عربی زبان میں خدا داد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشان (قسط دوم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا فصیح وبلیغ عربی زبان سیكھنے كا دعویٰ ، اس كے دلائل اور ممكنہ اعتراضات كا علمی ردّ
لغات عرب كی وضاحت كی اہمیت اور اس كے نتائج
علامہ سیوطی نے المزهر میں اختلاف لغات كے فوائد كے بیان میں ابن جنّی كا یہ قول نقل كیا ہے جو بڑی اہمیت كا حامل ہے:
’’اللُّغَاتُ عَلَى اخْتِلافِها كُلّها حُجَّةٌ.‘‘
یعنی تمام تر لغات حجت ہیں۔
نیزعلماء كا اقرار ہے كہ تمام تر لغات جمع ہی نہیں ہوئیں اور جو جمع ہو سكی ہیں وه تعداد میں بہت كم ہیں۔
اب چونكہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا دعویٰ چالیس ہزار لغات عرب كے سكھائے جانے كا ہے، اس لیے ہو سكتا ہے كہ ان میں بعض ایسی لغات بھی شامل ہوں جو جمع نہیں ہوئیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں آنے والے بعض اسالیب یا کلمات یا لغات کو اگر کوئی اپنی دانست میں غیر معروف پا كر ان پر اعتراض كر ے گا تو یہ بات اس كی اپنی جہالت كا ثبوت ہو گی۔
٭…لغات عرب كے موضوع كی اس وضاحت كے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی كتب میں آنے والے بہت سے ایسے كلمات فصیح اور لغات عرب میں سے قرار پاتے ہیں جنہیں بادی النظر میں سہو یا خطا سمجھا جاتا ہے۔
٭…جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی تحریرات میں اس طرح كی مثالیں آتی ہیں تو ہم جواز كے طورپر لكھتے ہیں كہ یہ فلاں قبیلہ كی لغت ہے اس لیے درست ہے۔ یہ ایك دفاعی مؤقف ہے، لیكن اگر حضور علیہ السلام كے دعویٰ میں یہ بات واضح طورپر بیان كر دی جائے كہ ان تمام لغات كا حضور علیہ السلام كو علم دیا گیا تھا اور اس كا ظہور آپ كے كلام میں فلاں فلاں مقام پر ہوا ہے، تو یہ بات آپ علیہ السلام كے خدا داد علم كا ثبوت اور آپ كی كامل وسعت علمی اورعظمت كی دلیل بن جاتی ہے۔
مثلاً ہمزه كی تخفیف اور اسے یاء سے بدلنا جیسے بریئون كی بجائے بریّون۔ اور بئركی بجائے بیر وغیره لكھنے كی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے كلام میں بہت زیاده ہیں اور لغاتِ عرب کے بارے میں گذشتہ قسط میں کی جانے والی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے كہ یہ فصیح لغت ہے۔
اسی طرح الفاظ كو اس كے معنے پر حمل كرتے ہوئے تذكیر وتانیث لانے كی مثالیں بھی حضور علیہ السلام كے كلام میں بہت زیاده ہیں۔ جیسے آپؑ نے عربوں كو مخاطب كرتے ہوئے اپنی كتاب التبلیغ میں تحریر فرمایا ہے كہ
’’ يَا أَهْلَ أَرْضِ النُّبوَّةِ وَجيرانَ بَيْتِ اللّٰهِ العُظْمَى۔ ‘‘
اس میں حضورؑ بیتكی صفت عظیمكی بجائے عظمی لاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے كہ بيت الله سےآپ كی مراد الكعبة ہے جو مؤنث ہے۔
اسی طرح
’’وَأَمَّا الآفَاتُ الرّوحانيَّةُ فَيُهْلِكُ الجِسْمَ والرّوحَ والْإيمانَ مَعًا۔ ‘‘ (الاستفتاء)
میں الآفَاتُ كو جو كہ مؤنث ہے المرضپر محمول كر كے يُهلك یعنی مذكر كا صیغہ لایا گیا ہے۔
اور
’’وَإِنَّ القِصَصَ لَا تَجْري النَّسْخُ عَلَيْهَا كَمَا أَنْتُمْ تُقِرُّوْنَ۔ ‘‘ (الخطبة الإلهامية)
میں النسخ مذكر ہے لیكن اس كو عملیة النَّسْخ یا قاعدة النَّسْخ پر محمول كر كے مؤنث كا صیغہ لایا گیا ہے وغیره وغیره۔
٭…مذكوره بالا اسباب اختلافِ لغاتِ عرب كو پڑھیں تو ان میں سے ایك سبب، بعض حروف كی تقدیم وتاخیر ہے۔ مثلاً بعض عرب صاعِقةكو صاقِعةٌ پڑھتے یا لكھتے ہیں۔ اس كے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی كتاب (حجة الله) كی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں :
’’وَلَا رَيْبَ أَنَّهُمْ هُم العِلَلُ الموجِبَةُ لِفِتْنَتِهِ، وَمَنْبتُ شُعْبَتِهِ، وَجرْمُوثَةُ شذْبَتِهِ۔ ‘‘
اگر عربوں كی ایك لغت حروف كی تقدیم وتاخیر سے صاعِقة سے صاقِعةٌ بن جاتی ہے تو اس پر قیاس كرتے ہوئے خیال كیا جا سكتا ہے كہ ایسی ہی كسی لغت كے تحت یہاں جرثومة سے جرْمُوثَة بننا بھی ممكن ہے۔ جو كہ غلطی یا سہو كتابت نہیں ہے بلكہ ایك درست لغت كا استعمال ہو سكتا ہے۔
٭…قلب ِحروف میں بعض قبائل مختلف كلمات میں (ه) كو (ح) سے اور اس كے برعكس بدل دیتے تھے۔ مثلاً لغت كی كتاب المخصص ميں ہے کہ بعض كَدَحَهُ كو كَدَههُ، اور يَهْتَبِش كو يَحْتَبِش، الحَفيف كو الهَفيف، اور أَهَمَّني الأمر كو أَحَمَّني الأمر، قَمَحَ البعيرُ كو قَمَهَ، طَحَره كو طَهَرَه، اور مَدَحَه كو مَدَهَه بھی پڑھتے ہیں۔ مزید لكھا ہے كہ نبی كریم صلی الله علیہ وسلم كے بارے میں آتا ہے كہ آپ نے عمار كو فرمایا: وَيْهَكَ ابنَ سُمَيَّة جبكہ اصل میں وَيْحكَ ہونا چاہیے تھا۔ اگر یہ حدیث كہیں محفوظ ہے تو اس میں ح كو ھـسے بدل دیا گیا ہے اور یہ أفصح اللغات میں سے ہے۔
(ماخوذ از المُخَصّص، كتابُ الأضدادِ، بَابُ مَا يَجِيءُ مقولًا بِحَرفَين وَلَيسَ بدلًا)
اب مذكوره بالا قاعده كو ذهن میں ركھ كر حضور علیہ السلام كی كتب میں دیكھیں تو آپ نے اپنی كتب میں بعض جگہ محجّة الاهتداءكو ح كی بجائے ه سے مهجّة الاهتداء لكھا ہے۔ كیا اس كو مذكوره بالا اسلوب پر قیاس نہیں كیا جاسكتا؟ اگر عرب طَحَرهكو طَهَرَه، مَدَحَهكو مَدَهَه بھی پڑھ لیتے تھے اور اگر آنحضرتﷺ نے حضرت عمارؓ كو وَيْحكَكی بجائے فرمایا: وَيْهَكَ ابنَ سُمَيَّة تو اسی نہج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا محجّة الاهتداء كو ح كی بجائے ه سے بدل كر مهجّة الاهتداءلكھنا عین اسلوب عرب اور لغات عرب كے مطابق بنتا ہے اور اس پر اعتراض كرنے والا لغات عرب كے مضمون سے اپنی جہالت كا ثبوت دے رہا ہوتا ہے۔
نیز حضور علیہ السلام كی كتاب حجة الله میں ایك لفظ حوجاء آیا ہے اورمذكوره بالا اسلوب كے مطابق یہاں بھی ح كو ه سے بدلا ہوا تصور كیا جائے تو ثابت ہو گا كہ اصل میں هوجاء ہے جس كی ه كو ح سے بدل كر حوجاء لكھا گیا ہےجو ایك فصیح لہجہ ہے اور لغات عرب میں سے ایك معروف لغت ہے۔
اسی طرح حضور علیہ السلام كی عربی كتب میں دیگر كئی ایسی قدیم عربی لغات بھی پائی جاتی ہیں جو آج كی عربی تحریرات میں ناپید ہیں۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں :
1۔ عربی زبان میں دیگر زبانوں كے برعكس واحد وجمع كے علاوه دو كے عدد (یعنی مثنّی) كے بھی علیحده قواعد ہیں۔ عربی میں مثنّٰییا تثنیہ ’الف‘ یا ’الف ونون‘ كے ساتھ آتا ہے۔ مثلاً جنةٌ كا مثنّٰی، جنتان ہوگا یعنی دو جنتیں یا دو باغ۔ یہ اس كی رفع كی حالت ہے۔ جبكہ نصب اور جر كی حالت میں الف یاء میں بدل جاتا ہے۔ یعنی جنتان كی حالت، نصب اور جر میں جنتین ہوگی۔ قرآن كریم میں رفع كی حالت كی مثال اس آیت میں ملاحظہ كی جاسكتی ہے:
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتَانِ (الرحمٰن:47)۔
اور نصب اور جر كی حالت میں قرآن كریم میں اس كی مثال یہ ہے:
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ۔ (الكہف:33)
بعض قبائل جیسے بنو الحارث ابن كعب، خثعم، زبید، اور كنانہ وغیره كی لغات میں ان قواعد كے برخلاف رفع نصب اور جر تینوں صورتوں میں مثنّٰیكی حالت تبدیل نہیں ہوتی اور ہر تینوں حالات میں الف برقرار رہتا ہے اور یاءمیں نہیں بدلتا۔ (النحو الوافي 1/124 – 123، نيز جامع الدروس العربية للشيخ مصطفى الغلاييني)
مثنّٰی كے بارے میں مذکورہ بالا اسلوب پر لغت عرب كی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے كلام میں بھی پائی جاتی ہیں لیكن بعض معترضین اپنی جہالت كی وجہ سے جب ایسی مثالوں كو آج كے عام معروف قواعد كے خلاف پاتے ہیں تو انہیں اپنے اعتراض كا نشانہ بناتے ہیں۔ ذیل میں ان پرانی لغات اور اس قاعده كی كچھ مثالیں حضور علیہ السلام كے كلام سے پیش ہیں۔
٭…’’مِنْهَا أَنَّ الشُّهُبَ الثواقِبَ انْقَضَتْ لَهُ مَرَّتَانُ۔ ‘‘(الِاسْتِفْتاءِ).
٭…’’أَلّا تَعْلَمونَ أَنَّ هَذَان نَقيضانِ فَكَيْفَ يَجْتَمِعَانِ فِي وَقْتٍ واحِدٍ أَيُّهَا اَلْغافِلونَ۔ ‘‘(التَّبْليغُ)
٭…’’إِنَّ فِي هَذَا الِاعْتِقادِ مُصِيْبَتَانِ عَظِيْمَتَانِ۔‘‘ (التَّبْليغُ)
ان تمام مثالوں میں مثنّٰیمنصوب ہے جسے معروف قواعد كے اعتبار سے الف اور نون کی بجائے یاء اور نون كے ساتھ آنا چاہیے تھا لیكن جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ بعض پرانی لغات كے مطابق یہ درست ہے۔
2۔ كِلَا اور كِلْتَا كے بارے میں عام رائج قاعده یہ ہے كہ جب یہ اسم ظاہر كی طرف مضاف ہوں تو رفع نصب اور جر تینوں حالتوں میں ان كا الف برقرار رہتا ہے۔ لیكن اس معروف قاعده سے ہٹ كر قبیلہ كنانہ كی لغت میں مثنّی كے عام قاعده كی طرح ان كی بھی رفع الف كے ساتھ اور جرّ ونصب یاء كے ساتھ آتی ہےجو عام رائج قواعد سے ہٹ كر ہے۔ اس كی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے كلام میں یہ ہے:
’’لِيَدُلّ لَفظُ الأُنسَين عَلَى كِلْتَيْ الصِّفَتَين۔‘‘
(منن الرحمن)
جس كو اس لغت كا علم نہیں ہے وه جہالت كے باعث كہے گا كہ یہاں پر كلتا الصفتین ہونا چاہیے۔ لیكن اس كی بات غلط ہے كیونكہ یہ بھی عربی لغات میں سے ایك لغت ہے۔
3۔ قبیلہ بنی ربیعہ كی ایك لغت یہ ہے كہ وه كسی بھی كلمہ كی نصب كی حالت كی تنوین میں الف نہیں لكھتے تھے۔ مثلا ًوه قراءت كتابًا كو الف كے بغیر قراءت كتابً لكھتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے كلام میں اس لغت كی مثال بھی پائی جاتی ہے آپ فرماتے ہیں :
’’وَتَتَعَهَّدها صَباحً وَمَساءً زُمَر الْمُعْتَقدينَ۔‘‘ (مَكْتوب أَحْمَد)
صباحًا كی بجائے آپ علیہ السلام نے صباحً لكھا ہے جو كہ ایك قدیم لغت ہے۔
٭…ایك سببِ اختلافِ لغاتِ عرب یہ ہے كہ بعض قبائل بعض حروف كو قلب كر كے ان كی جگہ دوسرے حروف استعمال كرتے تھے مثلاً نون كو قلب كے ساتھ میم لكھتے اور پڑھتے تھے۔ اس كے بارے میں لسان العرب كی یہ عبارت ملاحظہ ہو:
’’وَفِي كِتابِهِ لِوائِلِ بْنِ حُجْرٍ: مَنْ زَنَى مِم بِكْر وَمَن زَنَى مِم ثَيِّب، أَيْ مِنْ بِكْرٍ وَمِن ثَيِّبٍ، فَقَلَبَ النُّونَ مِيمًا۔‘‘
(لِسانُ العَرَبِ تَحْتَ كَلِمَةِ ’’موم‘‘)
وائل بن حجر نے اپنی كتاب میں
مَنْ زَنى مِمْ بِكْرٍ ومَنْ زَنى مِمْ ثَيِّب
لكھا یعنی مِنْكی بجائے مم لكھا ہے اور یوںاس نے نو ن كو میم سے قلب كردیا ہے۔
اسی طرح لغات عرب كے اختلاف كے اسباب میں مختلف حروف مثلاً غین كو خاء اور جیم كو هاء وغیره سے بدلنے كی مثالیں بھی موجود ہیں۔
اگر ان اختلافات كو بھی ذہن میں ركھا جائے تو اعتراض كرنے والوں كے كئی اعتراضات كا جواب خود بخود آجائےگا۔
كوئی كہہ سكتا ہے كہ ضروری نہیں كہ ہماری ہر توجیہ اور ہر قیاس درست ہو كیونكہ ایسے امور پر قیاس كر كے مختلف استعمالات كا بلا حدود وقیود دروازه نہیں كھولا جاسكتا بلكہ ایسے امور عربوں سے سماعی طور پر لیے جانے چاہئیں یعنی جو انہوں نے استعمال كیا ہے اس كی اجازت ہے اور جو نہیں كیا اس كی گنجائش نہیں ہے۔
اس كا جواب یہ ہے كہ اہل لغت كے نزدیك یہ بات معروف ہے كہ عربوں كی سماعی لغات میں سے جو كچھ محفوظ ہوا ہے وه بہت تھوڑا ہے اور جو ضائع ہو گیا وه بہت زیاده ہے، اس لیے اس نہج پر لكھی گئی كسی تحریر كو خارج از امكان نہیں قرار دیا جاسكتا، كیونكہ ہوسكتا ہے یہ بھی لغات عرب میں سے كوئی لغت ہو، خصوصًا اگر لكھنے والے كا دعویٰ ہو كہ اسے لغات عرب كا علم خدا تعالىٰ كى طرف سے دیا گیا ہے تو پھر یہ امكان یقین كی حد تك بڑھ جاتا ہے كہ جو عام طریق سے ہٹ كر لكھا گیا ہے وه ضرور لغات عرب میں سے كوئی لغت ہو گی۔
ہمارے اس مؤقف كى تائید میں درج ذیل حوالہ جات ملاحظہ ہوں جو اس مضمون پر كافی وشافی روشنی ڈالنے والے ہیں۔
پہلی بات حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ كا قول ہے جسےمحمد غنیمی صاحب نے اپنی كتاب میں درج كیا ہے۔ :
’’كَانَ الشِّعْرُ عِلْمَ قَوْمٍ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ عِلْمٌ أَصَحَّ مِنْهُ… فَجَاءَ الإِسْلامُ فَتَشاغَلَتْ عَنْهُ العَرَبُ، وَتَشاغَلوا بِالْجِهَادِ وَغَزْوِ فارِسٍ والرّومِ، وَوَلهتْ عَنِ الشَّعْرِ وَرِوايَتِه، فَلَمَّا كَثُرَ الإِسْلامُ، وَجَاءَت الفُتُوحُ وَاطْمَأَنَّت العَرَبُ بِاَلْأَمْصارِ، راجعوا رِوايَةَ الشِّعْرِ، فَلَمْ يؤولوا إِلَى دِيوَانٍ مُدَوَّنٍ، وَلَا كِتابٍ مَكْتوبٍ، وَأَلَّفوا فِي ذَلِكَ، وَقَدْ هَلَكَ مِنَ العَرَبِ مَنْ هَلَكَ بِالْمَوْتِ والْقَتْلِ، فَحِفْظوا أَقَلَّ ذَلِكَ، وَذَهَبَ عَلَيْهمْ مِنْهُ كَثيرٌ۔‘‘
(مُحَمَّد غُنَيْمي هِلال، النَّقْدُ الأَدَبيُّ الحَديثُ صفحہ6 طَبْعَةُ دَارِ الثَّقافَةِ بَيْروتَ)
یعنی شعر، قوم عرب كے اس قدردرست علم كا مصدر تھا جس سے زیاده درست اور كوئی مصدر ان كے پاس نہیں تھا…جب اسلام آیا تو عرب لوگ جہاد میں اورفارس وروم كی طرف پیش قدمی وفتوحات میں مصروف ہو گئے اور شعر اور اس كی روایت سے غفلت اختیار كی۔ پھر جب اسلام بكثرت پھیل گیا اور فتوحات ہوئیں اور عرب لوگ مفتوحہ ملكوں میں پُراطمینان زندگی بسر كرنے لگے تو انہوں نے شعر كی روایت كی طرف رجوع كیا۔ اس وقت انہوں نے دیكھا كہ نہ تو كوئی شعر كا مدوّن دیوان ہے نہ اس بارے میں كوئی لكھی ہوئی كتاب۔ چنانچہ اس وقت انہوں نے اس بارے میں لكھنا شروع كیا جبكہ اس وقت تك بہت سے عرب شعراء وبلغاء یاتو وفات پا چكے تھے یا قتل ہو گئے تھے۔ تاہم اس وقت انہیں جو قلیل مقدار میں علم مل سكا انہوں نے اسے محفوظ كر لیا لیكن اس علم كا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔
دوسری بات ابو عمرو بن علاء كا قول ہے جو كہ قراء سبعہ میں شامل ہیں اور بہت بڑے عالم اور نحوی سمجھے جاتے ہیں وه لكھتے ہیں :
’’مَا انْتَهَى إِلَيْكُمْ مِمَّا قَالَت العَرَبُ إِلَّا أَقَلَّهُ، وَلَوْ جَاءَكُمْ وَافِرًا لجاءَكُمْ عِلْمٌ وَشِعْر كَثير‘‘
(طَبَقاتُ فُحولِ الشُّعَراءِ تأليف ابْن سَلام الجُمحي، صفحہ 25 تَحْقيق مَحْمود مُحَمَّد شاكِر سَنَةَ 1974ء)
یعنی تم تك عربوں كے كلام اور اقوال كا محض ایك قلیل حصہ ہی پہنچا ہے۔ اور اگر یہ وافر مقدار میں تم تك پہنچتا تو تمہارے پاس پرانے عربوں كا بہت سا علم اور بہت سا شعری سرمایہ ہوتا۔
تیسری بات چوتھی صدی ہجری كے مشہور ومعروف نحوی ابن جنی كا قول ہے جو انہوں نے اپنی كتاب (الخصائص) میں لكھا ہے۔ انہوں نے اس كتاب میں ایك باب باندھا ہے جس كا عنوان ہے: اختلاف اللغات وكلها حُجة یعنی لغات عرب كے اختلاف اور تمام لغات کےحجت ہونے کا بیان۔ اس عنوان كے تحت وه مشہور ورائج لغات عرب كی بجائے غیر مشہوراورغیررائج لغات كے استعمال كے بارے میں لكھتے ہیں :
’’فَإِذَا كَانَ الأَمْرُ فِي اللُّغَةِ المُعَوَّل عَلَيْهَا هَكَذَا، وَعَلَى هَذَا فَيَجِبُ أَنْ يَقِلَّ اسْتِعْمالُها، وَأَنْ يَتَخَيَّرَ مَا هوَ أَقْوَى وَأَشيَعَ مِنْهَا، إِلَّا أَنَّ إِنْسَانًا لَوْ اسْتَعْمَلَهَا لَمْ يَكُنْ مُخْطِئًا لِكَلَامِ العَرَبِ، لَكِنَّهُ كَانَ يَكونُ مُخْطِئًا لِأَجْوَدِ اللُّغَتَيْنِ. فَأَمَّا إِنْ احْتَاجَ إِلَى ذَلِكَ فِي شِعْرٍ أَوْ سَجَعٍ فَإِنَّهُ مَقْبولٌ مِنْهُ، غَيْرُ مَنْعِي عَلَيْه. وَكَذَلِكَ إِنْ قَالَ: يَقُولُ عَلَى قِيَاس مَنْ لُغَته كَذَا كَذَا، وَيَقُولُ عَلَى مَذْهَبِ مَنْ قَالَ كَذَا كَذَا. وَكَيْفَ تَصَرَّفَت الْحَالُ فَالْناطِقُ عَلَى قِيَاسِ لُغَةٍ مِنْ ’’لُغاتِ العَرَبِ‘‘ مُصيبٌ غَيْرُ مُخْطِئٍ، وَإِنْ كَانَ غَيْر مَا جَاءَ بِهِ خَيْرًا مِنْهُ۔ ‘‘
(الخَصائِصُ الجزء الثاني صفحہ 14، باب في العربي يسمع لغة غيره أيراعيها ويعتمدها، أم يلغيها ويطرح حكمها؟)
یہ عربی تحریر چونكہ پرانی اور مختصر ہونے كی بنا پر كسی قدر مشكل ہے اس لیے اس كا لفظی كی بجائے كسی قدر تفصیلی اور وضاحتی ترجمہ ذیل میں درج كیا جاتا ہے۔ ابن جنی كہتے ہیں :
غیر مشہور لغات كا استعمال كم ہونا چاہیے۔ اور كاتب كو چاہیے كہ وه لغات عرب میں سے سب سے مضبوط اور مشہور ورائج لغات كا انتخاب كرے۔ لیكن اگر كوئی مشہور لغت كے بالمقابل غیر مشہور لغات كا استعمال كرے تو اسے كلام عرب كے استعمال میں غلطی خورده نہیں كہا جائے گا۔ تاہم بہتر اور مشہور لغت كو چھوڑكر اس پر غیر مشہور لغت كو ترجیح دینے كی غلطی ضرور اس سے سرزد ہو گی۔ تاہم اگر وه شعر میں یا مسجع مقفی عبارت میں ایسا كرتا ہے تو یہ قابل قبول امر ہے اور اس كی مناہی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر كوئی بات كرتے وقت حوالہ دے كر لكھے كہ یہ فلاں قبیلہ كی زبان پر قیاس كر كے لكھا گیا ہے یا فلاں صرفی نحوی مذهب كے مطابق درج كیا گیا ہے تو بھی ایسی غیر مشہور لغات كے استعمال میں وه حق بجانب ہو گا۔ قصہ مختصر یہ كہ عربوں كی كسی بھی لغت پر قیاس كر كے بولا جانے والا كلام درست سمجھا جائے گا اورایسا شخص غلطی خورده نہیں كہلائے گا۔ اگرچہ یہ كہنا بجا ہو گا كہ وه اگر اس غیر مشہور لغت كی جگہ مشہور لغت استعمال كرتا تواس سے بہتر تھا۔
عجیب بات یہ ہے كہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے جن بعض لغات یا استعمالات پر اعتراض كیا جاتا ہے ان میں سے اكثرمقامات حضور علیہ السلام كے سجع اور شعر سے لیے گئے ہیں اور اس بارے میں ابن جنی كہتے ہیں كہ ان دو مقامات پر غیر مشہور ورائج لغات كا استعمال جائزہے اور اس كی كوئی مناہی نہیں ہے۔
پھر بہت سی لغات كے بارے میں تحقیق سے ثابت ہوجاتا ہے كہ یہ فلاں قبیلہ كی لغات كے مطابق درست ہے۔ لیكن اگر اس كے علاوه بھی آپ نے ایسی لغات یا اسالیب یا استعمالات لكھی ہوں جن پر یہ كہہ كر اعتراض كیا جائے كہ اس كی نظیر نہیں ملتی تو اس كو آپ كا یہ دعویٰ درست قرار دیتا ہے كہ آپ كو الله تعالیٰ نے چالیس ہزار لغات عرب سكھائی ہیں۔ اور چونكہ لغات عرب كو محفوظ كرنے میں بہت كوتاہی كی گئی ہے اور ہم تك ان لغات كا بہت كم حصہ پہنچا ہے اس صورت حال میں حضور علیہ السلام كے دعویٰ كی تردید كرنے كا كسی كے پاس كوئی جواز نہیں ہے۔
چوتھی بات ابن جنی كا یہ قول ہے جو اس نے اپنی كتاب المحتسب میں لكھا ہے:
’’لَيْسَ يَنْبَغِي أَنْ يُطْلَقَ عَلَى شَيْءٍ لَهُ وَجْهٌ فِي العَرَبيَّةِ قائِمٌ۔ وَإِنْ كَانَ غَيْرُهُ أَقْوَى مِنْهُ- أَنَّهُ غَلَطٌ.‘‘
(المُحْتَسِبُ فِي تَبْيينِ وُجوهِ شَواذِ القِراءاتِ والْإيضاحِ عَنْهَا جلد1 صفحہ236)
یعنی عربی زبان كے كسی بھی استعمال كی اگركوئی بھی صورت اس زبان میں كہیں موجود ہے تو اسے غلط نہیں كہا جاسكتا خواه اس سے زیاده مضبوط استعمالات بھی موجود ہوں۔
پانچویں بات ساتویں صدی ہجری كے مشہور ومعروف علامہ ابو حیان الاندلسی كا قول ہے۔ وه اپنی كتاب التذییل والتكمیل میں لكھتے ہیں :
’’كلُّ ما كان لغةً لقبيلةٍ قِيسَ عليه۔‘‘
(التذييل والتكميل في شرح التسهيل، 28/2)
یعنی اگر كوئی بھی استعمال كسی بھی عربی قبیلہ كی لغت ہو گا تو اس پر قیاس كر كے اس جیسا اسلوب اختیار كیا جاسكتا ہے۔
سولغات عرب كے بارے میں تفصیلی بیان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام كے اس دعویٰ كی عظمت اور آپ كی وسعت علمی كی روشن دلیل ہے اور اس حصہ سے متعلق كلمات وجمل پر اعتراض مخالفین كی جہالت كا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عربی زبان كی فصاحت كے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا قاطع بیان
عربی زبان كی فصاحت كےبارے میں بھی سوال اٹھایا جاتاہے كہ اس سے كیا مراد ہے۔ اس كے بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت شافی بیان درج فرمایا ہے۔
ایك معترض نے اعتراض كیا كہ قرآن كریم میں غیر عربی الفاظ موجود ہیں، اس كا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام نے عربی زبان كی فصاحت كے بارے میں ایك كلیدی نقطہ بیان فرمایا جسے آج كے علماء بھی ماننے پر مجبور ہیں اور عربی زبان كی فصاحت كی حقیقت سمجھنے كے لیے یہ ایك نہایت اہم نقطہ ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’وَأَمَّا مَا ظَنَنْتَ أَنَّ فِي القُرْآنِ بَعْضَ أَلْفاظ غَيْر لِسانِ قُرَيْشٍ، فَقَدْ قُلتَ هَذَا اللَّفْظَ مِنْ جَهِلٍ وَطَيْشٍ، وَمَا كُنْتَ مِنْ المُتَبَصِّرينَ. أَيُّهَا الغَبيُّ وَاَلْجَهولُ الدَّنيُّ، إِنَّ مَدارَ الفَصاحَةِ عَلَى أَلْفاظٍ مَقْبولَةٍ سَواءً كَانَتْ مِنْ لِسانِ القَوْمِ أَوْ مِنْ كَلِمٍ مَنْقولَةٍ مُسْتَعْمَلَةٍ فِي بُلَغاءِ القَوْمِ غَيْرِ مَجْهولَةٍ، وَسَوَاءً كَانَتْ مِنْ لُغَةِ قَوْمٍ واحِدٍ وَمِن مُحاوَراتِهِمْ عَلَى الدَّوَامِ، أَوْ خَالَطَهَا أَلْفاظٌ اسْتِحْلَاهَا بُلَغاءُ القَوْمِ، وَاسْتَعْمَلُوهَا فِي النَّظمِ والنَّثْرِ مِنْ غَيْرِ مَخافَةِ اللَّوْمِ، مُخْتَارِينَ غَيْر مُضْطَرِّينَ. فَلَمَّا كَانَ مَدارُ البَلاغَةِ عَلَى هَذِهِ القاعِدَةِ فَهَذَا هوَ مِعْيارُ الكَلِماتِ الصّاعِدَةِ فِي سَماءِ البَلاغَةِ الراعِدَةِ، فَلَا حَرَجَ أَنْ يَكونَ لَفْظٌ مِنْ غَيْرِ اللِّسانِ مَقْبُولًا فِي أَهْلِ البَيانِ، بَلْ رُبَّمَا يَزيدُ البَلاغَةَ مِنْ هَذَا النَّهْجِ فِي بَعْضِ الأَوْقَاتِ، بَلْ يَسْتَمْلِحُونَهُ فِي بَعْضِ المقاماتِ، وَيَتَلَذَّذونَ بِهِ أَهْلُ الأَفانينِ. وَلَكِنَّكَ رَجُلٌ غَمْرٌ جَهولٌ، وَمَعَ ذَلِكَ مُعَانِدٌ وَعَجُولٌ، فَلِأَجْلِ ذَلِكَ مَا تَعْلَمُ شَيْئًا غَيْرَ حِقْدِكَ وَجَهْلِكَ، وَمَا تَضَعُ قَدَمًا إِلَّا فِي دَحْلِكَ، وَلَا تَدْرِي مَا لِسانُ العَرَبِ وَمَا الفَصاحَةُ، وَلَا تَصْدُرُ مِنْكَ إِلَّا الوَقاحَةُ، وَمَا لُقّنتَ إِلَّا سَبَّ المُطَهَّرَيْنَ‘‘
(نور الحق، روحانی خزائن جلد8صفحہ149-150)
(اردو ترجمہ منقولہ از كتاب نور الحق) ’’اور یہ جو تُو نے خیال کیا کہ قرآن میں بعض ایسے الفاظ ہیں کہ وہ زبان قریش کے مخالف ہیں سو یہ بات تیری سراسر جہل اور نفسانی جوش سے ہے اور بصیرت کی راہ سے نہیں۔ اے غبی اور سفلہ نادان تجھے معلوم ہو کہ فصاحت کا مدار الفاظ مقبولہ پر ہوا کرتا ہے خواہ وہ کلمات قوم کی اصل زبان میں سے ہوں یا ایسے کلمات منقولہ ہوں جو بلغاء قوم کے استعمال میں آ گئے ہوں، اور خواہ وہ ایک ہی قوم کی لغت میں سے ہوں اور ان کے دائمی محاورات میں سے ہوں یا ایسے الفاظ اُن میں مل گئے ہوں، جو قوم کے بلغاء کو شیریں معلوم ہوئے اور انہوں نے ان کے استعمال اپنی نظم اور نثر میں جائز رکھے ہوں، اور کسی ملامت سے نہ ڈرے ہوں، اور نہ کسی اضطرار سے وہ الفاظ استعمال کیے ہوں۔ پس جبکہ بلاغت کا مدار اسی قاعدہ پر ہوا، پس یہی قاعدہ ان عبارات بلیغہ کے لئے معیار ہے جو فصاحت کے آسمان پر چڑھے ہوئے اور بلندی میں گرج رہے ہیں۔ پس اس بات میں کچھ بھی حرج نہیں کہ ایک غیر زبان کا لفظ ہو مگر بلغاء نے اس کو قبول کر لیا ہو بلکہ اس طریق سے تو بسا اوقات بلاغت بڑھ جاتی ہے اور کلام میں زور پیدا ہو جاتا ہے بلکہ بعض مقامات میں اس طرز کو فصیح اور بلیغ لوگ ملیح اور نمکین سمجھتے ہیں اور تفنّن عبارات کے عشاق اس سے لذت اٹھاتے ہیں۔ مگر تُو تو اے معترض ایک غبی اور جاہل ہے اور باوجود اس کے تُو جلد باز اور دشمن حق ہے اسی لئے تو بغیر کینہ اور جہل کے اور کچھ نہیں جانتا، اور بغیر گڑھے کے اور کسی جگہ قدم نہیں رکھتا۔ اور تُو نہیں جانتا کہ زبان عرب کیا شے ہے اور فصاحت کسے کہتے ہیں ؟ اور صرف بے حیائی تجھ میں ہے نہ اور کوئی لیاقت اور تجھ کو تو کسی نے سکھایا ہے کہ تُو پاکوں کو گالیاں دیتا رہے۔ ‘‘
یہ عبارت كئی لحاظ سے بہت بنیادی حیثیت كى حامل ہے۔ فصاحت وبلاغت كے حوالے سے اس عبارت میں مذكور دو ناقابل تردید امور یہ ہیں :
٭…اگر كسی زبان میں دوسری زبان كا كوئی لفظ قابل قبول سمجھا گیا ہو اور قبل ازیں بلغائے قوم كی طرف سے شعر ونثر میں استعمال كیا گیا ہوتو یہ لفظ فصیح سمجھا جائے گا۔
٭…ایسے الفاظ خواه كیسے ہی شاذ اور غیر مشہور ہوں اگر ان كا استعمال كاتب كے ذاتی ارادےسے ہوا ہے اور ایسا اس نے اپنی قلت علمی یا مناسب لفظ كی عدم موجودگی كی صورت میں نہیں كیا تو ایسا لفظ فصاحت وبلاغت كی ذیل میں ہی لكھا جائے گا۔
نتیجہ یہ ہے كہ حضور علیہ السلام كے عربی كلام میں بھی اگر كوئی ا یسے كلمات پائے جائیں تو ان كے ارد گرد استعمال ہونے والے كلمات اور عبارات سے اندازه لگایا جاسكتا ہے كہ كس قدر بے ساختگی كے ساتھ بلاغت وفصاحت اورمسجع ومقفیٰ عبارات كا دھارا بہ رہا ہے، ایسے میں اگر كوئی ایسا لفظ یا تركیب استعمال ہوتی ہے جو بظاہر كسی دوسری قوم كی زبان كی ہے تو ایسے بےساختہ استعمال كی وجہ سے كاتب نے اسے اس زبان كا حصہ بنا لیا ہے اور اس پر اعتراض كرنے والا فصاحت و بلاغت کے مناہج سے ناواقف اور ٍایسے اسالیب سے غافل وجاہل قرار پائے گا۔
حضور علیہ السلام كے موقف كی تائید
عباس حسن (متوفی1979ء) موجوده دَور كے عربی زبان اور علم نحو كے مشہور عالم اور اس میدان میں حجت سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے چار اجزاء میں النحو الوافی كے نام سے ایك كتاب تالیف كی جو نحو كے موضوع پر موجوده دَور كی سب سے بہترین كتاب ہے۔ عباس حسن نے صريح الرأي في النحو العربي.. داؤُه ودواؤُه كے عنوان سے كچھ مقالات لكھے جو پہلی بار پچاس كی دہائی میں مصر كے ایك مجلہ (رسالة الإسلام) میں چھپے۔ ان مقالات میں انہوں نے لغات عرب كے مضمون پر بھی سیر حاصل بحث كی۔ انہوں نےعلم نحو كی چھ عربی قبائل كی فصیح زبان پر بنا ہونے كے مقولہ كا رد كرتے ہوئے كئی صفحات لكھے ہیں۔ ذیل میں ا ن كے ذكر كرده بعض امور كا خلاصہ درج كیا جاتا ہے۔ وه لكھتے ہیں :
دیگر قبائل بھی اسی طرح فصیح تھے جس طرح یہ چھ قبائل۔ اور دیگر قبائل ان چھ قبائل سے كہیں زیاده لغات كے مالك تھے۔ اس سلسلے میں ایسے قبائل پر یہ تنقید كوئی معنی نہیں ركھتی كہ آیا وه شہری علاقے میں رہتے تھے یا دیہاتی میں، ملكی حدود پر رہتے تھے یا وہاں عجمیوں ا ور عیسائیوں كے قریبی علاقوں كے رہائشی تھے۔ كیونكہ جزیرہ نما عرب كے باشندےاور وہاں كے اصیل عربی قبائل ہونے كی وجہ سے ان قبائل كو لفظوں كے بنانے اور نئے الفاظ ایجاد كرنے كا مكمل اختیار اور حق حاصل تھابلكہ یہ بھی حق حاصل تھا كہ وه عجمیوں كی زبان سے جو كلمہ یا تركیب پسند كریں اسے اپنی زبان میں شامل كرلیں۔ اسی نہج پر قدیم عربو ں نے جو غیر عربی كلمات اخذ كر كے استعمال کیےوه معرّب كہلاتے ہیں۔ ایسے معرّب كلمات كا عربی زبان میں موجود ہوناصاف بتاتا ہے كہ عرب عجمیوں كے ساتھ رہے اور ان سے عربوں كا میل جول رہا جس كی بنا پر انہوں نے عجمیوں كی زبان سے جو پسند آیا لے لیا اور اسے اپنی زبان میں داخل كر لیا اور پھر ایسے كلمات ان كی زبان پر بھی جاری ہو گئے اور قرآن كریم میں بھی ان كا ذكر ہے۔
چنانچہ اس بنا پر ہم كسی قبیلہ كی زبان كو رد نہیں كرسكتے كہ اس كا فلاں عجمیوں كے ساتھ میل ملاپ تھا اور اس كی وجہ سے ان كی زبان فصیح نہیں رہی اور اس میں عجمی زبان كا اختلاط ہو گیا ہو گا۔
اگر اس منطق كو مان لیا جائے تو پھر ان مذكوره چھ قبائل كی زبان كو بھی ردّ كرنا پڑے گا كیونكہ قریش كے رحلة ا لشتاء والصیف یعنی سردیوں اور گرمیوں كے تجارتی سفر جاری تھے جس میں وه سردیوں میں یمن اور گرمیوں میں شام كی طرف جاتے تھے اور وہاں رہتے اوروہاں كے قبائل سے ملتے جلتے تھے۔ اسی طرح بعض دیگر قبائل جزیره نما عرب كے شمال میں واقع رومی اور سریانی اور عبرانی قبائل سے اور جنوب میں فارسیوں اور اہل ہند و یونان سے رابطے میں تھے۔
اس لیے مختلف عربی قبائل میں لغوی اعتبار سے تفریق كرنا اور بعض كو بعض پر فوقیت دینا بعید از انصاف ہے۔ چنانچہ اگر كوئی قبیلہ كسی لفظ یا كلمہ وغیره كے اختیار واستعمال میں سب قبائل كے برخلاف اپنا علیحده اسلوب اختیار كرے تب بھی ہمیں اسے قبول كرنے كے سوا چاره نہ ہو گا۔ یہی موقف ابن جنی، ابو حیان، ابوعمرو، ابن فارس اور امام شافعی كا ہے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭