اَلسَّلَامُ عَلیْکُمْ کہنے کی برکات
اَلسَّلاماللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے جس کے معنی میں سلامتی، امن، اور حفاظت پایا جاتا ہے۔ اور اصطلاح میں ’السلام علیکم‘ ایک ایسا دعائیہ کلمہ ہےجو مومن دوسرے مومن سے ملنے پر اسے پیش کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً(النور: 62)
کہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں پر سلامتی بھیجو۔ یہ(سلام) ایک بڑا برکت والا اور پاکیزہ خدائی تحفہ ہے۔
اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ نے فَسَلِّمُوْایعنی تم سلام کرو کا حکم دے کر سلام کرنا ہر مرد و زن پر لازم کر دیاہے۔ اور یہ نہیں کہا کہ صرف اپنے جاننے والوں کو ہی سلام کرو بلکہ ہر ایک کوچاہے تم کسی کو جانتے ہو یا نہیں، سلام کرو۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:وتَقْرَ ءِ السلامَ علی مَن عرفتَ ومَن لَّم تَعرِف (بخاری) یعنی تم ہر ملنے والے کو خواہ اسے جانتے ہو یا نہیں، سلام کیا کرو۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان، مشرکین، بت پرست، یہود سب ملے جلے بیٹھے تھے۔ آپؐ نے ان مشرکین کو السلام علیکم کہا۔
(بخاری باب الاستئذان)
اسلام کی تعلیم ابدی اور ہر ایک کے لیے خیر وبرکت والی ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام محبت اور خیر سگالی ہے اس لیے اسلام میں یہ جذبہ خیر خواہی انسانیت کے لیے عمومی اور مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسلام اس محبت اور باہمی ہم آہنگی کے قیام کے لیے ایک دوسرے کو ’’السلام علیکم ‘‘ کہنے کی تلقین کرتا ہے اور اس کے جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہنے کی صورت میں بتاتا ہے۔
حضرت عمرانؓ بن حصین بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے اس کا جواب دیا جب وہ بیٹھا تو آپؐ نے فرمایا اس شخص کو دس گنا ثواب ہوا ……پھر ایک شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا۔ جب وہ بیٹھ گیا۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اس شخص کو تیس گنا ثواب ہوا ہے۔
(ترمذی کتاب الاستئذان)
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے سلام کا جواب بہتر رنگ میں یعنی ’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ‘‘کی صورت میں دینا چاہیے۔ اس طرح سے جواب دینے سے انسان کی دس نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرنی چاہیے، پہل کرنے والے کو زیادہ ثواب ملتا ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ دریافت کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمی جو ایک دوسرے سے ملیں تو ان میں سے پہلے کون سلام کہے۔ آپؐ نے فرمایا:جو اللہ کے بہت نزدیک ہو۔
(ترمذی کتاب الاستئذانوالادب عن رسول اللہ ﷺ)
جب آپس میں ملیں تو ایک دوسرے کو سلام کہیں یا جب کسی کے گھر جائیں تو پہلے سلام کرکے گھر میں داخل ہونے کی اجازت لیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ(النور:28)
اے مومنو!اپنے گھروں کے سوادوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک اجازت نہ لے لو۔ اور داخل ہونے سے پہلے ان گھروں میں بسنے والوں کو سلام کرو۔ یہ تمہارے لیے اچھا ہو گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم (نیک باتوں کو ہمیشہ)یاد رکھو گے۔
اگر اپنے گھر میں بھی داخل ہوں تو بلند آواز سے سلام کہیں اور اگر گھر میں کوئی بھی نہ ہو تو بھی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اپنے نفس پر سلام بھیجنا چاہیے۔ سلام کرنے والے پر اور سلام کیے جانے والوں پر خدا تعالیٰ برکتیں نازل فرماتا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی محتاجی کی شکایت کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جب تم گھر میں داخل ہو اور گھر میں کوئی موجود ہو تو اس کو السلام علیکم کہا کرو اور اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو اپنے نفس پر سلام بھیجو اور اس کے بعد سورت قُل ھُوَاللّٰہ اَحَد ایک دفعہ پڑھو۔ روایت میں آتا ہے کہ اس شخص نے آپؐ کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں نہ صرف اس کی غربت دور ہو گئی بلکہ اس کے پاس روپیہ اور مال کی اتنی کثرت ہو گئی کہ وہ اپنے پڑوسیوں اور ہمسایوں کی بھی مدد کیا کرتا تھا۔
(روح البیان تفسیر سورت اخلاص جلد 10صفحہ:540، مطبوعہ استنبول)
حضور انور نے السلام علیکم کہنے کی عادت اور اس کی افادیت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’یہ عمومی حکم بھی ہے کہ جب تم گھروں میں داخل ہو، چاہے اپنے گھروں میں داخل ہو تو سلامتی کا تحفہ بھیجو، کیونکہ اس سے گھروں میں برکتیں پھیلیں گی کیونکہ یہ سلامتی کا تحفہ اللہ کی طرف سے ہے جس سے تمہیں یہ احساس رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تحفے کے بعد میرا رویہ گھر والوں سے کیسا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ(النور:62)
پس جب تم اپنے گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں پر اللہ کی طرف سے ایک با برکت سلامتی کا تحفہ بھیجا کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل کرو۔
ایسے گھروں میں رہنے والے جب ایک دوسرے پر سلامتی کا تحفہ بھیجتے ہیں تو یہ سوچ کر بھیج رہے ہوں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ تو آپس کی محبتوں میں اضافہ ہو گا اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گی۔ گھر کے مرد سے، اس کی سخت گیری سے، اگر وہ سخت طبیعت کا ہے تو اس سلامتی کے تحفے کی وجہ سے اس کے بیوی اور بچے محفوظ رہیں گے۔ اس معاشرے میں خاص طور پر اور عموماً دنیا میں باپوں کی ناجائز سختی اور کھردری (سخت) طبیعت کی وجہ سے، بعض دفعہ بچے باغی ہو جاتے ہیں۔ بیویاں ڈری سہمی رہتی ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ باوجود سالوں ایک ساتھ رہنے کے میاں بیوی کی علیحدگی تک نوبت آجاتی ہے، علیحدگیاں ہو رہی ہوتی ہیں، بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ خاندانوں کو ان کی پریشانی علیحدہ ہو رہی ہوتی ہے۔ تو اس طرح اگر سلامتی کا تحفہ بھیجتے رہیں تو یہ چیزیں کم ہوں گی۔ اسی طرح جب عورتیں سلامتی کا پیغام لے کر گھروں میں داخل ہوں گی تو اپنے گھروں کی نگرانی صحیح طور پر کر رہی ہوں گی۔ جب بچوں کی اس نہج پر تربیت ہو رہی ہوگی تو جوانی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اپنے گھر، ماں باپ اور معاشرے کے لیے بدی کا باعث بننے کی بجائے سلامتی کا باعث بن رہے ہوں گے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 مئی بمقام بیت الفتوح لندن، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15 جون 2007ء)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان نہ لائو گے اور ایمان دار نہ ہوگے جب تک آپس میں محبت نہ کر و گے اور کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتائوں جس کے کرنے سے آپس میں محبت ہو؟ آپس میں السلام علیکم پھیلائو۔
( مسلم کتاب الایمان باب لایدخل الجنۃ الا المومنون)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سلام کو رواج دینے کی توفیق دے تاکہ ہم ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے والے اور آپس میں محبت کرنے والے احمدی مسلمان بنیں۔
٭…٭…٭