پاکستان میں حضرت مصلح موعودؓ کے روحانی وجود سے فیض یافتہ چند بابرکت مقامات
حضرت مصلح موعودؓ کے روحانی وجود کی برکتوں کا ذکر کیا جائے تو یہ ایک ایسا طویل باب ہے، جس کو چند سطروں میں سمونا کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔ آپؓ کے روحانی وجود سے جہاں پر ہرایک نے برکتیں سمیٹیں، وہیں پر وہ مقامات بھی پیچھے نہ رہے، جہاں آپؓ کسی طور پر بھی تشریف لے گئے۔ اگر ساری دنیا میں پھیلے صرف ان مقامات کا ہی ذکر کرنا شروع کر دیا جائے تو وہ بھی سمندر کو کوزہ میں بند کرنے والی بات ہوگی۔ ان مقامات میں سے بھی محض پاکستان میں موجود بعض مقامات کا اس جگہ تذکرہ کرنا مقصود ہے۔
پاکستان کا قیام 14؍اگست 1947ء کو عمل میں آیا۔ متحدہ ہندوستان کے دور میں بھی حضرت مصلح موعودؓ موجودہ پاکستان کے مختلف شہروں کو برکت بخشتے رہے اور مختلف مقامات کی روحانی آب یاری فرماتے رہے۔ ان مقامات میں سے بھی بعض جگہوں پر آپؓ متعدد مرتبہ تشریف لے گئے اور اسی طرح بعض شہروں کے آپؓ نے کئی مرتبہ اسفار کیے۔ ان تمام مقامات اور اسفار کا اس جگہ ذکر کرنا تو ممکن نہیں تا ہم چند ایک چنیدہ مقامات اور اسفار کا ذکر خیر کچھ یوں ہے:
بلوچستان
کوئٹہ
یارک ہاؤس
تعارف :کوئٹہ کا نام ایک پشتو لفظ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی ’’قلعہ‘‘ کے ہیں۔ کوئٹہ شہر سطح سے تقریباً 1700میٹر سے 1900میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اپنے بہترین معیار کے پھلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہ بنیادی طورپر خشک پہاڑوں میں گھر ا ہوا شہر ہے جہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔
21؍جون1949ء:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بوقت ایک بجے کوئٹہ کے لیے کنجیحبی سند ھ سے روانہ ہوئے حضورؓ کے ہم راہ سندھ سے صاحبزادی امة الحکیم صاحبہ، بیگم صاحبہ سید داؤد مظفر شاہ صاحب بھی کوئٹہ آنے کے لیے شریک سفر ہوئے۔ احمدآباد اور نور کوٹ کی جماعتوں نے قافلے کی شربت سے تواضع کی۔ گاڑی بارہ بجے شب حیدرآباد پہنچی۔ حضورؒ مع اہل بیت کاروں کے ذریعہ سید غلام مرتضیٰ صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے جہاں قافلہ کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا باقی قافلہ ٹرکوں کے ذریعہ قیام گاہ پہنچا حضورؓ نے چودھری احمد جان صاحب، مکرم ڈاکٹر عبد الحمید صاحب کو شرف ملاقات بخشا۔ صبح ناشتہ کے بعد حضورؓ ٹنڈو میر نور محمد تشریف لے گئے جو میر خاندان کے وقت کا ایک تاریخی مکان ہے۔ یہ خاندان ایک وقت تک حید ر آباد اور گرد و نواح میں حکمران رہا ہے۔ پونے گیارہ بجے صبح حضورؓ سندھ آئل ملز دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ دو بجے بعد دوپہر حضورؓ کے اعزاز میں سید غلام مرتضیٰ نے دعوت طعام دی چار بجے سے پانچ بجے شام تک ایک پولیس انٹرویو میں حضورؓ نے نمائندگان پولیس کی طرف سے بعض سوالات کے جواب دیے۔ ساڑھے چھ بجے شام کو کوئٹہ میل کے ذریعہ حضورؓ مع اہل بیت و خدام عازم کوئٹہ ہوئے۔ گاڑی ساڑھے چھ بجے روانہ ہوئی۔ راستہ کے لیے شام کا کھانا چودھری محمد سعید صاحب رئیس کی طرف سے دیا گیا۔ مچھ سٹیشن پر مکرم جناب مہتہ عبد الخالق صاحب اور مکرم کرم الٰہی صاحب ایڈوکیٹ کوئٹہ کی طرف سے دوپہر کا کھانا پیش کیاگیا۔ گاڑی چار بجے کے قریب کوئٹہ پہنچی۔ حضورؓ کاروں کے ذریعہ مقام یارک ہاؤس تشریف لے گئے۔
(الفضل یکم جولائی 1949ء)
صوبہ پنجاب
لاہور
گورنمنٹ ہاؤس لاہور آمد
25؍فروری1922ء:
ولی عہد سلطنت برطانیہ شہزادہ ویلس کی آمد کا دن تھا اور لاہور کا اسٹیشن اورشہزادہ کا نام، راستہ آراستہ و پیراستہ تھافوجیں دو رویہ کھڑی تھیں اور تماشائیوں سے راستہ کے دو بازو پرتھے جہاں تک دیکھو آدم ہی آدم نظر آتا تھا۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائی کیونکہ حضورؓ نے گورنمنٹ ہاؤس میں تشریف لےجانا تھابعد نماز حضورؓ نے تمام احباب کو جن کی تعداد ہزار ڈیڑھ ہزار کے درمیان اندازہ کی گئی ہے مخاطب فر ما کر یہ مختصر نصیحت فرمائی کہ مومن کا کام سنجیدہ ہوتا ہے یہ اپنے مقصد کو نہیں بھلاتا ہم پر فرض ہے کہ بادشاہوں کے مطیع ہوں۔ اس وقت بعض نادان ملک میں شور مچاتے ہیں اور انہوں نے شہزادے کی آمد پر ہڑتالیں کی ہیں۔ ہم وفادار ہیں اور وفاداری ہمارے فرائض میں ہے مگر جو کچھ ہم کرتے ہیں نہ گورنمنٹ کی خوشامد کے لیے نہ اس سے کچھ لینے کےلیے کیونکہ یہ ہمیں کچھ دے نہیں سکتےہم اس کے قائل نہیں کہ بادشاہ خدا کے تصرف سے باہر ہیں بلکہ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ سچا اعتقاد ہے کہ بادشاہوں کے دل بھی اس کی مٹھی میں ہیں۔ جلسہ پر ہم نے شہزادےکو تحفہ دینےکا اعلان کیا تھا خیال تھا کہ بیس پچیس صفحہ کی کتاب ہوگی مگر وہ اسی صفحہ کی کتاب بن گئی جو انگریزی میں 105صفحات کی کتاب ہوگی یہ تحفہ گورنمنٹ کے ذریعہ پیش ہوگاہم دعا کرتے ہیں اور خوش آمدید کے وقت بھی دعا کریں۔ مومن کی آنکھ، زبان، آواز ہر ایک میں اثر ہوتا ہے ہماری خوش آمدید کی آواز میں بھی اس خواہش کی لہریں ہوں کہ ہم خواہش رکھتے ہیں کہ آپ کو خدا قبول حق کی توفیق دے اور آپ کو آپ کے ملک کےلیے پہلا ایلچی بنا کر بھیجے اور اس اجتماع کو بابرکت کرے۔
اس کے بعد تمام احباب میکلوڈروڈپر جہاں احمدیہ جماعت کی نشست کا انتظام کیا گیا تھا ترتیب سے بھیجےگئے۔ کرسیوں کا کافی انتظام تھا۔حضرت ڈاکٹرخلیفہ رشیدالدین صاحبؓ اور آپ کے ماتحت بعض دیگر احباب نے ترتیب سے سب کو بٹھا دیا۔ جماعت کی نشست گاہ کے سامنے بہت سے قطعات وغیره آویزاں تھے، جن پرجماعت احمدیہ کی طرف سے تاج برطانیہ کے آئنده وارث اور بادشاہ کے لیے خوش آمدید اور دعائیہ فقرات لکھے ہوئے تھے۔ لوگوں نے کیا ہندو کیا مسلمان ’’ہرے‘‘ وغیرہ کے نعرے اپنے لیے منتخب کیے تھے مگر جماعت احمدیہ کا نعرہ خوش آمدید یہ تھا’’سلام علیکم اھلاً و سھلاً و مرحباً‘‘گورنمنٹ ہاؤس کوجس موٹر پر سوار ہوکر شہنشاه روحانیت سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ تشریف لے جا رہے تھے اس پر انگریزی میں لکھا ہوتاتھا۔ His Holiness Khalifa tul Masih of Qadianاوراس کے ساتھ حضورؓ کے ہم رکاب ایک اور موٹر تھی جس موٹر میں حضرت امام سوار تھے۔ اس میں حضورؓ کے دائیں طرف حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ آنریری رسالدار اپنی وردی میں اور مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے پرائیویٹ سیکرٹری بائیں طرف، اور کپتان غلام محمد خان صاحب آف دوالمیال اپنے فل ڈریس میں آگے تھے۔ اور دوسری موٹر میں سردار فتح محمد خان صاحب صوبیدار اور محمد عبد اللہ خان صاحب جمعدار آف دو المیال اور صوبیدار ولی محمد خان صاحب بازید چک گورداسپور سوا ر تھے۔ یہ احباب بحیثیت احمدی ہونے کے حضور کے ہم راہ تھے۔ جب شہزادے کی سواری آئی تو احمدیہ جماعت نےاپنا دعائیہ نعرہ بلند کیا۔ شہزادے نے سلام قبول کیا۔ کل رات حسب اعلان بعد نماز مغرب تمام احباب جماعت کو جو یہاں جمع تھے نصائح بیان فرمائیں۔
26؍فروری1922ء:
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سوا دس بجے کے قریب قیام گاہ سے بذریعہ موٹر مستری موسیٰ صاحب کی درخواست پر موضع گنج متصل لاہور میں تشریف لے گئے۔ حضور کے ہم رکاب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے اور کیپٹن غلام محمد خان صاحب تھے۔ اس موضع میں مستری صاحب نے ایک مسجد احمدیہ بنائی ہے۔ جس میں حضورؓ نے دو نفل جماعت سے پڑھائے۔ مقتدی مندرجہ بالا اصحاب تھے۔ نوافل سے فارغ ہو کر شالا مار باغ میں تشریف لے گئے واپسی پر گنج میں مولوی جلال الدین صاحب کے مکان پر حضورؓ نے مع حضرت ام المومنینؓ و خدام و صاحبزادگان چائے نوش فرمائی۔
بعد نماز مغرب احمدی طلباء مقیم احمدیہ ہوسٹل کو نصائح فرمائیں۔ ان کو تبلیغ کے متعلق نصیحت انتظام اور افسروں کی اطاعت اورباجماعت نماز کی پابندی کی تاکید فرمائی۔
صبح کی نماز میں حضور بوجہ علالت تشریف نہیں لا سکے اللہ تعالیٰ صحت دے۔
(اخبار الفضل قادیان دارالامان 27؍فروری، 2؍مارچ 1922ء صفحہ1، 2، 15)
مسجد احمدیہ مغل پور ہ گنج میں دو نفل
26؍فروری1922ء:
حضرت میاں موسیٰ صاحب (نیلہ گنبد لاہور) نے مغل پورہ گنج میں ایک مسجد تعمیر کرائی تھی۔ جب حضورؓ لاہور میں تشریف لائے تو اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضوؓر از راه نو ازش مسجد کو دیکھ کر اپنے غلام کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔ چنانچہ حضورؓ 26؍ فروری 1922ء کومغل پورہ گنج تشریف لے گئے اور اس مسجد میں دونفل نماز بھی پڑھائی۔
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ460)
احمدیہ انٹر کالجئیٹ ایسوسی ایشن آمد
27؍فروری1922ء:
27؍فروری 1922ء کو حضور نے عہد یداران احمد یہ انٹر کا لجئیٹ ایسوی ایشن کی درخواست پر ان کے ایک اجلاس میں ’’روح کی نشاۃ ثانیہ‘‘ کے موضوع پر ایک پر از معلومات تقریر فرمائی جس سے حاضرین کی مذہبی معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ 460)
لاہور ریڈیو اسٹیشن
25؍مئی1941ء:
حضرت مصلح موعودؓ ساڑھے چار بجے شام بذریعہ کار مع حرم ثانی و صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب لاہورتشریف لے گئے۔ آج آٹھ بج کر پچاس منٹ پر رات کو حضورؓ نے لاہور ریڈیو سٹیشن پر ایک تقریر فرمائی جس کا عنوان ’’عراق کے حالات پر تبصرہ‘‘ تھا۔ یہ تقریر انوار العلوم جلد 16 میں شائع ہوئی۔
(الفضل 27؍مئی 1941ء)
پیشگوئی مصلح موعودؓ کے مصداق کاقیام کوٹھی شیخ بشیر احمد صاحب BA.LLB ایڈووکیٹ واقع13ٹمپل روڈ
15-16؍جنوری1944ء:
حضرت امیر المومنینؓ کا جسم مبارک مسلسل بیماریوں اور دماغی محنتوں کی وجہ سے نڈھال ہو چکا تھااور صحت روز بروز گرتی جارہی تھی اور بار بار بیماریوں میں مبتلا ہورہے تھے۔ اسی حالت میں حضورؓ نے سالانہ جلسہ 1943ء کو خطاب فرمایا۔ پھر جلدی ہی حضرت سید ہ اُم طاہر کی تشویشناک علالت کے باعث تشریف لے آئے جہاں حضرت سیدہ موصوفہ لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں داخل تھیں۔ اس سفر میں حضورکا قیام مکرم شیخ بشیر احمد صاحب بی اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ کی کوٹھی واقع 13 ٹمپل روڈ میں تھا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کے قیام لاہور کے دوران (غالباً)5اور6؍جنوری 1944ءکی درمیانی شب ایک عظیم الشان رویاء کے ذریعہ آپ پر یہ انکشاف فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 20؍فروری1886ء کو جس موعود بیٹے کی پیدائش کا اعلان ہوشیا ر پور کی سر زمین سے فرمایا تھا اور جس کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ وہ مسیحی نفس ہوگا، جلد جلد بڑھے گا علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائےگا اور وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ اس پیشگوئی کے مصداق آپ ہی ہیں۔
سرگودھا
تعارف:سرگودھا کا نام سادھو اور ہندو سے ملا کر بنایا گیا ہے۔ انگریز راج میں یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا مگر اس کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اس میں ایک فوجی ائیرپورٹ بنایا گیا۔ سرگودھا پہلے شاہپور کی ایک تحصیل تھا لیکن اب شاہپور اس کی تحصیل ہے۔ اس کا مشہو ر پھل کنوہے۔
18؍اکتوبر1947ء:
قیام پاکستان کے بعد نئے مرکز کی جگہ کی تلاش کےلیے حضورؓ نے اس سال خود کئی اسفار اختیار کیے اور اس سلسلہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے درج ذیل خدام کے ہم راہ سفر سرگودھا اورربوہ اختیارفرمایا
1.…قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ
2.…حضرت نواب محمد دین صاحب
3.…حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب دردؓ
4.…چودھری اسد اللہ خان صاحب
5.…راجہ علی محمد صاحب افسر مال
6.…شیخ محمد دین صاحب صدر انجمن احمدیہ جائیداد
ربوہ کی مجوزہ زمین کے معائنہ کے بعد حضورؓ نےتھوڑی دور سرگودھا کی طرف آگے چل کر سڑک پر پانی پینے کے ہینڈ پمپ سے خود چلو سے پانی لےکر چکھا اور فرمایا کہ پانی تو خاصااچھا ہے۔ یہاں سے روانہ ہوکر احمد نگر میں ایک کنویں کے قریب کھڑے ہوئے او رمقامی لوگوں سے ربوہ کی زمین کے بارے میں سیلاب کے دنوں کے حالات دریافت کیے۔ اورپھراس کے بعد سرگودھا کی طرف سفر کیا۔ موٹر میں بیٹھے کڑانہ پہاڑیوں کے دامن میں جو کھلا میدان ہے اس کا جائزہ لیا۔ سرگودھا پہنچ کر محترم چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج کی کوٹھی پر دوپہر کا کھانا تناول فرمایا۔ اور اس کے بعد ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں۔ نمازوں کے بعد لاہور کو روانہ ہوکر شام کو لاہور پہنچ گئے۔
(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ 284تا288)
11؍نومبر1949ء:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نےبعد نماز جمعہ کمپنی باغ سرگودھا میں ہزار ہا کے مجمع میں ایک نہایت پر معارف تقریر فرمائی جو تقریباً چار بجے سے پہلے سے شروع ہو کر چھ بجےشام تک جاری رہی۔
(الفضل 13؍نومبر1949ء)
26؍نومبر1950ء:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ صبح سات بج کر دس منٹ پر ربوہ سے بذریعہ کار عازم بھیرہ ہوئے۔ حضورؓ کے ہم راہ قافلہ پانچ کاروں اور ایک بس پر مشتمل تھا۔ جن میں صدر انجمن کے ناظران، تحریک جدید کے وکلاء، جامعہ احمدیہ، جامعة المبشرین، مدرسہ احمدیہ اور احمدیہ ہائی سکول چنیوٹ کے اساتذہ اور دیگر اکابر سلسلہ تھے۔ یہ قافلہ آٹھ بجے کے قریب امیر جماعت ہائے احمدیہ سرگودھا مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ کے مکان پر پہنچا۔ چائےاور ناشتہ نوش کرنے کے بعد یہ قافلہ نو بج کر پانچ منٹ پر بھیرہ جانے کے لیے بھلوال کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں ملک صاحب خان صاحب نون مع رفقاء کی درخواست پر حضورؓ فتح آباد گاؤں تشریف لے گئے۔ یہاں حضورؓ نے بیس منٹ کے قریب آرام فرمایا پھر بھیرہ پہنچ کر حضورؓ کار سے اتر کر سب سےپہلے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے آبائی مکان میں تشریف لے گئے، جس کا بیشتر حصہ پہلے ہی مسجدپر مشتمل تھا۔ اس کے بعد حضورؓ نے کرم دین کے بیٹے غلام احمد کے ہاتھ کی روٹی تناول فرمائی(کرم دین وہ شخص ہے جس نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا بائیکاٹ کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس بائیکاٹ کے زمانہ میں باوجودغیر از جماعت ہونے کے بڑی وفاداری کے ساتھ حضورؓ کی خدمت میں مصروف رہتا اور چونکہ یہ ایک تندور والاتھا اس لیے روٹی وغیرہ بنا کرحضورؓ کی خدمت میں پیش کرتا ) اس کے بعد حضورؓ مسجد نور میں تشریف لے گئے اور مسجد نور میں کھڑے ہوکر دیر تک حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے خاندانی حالات، جائیداد اور اوائل زندگی کے واقعات کے بارے میں عمر رسیدہ لوگوں سے دریافت فرماتے رہے۔ پھر مسجد نو رمیں دو نوافل شکرانے کے اداکیے۔ حضورؓ نے مسجد میں سنگ مرمر کا ایک یادگار کتبہ نصب فرمایا، جس میں حضورؓ کی بھیرہ تشریف آوری کا ذکر تھا۔ مکانا ت ملاحظہ فرمانے کے بعد حضورؓ حضرت مولوی صاحبؓ کے مطب دیکھنے تشریف لے گئے۔ جو رہائشی مکان میں تبدیل کیا جاچکا تھا۔ اس کے بعد حضورؓ محمد افضل صاحب پراچہ کے مکان پر تشریف لے گئے اور کھانا تناول فرمایا۔ ظہر کی نماز کے لیے حضورؓ بھیرہ کی دوسری مسجد میں تشریف لے گئے جو 1921ء میں تعمیر ہوئی یہاں حضورؓ نے نمازوں کی ادائیگی کے بعد ایک گھنٹہ پچپن منٹ کا خطاب فرمایا۔ یہاں بھی ایک سنگ یادگار نصب فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے اس پاک انسان کے بھیرہ والے رہائشی مکان کو برکت بخشی او راب وہاں مسجد نور آباد ہے حضورؓ کی حرم ثانی حضرت امة الحئی صاحبہ مرحومہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی صاحبزادی تھیں۔ خطاب کے بعد حضورؓ کی خدمت میں چائے پیش کی گئی اور پھر یہ قافلہ چھ بج کر دس منٹ پر واپس ربوہ لیے روانہ ہوگیا۔
(الفضل 29؍نومبر1950ء)
فیصل آباد(مسجد احمدیہ)
جماعت احمدیہ لائل پور (فیصل آباد)کو 1934ء میں گول منشی محلہ بھوانہ بازار اور امین پور بازار کے درمیان ایک قطعہ زمین پر پہلی مسجد احمدیہ کے بابرکت قیام کی توفیق ملی۔
1933ء میں اس مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ 1934ء میں جب مسجد کی شاندار عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی تو جماعت احمدیہ لائلپور نے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں اس کے افتتاح کرنے کی درخواست پیش کی۔ جو حضور نے قبول فرمالی اور 7؍اپریل 1934ء مطابق 22؍ذوالحجہ 1352ھ کا مبارک دن اس کے لیے مقرر فرمایا۔ حضو رؓ کی طبیعت ان دنوں علیل تھی اور ڈاکٹری مشورہ یہ تھا کہ یہ سفر ملتوی کر دیا جائے مگر حضورؓ نے یہ التوا منظور نہ فرمایا جس کی اصلی وجہ حضورؓ کے مقدس الفاظ ہی میں بیان کرنا موجب برکت ہے۔ حضور نے فرمایا:
’’میں سمجھا کہ یہ خاص طور پر دینی کام ہے لائل پور نوآبادی کا مرکز ہے اور اس لحاظ سے گویا نئی دنیا ہے چونکہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک کشف بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک نئی دنیا بنانے آئے تھے۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ جو نئی دنیابسی ہے وہاں جاؤں۔ تاو ہ کشف ایک رنگ میں پورا ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ آپؑ نے نیا آسمان اور نئی زمین بنائی ہے اس کے حقیقی معنے تو یہی ہیں کہ ساری دنیا میں آپ کے ذریعہ ایک نئی روح پھونکی جائے گی۔ مگر جزوی معنی یہ بھی ہیں کہ جونئی دنیا بسی ہے وہاں کے لوگوں میں سچا ایمان پیدا کر دیا جائے۔ پس اس قسم کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس علاقہ میں بھی احمدیت کو مضبوط کردے تا ظاہری آبادی کی طرح یہاں باطنی آبادی بھی ہوجائے۔ میں یہاں آنے پرآمادہ ہو گیا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 164)
ملتان
تعارف: پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے اور دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ ضلع ملتان اور تحصیل ملتان ہے۔ اس شہر کو اولیاء کا شہر کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں کافی تعداد میں اولیاء اور صوفیاء کے مزارات ہیں۔ ملتان کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں شہر آباد ہوئے۔ مگر گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن ہمارا بزرگ شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔ ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی کوشش کرنے والے سینکٹروں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے اور آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے اور مسجود ملائک بنا ہوا ہے۔
27؍مارچ 1945ء:
27؍مارچ کا دن ملتان کےلیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دن تھا جبکہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ ایک دن کےلیے وہاں تشریف فرما ہوئے۔ سندھ سے واپسی پر حضورؓ پر نور صبح سندھ ایکسپریس سے ملتان اترے اور تمام دن وہاں گزار کر قریب بارہ بجے کوئٹہ پسنجر کے ذریعہ عازم دار الامان ہو گئے ملتان میں حضورؓ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کی کو ٹھی میں فروکش ہوئے۔ اس کو ٹھی میں چند دنوں سے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مع اپنی بیگم صاحبہ، صاحبزادی سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے تشریف فرما تھے۔ حضورؓ کی خد مت میں موضع دیوه سنگھ تحصیل کبیر والا کے چند ایک احمد ی دوست حضورؓ کی زیارت کےلیے آئے تھے اس وقت حضورؓ کے پاس چند اعلیٰ سرکاری عہدےدار اور بعض دیگر معززین بیٹھےتھے۔پیش ہونے والے احمد ی دوستوں کی دنیاوی و جاہت دنیا داروں کی نظر میں محض دہقانوں کی سی تھی۔ جو معمولی افسروں کی ڈیوڑھی پر کھڑے ہونے کو بھی ترستے ہیں۔ لیکن حضور پر نور نے جوں ہی وہ دوست قریب آئے سرو قد کھڑے ہو کر ہر ایک دوست سے گرم جوشی سے مصافحہ فرمایا۔ اللہ اللہ مجیب نظارہ تھا حضورؓ کے کھڑے ہونے پر ان سرکاری عہدے داروں کو بھی کھڑے ہونا پڑا اور شائد دنیائے ملتان نے پہلی دفعہ یہ نظارہ دیکھا کہ چند ایک بظاہر بہت ہی معمولی آدمیوں کی خاطر پراونشل سروس جیسی پوزیشن کے افسر کھڑے ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور نے مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھائیں۔ پھر کھانا تناول فرما کر سٹیشن پر تشریف لے گئے۔ (الفضل16؍اپریل 1945ء)
سیالکوٹ
تعارف :صوبہ پنجاب کا شہر اور صنعتی صدر مقام ہے۔ نالہ ایک کےعین شمال میں اور جموں پہاڑیوں کے جنوب میں واقعہ ہے۔ جدید صنعتوں میں کھیلوں کا سامان قابل ذکر ہے۔ کہاجاتا ہے کہ سیالکوٹ کی بنیاد مہابھارت والے پانڈوؤں کے چچا راجہ سالا نے رکھی اور پھر وکرمادت کے زمانے میں راجہ سلواہن نے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔ 1868ء میں اسے میونسپلٹی کا درجہ دیاگیا۔ سیالکوٹ شاعر فلسفی محمد اقبال کا شہر پیدائش ہے۔ بابا گرونانک کا ایک مشہور گوردوارہ شہر میں قائم ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 4لاکھ 17 ہزار597ہے۔
(عالمی انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ 1263)
سیالکوٹ کا سفر
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فروری 1949ء کے پہلے ہفتہ لاہور سے سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ 3؍فروری 1949ء کو جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے ایک عصرانہ کا انتظام کیا جس میں چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے حضورؓ کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضورؓ نے ایک تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ ہمبرگ(جرمنی)میں گیارہ بارہ احمدی ہیں اور جرمن لوگوں میں اسلام کے متعلق خاص طورپر رغبت پائی جاتی ہے او روہ اسلام کی تحقیق کر رہے ہیں جو قربانی اور کام کی روح ان لوگوں میں پائی جاتی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ لوگ اسلام قبول کریں گے تو اسلام کے لیے ویسی ہی قربانیاں کریں گے جس طرح یہ لوگ دنیا کے لیے قربانیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انگلستان کی نسبت جرمن اسلام کی طرف بہت زیادہ راغب معلوم ہوتے ہیں۔ حضورؓ نے دوران تقریر مبلغ انگلستان مسٹر بشیر آرچرڈ کی قربانی اور تبلیغی خدمات پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی قربانی کے نتیجے میں دوسرے لوگوں میں بھی ایک قسم کی بیداری پیداہوگئی ہے اور انہیں دیکھ کر میں امید کرتا ہون کہ ان کے اند ر اسلام کی حقیقی روح پیدا ہوجائے گی اوروہ اسلامی تمدن کے مطابق کام کرنے لگ جائیں گے۔ آخر میں حضورؓ نے حاضرین کو نصیحت فرمائی کہ آپ کوشش کریں کہ ہمارے اند ر کوئی ایسی چیز پائی جائے جسے دیکھ کر ہر شخص کہہ سکے کہ یہ پاکستانی ہے۔ کسی مجلس میں ہم چلے جائیں وہ فوراً ہمیں شناخت کر کے کہہ سکے کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں۔ جیسے یورپین لوگوں کو فوراً پہچان لیا جاتاہے۔
اگلے روز 4؍فروری 1949ء کو 8 بجے شب جناح ہال میں خواجہ محمد صفدر صاحب پریذیڈنٹ مسلم لیگ سیالکوٹ کے زیر صدارت ایک جلسہ منعقد ہوا جس سے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے خطاب فرمایا اور ’’پاکستان اور اس کے بین المملکتی تعلقات‘‘ کے عنوان پر نہایت معلومات افروز لیکچر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے لیکچر کے آغاز میں تعلقات کی اقسام پر روشنی ڈالی۔ مثلاً تعلقات عامہ تعلقات خاصہ(مدافعانہ، جارحانہ، صنعتی وغیرہ )۔ قیام پاکستان کے اس ابتدائی دور میں پاکستان کو دوسرے ممالک سے کن خطوط پر معاہدات کرنے چاہئیں ؟اس بارے حضورؓ نے رہ نمائی فرمائی اور پھر پاکستان کی ترقی واستحکام کے لیے بہت سی مفید تجاویز حاضرین کے سامنے رکھیں۔
حضرت بابو قاسم دین صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سیالکوٹ میں حضورؓ کا ایک لیکچر خان بہادر خواجہ برکت علی صاحب ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر جنرل سیالکوٹ کی صدارت میں ہوا۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کا لیکچر استحکام پاکستان کے سلسلہ میں موتی محل سینما میں بصدارت خان بھاؤ خواجہ برکت علی صاحب ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر جنرل سیالکوٹ رات 8 بجے کے قریب شروع ہوا۔ یہ سینما سرائے مہاراجہ جموں و کشمیر کے ساتھ ہی واقع ہے جس میں 2؍نومبر 1904ء کو حضرت مسیح موعودؑ کا لیکچر سیالکوٹ(بصدارت حضرت مولوی نوردین صاحبؓ ) حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پڑھ کر سنایاتھا۔ لیکچر کے سننے کے لیے شہر سیالکوٹ میں ایک عام منادی کرائی گئی تھی۔ ہماری بیرونی جماعتوں کے لوگ بھی کثرت سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ تقریر کے وقت ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا اور حاضری ہمارے اندازہ سے کئی گنا زیادہ تھی۔ جلسہ نہایت پر امن ماحول میں ہوا اور نہایت کامیاب ہوا۔ خاکسار جلسہ کے دوسرے دن مکرم چوہدری محمداکرم صاحب سول سپلائی افسر سیالکوٹ کے ہاں گیا وہاں خان بہادر چوہدری قاسم علی صاحب، ذیلدار، سب رجسٹرار، پراونشل درباری ساکن بدر کی چیمہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ تشریف رکھتے تھے میں ان کو ملا۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے جلسہ کی تقریر کی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ خلیفہ صاحب کا سیاسی، جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے بہت وسیع علم اور مطالعہ ہے۔ ہال میں ایک نقشہ ضلع سیالکوٹ کا لٹکایا ہوا تھا جس کے ذریعہ سے پاکستان اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کی نشان دہی کرکے دوران تقریر میں بتاتے جاتے تھے۔ مکرم چوہدری صاحب نے مجھ کو فرمایا کہ رات کا لیکچر سن کر میری طبیعت پر یہ اثر ہوا ہے کہ اب ہم کو خلیفہ صاحب کی بیعت کر لینی چاہیے۔ دوران قیام سیالکوٹ حضورؓ نے سیالکوٹ۔ جموں کا بارڈر بھی جا کر دیکھا۔ حضورؓ وہاں جیپ پر تشریف لے گئےتھے۔ (قاسم الدین محلہ حکیم حسام الدین سیالکوٹ)
(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ309)
نخلہ
نخلہ کے نام سے ایک نئی بستی کی بنیاد
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ تقسیم ہند سے قبل تبدیلی آب وہوا کے لئے اکثر پالم پور اور ڈلہوزی تشریف لے جایا کرتےتھے۔ کیونکہ یہ پہاڑی مقامات ایک تو زیادہ بلندی پر واقع نہیں ہیں۔ دوسرے ان کی آب و ہوا معتدل ہونے کے باعث حضور انور کے مزاج مبارک کے موافق تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس مقصد کے لئے مری میں خیبر لاج حاصل کی گئی مگر مری موزوں جگہ ثابت نہ ہوئی۔ اس لیے حضور کی ہدایت پر جابہ ضلع سرگودھا (حال ضلع خوشاب) کے قریب اس سال کے شروع میں نخلہ کے نام سے ایک اضافی بستی کی بنیاد رکھی گئی۔ نخلہ کی زمین نواب مسعود احمد خاں صاحب کی ملکیت تھی۔ تعمیرات سے پہلے اس جگہ دو چھولداریاں نصب کی گئیں جو سرگودھا سے کرائے پر حاصل کی گئی تھیں۔ سب سے پہلے حضرت مصلح موعودؓ کی کوٹھی کی بنیاد رکھی گئی جس کی ابتداء میں بعض مقامی لوگوں نے مخالفت کی۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ روک غیر احمدی شرفاء کی مداخلت سے بہت جلد دور ہو گئی۔ یہ کوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب چیئرمین صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی نگرانی میں 1956ء کے وسط آخر میں نہایت تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچی۔ کوٹھی کا نقشہ سید سردار حسین شاہ صاحب نے تیار کیا۔ اور اس کے حسابات کی خدمت مکرم ملک فضل عمر صاحب مولوی فاضل نے سر انجام دی۔
نخلہ میں حضور کی کوٹھی کے علاوہ مندرجہ ذیل عمارات بھی تعمیر کی گئیں :
(1)مسجد
(2) دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
(3)بیرکس برائے پہریداران
(4) کوارٹرز برائے صاحبزادگان حضرت مصلح موعودؓ
(5)کوارٹرز برائے ناظران و وکلاء
(6) بیرکس برائے غیر ملکی طلباء
(7) کوارٹر برائے ڈسپنسری و ڈسپنسر
(8)کوارٹر برائے معلم نخلہ
(9)گیسٹ ہاؤس برائے جامعہ نصرت ربوہ
نخلہ کے ماحول کو خوشگوار اور پر فضا بنانے کے لیے ایک باغ بھی لگایا گیا جس میں ولایتی شریفہ، یوکلپٹس، مالٹا، آلوچہ، آڑو، امرود، انگور، انجیر اور فالسہ کے پودے لگائے گئے۔ نخلہ کی قیام گاہوں میں روشنی اور پنکھوں کے لیے جنریٹر نصب کیا گیا جو محمد اکرام اللہ صاحب ملتان چھاؤنی کے ذریعہ مہیا ہوا۔ وائرنگ کے لیے نصرت کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جس کے نگران صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور مینیجر چوہدری غلام حسین صاحب تھے۔
نخلہ کے پرانے ریکارڈ کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ تعمیرات کا معائنہ کرنے کےلیے نخلہ میں پہلی بار 25؍جون 1956ء (احسان 1335) کو رونق افروز ہوئے اور ایک رات کے قیام کے بعد مری تشریف لے گئے۔ اس ابتدائی سفر کے بعد حضورؓ ہر سال جابہ میں تشریف لے جاتے رہے۔ آخری بار حضورؓ نے 9؍جولائی 1962ء (وفا1341) کو سفر نخلہ اختیار فرمایا اور قریباً اڑھائی ماہ تک قیام فرما رہنے کے بعد 26؍ستمبر 1962ء (تبوک 1341) کو ربوہ تشریف لائے۔
نخلہ میں سلسلہ احمدیہ کے بہت سے اہم کام سرانجام پائے۔ حضورؓ نے یہاں متعدد خطبات جمعہ ارشاد فرمائے۔ تفسیر صغیر جیسی مہتم بالشان تفسیر یہیں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ بہت سے خوش قسمت افراد اور جماعتوں کو اپنے پیارے امام سے شرف باریابی کے قیمتی مواقع میسر آئے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے وصال (7-8؍نومبر 1965ء) کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ بھی اپنے مبارک عہد خلافت کے اوائل میں نخلہ تشریف لے گئے۔
افسوس مئی/جون 1974ء کے ملکی ہنگاموں کے دوران نخلہ کی بستی نہایت بے دردی سے تاخت و تاراج کر دی گئی۔
(تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 433 تا 436)
صوبہ خیبر پختونخواہ
پشاور
3؍اپریل 1948ء:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نماز عشاء پڑھ کر بزم پشاور لاہور کے سٹیشن پر تشریف لائے۔ آپ کو الوداع کہنے کے لیے لاہور کی جماعت کے لوگ کثیر تعداد میں موجود تھے۔ پاکستان میل مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ بیس منٹ تاخیر سے پہنچی تب تک جماعت کے لوگ اسٹیشن پر کھڑےرہے اس وقت حضورؓ ٹرین کے ڈبہ کے دروازہ میں ہی احباب کی خاطر کھڑے رہے۔ لاہور سے پشاور کےلیے گاڑی ساڑھے نو بجے رات روانہ ہوئی۔
راستہ میں درج ذیل اسٹیشنوں پر اپنے محبوب آقا کی زیارت کےلیے احباب جمع تھے۔ اسٹیشن یہ ہیں گوجرانوالہ، وزیرآباد، لالہ موسیٰ، جہلم، راولپنڈی، کیمل پور، نو شہرہ اور پشاور۔
جب گاڑی راولپنڈی پہنچی بارش ہو رہی تھی اور او لے پڑنے کی وجہ سے ہوا میں خنکی پیدا ہو چکی تھی۔ پھر بھی یہاں کی جماعت کے کافی لوگ جمع تھے۔ نوشہرہ کے اسٹیشن پر چالیس احمدی اور تیس غیر احمدی دوست حضورؓ کی زیارت کےلیے جمع تھے۔ حضورؓ نے سب کو شرف مصافحہ بخشا۔ اس کے بعد مرزا غلام حیدر صاحب امیر مقامی کی درخواست پر حضورؓ نے ٹرین سے اتر کر مختصر سا خطاب فرمایا۔ جب گاڑی پشاورا سٹیشن پر رکی تو چالیس کے قریب دوست استقبال کے لیے موجود تھے۔ جب گاڑی پشاور چھاؤنی پر پہنچی تو وہاں صوبہ سرحد کی مختلف جماعتوں مثلاً کوہاٹ، چار سدہ، مردان، پشاور اور ارد گر د کے احمدی احباب پانچ سو کی تعداد میں جمع تھے۔ حضورؓ نے گاڑی کے دونوں طرف آبادی کو دیکھ کرفرمایا آج یہ نظارہ دیکھ کر مجھے اپنا ایک پرانا خواب یاد آگیا ہے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پشاور ٹرین میں بیٹھ کر آیا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گاڑی شہر کی ایک گلی سےگزر رہی ہے۔ 4؍اپریل کو پونے دس بجے صبح شیخ مظفر الدین امیر جماعت مقامی کے بنگلہ پر رہائش کیلئے تشریف لے گئے۔
7؍اپریل1948:
حضرت مصلح موعودؓ بعد نماز عشاء میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے ہاں دعوت پر تشریف لے گئے۔
15؍اپریل1948:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ مع خدام شام چھے بجے پشاور تشریف لے آئے۔ عصر کی نماز حضور نے مسجد احمدیہ پشاور میں ادا کی۔ نماز کے بعد حضور خان عبد المجید صاحب آف زہدہ کی دعوت پر دین ہوٹل میں تشریف لے گئے۔
(الفضل 8، 13 اور 16؍اپریل 1948ء)
مری
تعارف:ملکہ کوہسار مری پاکستان کے شمال میں ایک مشہور اور خوبصورت سیاحتی تفر یحی مقام ہے۔ مری شہر دارالحکومت اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ مری کا سفر سرسبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اور دوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھر پور ہے۔ گرمیوں میں سر سبز اور سردیوں میں سفید رہنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے بہت کشش کا باعث ہیں۔
مری کے اسفار
23؍اپریل 1956ء:
سہ پہر کے وقت سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بذریعہ موٹر کارربوہ سے مری تشریف لے گئے۔ سید ہ ام ناصر صاحبہ، سیدہ ام وسیم صاحبہ، سیده ام متین صاحبہ، اور سیدہ مہر آپا صاحبہ کے علاوہ صاحبزادی امة المتین صاحبہ، صاحبزادی امۃ الجمیل صاحبہ اور صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بھی حضورؓ کے ہم راہ تھے۔ عملے کے ارکان اور خدام میں سے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، مکرم محمد شریف صاحب اور محمد حسین صاحب چیمہ کو بھی حضورؓ کی معیت میں مری جانے کا شرف حاصل ہوا۔
(الفضل 25؍اپریل1956ء)
27؍اپریل1956ء:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ جمعہ پڑھانے کے بعد عصر کی نماز سے فارغ ہو کر موٹر کار پر گھوڑاگلی تک سیر کے لیے تشریف لے گئے۔
2؍مئی1956ء:
عصر کے بعد حضورؓ حسب معمول سیر کے لیے تشریف لے گئے۔ کیپٹن سعید احمد صاحب نے ایک جگہ جس کا نام ’’بھوربند‘‘ تھاسیر کا انتظام کیا ہوا تھا۔ یہ جگہ مری سے پانچ میل دور ہے۔ شام کی افطاری کا انتظام بھی وہیں کیا گیا تھا۔ وہاں سے حضور عشاء کے قریب واپس تشریف لائے۔
17؍مئی1956ء:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ صبح نو بجے سیر کے لیے بور بن تشریف لے گئے۔ تقر یباًچھ بجے شام واپس تشریف لائے۔
(الفضل3، 6 اور 23؍مئی 1956ء)
بالاکوٹ
تعارف:خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ میں ایک قصبہ ہے۔ مانسہرہ سے 38کلو میٹر شمال مشرق کی طرف واقع ہے۔ وادی کاغان کا آغاز اسی قصبہ سے ہو تا ہے۔
20؍ستمبر1956ء:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ صبح کو اہل خانہ اور خدام کے ہم راہ حضرت سید احمد صاحب شہید بریلوی کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لیے بالا کوٹ تشریف لے گئے۔ بالا کوٹ پہنچ کر حضور کار سے اتر آئے اور خدام کے ہم راہ حضرت سید احمد صاحب کے مزار کی طرف پیدل روانہ ہوئے۔ حضورؓ کی شدید خواہش تھی کہ حضرت سید محمد اسماعيل صاحب شہید کے مزار پر بھی تشریف لے جائیں۔ چونکہ وہ مقام پہاڑی اور کٹھن تھا اور حضور کے لیے وہاں تک چل کر جانا مشکل ہو گا اس وجہ سے حضورؓ وہاں نہ تشریف لے جا سکے۔ اور حضرت سید احمد بریلوی کے مزار پر تشریف لے گئے۔ حضورؓ نے وہاں لمبی اور پر سوز دعا کروائی۔ یہاں حضورؓ نے تصویر بھی کھنچوائی۔
(تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 223تا225)
صوبہ سندھ
سندھ اسٹیٹس کے اسفار
24؍جنوری1940ء:
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے تقسیم ہند سے قبل اور بعد سندھ اسٹیٹس کے متعدد اسفار فرمائے۔ برکت کے طور پر متحدہ ہندوستان میں آخری سفر سندھ کا تذکرہ پیش ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کا متحدہ ہندوستان میں آخری سفر سندھ
حضرت مصلح موعودؓ قریباً ہر سال سندھ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ 1947ء میں حضورؓ سفر سندھ کے لیے یکم مارچ کو ڈیڑھ بجے بذریعہ کار قادیان سے روانہ ہوئے اور ساڑھے چار بجے لاہور پہنچے۔ حضور کے ہم راہ حضرت ام المومنینؓ، حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، حضرت ام متین صاحبہ، حضرت ام وسیم صاحبہ، حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ، صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ، صاحبزادی امۃ الجمیل صاحبہ، صاحبزادی امۃ المتین صاحبہ، صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب، چوہدری مظفر الدین صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کے علاوہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے بہت سے کارکنان اور دیگر دفاتر کے متعدد ارکان بھی تھے۔
حضور دوسرے دن 2؍مارچ کو بذریعہ کراچی میل روانہ ہوئے۔ اسٹیشن پر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ، شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور اور دیگر بہت سے دوستوں نے حضور کو الوداع کہا۔
لاہور کے بعض دوست رائے ونڈ تک ساتھ گئے۔ اوکاڑہ کی جماعت حضورؓ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ اس کے بعد منٹگمری اسٹیشن پر صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب، میاں عبدالرحیم احمد صاحب، چوہدری محمد شریف صاحب وکیل اور دیگر افراد جماعت منٹگمری حضورؓ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ گاڑی چلنے سے پیشتر حضورؓ نے دعا فرمائی۔ ملتان کے اسٹیشن پر ملک عمر علی صاحب کھوکھر رئیس ملتان اور شیخ فضل الرحمان صاحب اختر امیر جماعت ملتان مع دیگر دوستوں کے موجود تھے جماعت ملتان کی طرف سے چار بجے شام کی چائے اور ملک عمر علی صاحب کی طرف سے شام کا کھانا پیش کیا گیا۔ اس کے بعد لودھراں، سمرسٹہ، بہاولپور، ڈیرہ نواب، خانپور، رحیم یار خاں، سکھر، روہڑی وغیرہ میں جماعت کے دوست ملاقات کے لیے آتے رہے۔
ایک بجکر 35منٹ پر گاڑی کراچی شہر کے اسٹیشن پر پہنچی۔ جماعت احمدیہ کراچی کے احباب کے علاوہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب بھی اپنے آقا کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے۔ جماعت کی طرف سے مہمانوں کو قیام گاہ تک پہنچانے کے لیے کاروں کا انتظام تھا اور سامان وغیرہ بذریعہ ٹرک قیام گاہ پر پہنچایا گیا۔ حضورؓ دو بجے اپنی قیام گاہ پر پہنچ گئے۔ اس طرح حضور کا یہ مبارک سفر بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا۔
کراچی میں مصروفیات
حضورؓ قریباً ایک ہفتہ تک کراچی میں قیام فرما رہے حضورؓ کی رہائش کا انتظام جماعت کراچی کے ذمہ تھا جو ایک بنگلہ میں اسٹیشن سے تین میل دور کیا گیا تھا۔ وسیع صحن میں سائبان نصب کرکے باجماعت نمازوں کا التزام کیا گیا کراچی شہر کے علاوہ مضافات کے احمدی دوست بھی بکثرت شرکت کرتے رہے۔ قیام کراچی کے ایام میں حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ تقریباً ہر روز نمازوں کے بعد مجلس عرفان منعقد فرماتے رہے۔ جس میں احمدی احباب کے علاوہ انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
5؍مارچ کو حضورؓ نے جماعت کے عہدیداران کو ضروری نصائح فرمائیں اور صوبہ سندھ میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لیے ضروری ہدایات دیں۔
6؍مارچ کو احمدی احباب بہت سے غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہم راہ لائے ہوئے تھے جنہیں حضورؓ نے مجلس عرفان میں قیمتی ارشادات سے مستفیض فرمایا۔ جماعت کے تاجروں کو بھی حضورؓ نے ضروری نصائح فرمائیں اور اپنی تنظیم کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ اس روز سر غلام حسین ہدایت اللہ صاحب وزیراعظم سندھ نے حضور کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ جس میں حضور نے شرکت فرمائی۔
7؍ مارچ کو جمعہ تھا نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مزید سائبان نصب کیے گئے۔ جس میں ساڑھے تین سو کے قریب احمدی مرد و زن شامل ہوئے۔ خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے جماعت پر تبلیغ کی اہمیت واضح کی اور کراچی میں اس غیر معمولی ترقی پر اظہار خوشنودی فرمایا اور تبلیغی مہم کو وسیع کرنے کی تحریک فرمائی۔
8؍مارچ کو حضورؓ نے ضروری مشاغل کے علاوہ احمدیہ دارالتبلیغ اور مسجد وغیرہ کے لیے زمین کا معائنہ فرمایا۔ اسی روز شام کو ایک احمدی دوست نے دعوت طعام کا اہتمام کیا تھا جسے حضور نے قبول فرمایا۔ مغرب اور عشاء کے بعد مجلس عرفان منعقد فرمائی اور اس سے فارغ ہوکر حضور نے واپسی کا عزم فرمایا اور کار میں سوار ہوکر اسٹیشن پر مع قافلہ تشریف لے گئے۔ جہاں سے دس بجے شب کی ٹرین سے ناصر آباد کے لیے روانہ ہوگئے اسٹیشن پر احمدی احباب بکثرت موجود تھے اور انہوں نے اپنے پیارے آقا کو نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان رخصت کیا۔ حضور نے روانگی سے قبل خدام کو شرف مصافحہ بخشا اور دعا کی۔ حضورؓ کے قیام کراچی کے دوران جماعت کے احباب نے نہایت مخلصانہ خدمات سر انجام دیں اور شبانہ روز مختلف فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے اور باوجود دنیوی مصروفیات کے حضور کی مصاحبت کا زیادہ سے زیادہ شرف حاصل کرتے رہے۔ ان ایام میں چھ اصحاب حضور کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔
ناصر آباد، کنری، احمد آباد اور محمد آباد میں قیام کے مختصر کوائف
حضرت مصلح موعودؓ مع قافلہ 9؍مارچ کو ناصر آباد میں پہنچے جہاں حضور اسٹیٹ کے باغ اور ملحقہ اراضیات کا ملاحظہ کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور عملہ کو ضروری ہدایات دیں۔ 10؍مارچ کو صبح گیارہ بجے سے 3بجے بعد دوپہر تک اسٹیٹ کے معاملات کا جائزہ لیا نیز شام سے کچھ پہلے اسٹیٹ کے باغ میں سیر کے لیے تشریف لے گئے۔
12؍مارچ کو ناصر آباد میں باغ اور اراضیات کا ملاحظہ فرمایا اور ضروری ہدایات دیں اس کے علاوہ کنری جننگ فیکٹری کی توسیع سے متعلق بھی تبادلہ خیالات فرمایا۔
15؍مارچ کو حضور(مع افراد خاندان و حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب) بذریعہ کار دس بجے صبح کنری پہنچے باقی خدام بذریعہ ریل آئے۔ حضورؓ نے فیکٹری کا ملاحظہ فرمایا اور کارکنوں کو ہدایات سے نوازا۔ دوپہر کا کھانا جماعت کنری نے پیش کیا جس کے بعد نماز ادا کی گئی۔ بعد ازاں قافلہ محمود آباد اسٹیٹ کے لیے روانہ ہوگیا اور شام تک بخیریت پہنچ گیا۔ حضورؓ نے شام سے قبل اسٹیٹ کی اراضیات کا ملاحظہ فرمایا اور رات کو اسٹیٹ کے معاملات کی پڑتال فرمائی۔ حضورؓ اسٹیٹ کے معاملات کا معائنہ فرماکر اور ہدایات دے کر 18؍ مارچ کو بارہ بجے دوپہر احمد آباد روانہ ہوئے تھوڑی دیر بعد کنری ٹھہرے اور 2بجے احمد آباد پہنچ کر اراضیات کا معائنہ فرمایا اور وہاں کے ضروری معاملات نپٹا کر بذریعہ کار ساڑھے سات بجے شام محمود آباد میں وارد ہوئے۔
20؍مارچ کو حضورؓ روزے کے باوجود گھوڑے پر سوار ہوکر دوپہر کے وقت تین گھنٹہ تک اسٹیٹ کا معائنہ فرماتے رہے اور نماز کے بعد مجلس علم و عرفان میں بھی رونق افروز رہے۔ اگلے تین دنوں میں حضورؓ نے محمد آباد خاص، روشن نگر، لطیف نگر، کریم نگر، نور نگر کی اراضیات کا معائنہ فرمایا۔
21؍مارچ کو حضورؓ نے خطبہ جمعہ میں احباب کو سندھ میں منظم تبلیغ کرنے کی اور پوری طاقت سے اپنے فرائض ادا کرنے کی تحریک فرمائی۔ نماز جمعہ کے بعد بارہ اصحاب نے اور نماز عشاء کے بعد چار اصحاب نے بیعت کی۔ نماز جمعہ کے لیے ناصر آباد، کنری، نصرت آباد، محمود آباد اور دیگر مقامات سے احباب آئے ہوئے تھے۔ میاں عبدالرحیم احمد صاحب اسٹیٹ کے دوسرے کارکنوں کے ساتھ اسٹیٹ کے مختلف معاملات حضورؓ کی خدمت میں پیش کرتے رہے اور حضورؓ نیز آپ کے اہل بیت اور دیگر خدام کی مہمان نوازی میں مصروف رہے۔
اگلے روز 22؍مارچ کو حضورؓ مع قافلہ محمد آباد سے دوبارہ ناصر آباد میں رونق افروز ہوئے اور28؍مارچ تک قیام پذیر رہے۔ سفر میں شروع ہی سے حضورؓ کو دانت درد کی تکلیف تھی جو 28؍مارچ کو بہت شدت اختیار کرگئی۔ مگر اس کے باوجود حضورؓ اس روز تین گھنٹہ تک سندھ اسٹیٹ کے معاملات کے انتظام اور ترقیات کے متعلق منیجر صاحبان اور دیگر کارکنوں سے تبادلہ خیالات کرنے اور ہدایات دینے میں مصروف رہے پھر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں دین کے لیے قربانی کرنے پر بہت زور دیا۔ نماز جمعہ کے بعد چار اصحاب داخل احمدیت ہوئے۔ نماز جمعہ میں کنری محمود آباد اور دیگر اسٹیٹ کے احمدی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
کنجیجی سے سکھر تک
29؍مارچ 1947ء واپسی کا دن تھا۔ اس روز حضورؓ مع خاندان کار میں سوار ہوکر پونے چار بجے کے قریب کنجیجی اسٹیشن پر تشریف لائے اور مسافر خانہ میں نماز ظہر و عصر جمع کیں۔ نمازوں کے بعد حضورؓ خدام کے درمیان رونق افروز ہوکر مختلف حالات کے متعلق اظہار خیال فرماتے رہے۔ اس موقعہ پر دو دوستوں نے بیعت بھی کی۔ دوران گفتگو میں سندھ میں بسنے والی نیچ اقوام میں تبلیغ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ نیچ اقوام مثلاً بھیل، کوہلی وغیرہ ہندوستان کی پرانی اور اصلی قومیں ہیں جو ہندوؤں کے ظلم و تعدی کی وجہ سے اس ذلت کو پہنچی ہیں۔ اس وقت انہیں اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مسلمان اگر ان میں تبلیغ کریں اور حسن سلوک سے پیش آئیں تو وہ بہت جلد اسلام کو قبول کرسکتی ہیں۔ ان کا اپنا مذہب کوئی نہیں ہے۔ ہندو صرف سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں حالانکہ وہ ان کے دھتکارے ہوئے ہیں اور ان کے مظالم کی بدولت ہی اس حالت تک پہنچے ہیں۔ سندھ میں مسلمانوں کے اکثر مزار عین یہی لوگ ہیں۔ اگر وہ ان پر ذرا سا بھی دباؤ ڈالیں تو وہ مسلمان ہوسکتے ہیں اور اس وقت سندھ میں ہندوؤں کی جو آبادی نہایت سرعت سے بڑھ رہی ہے وہ رک جائے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ جب یہ قومیں باہر سے آتی ہیں۔ تو ہندو انہیں ہتھیا لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ شاملات زمین کی طرح ہیں۔ ہر مذہب ان پر آسانی سے قبضہ کرسکتا ہے۔ مگر ہندو فائدہ اٹھاتے ہیں اور مسلمان توجہ نہیں کرتے اسی وجہ سے ہندوؤں کی آبادی روز بروز سندھ میں بڑھتی جاتی ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے اس کا تدارک نہ کیا تو سندھ میں بھی مسلمان اقلیت ہو جائیں گے۔
گاڑی آنے پر حضورؓ مع خاندان و خدام اس میں سوار ہوگئے شام کے قریب گاڑی براستہ پتھورو میر پور خاص پہنچی جہاں احمدی احباب استقبال کے لیے موجود تھے کار پر سوار ہوکر حضورؓ مع قافلہ جناب مہدی حسین شاہ صاحب کے بنگلہ پر تشریف لے گئے جہاں طعام و رہائش کا خاطر خواہ انتظام تھا بنگلہ کے وسیع احاطہ میں نماز مغرب و عشاء جمع کرنے کے بعد حضورؓ خدام کے درمیان ہی تشریف فرما رہے اور دیر تک مقامی امور کے متعلق گفتگو فرماتے رہے اور سندھ میں نئی زمینوں کے متعلق تبادلہ خیالات فرماتے رہے۔
30؍ مارچ کو علی الصبح حضورؓ مع خاندان بذریعہ کار اسٹیشن پر پہنچے گاڑی میں سوار ہوکر صبح دس بجے حیدر آباد پہنچے۔
یہاں سے ساڑھے بارہ بجے کے قریب مع قافلہ سندھ ایکسپریس میں سوار ہوئے۔ پڈعیدن اسٹیشن پر کمال ڈیرہ، جمال پور، شریف آباد، فارم دیہہ ماکھنڈ، دہیہ مموئی، باندھی، اکرہ، کرونڈی، مصر جی واہ وغیرہ کے مخلصین جماعت کے علاوہ متعدد غیر احمدی دوست بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ جماعت کی طرف سے معزز مہمانوں کی خدمت میں سوڈا واٹر پیش کیا گیا۔ بعض دوستوں نے حضرت امیر المومنین کا تبرک حاصل کرنے کے لیے شربت کے گلاس پیش کرنے شروع کیے۔ یہ سلسلہ لمبا ہوتا چلا گیا۔ مگر حضور نے ہر پیشکش کو نہایت خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ گاڑی روانہ ہونے کو تھی مگر خدام اپنے آقا کے گرد گھیرا ڈالے بدستور کھڑے تھے وہ اس تھوڑے سے وقت میں اپنے پیارے آقا کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنا چاہتے تھے گاڑی کے روانہ ہوچکنے پر اس مختصر سی ملاقات کو ناکافی سمجھ کر انہوں نے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع کر دیا مگر ان کی خواہشات اور ان کے جذبات کے خلاف گاڑی بہت جلد آگے نکل گئی۔ والہانہ عقیدت کا یہ منظر قریباً ہرا سٹیشن پر جہاں گاڑی کھڑی ہوئی، نظر آتا۔ نواب شاہ کے اسٹیشن پر اردگرد کی جماعتوں کے بہت سے دوست موجود تھے۔ چوہدری محمد سعید صاحب نے حضورؓ کی خدمت میں دوپہر کا کھانا پیش کیا۔ 6بجے کے قریب گاڑی روہڑی پہنچی۔ جہاں سے موٹر کاروں پر سکھر تشریف لائے اور سید غلام مرتضیٰ شاہ صاحب ایگزیکٹو انجینئر کے بنگلہ پر قیام فرمایا۔
سکھر میں باڈہ، گنبٹ، روہڑی، صوبو ڈیرو، کمال ڈیرو، اکرہ، شریف آباد فارم، ریاض اسٹیٹ اور کوئٹہ سے احباب جماعت (مرد اور عورتیں )ڈیڑھ سو کے قریب حضور کی زیارت اور ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔
رات کو جماعت سکھر کی طرف سے ایک دعوت طعام کا انتظام کیا گیا۔ جس میں شہر کے معززین اور سرکاری عہدیداران خاص طور پر مدعو تھے۔ حضورؓ نے اس موقعہ پر تقریباً تین گھنٹے تک علمی مذاکرہ فرمایا اور سوال کرنے والوں کو شافی جوابات ارشاد فرماتے رہے۔
اگلے روز 31؍ مارچ کو گیارہ بجے کے قریب حضورؓ مع اہل بیت لائڈ جارج بیرج دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے اور کافی وقت تک ٹیکنیک کے متعلق گفتگو فرماتے رہے۔
بعد ازاں اپرینگ بیرج کو حضورؓ نے ٹرالی پر عبور فرمایا۔ اس کے بعد کشتیوں پر سوار ہو کر دریا کی سیر کو تشریف لے گئے۔ اسی دوران میں حضورؓ نے ہندوؤں کے مشہور مندر سادھ بیلے کو جو دریا کے درمیان ایک جزیرہ کی صورت میں ہے اندر جاکر دیکھا۔
اس دن دوپہر کو جناب حسین صاحب ایکسائز سپرنٹنڈنٹ نے حضورؓ کو مع قافلہ و احباب جماعت دعوت طعام پیش کی۔ جس میں کئی معززین شہر مدعو تھے اور تقریباً اڑھائی گھنٹہ تک حضورؓ نے مختلف مذہبی، سیاسی اور اقتصادی سوالات کے متعلق حقائق و معارف بیان فرمائے۔ ان تقریبوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت فائدہ ہوا اور حضرت امیر المومنین کی بلند پایہ شخصیت اور تبحر علمی کا گہرا اثر معززین کی طبائع پر ہوا جس کا بعد میں انہوں نے اظہار بھی کیا۔
حضورؓ کے قیام سکھر کے دوران میں احباب جماعت سکھر خصوصاً صوفی محمد رفیع صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس، سید غلام مرتضیٰ شاہ صاحب ایگزیکٹو انجینئر، چوہدری محمد عبداللہ صاحب ایمپلائمنٹ ایکسچینج نہایت اخلاص سے کام کرتے رہے حضور کے قیام کے دوران میں آٹھ موٹر کاریں بیک وقت بنگلہ پر موجود رہتیں اور آنے والے مہمانوں کے کھانے اور رہائش کا انتظام بھی جماعت سکھر نے کیا۔ جناب سید غلام مرتضیٰ صاحب ایگزیکٹو انجینئر نے حضور کے اعزاز میں عشائیہ اور ظہرانہ کا انتظام کیا جس میں بہت سے عمائدین شہر بھی شامل ہوئے۔
سکھر سے قادیان تک
سکھر میں مختصر قیام کے بعد حضورؓ 31؍مارچ کو ساڑھے چھ بجے شام بذریعہ سندھ ایکسپریس قادیان کے لیے روانہ ہوئے 9بجے شب کے قریب گاڑی رحیم یار خاں پہنچی جہاں اردگرد کی احمدی جماعتیں آئی ہوئی تھیں احباب کی طرف سے چائے پیش کی گئی۔ اس کے بعد چیچہ وطنی اسٹیشن پر کچھ دوست موجود تھے منٹگمری میں بہت سے دوست موجود تھے جنہیں حضورؓ نے شرف مصافحہ بخشا۔ چوہدری محمد شریف صاحب وکیل نے چائے پیش کی۔ اوکاڑہ اسٹیشن پر بھی بہت سے دوست جمع تھے۔ پتوکی اسٹیشن پر کھریپڑ، علی پور اور شمس آباد کے متعدد دوست آئے ہوئے تھے۔
دوسرے روز یکم اپریل ساڑھے گیارہ بجے دوپہر گاڑی لاہور پہنچی۔ جہاں جماعت لاہور کے بہت سے احباب حضورؓ کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ حضورؓ مع اہل بیت کاروں میں سوار ہو کر جناب شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے۔ جہاں کھانا تناول فرمانے کے بعد دو بجے دوپہر روانہ ہوئے اور سات کاروں پر مشتمل یہ قافلہ 5بجے کے قریب قادیان پہنچ گیا۔
(تاریخ احمدیت جلد 9صفحہ 831 تا 839)
کراچی
صوبہ سندھ کا دارالخلافہ ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اس کا شمار دنیا کے چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کو روشنیوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ اس کا رقبہ 3 ہزار 530کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی 1کروڑ 80 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان کا صنعتی، تجارتی، مواصلاتی اور اقتصادی مرکز ہے۔ 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا ہے۔ کراچی کی شمال مشرقی حدود ضلع دادو سے ملتی ہیں۔ مشرق میں ٹھٹھہ کا ضلع ہے۔ جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے جبکہ مغربی حدود دریائے حب سے ملتی ہیں۔ حضور رضی اللہ عنہ نے تقسیم ہندوستان سے پہلے اور بعد کئی مرتبہ کراچی کو برکت بخشی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جلد وہ ساعتیں لوٹیں جب خلیفۃ المسیح پاکستان کے شہروں کو برکت بخشیں اور حضور کے عشاق پروانوں کی طرح شمع کی حدتِ ایمانی سے فیضیاب ہوں۔ آمین ثم آمین
٭…٭…٭