ اُس کی دوسری نیکیاں اِس قدر ہوں کہ وہ اِس گناہ کو ڈھانپ لیں اللہ تعالیٰ کے ہاں تول ہوتاہے نیکیوں کا مقابلہ ہوتاہے بعض بدیاں ایسی ہیںکہ وہ اکیلی جہنّم میںلے جاتی ہیں مثلاً شرک، اللہ کاانکار، اس کے فرشتوں کا انکار، حشر نشر کاانکا ر، قیامت کا انکار، رسول پر ایمان نہ لانا، خداکی کتاب کا انکار یہ ایسی بدیاں ہیں جو اکیلی جہنّم میں لے جاتی ہیں یہ بڑے بڑے پہاڑ ہیں ان کے مقابلہ میں تمہاری نیکیاں چھٹانک چھٹانک کی رہ جاتی ہیں۔
(جاری ہے)