انگلستان کے بعض ایسے مقامات کا تذکرہ جہاں حضرت مصلح موعودؓ تشریف لے گئے
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے Conference of the Living Religions of the Empire میں شمولیت اختیار فرمانے کی خاطر 21؍ اگست 1924ء کو لندن میں ورود فرمایا۔ آپ مشرقِ وسطیٰ سے ہوتے ہوئے، روم اور پیرس میں قیام فرماتے ہوئے لندن تشریف لائے تھے۔
سفر کے اس حصے کا آغاز 20؍اگست کی شام روم سے بذریعہ ریل ہوا جو اگلی صبح قریب 9بجے پیرس پہنچی۔ یہاں سے ایک دوسری ریل کے ذریعہ فرانس کی بندرگاہ Calais پر حضورؓ نے مع رفقائے قافلہ ورود فرمایا۔ یہاں سے بذریعہ بحری جہاز رودبارِ انگلستان کو عبور کیا گیا اور انگلستان کی بندرگاہ Doverپہنچ کر ایک مرتبہ پھر ریل کا سفر اختیار کیا گیا۔
ڈوور سے شام چار بجے روانہ ہونے والی یہ ریل گاڑی شام چھ بجے کے قریب لندن کے وکٹوریہ سٹیشن پر پہنچی۔ اخبارات کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انگلستان کی مشہور ریلوے کمپنی Continental Expressکی ریل گاڑی تھی جوحضرت مصلح موعودؓ اور آپ کے اصحاب کو لے کر وکٹوریہ سٹیشن پر پہنچی۔
پلیٹ فارم پر قدم رنجا فرماتے ہی اذان دی گئی اور حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے رفقاء سمیت پلیٹ فارم پر ہی نماز ادا کی۔ یہ منظرسٹیشن پر موجود ہر خاص و عام کے لیے ایک انوکھا اور دلچسپ نظارہ تھا۔ وہاں موجود پریس کے نمائندگان نے بھی حضورؓ کی تشریف آوری اور پلیٹ فارم پر ادا کی گئی اس نماز کا ذکر کیا۔ مثلاً لندن کے مشہور اخبار The Evening News نے 23؍اگست کے شمارے میں لکھا:
“Travellers at Victoria Station got a surprise when a party of green-turbaned foreigners, headed by an imposing figure, stepped straight from the Continental Express and opened prayer on the platform”.
یہاں سے حضورؓ اپنے قافلہ سمیت لندن کے مشہور مقام Ludgateپر تشریف لے گئے اور دعا کی۔ ایک انگریزی اخبار Illustrated London News نے اس مقام کے نام کی اسلامی نسبت بیان کرتے ہوئے 30؍اگست کو اس خبر کو یوں شائع کیا:
“On the day of his arrival he offered prayer at Ludgate Circus, in accordance with an Islamic tradition regarding prayer at Bab-ul-lud, an Arabic name resembling our Gate of Lud”.
اخبار مذکور نے حضرت مصلح موعودؓ کاپورٹریٹ فوٹو بھی شائع کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کے اس قافلہ کے سفر کے تمام انتظامات مشہور سفری کمپنی Thomas Cook کے ذریعہ کیے گئے تھے۔ ان کا دفتر بھی Ludgate Circusپر ہی تھا۔ چونکہ حضور کی تمام ڈاک انہی کے پتہ پر آنی تھی، لہٰذا حضورؓ ان کے دفتر بھی اسی وقت تشریف لے گئے۔ قیامِ لندن کے باقی عرصہ میں بھی حضورؓ سفر کے بعض انتظامات وغیرہ کی غرض سے اس دفتر تشریف لے جاتے رہے۔
یہاں سے حضور St Paul‘s Cathedral تشریف لے گئے اور اس کی داخلی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر لمبی اور پرسوز دعا کی۔ یہ گرجا قریب 1400 سال سے سینٹ پال کے نام سے موسوم لندن کے بلند ترین مقام Ludgate Circusکے قریب ہے۔ ان صدیوں میں اس کی عمارت کی ظاہری ہیئت تبدیل ہوتی رہی۔ جب لندن کی مشہور آتش زدگی (The Great Fire of London) میں اس کی عمارت منہدم ہوگئی تو موجود ہ عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔ موجودہ عمارت چرچ آف انگلینڈ کے پاپائے روم کی عملداری کے بعد انگلستان میں تعمیر ہونے والا پہلا گرجا ہے۔ یوں اس گرجا کو مغربی عیسائی دنیا بالخصوص انگلستان میں خاص مقام حاصل ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی وزیر اعظم نے ایک صبح لندن فائر بریگیڈ کے مرکز میں فون کیا اور وہاں موجود ذمہ دار افسر Mrs Morris کو کہاکہ’’کچھ بھی ہوجائے، سینٹ پال کیتھڈرل کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ بات لندن فائربریگیڈ کے ہر کارکن کو اچھی طرح باور کروادی جائے۔ ‘‘
پس مرکزِ تثلیث میں پہنچتے ساتھ، تثلیث کی سب سے بڑی علامت کے سامنے حضرت کاسرِ صلیبؑ کے جانشین نے فتح اسلام کے لیے دعا کی اور پھر اپنی دیگر مصروفیات کی طرف رخ کیا۔ سب سے پہلے آپؓ اپنی رہائش گاہ واقع 6 Chesham Place تشریف لے گئے۔ یہ مکان حضور اور اصحابِ قافلہ کی رہائش کے لیے ماہوار کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا۔ یہ Chesham Square کے ایک طرف مکانات کے سلسلہ میں ایک چارمنزلہ مکان تھا۔ بھائی عبدالرحمٰن قادیانی صاحبؓ کی تحریرات اور اس دور میں ان مکانات کے نقشوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمینی منزل پر باورچی خانہ اور کھانے کا کمرہ تھا۔ پہلی منزل پر حضورؓ کی رہائش کا کمرہ تھا۔ اس سے اوپر کی منزل پر حضرت ظفراللہ خان صاحبؓ اور کچھ اور اصحاب تھے۔ پھر تیسری منزل پر بھائی جیؓ اور شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صاحب اور مولوی محمد دین صاحب کی قیام گاہ تھی۔ باقی احباب بھی اوپر کی تین منازل ہی میں فروکش رہے ہوں گے۔
اس مکان کو لندن کے اس علاقے میں حاصل کرنے کی معین وجوہات نامعلوم ہیں، مگر دورے کی تفصیلات پڑھنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
1…یہ مکان جماعت کے مشن ہاؤس واقع Star Street (عقب Edgware Road) سے تقریباً پیدل کی مسافت پر تھا، جہاں سے لندن مشن میں پہلے سے تعینات مبلغین مثلاً حضرت مولانا عبدالرحیم نیرؓ صاحب اور حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ بسہولت حاضرِ خدمت ہوسکتے تھے۔
2…یہاں پر پریس کے نمائندگان اور دیگر معززین انگلستان حضور سے ملاقات کے لیے بآسانی حاضر ہوسکتے تھے (جو کثرت کے ساتھ حاضر ہوتے رہے)۔
3…یہ علاقہ پٹنی میں خریدی گئی زمین برائے لندن مسجد سے بھی زیادہ دور نہ تھا، جہاں حضورؓ کو اکثر تشریف لے جانا ہوتااور تعمیر مسجد کے جملہ امور کی نگرانی کرنا ہوتی۔
4…یہاں سے لندن کے بڑے سٹیشن بھی قریب ہی تھے مثلاً واٹرلو سٹیشن اور وکٹوریہ سٹیشن جہاں سے شہر سے باہر جانے والی ریل گاڑیاں بسہولت مل جاتیں۔
حضرت بھائی جیؓ کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکان ایک ماہ کے لیے 19؍اگست تا 19؍ستمبر کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا۔ 11؍ستمبر کو حضورؓ نے فرمایا کہ معاہدہ کی میعاد میں 26؍اکتوبر تک توسیع کر لی جائے۔
اسی مکان میں بہت سے رپورٹر اور حکومتِ انگلستان کے عمائدین حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ کبھی خود وقت لے کر، اور کبھی حضورؓ کےمدعو کرنے پر۔ مثلاً، حضرت بھائی جیؓ 28؍اگست کی شام کی روداد میں لکھتے ہیں کہ حضورؓ نے قریب 30؍افراد کو شام کی چائے پر مدعو کیا جن میں سے بیشتر پریس کے نمائندگان تھے اور بعض منتظمینِ کانفرنس۔
ایسی دعوتیں اکثر دی جاتی رہیں۔ جو دوست حضورؓ سے ملاقات کے لیے آجاتے، ان کی چائے یا کھانے سے تواضع ضرور کی جاتی۔ رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی مجالس میں حضورؓ ضرور اسلام کی خوبصورت تعلیمات احباب کی خدمت میں پیش کرتے اور انہیں اس دینِ باکمال سے آگاہی بخشتے۔ اس بات کو لندن کے اخبارات نے بھی محسوس کیا۔ The South London Times نے اپنی 24؍اگست کی اشاعت میں لکھا کہ
“The Khalifatul Masih rarely fails to remind his interlocutors that Muslims form one of the largest bodies in the Empire and makes scant effort to hide his proselytising mission.”
ایسی مجالس طعام کے لیے دسترخوان بھی انگریزی طرز پر سجایا جاتا۔ حضرت بھائی جیؓ تحریر فرماتے ہیں :
’’انگلستان میں کھانا کھلانا اور چائے پلانا میز پر جو محنت، مصروفیت، صفائی و انہماک اور وقت چاہتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی دوست کرسکتے ہیں جو انگریزی طرزِ خورونوش سے واقف ہیں۔ میز پر کھانے کے کئی دور ہوتے ہیں۔ ہر دور مین پلیٹوں کا تبدیل کرنا۔ چھری کانٹا لگانا۔ نمک۔ رائی۔ سرکہ۔ مکھن۔ جام۔ پھل وغیرہ کا مہیا کرنا۔ ہر شخص کے واسطے الگ الگ پلیٹیں اور الگ الگ گلاس فراہم کرنا۔ الغرض خاصہ اچھا ایک گورکھ دھندا ہے جس میں بہت سا وقت سخت محنت میں خرچ ہوجاتا ہے۔ ‘‘
(سفرِ یورپ 1924ء، صفحہ125)
اگلے روز یعنی 29؍اگست برائٹن کی بلدیاتی انتظامیہ نے حضورؓ کو مدعو کیاہوا تھا۔ اس کے لیے تمام انتظامات خالد شیلڈریک (نومسلم) نے خوب محنت سے کیے۔ اس سفر کے لیے حضورؓ مع قافلہ اور چند دیگر شائقین (جن میں دو نمائندگان پریس بھی تھے)، کُل 21؍افراد برائٹن کے لیے روانہ ہوئے۔
ساحلِ سمندر پر واقع اس شہر میں داخل ہونے سے قبل شہر کے باہرPatchamکے مقام پر بنائی گئی یادگار ’’چھتری‘‘پر حضورؓ تشریف لےگئے۔ یہ یادگار جنگِ عظیم میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔ حضورؓ نے ایک مختصر تقریر میں ان فوجیوں کی خدمات کو سراہا اور دعا بھی کی۔
اس کے بعد حضور Royal Pavilionمیں تشریف لے گئے۔ یہ مشرقی طرز پر بنائی گئی ایک عمارت ہے جس کے گنبد برائٹن شہر کی پہچان بن چکے ہیں۔ پہلے یہ ملکہ وکٹوریہ کی موسمِ گرما کی رہائش ہوا کرتی تھی، مگر جب حضورؓ وہاں تشریف لےگئے، تب تک اس کا ایک حصہ ہسپتال میں تبدیل کیا جاچکا تھا جہاں عسکری خدمات سرانجام دیتے ہوئے زخمی یا متاثر ہونے والے فوجیوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ یہاں حضورؓ کا استقبال Henry Roberts MBEنے کیا، جو کہ Royal Pavilion Estateکے پہلے ڈائریکٹر تھے۔
(Brighton Herald۔ 4؍ستمبر 1924ء)
چونکہ جمعہ کا روز تھا، لہٰذا پہلے حضورؓ نے ہم راہ اصحاب نماز جمعہ ادا کی۔ خطبہ اور نمازِ جمعہ اسی پاویلین کے خوبصورت باغیچے میں ادا ہوئے۔ جس کے بعد اسی عمارت کے خوبصورت برآمدہ میں سے حضورؓ نے اہالیانِ برائٹن سے خطاب فرمایا اور انہیں اسلام کے پیغام سے آگاہ کیا۔
شام کو حضورؓ برائٹن میں ساحلِ سمندر کی سیر کے لیے تشریف لے گئے۔ اس دورے کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضور سڑک سے اتر کر سمندر کے پانی تک تشریف لے گئے ہوں گے کیونکہ رپورٹ میں ان ’’چھوٹے چھوٹے گول پتھروں ‘‘(pebbles) کا ذکر بھی ہے جو برائٹن کے ساحل کی پہچان ہیں اور ان پر چلتے ہوئے ان پتھروں سے اٹھنے والی آواز کا ذکر بھی موجود ہے۔
سیر کا ذکر ہے تو ایک بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ قیامِ لندن کے دوران حضورؓ تقریباً روزانہ شام کو سیر کے لیے تشریف لے جاتے رہے۔ لیکن یہ سیر حفظانِ صحت کی غرض سے تھی اور دن بھر کی مصروفیات کے بعد ہوا کرتی۔ سفرِ یورپ 1924ءمیں حضرت بھائی عبدالرحمٰن قادیانیؓ رقم طراز ہیں :
’’حضور کی سیر اتنے دن کیا رہی ہے، ا س کی تفصیل یہ ہے کہ شام کی نماز کے بعد اندھیرے میں ہائیڈ پارک تک جا کر پھر کھلی سڑک کے بازاروں میں کبھی دریا کے کنارے کبھی پارک کی جھیل کے کنارے دو دوگھنٹہ تک تیزی سے چلتے جاتے تھے حتّٰی کہ بعض ساتھی بعض اوقات بہت ہی تھک جاتے تھے۔ گیارہ بجے کے بعد حضور تشریف لاتے تھے۔ ‘‘
یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتے چلیں کہ ہائیڈ پارک کی یہ جھیل Serpentine Lakeکہلاتی ہے۔ اس میں کشتی رانی بھی کی جاسکتی ہے اور دورہ کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ایک موقع پر حضورؓ نے اس جھیل میں کشتی بھی چلائی۔
(سفرِ یورپ، صفحہ 173)
رپورٹس میں تاریخ درج نہیں مگر وہاں بیان کردہ دیگر تفصیلات سے قیاس کیا جاتا ہے کہ حضورؓ 26؍اگست بروز منگل حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے ہم راہ ویمبلےنمائش دیکھنے کی خاطر ویمبلےسٹیڈیم تشریف لے گئے۔ یہاں یہ بات بیان کردینی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ جس مذہبی کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے تشریف لائے تھے، وہ ویمبلےمیں منعقد نہ ہوئی تھی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اس نام یعنی ’’ویمبلےکانفرنس‘‘سے موسوم اور معروف کیوں ہوگئی؟
پہلی جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی تمام اقوام ہی معاشی بحران کا شکار ہوئیں۔ سلطنتِ برطانیہ بھی مستثنیٰ نہ تھی اور اب اس کے لیے دنیا بھر میں پھیلی نوآبادیات کے جال کو برقرار رکھنا ایک مشکل میں تبدیل ہوچکا تھا۔ نوآبادیات میں بھی قومی تشخص کا شعور بیدار ہونا شروع ہوچکا تھا اور اس کے ساتھ ہی انگریز حکومت سے آزادی کی تحریکات بھی زور پکڑ رہی تھیں۔ مگر برطانیہ یوں ہی اپنی دنیا بھر میں پھیلی سلطنت کو کھو دینا نہیں چاہتا تھا۔ لہٰذا حکومتِ برطانیہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ نوآبادیات کو جتایا جائے کہ ان کی بقا سلطنتِ برطانیہ کے ساتھ وابستہ رہنے ہی میں ہے۔ اس کے لیے سلطنت ِ برطانیہ کی عظمت کو ظاہر کرنے اور نو آبادیات کو ہر طرح سے خیرسگالی کے پیغامات دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
ایڈورڈ شہزادہ ویلز کا 1921ءمیں ہندوستان کا دورہ بھی اسی خیرسگالی کے اظہار کے سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ یہی شہزادہ ویلز جب انگلستان واپس آئے تو حکومتِ انگلستان British Empire Exhibitionکی تیاری کررہی تھی۔ شہزادہ ویلز کو اس کی سربراہی سونپی گئی اور یہ عظیم الشان نمائشویمبلےمیں ہونا قرار پائی۔ اس نمائش میں تمام نوآبادیات کی ثقافت، رہن سہن، صنعت وحرفت وغیرہ سے متعلق نمائشی مواد آویزاں کیا گیا تھا۔ویمبلےسٹیڈیم میں ہونے کے باعث یہ نمائش Wembley Exhibitionکے نام سے موسوم ہوگئی۔
چونکہ اس میں نوآبادیات کے نوادرات پر توجہ مرکوز تھی، لہٰذا سکول آف اورینٹل سٹڈیز ( جو بعد میں School of Oriental and African Studies کے نام سے موسوم ہوا اور آج تک اسی نام سے قائم ہے) کے عمال نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ سلطنتِ برطانیہ میں شامل نوآبادیات میں کئی مذاہب کے پیرو بھی رہتے ہیں۔ ان مذاہب کی تعلیمات کا بیان بھی ضروری ہے۔
نمائش کی انتظامیہ نے غور و خوض کے بعد اس تجویز کو منظور کیا اور یوں یہ کانفرنس منعقد ہونا قرار پائی جس کا نام Conference of the Living Religions of the Empireرکھا گیا۔یہ کانفرنس لندن کےعلاقے South KensingtonمیںواقعImperial Instituteمیں22؍ستمبرتا3؍اکتوبر1924ءمنعقد ہوئی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس کانفرنس کے لیے جو لیکچر تیار فرمایا تھا وہ 23؍ستمبر کے سہ پہر کے اجلاس میں پیش ہوا۔ اس سے قبل قیامِ لندن کا اکثر وقت اس مضمون کے تحریر کرنے اور ساتھ ساتھ ترجمہ کروانے میں خرچ ہوا۔ کانفرنس کے منتظمین نے مکمل مضمون کو دیکھا تو وقت کی قلت کے پیش نظر اسے مختصر کرنے کی درخواست کی۔ یوں ان دنوں میں حضورؓ کی مصروفیات اور بھی بڑھ گئیں کیونکہ اصل مضمون کی تلخیص بجائے خود ایک نیا مضمون تحریر کرنے کے مترادف تھی۔
یہاں اس بات کا بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ جو اصل مضمون حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا، وہ Ahmadiyyat or the True Islam کے نام سے شائع کروایا گیا۔ جو اس کا خلاصہ کانفرنس میں پیش کیا گیا، وہ The Ahmadiyya Movement کے نام سے موسوم ہو کر جماعتی لٹریچر کا حصہ ہے۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحمٰن قادیانیؓ صاحب کی رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مضمون کی تیاری 22؍ستمبر سے قبل گویا حضورؓ کی کل وقتی مصروفیت تھی۔ حضورؓ تحریر فرماتے جاتے اور ساتھ ساتھ حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ اور بعض دیگر اصحاب ترجمہ کرتے جاتے۔ ایک ٹائپسٹ بھی اس کام کے لیے کُل وقتی رکھ لی گئی تھی جو ایک کمرے میں ساتھ ساتھ ترجمہ شدہ مواد کو ٹائپ کرتی جاتی تھی۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ساری مصروفیت کے ساتھ ساتھ جہاں بھی حضورؓ کو اسلام کی دعوت و تبلیغ کا موقع میسر آیا، حضورؓ نے بخوشی اسے قبول کیا۔ مثلاً 14؍ستمبر کو انگلستان کے جنوبی ساحل پر واقع شہر Portsmouthمیں لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ حضورؓ نے Universal Church کی اس دعوت کو قبول فرمایا اور وہاں پڑھنے کے لیے ایک مضمون تحریر فرمانا شروع کردیا۔ اس مضمون کا بھی ساتھ ساتھ ترجمہ ہوتا گیا۔
14؍ستمبر کو یہ لیکچر جو پورٹ سمتھ میں حضورؓ نے ارشاد فرمانا تھا، اس کا عنوان A Message from Heaven رکھا گیا۔ حضورؓ 14؍ستمبر کی صبح 10 بجے کے قریب لندن کے واٹرلو سٹیشن سے روانہ ہوکر پورٹ سمتھ پہنچ گئے۔ چونکہ رات یہیں قیام کرنا تھا، اس کے لیے Royal Beach Hotel میں رہائش رکھی گئی۔ (اگرچہ الفضل کی رپورٹ میں ’’رائل پیج ہوٹل‘‘ تحریر ہے، مگر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ Royal Beach Hotel تھا اور پورٹ سمتھ کے علاقہSouthseaمیں برلبِ سمندر واقع تھا)۔
14؍ستمبر کی شام حضور نے Rev Abbot کی دعوت پر یونیورسل چرچ پورٹ سمتھ میں مذکورہ بالالیکچر3 بجے سہ پہر ارشاد فرمایا اور پھر شام کومسیح کی آمدِ ثانی کے مضمون کوایک اور لیکچر میں تفصیلاً بیان فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت اقدس مسیح موعو علیہ السلام کے آنے اور آپ کے ذریعہ قائم ہونے والی جماعت سے بھی آگاہ فرمایا۔ اگرچہ ہماری جماعتی رپورٹس میں صرف اس قدر درج ہے کہ یہ خطاب یونیورسل چرچ میں پیش کیا گیا۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک فرقہ تھا۔ مکمل نام تھا St John‘s Church of the Spiritual Evangel of Jesus the Christاور یہ تقریبPiles Hall, Fratton Road کے مقام پر منعقد ہوئی۔
(Portsmouth Evening News کے 12 اور 13؍ستمبر کے شماروں میں بالترتیب بطور خبر اور اعلان درج ہے)
حضورؓ ابھی کانفرنس میں پڑھے جانے والے مضمون کی تیاری میں مصروف تھے کہ 4؍ستمبر 1924ء کو بذریعہ تار یہ افسوسناک خبر موصول ہوئی کہ مولوی نعمت اللہ صاحب کو افغانستان میں احمدی ہونے کے باعث امیرِ کابل کے حکم پر سنگسارکردیا گیا ہے۔ یہ دلخراش واقعہ 31؍اگست کو پیش آیا تھا۔ حضورؓ نے فوری طور پر اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ اس سلسلہ میں ایک احتجاجی جلسہ کا اہتمام کیا جائے۔ حضرت چودھری فتح محمدصاحبؓ کو اس مقصد کے لیے ہال تلاش کرنے کی ذمہ داری تفویض ہوئی۔ حضورؓ کا منشا تھا کہ عوام، پریس اور حکومتی ایوانوں میں یہ دردناک واقعہ ایک عام قتل کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ اسے مذہبی آزادی، آزادیٔ ضمیر کے قتل کی نظر سے دیکھا جائے۔
17؍ستمبر کی شام اس جلسہ کے لیے اخبارات میں خوب تشہیر کی گئی تا کہ یہ خبر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔ جلسہ کے انعقاد کے لیے Essex ہال کا انتخاب کیا گیا، جولندن شہر کے مرکزی علاقہThe Strand میں واقع تھا۔ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ قریب اڑھائی سو لوگ ایسیکس ہال میں اس جلسہ کے لیے جمع تھے۔ جلسہ کی خبر اگلے روز کے بڑے چھوٹے قریباً سبھی اخبارات نے مع تفصیلات شہادت شائع کی۔ جلسہ فری ریلیجس موومنٹ کے سربراہ Walter Walshکی زیر صدارت منعقد ہوا اور انسانیت کے خلاف اس سنگین جرم پر قرارداد حکومتِ برطانیہ کے علاوہ لیگ آف نیشنز اور دیگر ملکوں کے سربراہان کو بھی ارسال کی گئی۔
اس کے علاوہ حضرت مصلح موعودؓ لندن میں اور بھی متعدد مقامات پر تشریف لے گئے۔ ان کی تفصیلات معلوم کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہدیۂ قارئین کی جائیں گی۔
٭…٭…٭