حضرت مصلح موعودؓ اور اشاعت قرآن
علوم ظاہری و باطنی سے پُر، کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر کرنے والا وجود،جس کا آنا گویا خدا تعالیٰ کاآسمان سے نازل ہونا تھا۔ یہ تمام بشارتیں ایک ایسے شخص کے متعلق تھیں جو دنیاوی لحاظ سے تعلیم یافتہ نہ تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے خود اس کی دستگیری فرمائی۔ ابتدا سےہی اس کے دن خدا تعالیٰ کے سائے میں کٹے۔ خداتعالیٰ نے اس کے اندر ایک تڑپ، ایک لگن، ایک شوق، ایک جذبہ ودیعت کر دیا کہ قرآن کریم کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچانا ہے۔یہ شوق و جذبہ آپ کے اندر بچپن سے ہی تھا۔ بچپن میں ہی آپؓ یہ دعا کرتے ہیں کہ یا الٰہی!مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا۔اس شوق اور جذبہ کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی محسوس کرتے۔ چنانچہ فرمایا:’’میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں۔‘‘
قرآن کریم کے ساتھ آپؓ کا تعلق بچپن سے ہی شروع ہو جاتا ہے جب ناظرہ پڑھانے کےلیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک استاد حضرت حافظ احمد ناگپوری صاحب ؓکو مقرر فرمایا۔ قرآن کریم کا پہلا دَور مکمل کرنے پر جس قدر خوشی حضرت مسیح موعودؑ کو ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپؑ نے بطور شکرانہ حضرت حافظ صاحبؓ کو ڈیڑھ صد روپے کی رقم عنایت فرمائی۔ اس کے ساتھ ایک عظیم الشان تقریب منعقدفرمائی جس میں دُور و نزدیک سے احباب کو مدعو کیا۔اسی طرح اس موقع پر خوشی کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ایک دعائیہ نظم بھی تحریر فرمائی۔گو یہ قرآن کریم کے ساتھ آپؓ کے تعلق کی ابتدا تھی لیکن ابھی تو اس عظیم فرزندِ ارجمند کے ذریعہ قرآن کریم کی اشاعت کے عظیم الشان باب رقم ہونے تھے۔اور وقت نے ثابت کیا کہ قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلے میں جس قدر خدمات آپؓ کے ذریعہ ہوئیں اس کا احاطہ کرنا ایک مضمون یا چند مضامین کی بات نہیں۔اس پر تو جلدوں کی جلدیں تحریر کی جا سکتی ہیں اور ان شاء اللہ کبھی یہ وقت آئے گا۔ آیئے زیر نظر مضمون میں ہم اس وجود کی اشاعت قرآن کی خدمات کی ایک جھلک ملاحظہ کرتے ہیں۔
انجمن انصار اللہ کا قیام
1911ءمیںحضرت صاحبزادہ مرزابشیر الدین محمود احمد صاحب ؓنے ایک رؤیا کی بنا پرحضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اجازت و منظوری سے ایک انجمن کا قیام فرمایا جس کانام ’’انصاراللہ ‘‘رکھا۔ اس کے قیام کےبنیادی مقاصد میں سے قرآن کریم کی اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دینا تھا۔تشحیذ الاذہان مئی 1911ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب ؓنے ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔ اس میں آپؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’دوسری تحریک جو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے کہ ایک انجمن قائم کی جائے جس کے ممبران خصوصیت سے قرآن و حدیث اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تبلیغ کی طرف توجہ رکھیں…‘‘
(مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ،انوار العلوم جلد 1صفحہ334)
آپؓ کے اس مختصر مضمون کےمطالعہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ محض 22؍ سال کی عمر میں کس قدر آپ کے دل میں شدید تڑپ تھی کہ دنیا کو قرآن کریم کی صداقت کا پیغام پہنچے۔یہی تڑپ آپؓ ہر فردِ جماعت میں دیکھناچاہتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’یہ مت سمجھو کہ ہم اس کام کے لائق نہیں اگر ہمت و استقلال ہو اور خدا تعالیٰ سےسچا تعلق ہوتو پھروہ خود ہی قرآن و حدیث کا علم سکھا دیتا ہے۔حضرت اقدسؑ فرمایا کرتے تھےکہ مجھے ایک رات میں کئی ہزار عربی الفاظ کا مادہ سکھلا دیا گیاتھا۔پس خدا کے خزانے وسیع ہیں کمر ہمت کوچست کرو اوردنیاکو کھول کر سنا دو کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نےاسے قبول نہ کیا مگر خدا اسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہرکرےگا۔‘‘ اسلام کا سورج گہن کے نیچے ہے۔ خداکے حضور میں تڑپو آہ و زاری کروتاوہ گہن دور ہو اور دنیا خدا تعالیٰ کا چہرہ دیکھے اور قرآن اور رسول کریم ﷺ کی عظمت اس پر ظاہر ہو…‘‘
(مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ، انوار العلوم جلد 1صفحہ335)
اس انجمن میں شامل افراد کے لیے آپ نے جو قواعدتجویز فرمائے اورجنہیں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓنے منظور فرمایا ان میں دوسرے نمبر پر یہ بات شامل تھی کہ
’’ہرایک ممبرکا فرض ہو گا کہ وہ قرآن شریف…کے پڑھنے اورپڑھانے میں کوشاںرہے۔‘‘
(مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ، انوار العلوم جلد 1صفحہ336)
اس انجمن کے ذریعہ قرآن کریم کو پھیلانے کی غرض سےتبلیغ اسلام کے منصوبے بنائے گئے جن سے نہ صرف ہندوستان کے مختلف مقامات پر قرآن کریم کی حسین تعلیمات کا چرچا ہوا بلکہ اسی انجمن کی مالی امدادکے ذریعہ سے انگلستان میں جماعت احمدیہ کے پہلے باقاعدہ مبلغ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحب ؓکو بھیجا گیا۔
اخبار الفضل کے ذریعہ اشاعت قرآن
اشاعت قرآن کا ایک پہلو قرآن مجید کی خوبیاں اوراس کے اندر موجود باریک در باریک حقائق و معارف کا بیان کرنا بھی ہے۔اس مقصد کوپورا کرنے کاایک ذریعہ جو حضرت صاحبزادہ صاحب ؓنے اختیار فرمایا وہ ایک اخبار کے اجرا کی صورت میں تھا۔
اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 1913ء میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے جماعت کی تربیت اوراستحکام کی خاطر ایک اخبار جاری کرنےکی تجویزحضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں پیش کی۔دربار خلافت میں یہ تجویز مقبول ہوئی اورحضرت صاحبزاد ہ صاحب ؓنے ایک اخبار کا اجرا فرمایا جس کے مدیربھی آپ ہی تھے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب ؓنے اس اخبار کی ضرورت اور اس کی اغراض بیان کرنے کے لیے ایک مضمون تحریر فرمایا جو بدر قادیان میں جون 1913ء میں شائع ہوا۔
اس میں اخبار کی اغراض بیان کرتے ہوئے سب سے پہلی غرض آپ نے یہی بیان فرمائی کہ
’’مذہب اسلام کی خوبیوں کو مخالفین کے سامنے پیش کرنا۔قرآن شریف کے کمالات سے آگاہ کرنا‘‘(اخبار فضل کاپراسپکٹس، انوار العلوم جلد1صفحہ440)گویا اس اخبار کےذریعہ آپ کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک قرآن کریم کی خوبیاں پہنچیں۔چنانچہ اس میں کثرت سے ایسے مضامین شائع ہوتے جن میں قرآن کریم کی روشنی میں حالات حاضرہ کے مسائل کا حل بیان کیاجاتا نیز قرآن کریم کے معارف پر مشتمل حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کےخطابات شائع ہوتے۔
دَور خلافت میں اشاعت قرآن کی مساعی
منصب خلافت پرمتمکن ہونےکےبعدحضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نےاشاعت قرآن کی سکیموں کو مزید تیز کیا اور نئے منصوبوں کے تحت بھی قرآن کریم کو پھیلانے کی مساعی کی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے باون سالہ دَور خلافت کے ہر دن میں، نا مساعدحالات کےباوجود اشاعت قرآن کے کاموں میں کبھی بھی رخنہ نہیں آیا اور جماعت نےہر ابتلا کے بعد اس میدان میں مزید قدم آگے بڑھائے۔
قرآن کریم کی اشاعت خلفاء کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے
خلافت کےابتدائی ایام میں آپؓ نے جماعت کے نمائندگان کو مشورے کی غرض سے12؍اپریل 1914ء کو قادیان بلایا۔اس مشاورت کےموقع پرآپ نے ایک معرکہ آراء خطاب فرمایا جس میں انبیاء کے کام اور اسی کے تتبع میں خلفاء کی ذمہ داریوں کا قرآن کریم کی روشنی میں تفصیل سےتذکرہ فرمایا۔اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت130کی تفسیر میں آپ نے خلفاء کےسپرد کاموں میں سے ایک بنیادی کام قرآن مجید کا پڑھانا اورلوگوں کو اس کے معنی سمجھانابیان فرمایا۔ان اغراض کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ قرآن کریم کے وہ دروس تھے جو آپ نے ارشاد فرمائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وصیت میں قرآن کریم کے حوالے سے بطور خاص ذکر تھا کہ قرآن کریم کا درس جاری رہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضورؓنے اس وصیت اور اپنےفرائض منصبی کے مطابق قرآن کریم کے دروس کاسلسلہ جاری رکھا۔
قرآن کریم کےدروس
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم کےعلوم خود سکھائے۔آپ پر قرآن کے وہ علوم،خزائن اور معارف عیاں ہوئےجو آج تک کسی پر ظاہر نہ ہوئے۔ خود کئی مواقع پر حضورؓ نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ میری یہ بیان کردہ تفسیر خود خدا تعالیٰ نے سکھائی ہے۔یہ موقع اس مضمون کی تفصیلات میں جانے کانہیں صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی تفسیر قرآن ایک منفرد مقا م رکھتی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
قرآن کریم کے علوم کو عام کرنے کے لیے حضورؓ نے درس القرآن کا سلسلہ جاری فرمایا۔اس کی ابتدا 1910ء میں ہی ہو چکی تھی اور آپ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ کئی کئی گھنٹے یہ دروس جاری رہتے اوران میں قرآن کریم کے معارف کا تذکرہ ہوتا۔اس کامقصدیہ ہوتا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو عام کیا جائے اس کے اندر پوشیدہ قیمتی خزانوں سے دنیامطلع ہو۔ گویا یہ اشاعت قرآن کا ایک نہایت اہم پہلو تھا جس کی طرف حضورؓ کو خاص توجہ تھی۔ نہ صرف آپ خود درس ارشاد فرماتے بلکہ آپ کی خواہش تھی کہ جماعتوں میں بھی اس کااہتمام کیا جائے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؓ نےفرمایا:
’’نوجوانوں کےلیے بھی درس کا انتظام ہونا چاہیئے کیونکہ ان کے سامنے لوگ نئےنئے اعتراض کرتے رہتے ہیں اوردوسرے دوستوں کے لیےبھی مساجد اور محلوں میں درس کاانتظام ہونا چاہیئے۔علیحدہ طور پر پڑھنے میں یہ نقص ہے کہ بعض لوگوں میں استقلال نہیں ہوتا اور وہ باقاعدہ نہیں پڑھ سکتے۔ درس سے وہ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں پھر ایک دوسرے کی معلومات اور اعتراضات سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے۔…قرآن کریم سیکھنے کا یہ بہت آسان ذریعہ ہے۔ تعجب ہےکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس قدر تاکید کے باوجود ابھی تک ایک طبقہ ایسا ہے جو اس طرف متوجہ نہیں۔ حالانکہ دروازہ کھلا ہے معشوق سامنے بیٹھا ہے مگر قدم اٹھا کر آگے نہیں جاتے۔‘‘
(الفضل یکم فروری1934ء)
درس قرآن کی افادیت بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’اصلاح نفس اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک قرآن کریم کا مطالعہ نہ ہو۔ قرآن جان ہے سارے تقویٰ و طہارت کی۔ قرآن کی ایک ایک آیت قلب میں وہ تغیر پیدا کر دیتی ہےجو دنیا کی ہزاروں کتابیں نہیں کر سکتیں۔
قرآن کریم پڑھنے کا بہترین طریق یہ ہےکہ درس جاری کیا جائے۔بہت سی ٹھوکریں لوگوں کو اس لیے لگتی ہیں کہ وہ قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے۔پس ضروری ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کا درس جاری کیا جائے…تا قرآن کریم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔…مَیں سمجھتا ہوں درس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت راسخ ہو جائے گی اور بہت سے فتن کا آپ ہی آپ ازالہ ہو جائے گا۔‘‘
(تقریر جلسہ سالانہ 1927ء صفحہ 31تا32)
خصوصی درسِ قرآن کریم
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے قرآن کریم کے دروس حضور ؓ خود بھی ارشاد فرماتےرہتے۔ تاہم جس طرح کسی بھی اہم کام کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے ایساہی 1928ء میں حضورؓنے ایک خصوصی درس قرآن کا انتظام فرمایا۔یہ درس مسجداقصیٰ قادیان میں 8؍اگست سے 7؍ستمبر 1928ء تک منعقد ہوا۔ اس کے لیے الفضل میں اعلانات بھی شائع ہوئےاور شاملین درس کی فہرستیں تیار ہوئیں۔قادیان کے مقامی افراد کے علاوہ ملک بھر سے احمدی احباب نے اپنے کاموں سے رخصت حاصل کر کے اس خصوصی درس میں شرکت کی۔ حضورؓ کی اس درس میں ذاتی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ ہر روز حضور ؓ خودگذشتہ درس کے متعلق جائزہ اور امتحان لیتے۔
اس درس کے اختتام پر ایک یاد گاراور منفرد الوداعی تقریب منعقد کی گئی جس کا ذکر الفضل کے نامہ نگار نے کچھ یوں کیا:
’’حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ نے درس میں شامل ہونے والے اصحاب سے اپنی محبت اور شفقت کا اظہار اس طرح بھی فرمایا کہ سب کو6ستمبر 1928ء دار المسیح موعود علیہ السلام میں دعوت طعام دی جس میں بہت سے مقامی احباب کو بھی شمولیت کا فخر بخشا۔ اس دعوت کی قدر و قیمت وہی اصحاب جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےلنگر خانہ کے سوکھے ٹکڑے بطور تبرک لے جاتے ہیں اور اپنے عزیزوں میں بطور تحفہ تقسیم کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی دعوت دینے والے ہوں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے نونہال دعوت کھلانے والوں میں ہوں اور دار مسیح موعود میں بیٹھ کر دعوت کھانے کا موقعہ نصیب ہو اس سے بڑھ کر ایک احمدی کےلیے کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے…‘‘
(الفضل 11؍ستمبر 1928ء)
اس درس کے اختتام پر حضور ؓنےشاملین سے خطاب فرمایا جس میں انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ قرآن کریم پر عمل کریں اور دوسروں سے بھی عمل کروانے کی کوشش کریں۔دعا کے بعد حضورؓ نے اپنی طرف سے 10؍روپے صدقہ دینے کا اعلان فرمایا اور اپنے دست مبارک سے درس کے امتحانات میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں میں انعامات تقسیم فرمائے۔
خواتین میں درسِ قرآن کریم
جس دَور میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعت کی قیادت سنبھالی اس وقت دنیامیں عموماً اور بر صغیر میں خصوصاً خواتین کی تعلیم کی طرف کوئی خاص توجہ نہ تھی۔’’اسیروں کی رستگاری کا موجب ‘‘کے مصداق حضرت فضل عمر ؓنے خواتین کواندھیروں کے اس دَور سے نکال کر روشنی کے بلند مینار پر لا کر کھڑا کردیا۔ آپ نے خواتین کوتعلیم کے زیور سے آراستہ کرنےکی طرف خصوصی توجہ فرمائی جو کہ اپنی ذات میں ایک الگ مضمون ہے۔قرآن کریم کے حوالے سے آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ خواتین بھی قرآن کریم کے علوم سے بخوبی واقف ہوں۔ اس کے لیے آپ نے خواتین میں علیحدہ درس کا انتظام بھی فرمایا۔
تعلیم نسواں کا اس قدر خیال اس لیے تھا تا خواتین دینی تعلیمات کے مطابق آئندہ نسلوں کی پرورش کر سکیں اور اس طرح قرآن کریم کی عملی حفاظت کی جا سکے۔
حضورؓ اپنے گھر کی خواتین کےذریعہ قرآن کریم کے علوم کوپھیلانا چاہتے تھے۔ چنانچہ اپنے ایک مضمون میں حضورؓ نے اس امر کا ذکرفرمایا کہ حضرت سارہ بیگم صاحبہ سے آپ کی شادی کا مقصد تعلیم نسواں ہی تھا۔
اسی طرح آپ گھر کی خواتین کو درس قرآن دیتے۔ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ حضور ؓنے آپ سے تفسیر کبیر کی جلد 3کا مطالعہ کروایا اور بعد میں اس کا امتحان بھی لیا۔
تفسیر کبیر
حضرت مصلح موعودؓ کا اشاعت قرآن کے حوالے سے ایک عظیم کارنامہ یقیناً’’تفسیر کبیر‘‘ہے۔یہ ایک غیر معمولی، منفرد اور عظیم الشان تفسیر ہے۔اس کے حوالے سے بہت کچھ جماعتی لٹریچر میں لکھا گیا ہے اور اس کے محاسن پر مضمون نگاروں نے اپنے ذوق وشوق کے مطابق قلم اٹھائے ہیں۔10؍جلدوں پر محیط قرآن کریم کی 59؍سورتوں کی تفسیر اس میںشامل ہے جن کے صفحات کی کل تعداد 5907ہے۔
اشاعت قرآن کے اس عظیم الشان کام کے لیے جس قدر محنت حضورؓ نے کی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’میری طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل رہتی ہے اور چونکہ قرآن شریف کے ترجمہ اور تفسیر کا کام بہت بڑا بوجھ ان دنوں ہے اور جلسہ تک دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔…آج کل اکثر ایام میں رات 3-4بلکہ 5بجے تک بھی کام کرتا رہتا ہوں۔‘‘
(الفضل 17؍دسمبر1940ء)
حضرت مریم صدیقہ صاحبہ بیان کرتی ہیں:
’’قرآن مجید سے آپ کو جو عشق تھا اور جس طرح آپ نےاس کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے۔خدا تعالیٰ کی آپ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ جن دنوں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا نہ سونے کا نہ کھانے کا۔ بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہو جائے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھتے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہو گئی۔‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مقدس زندگی کی چند جھلکیاں مطبوعہ الفضل 25؍مارچ1966ءصفحہ5بحوالہ گلہائے محبت صفحہ27)
الغرض تفسیر کبیر اشاعت قرآن کے حوالے سے ایک غیرمعمولی سنہری خدمت ہے۔آج بھی جماعت احمدیہ کی مساجد میں عموماً اسی سے درس القرآن دیا جاتا ہےاورخلفائے کرام نے بار بار احبا ب جماعت کو اس کے مطالعہ کی تلقین فرمائی ہے۔
اس تفسیر میں قرآن کریم کی لغت پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، تاریخی اور منطقی دلائل سے قرآن کریم کی فضیلت بیان کی گئی ہے، مخالفین کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں، سورتوں اور آیات کی ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے معانی بیان کیے ہیں اورسب سے بڑھ کر اس کی خوبی یہ ہے کہ کئی جگہوں پر ایسی تفسیر بیان کی ہے جو براہ راست خدا تعالیٰ کی سکھائی ہوئی ہے۔
چنانچہ سورۃ الفجر کی تفسیر اس کی ایک مثال ہے۔اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے ہیں اور میں اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا جس قدر بھی شکر کروں کم ہے۔اس نے کئی ایسی آیات جو مجھ پر واضح نہیں تھیں ان کے معانی بطور وحی یا القاء میرے دل پر نازل کئے اور اس طرح اپنے خاص علوم سے اس نے مجھے بہرہ ور کیا۔ …
…انہی مشکل آیات میں سے ایک یہ سورۃ (سورۃ الفجر۔ناقل)بھی تھی۔میں جب بھی سوچتا اور غور کرتا مجھے اس کے معانی کے متعلق تسلی نہیں تھی بلکہ ہمیشہ دل میں ایک خلش سی پائی جاتی تھی اور مجھے بار بار یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ جو معانی بتائے جاتے ہیں وہ قلب کو مطمئن کرنے والے نہیں۔…آخر بڑی مدتوں کے بعدایک دفعہ جب میں عورتوں میں قرآن کریم کے آخری پارے کا درس دینے لگاتو اس کا ایک حصہ حل ہو گیامگر پھر بھی جو حل ہوا وہ صرف ایک حصہ ہی تھا مکمل مضمون نہیں تھا جو معنے مجھ پر اس وقت روشن ہوئے ان سےچاروں کھونٹےقائم نہیں ہوتے تھےدو تو بن جاتے تھےمگر دو رہ جاتے تھے یہ حالت چلتی چلی گئی اور مجھے کامل طور پر اس کے معانی کے متعلق اطمینان حاصل نہ ہوا۔
اب جو میں نے درس دینا شرو ع کیاتو پھر یہ سورۃ میرے سامنے آگئی اور میں نے اس پر غور کرنا شروع کردیا۔میں نے آخری پارے کا درس جولائی 44ء میں شروع کر دیاتھا اور ڈلہوزی میں اس کی ابتداء کی تھی اس وقت سے لیکر اب تک کئی دفعہ میں نے اس سورۃ پر نظر ڈالی اور مجھے سخت فکر ہوا کہ اس سورۃ کا درس تو قریب آ رہا ہے مگر ابھی اس کے معانی ترتیب سور کے لحاظ سے مجھ پر روشن نہیں ہوئے۔بار بار میں اس سورۃ کو دیکھتا۔ اس کے مطالب پر غور کرتا اور کوئی مضمون میرے ذہن میں بھی آ جاتا مگر پھر سوچتے سوچتے میں اس کو ناکافی قرار دے دیتا۔ غرض بیسیوں دفعہ میں نے اس سورۃ پر نگاہ دوڑائی مگر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی یہاں تک کہ سورۃ الغاشیہ کے درس کا وقت آ گیا…
غرض جوں جوں سورۃ فجر کا درس نزدیک آتا گیا میرا اضطراب بھی بڑھتا چلا گیا۔ میں نے کہا جب اس سورۃ کے متعلق میری اپنی تسلی ہی نہیں ہوئی تو میں دوسروں کو کیسے مطمئن کر سکتا ہوں…یہاں تک کہ 17؍ماہ صلح 1324ہش مطابق17؍جنوری1945ء بروز بدھ میں سورۂ غاشیہ کا درس دینے کے لئے مسجدمبارک میں آیا۔ میں نے درس سورۂ غاشیہ کا دینا تھامگر میں غور سورۂ فجر پر کر رہا تھا اسی ذہنی کشمکش میں مَیں نے عصر کی نماز پڑھانی شروع کی اور میر ے دل پر ایک بوجھ تھا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب میں عصر کی نماز کے آخری سجدہ سے سر اٹھا رہا تھا تو ابھی سر زمین سے ایک بالشت بھر اونچا آیا ہو گا کہ ایک آن میں یہ سورت مجھ پر حل ہو گئی، پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سجدہ کےوقت خصوصاً نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے بعض آیات کو مجھ پر حل کر دیا۔ مگر اس دفعہ بہت ہی زبردست تفہیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور نہایت وسیع مضمون پر حاوی تھی چنانچہ جب مَیں نے عصر کی نماز کا سلام پھیراتو بے تحاشا میری زبان سے الحمد للہ کے الفاظ بلند آوازسے نکل گئے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد8صفحہ483تا485)
اس تفسیر کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے کیا خوب فرمایا:
’’یہ تفسیر ایک بہترین تحفہ ہے جو دوست دوست کو دے سکتا ہے۔ ایک بہترین تحفہ ہے جو خاوند بیوی کو اور بیوی خاوند کو دےسکتی ہے۔ باپ بیٹے کو دے سکتا ہے۔ بھائی بہن کو دے سکتا ہےیہ بہترین جہیز ہے جو لڑکیوں کو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
(الفضل16؍جنوری1944ء)
تراجم قرآن کریم
اشاعت قرآن کا ایک بہت بڑا ذریعہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کرنا ہے تا کہ اس ذریعہ سے ہر قوم تک اس کی اپنی زبان میں قرآن کریم کا پیغام پہنچ سکے۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایک لمبے عرصے تک علماء قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کو ہی نا جائز قرار دیتے تھے۔چنانچہ جب پہلی مرتبہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بر صغیر میں فارسی زبان میں ترجمہ قرآن کیا تو علماء کی طرف سے آپ پر فتوے لگائے گئے اور اس کام کی سخت مذمت کی گئی۔تاہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی آمد سے الٰہی مشیت کے مطابق تکمیل اشاعت ہدایت اور قرآنی علوم و معارف کا اکناف عالم تک پھیلنا مقدر تھا۔چنانچہ آپؑ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وہ قرآن کریم کے تراجم کا کام بڑے وسیع پیمانے پرکرے۔ موضوع کی مناسبت سے یہاں حضرت مصلح موعودؓ کےدَور میں اس حوالے سے تراجم قرآن کی کاوشوں کا کچھ جائزہ لیتے ہیں۔
انگریزی ترجمہ قرآن
خلافت اولیٰ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی زیر نگرانی مولوی محمد علی صاحب کے سپرد انگریزی زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کا کام ہوا۔ اس زمانے کے لحاظ سے اس پر بھاری رقوم بھی خرچ کی گئیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اس میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس کے لیے نوٹس وغیرہ لکھواتے۔ یہ کام تقریباً مکمل ہو نے والا تھا کہ آپؓ کی وفات ہو گئی۔ بعد ازاں خلافت کے حوالے سے اختلاف کے باعث مولوی محمد علی صاحب قادیان چھوڑتے وقت انگریزی ترجمہ و تفسیری نوٹس کا مواد اپنے ساتھ لاہور لے گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کی طرف سے انگریزی زبان میں ترجمہ قرآن اور تفسیر کا کام ہو۔ چنانچہ آپؓ نے ایک پارے کی تفسیر لکھی جو اردو اور انگریزی میں طبع ہوئی اور بعد ازاں آپ ؓنے علماء کی ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے سپرد ا س کام کو مکمل کرنا تھا۔ سالوں سال کی محنت او ر کاوشوں کے بعد 1947ء میں پہلی مرتبہ پہلے 9پاروں کی تفسیر شائع ہوئی۔آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورؓ کی بیان فرمودہ تفاسیر اور معارف قرآن کی روشنی میں یہ عظیم الشان تفسیر پانچ جلدوں میں ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے اور یہ قرآن کریم کی اشاعت کا ایک عظیم کارنامہ ہے جسے غیروں نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس تفسیر کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دیباچہ بھی تحریر فرمایا جس میں قرآن کریم کی ضرورت، صحف سابقہ پر اس کی فضیلت اور اس کی الٰہی حفاظت جیسے موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
اسی طرح 1955ء میں پہلی مرتبہ جماعت کی طرف سے انگریزی زبان میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ شائع ہوا جو حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓنے کیا تھا۔
تفسیر صغیر
پیشگوئی مصلح موعود میں عظیم الشان مصلح کی ایک علامت اولوالعزمی بیان کی گئی تھی۔اس کا ایک پہلو ہمیں حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر صغیر کے کام میں دکھائی دیتا ہے۔
حضورؓ پر1954ء میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں آپ کی صحت بہت خراب رہنے لگی اور اس سلسلہ میں آپؓ 1955ء میں بغرض علاج یورپ بھی تشریف لے گئے۔اس سفر سے واپس آکر گو آپؓ کی صحت بظاہر کچھ بہتر تھی لیکن پھر بھی آپؓ کو طبی مشورہ یہی تھا کہ آرام فرمائیں اور محنت اور مشقت والے کاموں سے پرہیز کریں۔ایسے حالات میں حضورؓ نے اردو ترجمہ قرآن کا وہ کام جو حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کی تجویز پر 1938ء میں شروع ہوا تھا کو مکمل کرنے کا ارادہ فرمایا۔ چنانچہ1956ء میں اس کام کاآغاز فرمایااور خرابیٔ صحت کے باوجود حضورؓ نے اس ترجمے کو مکمل کر دیا۔
تفسیر صغیر کے کام کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:
’’تفسیر صغیر تو لکھی ہی آپ نے بیماری کےپہلے حملے کے بعد یعنی 1956ء میں۔ طبیعت کافی کمزور ہو چکی تھی۔ گو یورپ سے واپسی کے بعد صحت ایک حد تک بحال ہو چکی تھی۔ مگر پھر بھی کمزوری باقی تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں،فکر نہ کریں، زیادہ محنت نہ کریں، لیکن آپ کو ایک دُھن تھی کہ قرآن کے ترجمے کا کام ختم ہو جائے۔ بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے۔ کبھی مجھ سے املاء کرواتے۔ مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی یعقوب صاحب مرحوم کو ترجمہ لکھواتے رہے۔آخری سورتیں لکھوا رہے تھے غالباً انتیسواں سیپارہ تھا یا آخری شروع ہو چکا تھا (ہم لوگ نخلہ میں تھے وہیں تفسیر صغیر مکمل ہوئی تھی) کہ مجھے بہت تیز بخار ہو گیا میرا دل چاہتا تھا کہ متواتر کئی دن سے مجھے ہی ترجمہ لکھوا رہے ہیں میرے ہاتھوں ہی یہ مقدس کام ختم ہو۔مَیں بخار سے مجبور تھی اِن سے کہا کہ مَیں نے دوائی کھا لی ہے آج یا کل بخار اتر جائے گا۔ دو دن آپ بھی آرام کر لیں آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا مَیں ثواب حاصل کر سکوں۔ نہیں مانے، کہ میری زندگی کا کیا اعتبار۔ تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آجائے تو؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیرصغیر کا کام ختم ہو گیا۔‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مقدس زندگی کی چند جھلکیاں مطبوعہ الفضل 25؍مارچ1966ءصفحہ5 بحوالہ گلہائے محبت صفحہ27تا28)
اس ترجمے کی خصوصیات اور اس میں بیان کردہ علوم پر بحث کرنے کا یہ موقع نہیں لیکن اگر چندالفاظ میں اس کی خوبیوں کی طرف اشارہ کرنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مختصر مگر جامع، آسان فہم، علم و معرفت سے بھر پور، سلیس،زبان کے قواعد کو مدّنظر رکھنے والا ترجمہ ہے۔یا دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ترجمہ نے دریا کو کوزے میں بند کردینے کا محاورہ عملی طور پر دکھایا ہے اور کئی مشکل مقامات کو مختصر نوٹس کی شکل میں پیش کر دیا ہےجن پر صفحوں کے صفحے تحریر کیے جا سکتے تھے۔
تفسیر صغیر کا ترجمہ حضرت مصلح موعودؓ کی اشاعت قرآن کا عظیم شاہکار ہے اور آپ کے علم قرآن کا بیّن ثبوت ہے۔ اس کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:
’’پھر تفسیر صغیر ہے یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کی ہوئی قرآن کریم کی تفسیر ہے جو علوم کا سر چشمہ اور تمام انوار کا سورج ہے مجھ پر یہ اثر ہے کہ بہت سے نوجوان اس تفسیر کی یا اس ترجمہ کی جس کے ساتھ تفسیری نوٹ ہیں… اہمیت نہیں سمجھتے۔…جماعت کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئےاگرہم قرآنِ کریم کے علوم صحیح طور پر سیکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور نوجوان اس سے محبت کرنےلگیں اور ان کے دل کا شدید تعلق قرآن ِکریم کے نور سے ہو جائے تو ہر نوجوان بچے کے باپ یا گارڈین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں تفسیر صغیر کودیکھے اور اگر نہ دیکھے تو اس کا انتظام کرے۔‘‘
(دوسرے روز کا خطاب بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ فرمودہ12؍جنوری1968ء مطبوعہ خطابات ناصر جلد اوّل صفحہ188)
سات بڑی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی تحریک
دنیاکے مجموعی حالات کا اثر ایک حد تک الٰہی جماعتوں پر بھی پڑتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیںکہ حضرت مصلح موعودؓ نے کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی اشاعت قرآن کے فرائض کو کس خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ گو اپنے اس شعر کا عملی نمونہ دکھایا کہ
عسر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو
کچھ بھی ہو بند مگر دعوت اسلام نہ ہو
آپ کے زمانہ خلافت میں کون کون سے مسائل، مشکلات، ابتلا اور آزمائشیں نہیں آئیں۔کبھی اندرونی فتنے برپا ہوئے تو کبھی بیرونی۔ کبھی بر صغیر کے حالات خراب ہوئے تو کبھی دنیا میں جنگ عظیم شروع ہو ئی۔کبھی آپ کے اپنے معاشی حالات خراب ہوتے ہیں تو کبھی دنیا کے معاشی حالات مخدوش ہوتے ہیں۔ مگران تمام امور کے با وجود کبھی بھی آپ نے قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانے میں کمی نہیں آنے دی۔ اگر بظاہر بعض کاموں میں کچھ تعطل آیا بھی تو اس وقت کو غنیمت جانتے ہوئے آپ نے جماعت کی طاقت جمع کرنے کے لیے استعمال کیا اور حالات بہتر ہونے پر پہلے سے بڑھ کر خدمت کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی۔
اس کی بہترین مثال جنگ عظیم دوم کی ہے۔ اس 5-6سالہ عرصہ میں بظاہر بیرون ملک کے بعض مشنوں پر اثر پڑا اور نہ ہی پہلے کی طرح مبلغین کو روانہ کیا جا سکتا تھا لیکن حضورؓ نےاس عرصہ کو آئندہ کے لیے اشاعت قرآن میں سہولت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ اس عرصہ میں ایک ریزرو فنڈ قائم کیا گیا نیز مبلغین کی تیاری کی گئی جن کو حالات بہتر ہونے پر بیرون ممالک بھجوانے کا پروگرام تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے جونہی حالات کچھ بہتر ہونا شروع ہوئے اور جنگ عظیم کا اختتام قریب دکھائی دیاجماعت کے سامنے اشاعت قرآن کا ایک ٹھوس لائحہ عمل رکھا۔ اس سلسلہ میں حضورؓ نے اکتوبر اور نومبر 1944ء میں 4؍خطبات جمعہ ارشاد فرمائے جن میں اس سکیم کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔ ان خطبات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس باریک بینی سے حضورؓ قرآن کریم کی اشاعت کے متعلق منصوبہ بندی کرتے تھے۔ہندوستان کی ایک چھوٹی سی گمنام بستی میں بیٹھے ہیں، دنیا میں جنگ عظیم ابھی جاری ہے لیکن خدا کے موعود خلیفہ کی فراست نے اس بات کو بھانپ لیا کہ اب حالات جلد بدلنے والے ہیں اور اس کے لیے جماعت کو تیار کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ ان کے سامنے یہ لائحہ عمل پیش کیا کہ افراد جماعت اس قدر رقم جمع کر لیں تاکہ جنگ کے اختتام تک دنیا کی بڑی زبانوں میں لٹریچر تیار ہو۔
اس سلسلہ میں دنیا کی 7؍بڑی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کرنے کا منصوبہ حضور ؓنے پیش فرمایا اور ہر ترجمے پر اندازہ خرچ بھی پیش کیا اور فرمایا کہ اگر جماعت دنیا کی 7؍بڑی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کر لے تو تبلیغ اسلام کےکام میں بہت آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ سات زبانیں روسی، جرمن، فرانسیسی،اطالین،ڈچ،سپینش اورپرتگیزی ہیں۔انگریزی زبان میں اس وقت ترجمہ تقریباً مکمل ہو چکا تھا۔
خدا تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور جہاں سات زبانوں میں تراجم کرنے اور ان کی اشاعت کی رقم کا مطالبہ کیا گیا تھا وہاں افراد جماعت کی طرف سے 12؍تراجم کے اخراجات کےلیےدرخواستیںموصول ہوئیں۔چنانچہ افرادجماعت کےجذبۂ اخلاص کو دیکھتے ہوئے حضورؓ نے قرآن کریم اور دیگر جماعتی لٹریچر کو مختلف زبانوں میں شائع کرنے کا منصوبہ مختلف جماعتوں کے سپرد فرمایا۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد25صفحہ591تا652)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ 1946ء پر حضورؓ نے اعلان فرمایا کہ سات زبانوں میں تراجم مکمل ہو چکے ہیں اور اب اس بات کا انتظار ہے کہ جماعت کے علماء یہ زبانیں سیکھ لیں اور ان کی نظر ثانی کریں۔
(ماخوذازالفضل28؍دسمبر1946ء)
تراجم قرآن کا مجموعی جائزہ
حضرت مصلح موعودؓ کے دور خلافت میں جماعت کو جن زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع کرنے کی توفیق ملی ان کا جائزہ کچھ اس طرح ہے۔
سب سے پہلے سواحیلی اور ڈچ زبانوں میں 1953ء میں قرآن کریم کے مکمل تراجم شائع ہوئے۔(سواحیلی ترجمہ قرآن کے لیے حضورؓ نے پیش لفظ بھی تحریر فرمایا۔) اس کے بعد 1954ءمیں جرمن زبان میں پہلی مرتبہ مکمل قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا۔انگریزی میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا ترجمہ قرآن 1955ء میں شائع ہوا جبکہ اردو میں تفسیر صغیر کا ترجمہ 1957ء میں طبع ہوا۔
اس طرح آپ کے دَور خلافت میں مکمل قرآن کریم کے تراجم کی کل تعداد 5؍تھی۔ اس کے علاوہ بعض زبانوں میں کچھ پاروں کے ترجمےبھی مکمل ہو چکے تھے جو بعد میں مختلف وقتوں میں شائع ہوئے۔
٭…ڈینش زبان میں ڈنمارک کے پہلے احمدی مکرم عبدالسلام میڈسن صاحب نے خلافت ثانیہ میں قرآن کریم کے آٹھویں پارے کے دوسرے رکوع تک کا ترجمہ مکمل کر لیا تھا اور خلافت ثانیہ میں ان کی طباعت تین جزو کی صورت میں ہوئی۔(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 2؍اکتوبر2009ءصفحہ9)
٭…یوگنڈا کی زبانLugandaمیں خلافت ثانیہ میں پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ 1965ء میں طبع ہوا۔یہ کام مولانا عبد الکریم شرما صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ (ماخوذ از الفضل 27؍نومبر2009ءصفحہ9)
٭…مینڈے زبان میں قرآ ن کریم کے پہلے پارے کا ترجمہ طبع ہوا۔(ماخوذ از بدر24؍دسمبر2015ءصفحہ42)
اشاعت قرآن کے لیے قربانی کا نمونہ
حضرت مصلح موعودؓ کی نہ صرف یہ خواہش ہوتی کہ قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کے سامان پیدا ہوں اور نہ ہی آپ محض تقریر یا تحریر تک اس جذبہ کو محدود رکھتے بلکہ آپؓ نے خود اس حوالے سے اپنا بے مثال عملی نمونہ پیش فرمایا۔ اپنی اولاد کو دین کے لیے وقف کیا اور مالی لحاظ سے بھی اشاعت قرآن کے لیے آپؓ نےمالی قربانی میں پہل کی۔ چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے پہلا پارہ شائع کرنا چاہا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہمارے خاندان کے افراد اپنے روپیہ سے اسے شائع کر دیں لیکن روپیہ پاس نہیں تھا۔اُس وقت تک ہماری زمینداری کا کوئی انتظام نہیں تھا۔میں نے اپنے مختار کو بُلایا اور کہا ہم قرآن چھپوانا چاہتے ہیں لیکن روپیہ پاس نہیں۔وہ کہنے لگا آپ کو کس قدر روپے کی ضرورت ہے؟میں نے کہا کہتے ہیں کہ پہلی جلد تین ہزار روپے میں چھپ جائے گی۔ اس نے کہا میں روپیہ لا دیتا ہوں۔آپ صرف اس قدر اجازت دے دیں کہ میں کچھ زمین مکانوں کے لئے فروخت کر دوں۔ میں نے کہا اجازت ہے۔ ظہر کی نماز کے بعد میں نے اُس سے بات کی اور عصر کی اذان ہوئی تو اُس نے ایک پوٹلی میرے سامنے لاکر رکھ دی اور کہا یہ لیں روپیہ۔ …چنانچہ اس وقت ہم نے قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کر دیا۔‘‘
(خطاب برموقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ، فرمودہ19؍اکتوبر1956ء مطبوعہ الفضل 24؍اپریل1957ءصفحہ5)
مبلغین کی تیاری
اشاعت قرآن کا ایک عظیم الشان پہلو مبلغین کی تیاری ہے جو دینی علم حاصل کر کے دنیا بھر میں اشاعت قرآن کے فریضہ کو سر انجام دے سکیں۔ اس کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے ’مدرسہ احمدیہ ‘جو بعد ازاں جامعہ احمدیہ میں تبدیل ہوا کے نظام کو مضبوط کیا اور اس ادارے سے ایسے بے شمار واقفین زندگی نکلے جو قرآنی علوم کو اکناف عالم تک پھیلانے کا باعث ہوئے۔
حضورؓ نے مختلف اوقات میں احباب جماعت کواپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی۔چنانچہ آپؓ نےاپنے دَور خلافت میں وقف زندگی کے نظام کو منظم کیا۔ اس کی بہترین مثال ہمارے سامنے تحریک جدید اور وقف جدید کے مضبوط اور مربوط نظاموں کی ہے جن کے ذریعہ ہربڑے اور چھوٹےپیمانے پر لوگوں کو قرآن کریم کا پیغام اور اس کے محاسن سےآگاہ کیا جاتا ہے۔
جہاں ایک طرف آپ ؓنے اپنی دُور بین نگاہ سے کام لیا اورایسا نظام قائم فرمایا جس سے مستقبل میں بھی اشاعت قرآن کا کام جاری و ساری رہے وہاں جہاں ہنگامی طور پر قرآن کریم کی تعلیمات پر حملہ کیا جاتا اور اسلام کو خطرہ در پیش ہوتا وہاں آپ فوری طور پر تحریک فرماتے اور افراد جماعت کو تحریک کرتے کہ وہ خدمت قرآن کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اس کی ایک مثال شدھی کی تحریک کے خلاف اعلان جہاد ہے جس کے ذریعہ بہت سے لوگ جو خدائے واحد کی عبادت اور قرآن کریم کے پیغام سے ہٹائے جا رہے تھے زندگی کے اس چشمے کی طرف واپس لائے گئے اور انہیں راہ عرفان نصیب ہوا۔
الغرض حضرت مصلح موعودؓ کی شدید خواہش تھی کہ قرآن کریم کے علوم دنیا کے ہر فرد تک پہنچائے جائیں اور ہر قوم کا اس چشمے سے پانی پینے کا نظارہ جلد از جلد دکھائی دے۔ چنانچہ آپؓ کے دَورِ خلافت پر نظر ڈالی جائے تو اس عرصہ میں سو سے زائد مبلغین کے ذریعہ کل 46؍ممالک میں احمدیت کے مراکز قائم ہوئے اور ان قوموں تک قرآن کریم کا پیغام پہنچایا گیا۔ چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’مَیں نے دنیا کے مختلف اطراف میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کے لئے مشن قائم کر دئیے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے اس وقت صرف ہندوستان اور کسی قدر افغانستان میں جماعت احمدیہ قائم تھی باقی کسی جگہ احمدیہ مشن قائم نہیں تھا۔ مگر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں بتایا تھا وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مختلف ممالک میں احمدیہ مشن قائم کروں۔چنانچہ مَیں نے اپنی خلافت کی ابتدا میں ہی انگلستان، سیلون اور ماریشس میں احمدیہ مشن قائم کئے۔ پھر یہ سلسلہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ چنانچہ ایران میں، روس میں، عراق میں، مصر میں، شام میں، فلسطین میں، لیگوس نائیجیریا میں، گولڈ کوسٹ میں،سیرالیون میں، ایسٹ افریقہ میں، یورپ میں۔ پھر انگلستان کے علاوہ سپین میں، اٹلی میں، چیکو سلواکیہ میں، ہنگری میں، پولینڈ میں، یوگو سلاویہ میں، البانیہ میں، جرمنی میں، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں، ارجنٹائن میں، چین میں، جاپان میں، ملایا میں، سٹریٹ سیٹلمنٹس میں، سماٹرا میں، جاوا میں، سُرابایا میں، کاشغر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مشن قائم ہوئے۔ ان میں سے بعض مبلغ اس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قید ہیں۔ بعض کام کر رہے ہیں۔ اور بعض مشن جنگ ( دوسری جنگ عظیم۔ناقل) کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر دئیے گئے ہیں۔ غرض دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو یہ محسوس نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو ان کے ملکوں کی طرف آ رہا ہے۔ حکومتیں اس کے اثر کو محسوس کر رہی ہیں بلکہ بعض حکومتیں اس کو دبانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ چنانچہ روس میں جب ہمارا مبلغ گیا تو اسے مارا بھی گیا، پیٹا بھی گیا اور ایک لمبے عرصے تک قید رکھا گیا۔ لیکن چونکہ خدا کا وعدہ تھا کہ وہ اس سلسلے کو پھیلائے گا اور میرے ذریعے سے اس کو دنیا کے کناروں تک شہرت دے گا اس لئے اس نے اپنے فضل و کرم سے ان تمام مقامات میں احمدیت کو پہنچایا بلکہ بعض مقامات پر بڑی بڑی جماعتیں قائم کرد یں۔‘‘
(دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پُرشوکت اعلان، انوار العلوم جلد17 صفحہ155-156)
حفظ قرآن کی تحریک
قرآن کریم کی اشاعت کا ایک ذریعہ اس پاک کلام کوحفظ کرنا بھی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں جن مقامات پر حفاظت قرآن کے مضمون کو بیان فرمایا ہے وہاں حفاظت قرآن کا ایک ذریعہ ان حفاظ کو بھی قرار دیا جنہوں نے قرآن کریم کوحفظ کیا ہوا ہے۔
(تفسیر کبیر جلد 4صفحہ18)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کی اس طرف خصوصی توجہ تھی اور آپ حفاظ کی تیاری کی طرف مختلف اوقات میں جماعت کو توجہ بھی دلاتے رہے تا کہ ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود ہوں جن کے سینوں میں قرآن کریم محفو ظ ہو۔ حفظ قرآن سے آپ ؓکو کس قدر رغبت تھی اس کا اندازہ آپ کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ آپ نے اپنے بڑے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ؒکو قرآن کریم حفظ کروایا۔
جماعت میں حفّاظ کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضورؓ نےفرمایا:
’’صدر انجمن احمدیہ کو چاہیئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرےجن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ان کو ترجمہ پڑھائیں۔ اگرصبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی ان سے کام لیا جا سکے گا۔ بہر حال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لیے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے‘‘
(الفضل 26؍اگست 1960ء)
پھر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے حفظ قرآن کی تحریک کرتے ہوئےفرمایا کہ
’’جو لوگ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ پہلے قرآن کریم حفظ کرائیں کیونکہ مبلّغ کے لئے حافظِ قرآن ہونا نہایت مفید ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر بچوں کو قرآن حفظ کرانا چاہیں تو تعلیم میں حرج ہوتا ہے لیکن جب بچوں کو دین کے لئے وقف کرنا ہے تو کیوں نہ دین کے لئے جو مفید ترین چیز ہے وہ سکھا لی جائے۔ جب قرآن کریم حفظ ہو جائے گا تو اور تعلیم بھی ہو سکے گی۔ میرا تو ابھی ایک بچہ پڑھنے کے قابل ہوا ہے اور میں نے تو اس کو قرآن شریف حفظ کرانا شروع کرا دیا ہے۔ ایسے بچوںکا تو جب انتظام ہوگا اور اس وقت ہوگا اور جو بڑی عمر کے ہیں وہ آہستہ آہستہ قرآن حفظ کر لیں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍دسمبر1917ء مطبوعہ خطبات محمود جلد5صفحہ674)
اختتامیہ
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ کے مبارک وجود کے ذریعہ اشاعت قرآن کے جوعظیم الشان کارنامے وقوع پذیر ہوئے ان کا احاطہ کرنا ایک مضمون میں ممکن نہیں۔آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ا س بات کا شاہد ناطق ہے کہ آپ کے اندر ایک جوش اور ولولہ تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلایا جائے اور اس کی حکومت دنیا میں قائم ہو۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’میرے دل میں ایک آگ ہے، ایک جلن ہے، ایک تپش ہے جو مجھے آٹھوں پہر بے قرار رکھتی ہے۔ مَیں اسلام کو اُس کی ذلّت کے مقام سے اُٹھا کر عزت کے مقام پر پہنچانا چاہتا ہوں۔ مَیں پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا چاہتا ہوں۔ مَیں پھر قرآنِ کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نہیں جانتا کہ یہ بات میری زندگی میں ہو گی یا میرے بعد۔ لیکن مَیں یہ جانتا ہوں کہ مَیں اسلام کی بلند ترین عمارت میں اپنے ہاتھ سے ایک اینٹ لگانا چاہتا ہوں یا اتنی اینٹیں لگانا چاہتا ہوں جتنی اینٹیں لگانے کی خدا مجھے توفیق دیدے۔ میں اس عظیم الشان عمارت کو مکمل کرنا چاہتا ہوں یا اس عمارت کو اتنا اونچا لے جانا چاہتا ہوں جتنا اونچا لے جانے کی اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔ اور میرے جسم کا ہر ذرہ اور میری روح کی ہر طاقت اس کام میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خرچ ہو گی اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی میرے اس ارادے میں حائل نہیں ہو گی۔‘‘
(تقریرجلسہ سالانہ28؍دسمبر1947ء،انوارالعلوم جلد19 صفحہ387-388)
آپؓ افراد جماعت سے بھی یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی ہمیشہ اس راہ میں اپنے قدم آگے سے آگے بڑھاتے چلے جائیں اوروہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس کے لیے جد و جہد کرتے رہیں تاکہ قیامت تک قرآن کریم کی اشاعت ہوتی رہےاور آنحضرت ﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔
قائم ہو پھر سے حکم محمدؐ جہان میں
ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے
تم ہو خدا کے ساتھ خدا ہو تمہارے ساتھ
ہوں تم سے ایسے وقت میں رخصت خدا کرے
٭…٭…٭