حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلامی نکاح: ایک عہد

حضرت خلیفۃ المسیح خامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں :

’’شادی بیاہ کا تعلق بھی مرد اور عورت میں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتاہے۔ عورت کو حکم ہے کہ اس معاہدے کی رو سے تم پر یہ فرائض ادا ہوتے ہیں مثلاًخاوند کی ضروریات کا خیال رکھنا، بچوں کی نگہداشت کرنا، گھر کے امور کی ادائیگی وغیرہ۔ اسی طرح مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس پرہے۔ ان کی متفرق ضروریات کی ذمہ داری اس پر ہےاور دونوں میاں بیوی نے مل کر بچوں کی نیک تربیت کرنی ہے اس کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تو جتنا زیادہ میاں بیوی آپس میں اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے اتنا ہی زیادہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍دسمبر2003ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍فروری 2004ء)

جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃالنساء کی آیت 2کی تلاوت کرنے کے بعد اس کےحوالےسےچند نصائح فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

’’یہ آیت جومیں نے تلاوت کی ہے یہ نکاح کے وقت تلاوت کی جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اے لوگو (مردوعورتو)! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اس سے ڈرو اور اس کے احکامات کی تعمیل کرو۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔ حقوق اللہ ادا کرنے سے تمہارے دل میں اُس کی خشیت قائم رہے گی۔ تمہارا ذہن اِدھر اُدھر نہیں بھٹکے گا، تم دین پر قائم رہو گی، شیطان تم پر غالب نہیں آسکے گا، حقوق العباد ادا کرو گے۔ تم دونوں مردوں اور عورتوں کے لئے یہ حکم ہے۔

سب سے پہلے تو یہی ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ایک دوسرے کےحقوق کا خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا پاس رکھیں۔ اپنے گھروں کو محبت اور پیار کا گہوارہ بنائیں اور اولاد کے حق ادا کریں۔ ان کو وقت دیں ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کریں۔ بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو ما ں باپ دونوں کو بچوں کو سکھانی پڑتی ہیں، بجائے اس کے کہ بچہ باہر سے سیکھ کر آئے۔ ایک دوسرے کے ماں باپ، بہن بھائی سے پیار و محبت کا تعلق رکھیں۔ ان کے حقوق ادا کریں اور یہ صرف عورتوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ مردوں کی بھی ذمہ داری ہےاور اس طرح جو معاشرہ قائم ہوگا وہ پیار و محبت اور رواداری کا معاشرہ قائم ہوگا۔ اس میں لڑ بھڑکر حقوق لینے کا سوال ہی نہیں ہے۔ تو اس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہوگی۔ ہر عورت ہر مرد ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی کوشش کر رہا ہوگا۔ ‘‘

(جلسہ سالانہ جرمنی 23؍اگست 2003ء خطاب از مستورات۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍نومبر2005ء)

شادی مرد اورعورت کے درمیان معاہدہ

23؍جولائی 2011ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پرحضور انور کے خطاب سے قبل تلاوت قرآن کریم میں جن آیات کریمہ کا انتخاب حضور انور نے فرمایا تھا، وہ وہی آیات تھیں جو اعلان نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں۔ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےبعد ازاں اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا:

’’میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں۔ یہی وہ رشتہ اور جوڑ ہے جس سے آگے نسل چلتی ہے۔ اگر اس اکائی میں تقویٰ نہ ہو، اس جوڑے میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں، کیونکہ ایک سے دو اور دو سے چار بن کے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ ‘‘

پھرفرمایا:

’’پس ایک مومن جہاں اپنے خدا سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے وہاں مخلوق کے عہد کو بھی پورا کرنے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کل بھی کہا تھا کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیرحقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار حاصل نہیں ہو سکتے۔ اُس میں بھی بال آنے لگ جاتے ہیں، کریک (Crack) آ جاتے ہیں اور جب کسی برتن میں ایک دفعہ کریک (Crack) آ جائے تو پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پس حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہےاور حقوق العبادمیں خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ معاشرے اور اگلی نسل کی بہتری کے لئے ان کی بہت اہمیت ہے اس لئے ان کو بجا لانا ایک حقیقی مومن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس لئے توجہ دلائی ہے اور یہ آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے نکاح کے موقع پر رکھی ہیں کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، تبھی تم خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی بھی صحیح رنگ میں ادائیگی کر سکو گےاور اپنے معاشرے کی امانتوں اور عہدوں کی بھی صحیح طرح ادائیگی کر سکو گے۔ پس ہر مومن اور مومنہ کو یاد رکھنا چاہئے، ہر احمدی عورت اور مرد کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے عہد کے دعوے کو تبھی پورا کرنے والے بن سکتے ہیں جب اپنے ہر رشتے کی جو بنیاد ہے اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘

(جلسہ سالانہ برطانیہ 23؍جولائی 2011ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍مئی2012ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 16تا20)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button