جلسہ سالانہ بیلجیم 2018ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب(حصہ دوم)
فرمودہ 16؍ستمبر 2018ء بروز اتواربمقام Dilbeek، برسلز
(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
(گذشتہ سے پیوستہ)پھر اخلاقی ترقی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ :
پس ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں کیونکہ اَلْاِسْتِقَامَۃْ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ مشہور ہے۔ وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی ان پر سختی کرے تو حتی الوسع اس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں۔ تشدد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں۔‘‘ (تشدد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں۔ کسی قسم کی سختی سے جواب نہیںدینا۔ انتقام نہیں لینا۔) فرماتے ہیں کہ ’’انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قِسم ہیں امّارہ، لوّامہ۔ مطمئنّہ۔ امّارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے۔‘‘ (یہ نفس امارہ ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر بدلے لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ لڑائیوں کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ گالی دینے پر تیار ہو جاتا ہے۔) فرمایا ’’مگر حالت لوّامہ میں‘‘ (لیکن امّارہ کے بعد یہ جو دوسری حالت لوّامہ ہے اس میں اپنے آپ کو) ’’سنبھال لیتا ہے‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستاں میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا۔ گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے۔ ایک (وہاں) بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی، (بچی بھی) تھی وہ بولی آپ نے کیوں نہیں اسے کاٹ کھایا؟ اس نے جواب دیا (اس بزرگ نے کہ) بیٹی انسان سے کُتْ پَنْ نہیں ہوتا۔‘‘ (یہ کتے کی فطرت ہے کہ اس نے کاٹنا ہے۔ انسان کتا نہیں۔ انسان تو انسان ہے اس نے تو اپنی عقل سے کام لینا ہے۔)
اسی طرح سے فرمایا کہ ’’اسی طرح سے انسان کو چاہئے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔ نہیں تو وہی کُتْ پَن کی مثال صادق آئے گی۔ خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بری طرح ستایا گیا مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ۔ (کہ جاہلوں سے اعراض کرو۔ ان سے منہ پھیر لو۔) ’’اس کا ہی خطاب ہوا۔‘‘ (یہی حکم دیا گیا۔ خود اس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خُلقِ مجسم ذات نے اس کے مقابلے میں کیا کیا، ان کے لئے دعا کی۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔ غرض یہ صفت لوّامہ کی ہے جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے۔ روزمرہ کی بات ہے۔ اگر کوئی جاہل یا اوباش گالی دے یا کوئی شرارت کرے جس قدر اس سے اعراض کرو گے اسی قدر عزت بچا لو گے اور جس قدر اس سے مٹھ بھیڑ اور مقابلہ کرو گے، تباہ ہو جاؤ گے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’اور ذلّت خرید لو گے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’نفس مطمئنہ کی حالت میں انسان کا ملکہ حسنات اور خیرات ہو جاتا ہے وہ دنیا اور ماسوا اللہ سے بکلّی انقطاع کر لیتا ہے۔ دنیا سے کاٹ لیتا ہے اپنے آپ کو جب نفس مطمئنہ پر پہنچ جاتا ہے اور یہ آخری مقام ہے۔ وہ دنیا میں چلتا پھرتا اور دنیا والوں سے ملتا جلتا ہے لیکن حقیقت میں وہ یہاں نہیں ہوتا۔ جہاں وہ ہوتا ہے وہ دنیا اَور ہی ہوتی ہے۔ وہاں کا آسمان اور زمین اور ہی ہوتی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 102-103)
پھر اس بات کی نصیحت فرماتے ہوئے کہ جو اللہ تعالیٰ کا ہو جائے اللہ تعالیٰ نہ صرف اسے ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا ہو جاتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے، اس کو تکالیف سے بچاتا ہے۔ پہلے بھی اس کا ذکر ہو چکا۔ آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’جو خدا کے لئے ہوتا ہے خدا اُس کا ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے والے کی سعی اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا۔ یہ ممکن ہے کہ زمیندار اپنا کھیت ضائع کر لے۔ نوکر موقوف ہو کر نقصان پہنچا دے۔ امتحان دینے والا کامیاب نہ ہو مگر خدا کی طرف سعی کرنے والا، (کوشش کرنے والا) کبھی بھی ناکام نہیں رہتا۔…‘‘ (دنیاوی کاموں میں ناکامیاں ہو سکتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والا ناکام نہیں ہوتا۔) ’’…اس کا سچا وعدہ ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت70:)۔ (وہ لوگ جو ہماری طرف بڑھیں گے، کوشش کرتے ہوئے آئیں گے ہم انہیں اپنے رستوں کی طرف ہدایت بھی دیں گے، انہیں اپنے راستے دکھائیں گے۔) فرمایا ’’…خدا تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جویا ہوا…‘‘، (جس نے تلاش کی، اس نے کوشش کی) ’’…وہ آخر منزل مقصود پر پہنچا۔ دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے، راتوںکو دن بنا دینے والے طالبعلموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں…‘‘ (بعض طالبعلم بہت محنت کرتے ہیں۔ دنیا دار راتوں کو بھی پڑھتے ہیں۔ دن کی طرح محنت کرتے ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر آپ نے فرمایا ہمیں رحم آتا ہے) ’’…تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے‘‘ (بے انتہا ہے) ’’اپنی طرف آنے والے کو ضائع کردے گا؟ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ اِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ (التوبۃ120:)۔ اور پھر فرماتا ہے کہ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ (الزلزال8:)۔ ‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’…ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہزارہا طالبعلم سالہا سال کی محنتوں اور مشقتوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھ کر روتے رہ جاتے ہیں اور (بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو) خودکشیاں کر لیتے ہیں۔‘‘ ’’…مگر اللہ تعالیٰ کافضل عمیم ایسا ہے کہ وہ ذرا سے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ پھر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ انسان دنیا میں ظنی اور وہمی باتوں کی طرف تو اس قدر گرویدہ ہو کر محنت کرتا ہے کہ آرام اپنے اوپر گویا حرام کر لیتا ہے اور صرف خشک امید پر کہ شاید کامیاب ہو جاویں ہزارہا رنج اور دکھ اٹھاتا ہے۔ تاجر نفع کی امید پر لاکھوں روپے لگا دیتا ہے…‘‘ (کاروباری لوگوں کا یہ حال ہے) ’’…مگر یقین اسے بھی نہیں ہوتا کہ ضرور نفع ہی ہو گا…‘‘ (بہت سارے لوگ ہیں جو نقصان اٹھاتے ہیں) ’’…مگر خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے کی (جس کے وعدے یقینی اور حتمی ہیں کہ جس کی طرف قدم اٹھانے والے کی ذرا بھی محنت رائیگاں نہیں جاتی۔) مَیں اس قدر دوڑ دھوپ اور سرگرمی نہیں پاتا ہوں۔‘‘ (اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں تمہیں کامیابی دوں گا۔ دنیاوی باتوں کی طرف تو انسان جاتا ہے جہاں کامیابی یقینی بھی نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف وہ جوش اور خروش اور وہ سرگرمی نہیں ہے آپ فرماتے ہیں میں وہ نہیں دیکھتا۔ فرماتے ہیں ’’…یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟ وہ کیوں نہیں ڈرتے کہ آخر ایک دن مرنا ہے۔ کیا وہ ان ناکامیوں کو دیکھ کر بھی اس تجارت کی فکر میں نہیں لگ سکتے جہاں خسارہ کا نام و نشان ہی نہیں۔ اور نفع یقینی ہے۔ زمیندار کس قدر محنت سے کاشتکاری کرتا ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ نتیجہ ضرور راحت ہی ہو گا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ144-145)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے اندر نمایاں تبدیلی دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر ایک شخص بھی زندہ طبیعت کا نکل آوے تو کافی ہے۔ میں یہ بات کھول کر بیان کرتا ہوں کہ میرے مناسب حال یہ بات نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ لوگوں کو کہتا ہوں مَیں ثواب کی نیّت سے کہتا ہوں۔ نہیں! میں اپنے نفس میں انتہا درجہ کا جوش اور درد پاتا ہوں گو وُہ وجُوہ نامعلوم ہیں…‘‘ وجوہات مجھے نہیں پتا کیا ہیں لیکن مجھے تم لوگوں کے لئے بہت جوش ہے ’’…کہ کیوں یہ جوش ہے۔ مگر اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ جوش ایسا ہے کہ میں رک نہیں سکتا۔‘‘ فرماتے ہیں ’’… مَیں مخفی تبدیلی نہیں چاہتا…‘‘ یہ نہیں کہ چھپی ہوئی تبدیلیاں تمہارے اندر ہوں۔ تبدیلیاں ایسی ہوں جو ظاہر ہوں، جو روشن ہوں، جو دنیاکو نظر آئیں ’’…نمایاں تبدیلی مطلوب ہے۔‘‘ فرمایا ’’نمایاں تبدیلی مطلوب ہے۔ تاکہ مخالف شرمندہ ہوں اور لوگوں کے دلوں پر یک طرفہ روشنی پڑے اور وہ ناامید ہو جاویں کہ یہ مخالف ضلالت میں پڑے ہیں۔‘‘ ایسی تبدیلی آئے کہ دنیا کو نظر آئے، مخالفین کو نظر آئے۔ تکبر پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کے لئے، اسلام کی تبلیغ کے لئے، اپنے عملی نمونے دکھانے کے لئے، دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آئے ہیں تو ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں تا کہ لوگوں کو بھی اس طرف آنے کا رجحان پیدا ہو فرمایا کہ ’’…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بڑے بڑے شریر آ کر تائب ہوئے وہ کیوں؟ اس عظیم الشان تبدیلی نے جو صحابہ میں ہوئی اور ان کے واجب التقلید نمونوں نے ان کو شرمندہ کیا۔ …‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 148)
صحابہ کی تبدیلیاں دیکھ کر بہت سارے مسلمان ہوئے۔ پس آپ علیہ السلام بھی ہم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم اپنے نمونے تقویٰ کے نمونے، عبادتوںکے نمونے، اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کریں۔ تبھی لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں گے۔ تبھی ان کو اسلام کی خوبصورت تعلیم اور خوبیوں کا پتا چلے گا۔ تبھی تو اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ آج اسلام کے خلاف تو بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ غیر مسلم دنیا میں اس کو داغ لگا ہوا ہے جو بعض مسلمان لوگوں کی حرکتوں کی وجہ سے لگا ہے۔ اس کو دھونا بھی آج احمدی کا کام ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں جماعت کو ہمیشہ آخرت پر نظر رکھنی چاہئے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’دیکھو لوط وغیرہ قوموں کا انجام کیا ہوا۔ ہر ایک کو لازم ہے کہ دل اگر سخت بھی ہو تو اس کو ملامت کر کے خشوع و خضوع کا سبق دے۔‘‘ اگر کسی کا دل بہت ہی سخت ہے تب بھی تم لوگ اس کو سمجھاؤ کہ یہ غلط باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں۔ ان سے بچنا چاہئے۔ ’’…ہماری جماعت کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ ان کو تازہ معرفت ملتی ہے۔‘‘ دنیا کو سمجھانا، عقل دینا اور آگ میں گرنے سے بچانا، تباہ ہونے سے بچانا یہ ہماری جماعت کا کام ہے۔ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہمیں وہ معرفت عطا ہوئی ہے جو یقیناً چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر قرآن کریم کی صورت میں اتری تھی لیکن اس کو مسلمانوں کے عمل نے چھپا دیا تھا۔ اور یہ معرفت پھر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس زمانے میں نکھار کر عطا فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’اگر کوئی دعویٰ تو معرفت کا کرے مگر اس پر چلے نہیں تو یہ لاف و گزاف ہی ہے۔ اس لئے ہماری جماعت دوسروں کی غفلت سے خود غافل نہ رہے اور اُن کی محبت کو سرد دیکھ کر اپنی محبت کو ٹھنڈا نہ کرے۔ انسان بہت تمنائیں رکھتا ہے۔ غیب کی قضا ءو قدر کی کس کو خبر ہے‘‘۔ (غیب کی قضاءو قدرکی کسی کو خبر نہیں ہے کہ کب کیا وقت آ جانا ہے) ’’…آرزوؤں کے موافق زندگی کبھی نہیں چلتی ہے۔‘‘ یہ کبھی نہیں ہوا کہ انسان جو خواہش کرے اس خواہش کے مطابق زندگی ہو۔ ’’…آرزوؤں کا سلسلہ اور ہے اور قضا ءو قدر کا سلسلہ اور ہے…‘‘ بڑی خواہشیں انسان رکھتا ہے کہ اتنی عمر ہو۔ میں اتنی زندگی پاؤں۔ اتنا اَور دنیا میں رہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے ہیں وہ اس کے مطابق چلتا ہے۔ ’’…اور یہی سلسلہ سچا ہے۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں وہی سچ نکلتے ہیں اور انسان کی آرزوئیں ختم ہو جاتی ہیں، غلط ہو جاتی ہیں، جھوٹ ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ ’’…یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں…‘‘ پوری history انسان کی اللہ کے پاس موجود ہے۔ ’’…اسے کیا معلوم ہے کہ اس میں کیا کیا لکھا ہے۔ اس لئے دل کو جگا جگا کر متوجہ کرنا چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 152)
سوچو، غور کرو کہ کیا چیزیں ہیں، ہمارے کیا عمل ہیں اور کس طرح ہم نے اپنی زندگی گزارنی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انسان کی ہر گھڑی کی خبر رکھتا ہے۔ تمام اعمال نامہ لکھا جا رہا ہے۔ اس لئے خاص توجہ سے نیک اعمال بجا لانے چاہئیں۔ ہمیں اور تقویٰ پر چلنے کی طرف اپنے آپ کو متوجہ کرنا چاہئے۔
پھر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ دنیا کی کامیابیاں بھی ابتلا سے خالی نہیں ہوتیں اور ایک مؤمن کو ان سے کیسا سبق لینا چاہئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’دنیا کی کامیابیاں ابتلا سے خالی نہیں ہوتی ہیں۔ قرآن شریف میں آیا ہے خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ (الملک3:)۔ یعنی موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ ہم تمہیں آزمائیں۔ کامیابی اور ناکامی بھی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے۔ کامیابی ایک قسم کی زندگی ہوتی ہے۔ جب کسی کو اپنے کامیاب ہونے کی خبر پہنچتی ہے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے اور گویا نئی زندگی ملتی ہے اور اگر ناکامی کی خبر آ جائے تو زندہ ہی مر جاتا ہے اور بسا اوقات بہت سے کمزور دل آدی ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔‘‘ ناکامیوں کی خبریں سن کے، بعض کاروباروں میں ناکامیاں سن کے ان دنوں میں ان کو ہارٹ اٹیک ہو جاتے ہیں اور فوت ہو جاتے ہیں۔
فرمایا کہ ’’یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ عام زندگی اور موت تو ایک آسان امر ہے لیکن جہنمی زندگی اور موت دُشوار ترین چیز ہے۔ سعید آدمی ناکامی کے بعد کامیاب ہو کر اور بھی سعید ہو جاتا ہے…‘‘ جو سعید فطرت ہے یا نیک فطرت ہے وہ ناکامی کے بعد جب کامیاب ہوتا ہے تو اَور بھی اس میں نیکیاں پیدا ہو جاتی ہیں، اَور بھی عاجزی پیدا ہو جاتی ہے اَور بھی خدا تعالیٰ کی طرف جھکاؤ پیدا ہو جاتا ہے، اَور خداتعالیٰ پر ایمان بڑھ جاتا ہے۔ فرمایا ’’…اور خدا تعالیٰ پر ایمان بڑھ جاتا ہے۔ اس کو ایک مزہ آتا ہے جب وہ غور کرتا ہے کہ میرا خدا کیسا ہے اور دنیا کی کامیابی خدا شناسی کا ایک بہانہ ہو جاتا ہے۔‘‘ دنیا کی کامیابیاں بھی خدا کو پہچاننے کا بہانہ بن جاتی ہیں۔ ’’…ایسے آدمی کے لئے یہ دنیوی کامیابیاں حقیقی کامیابی کا (جس کو اسلام کی اصطلاح میں فلاح کہتے ہیں) ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ سچی خوشحالی سچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوں میں ہرگز نہیں ہے۔‘‘ فرمایا ’’…حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام شعبے دیکھ کر بھی انسان سچا اور دائمی سرور حاصل نہیں کر سکتا۔ تم دیکھتے ہو کہ دولتمند زیادہ مال و دولت رکھنے والے ہر وقت خنداں رہتے ہیں۔ مگر ان کی حالت جرب یعنی خارش کے مریض کی سی ہوتی ہے جس کو کھجلانے سے راحت ملتی ہے۔‘‘ یہ نہ سمجھو کہ دولتمند بڑے خوش ہیں۔ ان کی حالت ایسی ہے جیسے ایک خارش کا جو مریض ہوتا ہے جس کو جسم میں کوئی skin کی بیماری ہو اور کھجلی ہو اور کھجلاتے کھجلاتے اس کو اس میں مزہ آتا ہے اور کھجلا کھجلا کے وہ اپنا خون نکال دیتا ہے۔ فرمایا ’’…لیکن اس خارش کا آخری نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ خون نکل آتا ہے۔ پس ان دنیوی اور عارضی کامیابیوں پر اس قدر خوش مت ہو کہ حقیقی کامیابی سے دور چلے جاؤ۔ بلکہ ان کامیابیوںکو خدا شناسی کا ایک ذریعہ قرار دو۔‘‘ یہ کامیابیاں جو تمہیں دنیا میں مل رہی ہیں۔ تمہارے کاروبار کامیاب ہورہے ہیں، تمہیں اچھی نوکریاں ملی ہوئی ہیں، بچوں کی صحت کو تم دیکھتے ہو، اپنی صحت کو تم دیکھتے ہو اور ضروریات زندگی میسر ہیں تو یہ چیزیں تمہیں خدا تعالیٰ کو پہچاننے والی بنانی چاہئیں، نہ کہ اس زعم میں تم مبتلا ہو جاؤ کہ تمہاری کسی بڑائی یا عقل کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
فرمایا کہ ’’اپنی ہمت اور کوشش پر ناز مت کرو اور مت سمجھو کہ یہ کامیابی ہماری کسی قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے بلکہ یہ سوچو کہ اس رحیم خدا نے جو کبھی کسی کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے ہماری محنت کو باروَر کیا۔ ورنہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ صدہا طالبعلم آئے دن امتحانوں میں فیل ہوتے ہیں۔ کیا وہ سب کے سب محنت نہ کرنے والے اور بالکل غبی اور بلید ہی ہوتے ہیں؟‘‘ (بیوقوف ہوتے ہیں، بالکل خالی الذہن ہوتے ہیں، وہ محنت نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود فیل ہو جاتے ہیں۔) فرمایا ’’نہیں بلکہ بعض ایسے ذکی اور ہوشیار ہوتے ہیں کہ پاس ہونے والوں میں سے اکثر کے مقابلہ میں ہوشیار ہوتے ہیں۔‘‘ فیل ہوجاتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غبی ہیں۔ ان میں عقل نہیں۔ وہ تو بعض دفعہ ان لوگوں سے ایسے ہوشیار ہوتے ہیں کہ پاس ہونے والوں میں اتنی عقل نہیں ہوتی۔ فرمایا کہ ’’اس لئے واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مؤمن خدا تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجا لائے کہ اس نے محنت کو اکارت تو نہیں جانے دیا۔ اس شکر کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خدا تعالیٰ سے محبت بڑھے گی اور ایمان میں ترقی ہو گی اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی کامیابیاں ملیں گی کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر کرو گے تو البتہ میں نعمتوں کو زیادہ کروں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو یاد رکھو عذاب سخت میں گرفتار ہو گے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 154-155)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں مزید فرماتے ہیں :
’’اس اصول کو ہمیشہ مدّنظر رکھو۔ مؤمن کاکام یہ ہے کہ وہ کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کی حمد کرتا ہے…‘‘ یہ نہیں کہتا کہ بڑے فخر سے دنیا کو بتایا ہے۔ اس میں ایک بڑی عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ شرمندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں عاجزی پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی حمد کرتا ہے۔ اس کی تعریف کرتا ہے۔ اپنی ساری کامیابیوں کو اللہ تعالیٰ کے احسان اور فضل کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’…حمد کرتا ہے کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے رکھتا ہے اور ہر ابتلا میں ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے۔ بظاہر ایک ہندو اور مؤمن کی کامیابی ایک رنگ میں مشابہ ہوتی ہے لیکن یاد رکھو کہ کافر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مؤمن کی کامیابی سے اس کے لئے نعمتوں کا دروازہ کھلتا ہے۔‘‘ مؤمن کامیاب ہوتا ہے تو نعمتوں کے اور دروازے کھلتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے اور شکرگزاری کرتا ہے ’’…کافر کی کامیابی اس لئے ضلالت کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف رجوع نہیںکرتا بلکہ اپنی محنت، دانش اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہے۔ مگر مؤمن خدا کی طرف رجوع کر کے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خدا سے ایک نیا معاملہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں تبدیلی ہونے لگتی ہے۔ اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا (النحل129:)۔ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جومتقی ہوتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں تقویٰ کا لفظ بہت مرتبہ آیا ہے اس کے معنی پہلے لفظ سے کئے جاتے ہیں۔ یہاں مَعَ کا لفظ آیا ہے یعنی جو خدا کو مقدم سمجھتا ہے خدا اس کو مقدم رکھتا ہے اور دنیامیں ہر قسم کی ذلتوں سے بچا لیتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’میرا ایمان یہی ہے کہ اگر انسان دنیا میں ہر قسم کی ذلت اور سختی سے بچنا چاہے تو اس کے لئے ایک ہی راہ ہے کہ متقی بن جائے پھر اس کو کسی چیزکی کمی نہیں۔ پس مؤمن کی کامیابیاں اس کو آگے لے جاتی ہیں اور وہ وہیں پر نہیں ٹھہر جاتا۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 154 تا 156)
پھر حکومت کے قوانین اور عمومی اخلاق کے بارے میں بھی آپؑ نے جماعت کو نصیحت فرمائی۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’ہر ایک سے نیک سلوک کرو۔‘‘ یہ اعلیٰ اخلاق بھی ایک احمدی کے لئے بہت ضروری چیز ہے اور یہ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں جو دنیا پر ایک نمونہ بھی ظاہر کرتے ہیں۔ فرمایا ’’ہر ایک سے نیک سلوک کرو۔ حکام کی اطاعت اور وفا داری ہر مسلمان کا فرض ہے۔ وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔ مَیں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفا داری سچے دل سے نہ کی جائے۔‘‘ پس یہاں آنے والے لوگ جن کی بہت سارے حالات کے باوجود یہاں کی حکومت حفاظت بھی کر رہی ہے۔ ابھی چیف پولیس انسپکٹر نے بھی جس طرح ذکر کیا کہ ان کے دل میں مسلمانوں کے عمل سے ایک کدورت پیدا ہوئی تھی لیکن پھر احمدیوں کو دیکھ کر وہ دور ہو گئی اور آج ان کے دل میں اسلام کی قدر ہے اور اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کی حفاظت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ احمدیوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور ہر قسم کا تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ پس عمومی طور پر حکومت کے لوگ جو یہ کام کر رہے ہیں۔ ہمیں سروسز دے رہے ہیں۔ یہاں رہنے والوں کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہم قانون کے پابند ہوں اور ان کی، حکام کی اطاعت کریں اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ میں نے شاید انسپکٹر کہا تھا۔ یہ پولیس کمشنر ہیں۔
فرمایا کہ ’’…برادری کے حقوق ہیں۔ اُن سے بھی نیک سلوک کرنا چاہئے‘‘ (آپس کے تعلقات میں) ’’…البتہ اُن باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف ہیں، اُن سے الگ رہنا چاہئے۔ ‘‘
فرمایا ’’ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 459-460)
یہ ہے ایک احمدی کا اخلا ق کے بارے میں اعلیٰ معیار۔ ہرایک سے نیکی کرے اور احسان کا سلوک کرے۔ اپنے رشتہ داروں سے، اپنے عزیزوں سے بھی نیکی کرو۔ فرمایا: برادری کے ساتھ بھی نیکی کا سلوک کرو۔ پھر ہر ایک سے ہمدردی کے بارے میں اور اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھانے کے بارے میںآپ فرماتے ہیں:
’’میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور مَیں نماز میںمصروف ہوں اور میرے کان میں اُس کی آواز پہنچ جائے تو میںتو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جائے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔
فرمایا ’’…اپنے تو درکنار، میں تویہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
پھر اپنا ایک واقعہ آپؑ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ مَیں باہر سیر کو جا رہا تھا۔ ایک پٹواری میرے ساتھ تھے۔ وہ ذرا آگے تھے اور میں پیچھے تھا۔ راستہ میں ایک بڑھیا کوئی 70، 75 سال کی ملی۔ ضعیف عورت تھی اس نے ایک خط اس پٹواری کو پڑھنے کو دیا مگر اس نے اس کو جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس عورت نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔ اس پر اس پٹواری کو بہت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 462-463)
پس اعلیٰ اخلاق کا یہ تقاضا ہے کہ ہر غریب سے غریب کی بھی خدمت کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔
اور یہی وہ اخلاق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے ہیں۔ آپؐ کے ساتھ بھی یہ واقعات ہوئے اور ایک بڑھیا عورت آپ کو پکڑ کے کھڑی ہو گئی، باتیں کرتی رہی اور آپؐ کھڑے رہے (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 854۔ باب امر عدی بن حاتم۔ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) جب تک اس نے بات ختم نہیں کرلی۔ اور وہی اخلاق پھر آپؐ کے غلام صادق نے اس زمانے میں ہمیں اپنے عمل سے کرکے دکھائے۔
پھر عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ اس بارے میں بھی مردوں کی طرف سے بعض دفعہ زیادتیاں ہو جاتی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے۔ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 1)
پس جن گھروں میں ناچاقیاں ہیں ان کو بھی انہیں دور کرنا چاہئے۔ یہ بھی تقویٰ کی ایک شاخ ہے کہ اپنے گھریلو حالات کو بھی اللہ تعالیٰ کے خوف کو سامنے رکھتے ہوئے اچھا کرنے کی کوشش کریں۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ انسان کی نیکیوں کے دو حصے ہوتے ہیں جس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ
’’انسان جس قدر نیکیاںکرتا ہے اس کے دو حصے ہوتے ہیں ایک فرائض دوسرے نوافل۔ فرائض یعنی جو انسان پر فرض کیا گیا ہو۔ جیسے قرضہ کا اتارنا یا نیکی کے مقابل نیکی‘‘۔ کسی کا قرض لیا ہے اس کو اتارنا یہ تو فرائض ہیں یہ کوئی نیکی نہیں ہے یا کسی نے کوئی نیکی کی تو اس کے مقابل پر اس سے تم نے بھی نیکی کر دی ’’…ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں یعنی ایسی نیکی جو اس کے حق سے فاضل ہو۔‘‘ ہر نیکی کے مقابلے پر کوئی تمہارے ساتھ نیکی کرتا ہے، تم اس سے زائد اگر نیکی کرو تو وہ نفل ادا ہو گیا فرمایا ’’…جیسے احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اور احسان کرنا۔…‘‘ (کسی نے احسان کیا تو نہ صرف اس پر احسان کرو بلکہ اس احسان سے بڑھ کر احسان کرو) ’’یہ نوافل ہیں یہ بطور مکمّلات اور متممّات فرائض کے ہیں۔…‘‘ ان سے جو فرائض ہیں وہ مکمل ہوتے ہیں اور ان کے معیار اونچے ہوتے ہیں فرمایا کہ ’’…اس حدیث میںبیان ہے کہ اولیاء اللہ کے دینی فرائض کی تکمیل نوافل سے ہو رہتی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ کے علاوہ وہ اَور صدقات دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کا ولی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ مَیں اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ حتیٰ کہ اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 13-14)
پھر مزید بعض غیر اخلاقی باتوں کو چھوڑنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’شیطان، جھوٹ، ظلم، جذبات، خون، طول اَمل، ریاء اور تکبر کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل اخلاق فاضلہ، صبر، محویت، فنا فی اللہ، اخلاص، ایمان، فلاح یہ اللہ تعالیٰ کی دعوتیں ہیں۔ انسان ان دونوں تجاذب میں پڑا ہوا ہے۔ پھر جس کی فطرت نیک ہے اور سعادت کا مادہ اس میں رکھا ہوا ہے وہ شیطان کی ہزاروں دعوتوں اور جذبات کے ہوتے ہوئے بھی اس فطرت رشید سعادت اور سلامت روی کے مادہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑتا ہے اور خدا ہی میں اپنی راحت تسلی اور اطمینان کو پاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 169)
اور یہی ایک مؤمن کا شیوہ ہونا چاہئے۔ پھر آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ
’’یہ بات بحضور دل یاد رکھو…‘‘ بڑے غور سے یہ بات دل میں بٹھا کر یاد رکھنی چاہئے ’’…کہ جیسے بیت اللہ میں حَجر اسود پڑا ہوا ہے …‘‘مثال دی آپؑ نے کہ جس طرح بیت اللہ میں حجر اسود پڑا ہوا ہے ’’…اسی طرح قلب سینہ میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ انسان کا دل جو ہے انسان کے سینے میں ہے اس کی وہی حیثیت ہے جو خانہ کعبہ میں حجر اسود کی ہے۔ اسی طرح ایک انسان کے سینے میں اس کے دل کی حیثیت ہے ’’…بیت اللہ پر بھی ایک زمانہ آیا ہوا تھا کہ کفار نے وہاں بت رکھ دئیے تھے…‘‘ ایک زمانہ خانہ کعبہ میں بھی آیا جب کفار نے وہاں بت رکھ دئیے تھے ’’…ممکن تھا کہ بیت اللہ پر یہ زمانہ نہ آتا مگر نہیں اللہ نے اس کو ایک نظیر کے طور پر رکھا۔‘‘ مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتا تھا فرمایا کہ ’’…قلب انسانی بھی حجر اسود کی طرح ہے…‘‘ انسان کا دل حجر اسود کی طرح ہے ’’…اور اس کا سینہ بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ فرمایا کہ ’’…ماسِویٰ اللہ کے خیالات وہ بت ہیں جو اس کعبہ میں رکھے گئے ہیں۔‘‘ اللہ کے سوا جو بھی خیالات دل میں آتے ہیں وہ وہ بت ہیں جو کعبہ میں رکھے گئے۔ ’’…مکہ معظمہ کے بتوں کا قلع قمع اس وقت ہوا تھا جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جا پڑے تھے اور مکہ فتح ہو گیا تھا۔ ان دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے۔‘‘ پہلی کتابوں میں جو پیشگوئیاں ہیں ان میں دس ہزار صحابہ کو ملائکہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ تشبیہہ دی گئی تھی۔ فرمایا کہ ’’…اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی۔ انسانی قویٰ بھی ایک طرح پر ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ پھر آپ نے مزید فرمایا کہ انسانی قویٰ جو ہیں ان کا درجہ بھی فرشتوں کا ہی ہوتا ہے ’’…کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ‘‘ (النحل51:) کہ تمہیں جس طرح حکم دیا جاتا ہے اسی طرح کرو ’’…اسی طرح پر انسانی قویٰ کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’ایسا ہی تمام قویٰ اور جوارح حکم انسانی کے نیچے ہیں۔ پس ماسوا اللہ کے بتوں کی شکست اور استیصال کے لئے ضروری ہے کہ اُن پر اسی طرح سے چڑھائی کی جائے۔‘‘ جس طرح خانہ کعبہ پر چڑھائی ہوئی تھی۔ اپنے دل پر اس طرح چڑھائی کرو، اپنے دل کو اس طرح صاف کرو۔ ’’یہ لشکر تزکیہ نفس سے تیار ہوتا ہے…‘‘ اگر نفس کا تزکیہ کرو گے۔ پاک دل ہو جاؤ گے۔ تقویٰ پیدا کروگے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کی طرف رجوع کرو گے۔ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کروگے۔ اس کے بندوں کے اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرو تو اس سے تزکیہ نفس ہو گا۔ اور تزکیہ نفس سے یہ لشکر تیار ہو گا جو تمہارے دل کے کعبہ کو بتوں سے پاک کرے گا۔ ’’…اور اسی کو فتح دی جاتی ہے جو تزکیہ کرتا ہے…‘‘۔ فرمایا ’’…اسی کو فتح دی جاتی ہے جو تزکیہ کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس10:)۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر قلب کی اصلاح ہو جائے تو کُل جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے۔‘‘ دل کی اصلاح ہو جائے، اگر دل پاک ہو جائے تو سارا جسم پاک ہو جاتا ہے۔ غلط خیالات نہیں آتے۔ غلط کام نہیںہوتے۔ اور یہ فرمایا کہ ’’…اور یہ کیسی سچی بات ہے۔ آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں، زبان وغیرہ جس قدر اعضاء ہیں وہ دراصل قلب کے ہی فتویٰ پر عمل کرتے ہیں۔ ایک خیال آتا ہے پھر وہ جس عضو کے متعلق ہو وہ فوراً اس کی تعمیل کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 186-187)
انسان کے دل میں خیال آیا، اچھا یا صحیح اور اس خیال کی تعمیل اس عضو سے کروانے لگ جاتا ہے۔ ہاتھ نے کام کرنا ہے، آنکھ نے کام کرنا ہے یا کسی اور عضو نے کام کرنا ہے تو اس کے لئے دل کے حکم چلتے ہیں۔ اس لئے دل کو پاک کرو۔
آخر پر میں آپ کا ایک اور حوالہ پیش کروں گا جس میں بڑی درد انگیز نصیحتیں آپؑ نے فرمائی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’جو شخص اپنے ہمسایہ کو اپنے اخلاق میں تبدیلی دکھاتا ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے وہ گویا ایک کرامت دکھاتا ہے۔ اس کا اثر ہمسائے پر بہت اعلیٰ درجہ کا پڑتا ہے۔ ہماری جماعت پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کیا ترقی ہو گئی ہے…‘‘ بعض اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ لوگ احمدی ہو گئے ہیں۔ تمہارے پاس آگئے۔ ہمیں تو نہیں پتہ کیا ترقی ہو گئی اور فرمایا ’’اور تہمت لگاتے ہیں کہ افتراء اور غیظ و غضب میں مبتلا ہیں۔‘‘ کہ ہمیں تو کوئی ترقی نظر نہیں آتی کہ یہ لوگ تو افترا میں اور غیظ و غضب میں مبتلا ہیں ۔ احمدی ہونے کے بعد کیا تبدیلی پیدا ہوئی؟ فرمایا کہ ’’…کیا یہ ان کے لئے باعث ندامت نہیں ہے کہ انسان عمدہ سمجھ کر اس سلسلہ میں آیا تھا جیسا کہ ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے۔‘‘ پس اگر ان کا، غیروں کا یہ افتراء ٹھیک ہے تو بیعت کرنے والوں کے لئے شرم کی بات ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ جیسے کہ ایک رشید فرزند، ایک نیک بچہ، کسی کا ایک لڑکا اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے۔ جب بیعت کر لی تو اسی طرح ہو گئے جس طرح تم کسی باپ کے بیٹے بن گئے ’’…اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو امّہات المؤمنین کہا ہے گویا کہ حضورؐ عامۃ المؤمنین کے باپ ہیں۔ جسمانی باپ زمین پر لانے کا موجب ہوتا ہے…‘‘ یہ وضاحت آپ نے فرمائی کہ جسمانی باپ جو ہے وہ زمین پر لانے کا موجب ہوتا ہے۔ باپ جو ہے اس کی وجہ سے اور عورت اور مرد کے ملاپ کی وجہ سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور ایک انسان، انسانی روح اور جسم زمین پر آتا ہے ’’…اور حیاتِ ظاہری کا باعث۔ مگر روحانی باپ آسمان پر لے جاتا اور اس مرکز اصلی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ روحانی باپ کیا کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو لے کر جاتا ہے اور وہی اصلی مرکز ہے جس کی طرف وہ رہنمائی کرتا ہے فرمایا کہ ’’…کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے؟ طوائف کے ہاں جاوے؟ اور قمار بازی کرتا پھرے۔ شراب پیوے یا اَور ایسے افعال قبیحہ کا مرتکب ہو جو باپ کی بدنامی کا موجب ہوں۔‘‘ یہ ساری برائیاں ہیں۔ کوئی باپ پسند کرتا ہے کہ اگر کسی بیٹے میں ہوں فرمایا کہ ’’…مَیں جانتا ہوں کوئی آدمی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس فعل کو پسند کرے۔ لیکن جب وہ ناخلف بیٹا ایسا کرتا ہے تو پھر زبان خلق بند نہیں ہو سکتی…‘‘ لیکن اگر کوئی بیٹا ایسی حرکتیں کرے اور لوگوں کو پتہ ہو تو پھر تم لوگوں کی زبانیں بند نہیں کر سکتے۔ وہ برائیاںنکالیں گے۔ بیٹے میں بھی باپ میں بھی کیڑے نکالیں گے۔ باپ کو بھی بدنام کریں گے۔ فرمایا کہ ’’…لوگ اس کے باپ کی طرف نسبت کر کے کہیں گے کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا فلاں بدکام کرتا ہے۔ پس وہ ناخلف بیٹا خود ہی باپ کی بدنامی کا موجب ہو تا ہے۔ اسی طرح پر جب کوئی شخص ایک سلسلہ میں شامل ہوتا ہے اور اس سلسلہ کی عظمت اور عزّت کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے خلاف کرتا ہے تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں پھر وہ آ جائے گا۔ ’’…وہ صرف اپنے آپ کو ہی ہلاکت میں نہیں ڈالتا بلکہ وہ دوسروں کے لئے ایک برا نمونہ ہو کر ان کو سعادت اور ہدایت کی راہ سے محروم رکھتا ہے۔‘‘ دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا باعث بن جاتا ہے۔ محرومی کا باعث بن جاتا ہے۔ ان کو صحیح رستے پر لانے سے روکنے کا باعث بن جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’پس جہاں تک آپ لوگوں کی طاقت ہے۔ خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ جہاں عاجز آ جاؤ وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاؤ کیونکہ خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اٹھتے ہیں خالی واپس نہیں ہوتے۔‘‘ یعنی جب اپنے آپ کو کنٹرول نہ کر سکو تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو۔ ہاتھ اٹھاؤ۔ دعائیں کرو۔ سجدوں میں دعائیں کرو۔ چلتے پھرتے دعائیں کرو۔ اور خشوع و خضوع سے دعائیں کرو کیونکہ یہ دعائیں جو خشوع و خضوع سے کی جاتی ہیں وہ خالی ہاتھ واپس نہیں آتیں۔ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور ان تمام برائیوں سے پھر انسان کو پاک کر دیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’ہم تجربے سے کہتے ہیں کہ ہماری ہزارہا دعائیں قبول ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ ‘‘
فرماتے ہیں کہ ’’یہ ایک یقینی بات ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اندر اپنے ابنائے جنس کے لئے ہمدردی کا جوش نہیں پاتا وہ بخیل ہے‘‘۔ اگر اپنے ہم نوع انسانوں کے لئے تمہارے اندر ہمدردی نہیں ہے۔ لوگوں کے لئے تو تم بخیل ہو، کنجوس ہو۔ ’’ اگر میں ایک راہ دیکھوں جس میں بھلائی اور خیرہے تو میرا فرض ہے کہ مَیں پکار پکار کر لوگوں کو بتلاؤں۔ اس امر کی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں …۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 146-147)
پس میرا فرض ہے کہ لوگوں کو بلاؤں اور پکار پکار کے بلاؤں اور یہ فرض آپ نے ہم پر ڈالا کہ اس کے ذریعہ سے تم تبلیغ کرو۔ جس حق کو اور ہدایت کو اور سچائی کو تم نے قبول کیا ہے اس کو دنیا میں پھیلاؤ اور بتاؤ اور یہ پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ لوگ مانتے ہیں کہ نہیں مانتے۔ پیغام یہاں کے ہر شہری تک پہنچ جانا چاہئے۔ ہر ملک کے ہر شہری تک ہر احمدی کو پہنچا دینا چاہئے اور یہی وہ کام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سپرد فرمایا ہے۔
پس یہ بات یاد رکھیں کہ تقویٰ دلوں میں پیدا ہو۔ اپنے دلوں کو پاک ہم نے کرنا ہے۔ دلوں کو پاک کر کے اپنے عملی نمونوں سے اپنے ماحول کو اسلام کی خوبیوں کے بارے میں بتانا ہے۔ اپنے گھروں کے ماحول کو پاک صاف رکھنا ہے۔ اپنے اخلاق کو اعلیٰ کرنا ہے۔ ہر ایک کو اپنی ذات سے تکلیف پہنچانے کی بجائے سہولت اور آسانیاں پہنچانے کے سامان کرنے ہیں۔ اور ہر شخص تک اسلام اور احمدیت کا حقیقی پیغام پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے اور ہم سب اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی منشاء کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اور کبھی ہم ان لوگوں میں شامل نہ ہوں یا ہماری طرف لوگ اس طرح اشارہ نہ کریں کہ احمدی ہو کر انہوں نے احمدیت کو بدنام کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کو بدنام کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ تقویٰ پر چلنے والا بنائے رکھے اور ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوںکے لئے کی ہیں۔ دعا کر لیں۔
دعا کے بعد حضورانور نے فرمایا:
ان کی ٹوٹل حاضری تین ہزار آٹھ سو اٹھہتر ہے اور اس میں چوبیس ملکوں کی یہاں نمائندگی ہے اور ان ملکوں کی نمائندگی کی وجہ سے ان کی تعداد اتنی ہو گئی ہے۔ ٹوٹل جو بیلجئم کے لوگوں کی حاضری ہے وہ تقریباً سترہ سو پچھہتر ہے اور دو ہزار تین سو مہمان ہیں۔ چھوٹی جماعتوں میں ویسے یہی ہوتا ہے کہ مہمان جو ہیں وہ لوکل مقامی لوگوں سے بڑھ جاتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ سب حاضرین کو ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہیں اور خیریت سے آپ لوگوں کو اپنے گھروں میں لے کر جائے۔ (آمین)