یادِ رفتگاں

’زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا‘ محترم مبارک احمد طاہر صاحب کی یاد میں

(آصف محمود باسط)

بہت سال پہلے جماعتی ریکارڈ میں محفوظ تصاویر میں سے گزرتے ہوئے ایک البم نظر سے گزری۔ اس میں ایوانِ محمود میں بننے والے ایک نئے دفتر کی تصاویر تھیں۔ دفتر نہایت اعلیٰ معیار کا بنا ہوا تھا اور فرنیچر سے لے کر اس کی ترتیب و تزئین سبھی بہت جاذبِ نظر تھی۔ کسی سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ محترم مبارک احمد طاہر صاحب نے دفتر کو renovate کرنے کے لیے عطیہ دیا تھا۔

یہ نام آتے ہی اکثر اگلا سوال یہی ہوتا ہے کہ ’’کون سے مبارک طاہر صاحب؟ ‘‘ اور اس کے جواب دو طرح دیے جاتے ہیں۔ یا تو لوگ ’’مشیر قانونی‘‘ کہہ دیتے ہیں، یا ’’غیر قانونی‘‘۔ یہ اس لیے کہ اس نام کے دو بزرگ ربوہ میں بیک وقت موجود رہے۔ ایک مشیر قانونی اور دوسرے (جو بہت بذلہ سنج واقع ہوئے ہیں) نے خود کہہ رکھا تھا کہ تمیز کرنے کے لیے مجھے بے شک ’’غیر قانونی‘‘ کہہ لیا کرو۔

کچھ روز ہوئے، یہ الجھن ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔وہ جو مشیر قانونی تھے، اچانک ربوہ بلکہ اس جہانِ فانی سے اٹھ گئے۔ یوں ان کا ذکر ماضی کے صیغے میں ہونے سے قانونی اور غیر قانونی کی تمیز کی حاجت بھی ان کے ساتھ ہی اٹھ گئی۔

خیر! یہ لندن آنے کے بعد پہلی دفعہ تھا کہ ان کا ذکر سنا۔ ربوہ میں انہیں اپنی سوزوکی مارگلہ میں بڑی متانت سے دفتر کی جانب آتے اور جاتے دیکھا کرتے۔ ان سے میرا ذاتی تعارف ربوہ میں نہیں تھا۔ کبھی دفتر کی کسی راہداری میں ان کے پاس سے گزر ہوتا تو ہمیشہ وہ خود بھی اور ان کے ہمراہ چلنے والا شخص دونوں نہایت خوشگوار موڈ میں ہنستے نظر آتے۔

بڑے وضع دار آدمی تھے۔ خوش لباس۔ بڑی متانت سے قراقلی کی ٹوپی بھی پہنتے۔ پھر قانون کے شعبہ سے تعلق۔ ہم سمجھ نہ پاتے کہ اپنی دیگر علامات کے ساتھ ایسی زندہ دلی کو کیسے زندہ رکھتے ہیں؟ تو ربوہ میں رہتے ہوئے جو ان سے واجبی سا تعارف ہوا، وہ ان کی خوش مزاجی اور وضعداری کے حوالے سے تھا۔

ہمارا گھر محلہ دارالرحمت وسطی میں تھا۔ مگر چونکہ ربوہ آتے ساتھ کالج میں داخل ہوتے ہی جو دوست ملے وہ شام کو انصاراللہ کے دفاتر میں ٹیبل ٹینس کھیلنے جایا کرتے، اس لیےمیری شامیں بھی وہیں بسر ہوتیں۔میری تربیت کی کوشش میں میرے والد صاحب نے جن باتوں پر بہت زور دیا ان میں سے ایک مغرب کے بعد باہر نہ رہنے کی تلقین بھی تھی۔ ٹیبل ٹینس سے فارغ ہوتے ہوتے مغرب کا وقت ہوجایا کرتا اور میں مغرب کی نماز مسجد مبارک یا تحریک جدید کے کوارٹرز سے ملحقہ مسجد محمود میں ادا کر لیا کرتا۔ مبارک احمد طاہر صاحب دونوں مساجد میں نظر آنے والے باقاعدہ نمازیوں میں سے تھے۔ یہ ان سے دوسرا تعارف تھا۔

ربوہ میں بہت سے نوجوان ایسے تھے جو تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ ربوہ میں ملازمت کے بہت ہی محدود مواقع تھے۔ ایسا ہی ایک نوجوان تھاجو تحریک جدید کے کوارٹرز میں پیدا ہوا، وہیں پلا بڑھا، وہیں جوان ہوا اور اسی محلہ کے گلی کوچوں کی محبت میں مبتلا ہوجانے کے باعث دنیا میں اور کچھ بھی کرنے کے قابل نہ رہا۔اس کی بے روزگاری ضرب المثل کا درجہ پاچکی تھی جس سے ڈرا کر ماں باپ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دلایا کرتے۔ زمانے بھر کی خاک چھانتا یہ نوجوان، جس کی متلون مزاجی کے باعث اسے ربوہ میں کوئی بھی ملازم رکھنے کو تیار نہ تھا، ایک روز اچانک برسرِ روزگار ہوگیا۔ جس دن یہ تاریخی واقعہ پیش آیا، اس روز تحریک جدید کے کھیل کے میدان میں یہ تازہ ترین اور سب سے سنسنی خیز خبر تھی۔ معلوم ہوا کہ جسے کوئی نہ رکھتا تھا، اسے مبارک احمد طاہر صاحب نے اپنے دفتر میں مددگار کارکن رکھ لیا ہے۔ یہ محترم مبارک احمد طاہر صاحب سے تیسرا تعارف تھا۔

چوتھا تعارف لندن میں وہ البم دیکھتے ہوئے ہوا۔ اور پھر معلوم ہوا کہ صرف ایوانِ محمود کا وہ دفتر ہی نہیں، بلکہ جماعت کے کسی بھی پراجیکٹ کے لیے کھلے دل سے قربانی کرنے والے آدمی ہیں۔

پھر ان کے بیٹے برادرم اعجاز احمد طاہر صاحب کی انگلستان پوسٹنگ ہو گئی تو ان سے راہ و رسم بڑھی اور دوستی کا تعلق پیدا ہوا۔ مبارک طاہر صاحب اکثر جلسے کے دنوں میں ان کے پاس اسلام آباد میں آکر قیام کرتے۔ یوں ان کے ہر دورۂ انگلستان میں ایک آدھ مرتبہ ان سے ملاقات ہوجایا کرتی۔

جلسے کے شب و روز ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اپنے گھر والوں سےبھی تمام حقوق معاف کرواکے صرف جلسے کا ہوجاتا ہے۔ اس لیے یہ ملاقاتیں بہت مختصر رہیں۔ ان سے تعارف بھی بہت گہرا نہ ہوسکا۔ جہاں آج اس بات کا ملال ہے، وہاں اس بات کی خوشی بھی ہے کہ چلو ایسے نیک لوگوں سے ملنے یا ان سے بات کرنے کا موقع ہی مل گیا۔ مگر ان کی یادیں مٹھی بھر ہی سہی، مگر ایسی قیمتی ہیں کہ مٹھی میں مضبوطی سے تھامے رکھنے کو جی چاہتا ہے۔مگر یہ مٹھی کھولنا ضروری ہے کہ ان میں سے بہت سی باتیں ہم سب کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔

جب انگلستان میں پہلی دفعہ ان سے ملاقات ہوئی، تو مجھے خیال تھا کہ ان سے ذرا بھی تعارف نہیں۔ معلوم نہیں کیا بات چیت ہوگی۔ مگر جونہی وہ تشریف لائے تو بڑی گرم جوشی سے ملے۔ ’’اوہ! ماشااللہ۔ کی حال اے جناب! تسی کتھے سی۔ اِنے دن ملاقات ای نئیں ہوئی!۔۔۔‘‘

اس گرم جوشی سے بھرپور کلمات سے مجھے لگا کہ وہ تو مجھے بہت مدت سے جانتے ہیں۔ اور ملاقات کے لیے حاضر نہ ہونے پر ندامت بھی ہوئی۔ یہ تو کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ یہ گرم جوشی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ اور وہ ہر کسی سے، مجھ جیسے اجنبیوں سے بھی، اسی تپاک سے ملتے ہیں۔ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ مبارک طاہر صاحب مجھے جانتے پہچانتے ہیں اور میں ہی کم نصیب تھا کہ ان سے ملنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا رہا۔

لیکن یہ تپاک اور یہ گرم جوشی طبعی تھی اور فطری تھی۔ یہ اجنبیت کے حجاب کو دور کرنے کا ان کا اپنا سا طریق تھا۔ یوں ان کا یہ بزرگانہ تپاک حقیقت میں اجنبیت کو دور کردیتا اور ان سے ایک محبت کا تعلق استوار ہوجاتا۔ ورنہ نوجوان نسل خود سے بڑی نسل سے کہاں کھل پاتی ہے؟

مبارک طاہر صاحب جلسے کے موسم کے علاوہ بھی انگلستان تشریف لاتے رہے۔ ایسے دوروں میں ان سے استفادہ کرنے کے نسبتاً زیادہ مواقع مل جاتے۔ایسی ملاقاتوں میں سے پہلی ملاقات آج تک ذہن پر نقش ہے۔خاکسار ان سے ملنے اسلام آباد (یوکے)حاضر ہواتو ایک اور دوست جو بلحاظِ پیشہ وکیل ہیں، ساتھ تھے۔ مہمانوں کی کثرت کے باعث انہوں نے گھر کے باہر باغیچے میں ایک تنبو نما ٹینٹ لگا کر مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنا لی تھی۔ ہم اسی ٹینٹ میں مبارک طاہر صاحب کے ساتھ بیٹھے۔ بڑے اصرار سے بچوں کو کہا کہ کھانا لگایا جائے۔ جو وکیل دوست ساتھ، وہ مبارک صاحب سے مستقل سوال کرتے گئے اور مبارک صاحب مستقل جواب دیتے گئے۔ ظاہر ہے کہ سوال تو مختصر ہوتا ہے، جواب تفصیل مانگتا ہے۔ سو اس دوران ہم تو کھانا کھاتے رہے، مگر محترم مبارک طاہر صاحب نے کھانے کی ذرہ بھر بھی پروا ہ نہ کی اور اپنے ہم پیشہ نوجوان کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔

چونکہ ہمارے یہ دوست وکالت کے پیشہ سے متعلق تھے، انہیں جماعت کے قانونی معاملات کی تاریخ پر سیر حاصل معلومات دیں۔ یہ گویا ان کے علم اور تجربہ کا نچوڑ تھا جو وہ آئندہ نسل تک منتقل کررہے تھے۔

اسی گفتگو میں انہوں نے اپنے ساتھی وکلا کا ذکر بھی کیا اور بہت محبت اور احترام سے بھی کیا۔ اُنہیں جماعتی معاملات میں خدمت کی توفیق پانے والے دیگر وکلا سے ملتے بھی دیکھا تو اس میں بھی احترام کا رنگ نمایاں نظر آیا۔ کہیں ہم عصرانہ چشمک کی جھلک بھی نہ تھی۔

اسی طرح ایک دفعہ ان کے ساتھ لندن سے اسلام آباد تک سفر کرنے کا موقع بھی ملا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے مبارک صاحب سے بہت سے سوالات کیے اور انہوں نے بہت تفصیل سے جواب دیے۔ ان سے تعارف بھی بڑھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ بی اے کرنا بھی بڑی بات تھی۔ پھر ایل ایل بی کس طرح کیا۔ کس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؓ کے زمانے میں زندگی وقف کرنے کی توفیق ملی۔ یوگنڈا میں تعینات ہوئے۔ پھر واپس پاکستان بلا لیے گئے۔

یہاں ایک بات جو قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے کہ انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زندگی میں وقف کرنے کی توفیق ملی تھی۔ ایک نو آموز واقفِ زندگی کی حیثیت سے انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے تربیت حاصل کی۔ مگر ایسا نہیں تھا کہ وہ اس دور میں دھنس کر یا پھنس کر رہ گئے ہوں۔

 انہیں حضرت مرزا ناصر احمد ؒ صاحب سے والہانہ محبت تھی تو خلافتِ احمدیہ سے ان کی محبت اس سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بے پناہ شفقتوں اور محبتوں کا ذکر بڑے جذباتی رنگ میں کرتے۔ اور جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ذکر ہوتا تو صاف معلوم ہوتا کہ وہ اس دور میں پوری وابستگی، پوری محبت، پوری لگن اور پورے عشق سے جی رہے ہیں۔

خاندان حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے خاص محبت اور ارادت کا تعلق رکھتے۔ خود سے عمر میں چھوٹے افرادِ خاندان سے بھی حضرت مسیح موعودؑ سے نسبت کے باعث بڑے ادب اور محبت سے پیش آتے۔

خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں سے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا ذکر بہت کرتے اور بہت محبت سے کرتے۔ یہ بھی بتاتے کہ بطور واقفِ زندگی اور بطور مشیر قانونی ان کی تربیت میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے خاص کردار ادا فرمایا۔ صاحبزادہ صاحب مرحوم کے معاملہ فہم، دوراندیش اور شجاع ہونے کا خاص ذکر کیا کرتے۔

ان کی نصائح جو خود بھی ان سے سنیں اور ان کی اولاد بھی اکثر اس کا ذکر کرتی ہے، وہ اس ایک نصیحت کے گرد گھومتی تھیں کہ خلیفۂ وقت سے وفا کا تعلق رکھنا اور اطاعت کرناہی ایک احمدی کی اصل زندگی ہے۔ یہی اصول ہے جو انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔ اور یہ کہ اس کےآگے انسان کی سب دوڑ دھوپ ہیچ ہے۔

خدام الاحمدیہ میں اپنی خدمات کا ذکر بڑی محبت سے کرتے رہے۔ یہ بھی بتایا کہ جب 1974 میں احمدیہ مخالف حالات نے خوف ناک موڑ لیا، تو نوجوانوں کے جذبوں کو بلند رکھنے کے لیے اور انہیں خوف یا مایوسی سے بچاتے ہوئے مثبت سمت میں چلانے کے لیے صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مرحوم اور صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب مرحوم کے ساتھ ربوہ میں کھیل کے میدانوں کو ازسرِ نو آباد کرنے کے منصوبے میں وہ بھی شامل تھے۔ مبادا نوجوان کسی خوف یا مایوسی میں مبتلا ہوجائیں، انہیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنا ضروری تھا۔یوں ربوہ کا وہ خوبصورت کلچر ازسرِ نو زندہ ہوگیا جس میں ہر شام کھیل کے گراؤنڈ عصر کی نماز کے بعد سے مغرب تک آباد رہا کرتے۔

یہ بھی بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ’’ہمیشہ مسکراتے رہو‘‘ کا motto اسی طرح کے کٹھن حالات میں جماعت کو عطا فرمایا تھا۔ مبارک طاہر صاحب نے نہ صرف یہ بات بیان کثرت سے کی بلکہ خود اس کی عملی تصویر بن کر بھی دکھایا۔

بعض اوقات ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا کہ جماعت کو درپیش کسی پیچیدہ مسئلہ کے سلسلہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ایسے میں بھی جب ملاقات ہوئی، ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہی دیکھی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ واقعات اور مسائل کا تذکرہ بطور تاریخی حقائق کے کرتے مگر ناموں یا غیر ضروری تفصیلات سے ہمیشہ اعراض کرتے۔ جہاں تک اس معاملہ میں مخاطب کے لیے کوئی تربیت کا رنگ ہوتا، وہیں تک بیان کرتے۔ یہ ایک ایسا سبق تھا جو آج کے دور میں جب ہر ہاتھ میں موبائل فون اور ہر موبائل فون میں کیمرہ موجود ہے، نہایت ضروری ہے۔ ایسی رازداری صرف تبھی آتی ہے جب ہر دفتر کا ہر کارکن اپنے کام کو اپنا کام سمجھے اور اپنے دفتر کے معاملات کی حفاظت اسی طرح کرے جس طرح اس کے اپنے گھر کے راز وں کی کی جاتی ہے۔

ایک روز برادرم حافظ اعجاز صاحب کی گاڑی میں محترم مبارک صاحب کے ساتھ ایک سفر سے واپسی تھی۔ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔ ہم اسلام آباد کے نزدیک برلبِ دریا ایک جگہ fish and chips  کھانے کے لیے رکے۔ گرمیوں کی ایک نہایت خوبصورت سہ پہر میں چودھری صاحب کی معلومات اور زندہ دلی سے بھرپور گفتگو نے اس مجلس کو اور بھی یادگار بنا دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم تین دوست ہیں جو ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ کوئی تکلف نہ تھا۔ اپنی تمام تر بزرگی کے باوجود مبارک صاحب نے اپنے گرد کوئی سرحدیں نہیں کھینچ رکھی تھیں کہ اس سے آگے قدم نہیں رکھنا۔ مگر اس کے باوجود ان کا وقار اور رعب تھا جو خود بخود ایسے خطوط متعین کرتا تھا۔

تین دوست تو میں نے اس مجلس کی خوبصورتی بیان کرنے کو لکھ دیا۔ مگر اس خیال سے کہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو، یہ بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ اس مجلس میں کوئی بات بھی ایسی نہ تھی جو بے مقصداور گپ بازی میں آتی ہو۔ اس مجلس میں مبارک صاحب ہمارے بزرگ تھے، لہذا شمعِ محفل بھی تھے۔ ہر بات جو انہوں نے کی وہ اپنے اندر ہمارے لیے بہت کچھ سیکھنے کا سامان رکھتی تھی۔ خوش مزاجی اور بے تکلفی کا سا رنگ صرف اس لیے تھا کہ عمروں کے تفاوت کے باعث جو حجاب ہوتے ہیں وہ نہ رہیں۔ ہم جو چاہیں پوچھ سکیں اور وہ بھی ہنستے مسکراتے ہمیں معلومات سے آراستہ کرتے رہیں۔

مثلاً مجھے یاد ہے کہ اس مجلس میں انہوں نے خلفا کے ساتھ اپنے واقعات بہت محبت سے سنائے۔ آج یہ سطور لکھتے وقت بھی ان کے چہرے کی وہ شگفتگی یاد آرہی ہے جو اس محبت کے ذکر سے ان کے چہرے پر پھیلتی تھی۔

 وہ محبت آج بھی میری یاد میں تازہ ہے جو ان کے چہرے پر ابھر آئی تھی جب انہوں نے بتایا کہ بحیثیت مہتمم عمومی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے زمانہ میں انہیں حفاظتِ امام کی ڈیوٹی دینے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ کیسے وہ حضور کی کار کے ساتھ ساتھ سائیکل پر جاتے۔ یہ بھی کہ ایک مرتبہ اقصیٰ روڈ پر گاڑی ٹریفک یا ریلوے پھاٹک پر رکی تو حضورؒ نے کار کا شیشہ نیچے کر کے ان سے گفتگو بھی فرمائی تھی۔اس موقع پر ہونے والی گفتگو میں حضورؒ نے انہیں مخاطب کرکے ان کے نومولود بچے کی مبارک باد بھی تھی اور اس کا نام بھی عطا فرمایا تھا۔

پھر یہ بات بھی بڑی محبت سے بتائی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 1982 میں انہیں دونوں انجمنوں یعنی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید انجمن احمدیہ کا مشیر قانونی مقرر فرمایا تھا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی شفقتوں کا ذکر کرتے جو اللہ کے فضل سے خاصا طویل تھا۔

اس دور کی باتیں بھی بڑی تفصیل سے بتائیں جب حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بطور ناظر اعلیٰ پاکستان کے احمدیہ مخالف قوانین کا نشانہ بنائے گئے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضور کو اسیرِ راہِ مولیٰ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت جو کربناک کیفیت جماعت پر گزری، اس کا کرب اس دور کو یاد کرتے وقت ان کی گفتگو اور آنکھوں میں بھی صاف نظر آنے لگا۔

اس دور کی یادداشتیں انہوں نے ایم ٹی اے پر نشر ہونے والی ڈاکومنٹری میں بھی بیان کی ہیں جو اکثر قارئین دیکھ اور سن چکے ہوں گے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے یہ باتیں ان سے براہ راست سنیں۔یوں وہ جذباتی کیفیات جنہیں کیمرے کی موجودگی کے باعث آدمی اخفا میں رکھ لیتا ہے، ان کیفیات کا مشاہدہ بھی کیا۔

یہاں بالخصوص ان کے بیان کردہ ایک واقعے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ بھی ڈاکومنٹری میں آتو گیا ہےمگر اس کی خاص اہمیت ہے۔ جب معلوم ہو گیا کہ حضرت صاحب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جارہی ہے اور امکان ہے کہ انہیں گرفتارکرلیا جائے گا، تو ایک کمیٹی نے، جس میں مبارک طاہر صاحب بھی شامل تھے، نےاز خود حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں ایک ایسی تجویز تحریر کردی جس میں حضرت صاحبزادہ صاحب(ایدہ اللہ تعالیٰ) کو ملک سے باہر بھیج دینے کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کے علم میں بات آئی تو ان نے کمیٹی سے اس پر اظہارِ ناپسندیدگی فرمایا کہ جب مجھے کوئی خوف نہیں تو آپ نے مجھ سے پوچھے بغیر ایسی تجویز کیوں بھیج دی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں بھی اسی وقت اس بات کی وضاحت پیش کی کہ یہ تجویز کمیٹی کی ہے میں خود ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔

اس واقعہ میں جو خاص قابلِ ذکر بات ہے وہ یہ ہے کہ مبارک طاہر صاحب اس کمیٹی میں شامل تھے جن سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔ مگر اس غلطی اعتراف کرنے اور تمام تفصیلات بیان کرنے میں انہیں ذرا بھی تامل نہ تھا۔ ان کے لیے یہ بات ایسی تھی کہ اس میں سب کے لیے سبق تھا کہ ایک تو اپنی غلطی کے اعتراف میں کوئی بری بات نہیں۔ دوسرا اگر اس غلطی سے اگر کوئی سبق سیکھ سکتا ہو تو اسے بیان کرنا کارِ خیر کا درجہ رکھتا ہے۔

Generation gap پر پل باندھنے کے یہی انداز تھے کہ ان کےچھوٹے پوتوں اور پوتیوں کو ان کی ٹانگوں سے لپٹے دیکھا۔ جو سمجھداری کی عمر کو پہنچ چکے تھے، انہیں ان کے ساتھ گفتگو کرتے اور مذاق کرتے دیکھا۔ بڑی محبت سے ان کے ساتھ اسلام آباد کے وسیع سبزہ زاروں میں گھومتے پھرتے دیکھا۔ ہمارے لیے تو اس میں بھی یہی خاموش سبق نظر آتا تھا کہ اپنی اگلی نسلوں سے ایسی دوستی کرو کہ وہ سوال پوچھنے میں حجاب محسوس نہ کریں۔ ورنہ انٹرنیٹ کے اس دور میں وہ جواب تلاش کرنے کہیں اور نہ نکل جائیں۔ خدا کرے کہ ہم سب انہی کی طرح اپنی نوجوان نسل بلکہ بچہ نسل سے دوستی اور محبت کرنے والے بن سکیں۔

مبارک طاہر صاحب مرحوم ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بحیثیت واقفِ زندگی سادگی سے زندگی بسر کی۔ خدا نے انہیں خوب کشائش بھی دے رکھی تھی، مگر خوش نصیب تھے کہ اس کشائش کے ساتھ فیاضی بھی عطا ہوئی تھی۔ اور اس فیاضی کا مظاہرہ نہایت مومنانہ تھا۔ یا تو جماعت کے لیے سب کچھ پیش کرنے کو تیار۔ یا اگر اولاد کے لیے بھی فیاضی کا مظاہرہ کیا تو اس میں خیر کے پہلو کو مقدم رکھا۔ مثلاًحافظ اعجاز صاحب کی اہلیہ نے ان کی خوب خدمت کی اور گاڑی میں انہیں کبھی جلسہ پر اور کبھی کہیں لے گئیں۔ نماز کے لیے مسجد کے قریب تک اتار آئیں۔ تو مبارک صاحب نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ’’ہماری بہو کی گاڑی بھروسہ مند نہیں لگتی۔ اس کے پاس بہتر گاڑی ہونی چاہیے۔ پتہ کرو مناسب کار کتنے میں آجائے گی؟‘‘اور یوں فیاضی کی نیکی میں خیر کا ایک اور رنگ شامل کرلیا۔

سال بہ سال ان کی گرتی ہوئی صحت کا تکلیف دہ مشاہدہ بھی کرنے کو ملتا رہا۔ جب آغاز میں انہیں جلسے پہ دیکھا کرتے تو بڑے سیدھے قد سے چلتے پھرتے نظر آتے۔ پھر رفتہ رفتہ چال میں فرق آیا۔ پھر لاٹھی ہاتھ میں نظر آنے لگی۔ پھر خاص طرز کے جوتے بھی پہنے ہوئے دیکھا۔ تب تک چال میں لڑکھڑاہٹ آچکی تھی۔ مگر یہاں میں اپنا یہ مشاہدہ بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہیں بیماری سے ہار مانے ہوئےکبھی نہیں دیکھا۔ ہمیشہ پورے قد سے ہی چلتے۔ پاؤں ٹھیک سے نہ بھی اٹھتا تو اعتماد سے چلتے جاتے اور پیر کو لگنے والی ہر ٹھوکر کو یوں نظر انداز کردیتے جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔

صحت کے موسموں میں خزاں کی آمد آمد نظر آنے لگی۔ پھر خزاں بھی نظر آئی۔ مگر مبارک طاہر صاحب کی باغ و بہار شخصیت میں خزاں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ اوپر جو گرتی صحت کے مراحل میں نے بیان کیے ہیں، ان میں سے ہر مرحلے کے ساتھ وابستہ ایک اوریاد بھی ہے اوروہ یہ ہے کہ مبارک صاحب چلتے ہوئے مسجد کی طرف رواں دواں ہیں۔

 ہاں وقت کے ظلم کا کیا کریں کہ جسے آپ نے مسجد مبارک ربوہ کی صفوں میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہو، وہ مسجد مبارک اسلام آباد تک پہنچتے پہنچتے کرسی پر بیٹھ جائے تو تکلیف تو ہوتی ہے۔ بیچ میں کئی دہائیوں کا پھیر بھی تو گزرگیا۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ خود پر جو بھی بیت گئی، مسجد کی دہلیز سے دوری گوارا نہیں کی۔

آخری مرتبہ اسلام آباد تشریف لائے تو رمضان کا مہینہ تھا۔ رمضان المبارک کے آخرپر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درس ارشاد فرمانا تھا۔ میں اپنی ڈیوٹی پر ایم ٹی اے کی وین کے ساتھ مسجد مبارک اسلام آباد کے باہر کھڑا تھا۔ مبارک صاحب اپنے ایک پوتے کے ساتھ تشریف لائے اور مسجد کے اندر تشریف لے گئے۔ پھر ایسالگا کہ اندر سے کسی نے انہیں باہر رکھی کرسیوں کی طرف بھیج دیا ہے۔ پھر کسی نے وہاں سے انہیں مسجد سے ملحق ہال کی طرف بھیج دیا اور وہ وہاں چلے گئے۔ پھر مسجد کے اندر کرسیاں رکھ دی گئیں تو انہیں ڈیوٹی پر موجود کسی نوجوان نے پھر اندر بھیج دیا۔ مبارک صاحب ایک معصوم بچے کی طرح اطاعت کا بے مثال نمونہ پیش کرتے ہوئے ہر ہدایت پر عمل کرتے رہے۔یہ میرے ذہن پر مبارک صاحب کی آخری یاد ہےجو نقش ہے۔

مبارک طاہر صاحب مرحوم سے میرا دہرا تعلق تھا۔ ایک ان کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کے باعث اور دوسرا برادرم حافظ اعجاز احمد طاہر صاحب کے حوالے سے۔ اس لیے دکھ بھی دہرا ہے اور صدمہ بھی۔ مگر اس تحریر میں سوگواری کا رنگ نظر نہ آیا ہو تو قارئین اور لواحقین سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ لمبی اور کامیاب زندگی گزارنے والے ایک خوش مزاج بزرگ کی وفات پرنوحہ کناں ہونے کی بجائے مسکراتے ہوئے اسے خدا کے سپرد کیوں نہ کردیاجائے۔ یوں ان کا مسکراتا چہرہ بھی یاد رہ جائے گا جو ان کی شناختی علامت کا درجہ رکھتا تھا۔

سنا ہے کہ جب تدفین سے پہلے چہرہ دکھایا گیا تو ایک قریبی دوست نے یہ کہہ کر چہرہ نہیں دیکھا کہ میں وہی مسکرانے، ہنسنے ہنسانے والے آدمی کویاد رکھنا چاہتا ہوں۔ کفن اوڑھے ہوئے نہیں۔

جو آدمی ہر وقت ہنستا اور ہنساتا تھا، خدا کرے کہ وہ اگلے جہان میں بھی خوش رنگ زندگی پائے۔ اللہ تعالیٰ محترم مبارک طاہر صاحب کو غریقِ رحمت کرے اور ان کے درجات بلند فرماتا رہے۔

اختتام پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت الفاظ پیش کرنا چاہتا ہوں۔

20 فروری کی صبح حضرت صاحب نے ملاقات کے وقت عطا فرمایا۔ مبارک طاہر صاحب کی وفات کو ابھی ایک آدھ دن ہی ہوا تھا۔ اور محترم خالد محمود الحسن بھٹی صاحب کی وفات بھی کچھ ہی روز قبل ہوئی تھی۔ اظہار تعزیت کے بعد عرض کی کہ : ’’حضور، عام آدمی تو ایک عزیز کی وفات کی خبر سے صدمے میں چلا جاتا ہے۔ حضور کو پچھلے دنوں میں پے در پے جماعت کے خدمت گاروں کی وفات کی خبریں ملی ہیں۔انہیں برداشت کرنے کا حوصلہ کیسے ملتا ہے؟‘‘حضرت صاحب نے جو جواب عطا فرمایا، وہ ہدیۂ قارئین ہے۔

 فرمایا:’’خدا تعالیٰ کی مرضی کے آگے تو کوئی زور نہیں چلتا۔ جانا تو ہر کسی نے ہے۔ کسی نے پہلے کسی نے بعد میں۔ ہمیشہ تو کسی نے بھی نہیں رہنا۔ اس لیے اصل بات تو یہی ہے کہ

بلانے والا ہے سب سے پیارا، اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

تو اس میں صبر بھی آجاتا ہے اور توکل بھی بڑھتا ہے۔میں نے چودھری حمیداللہ صاحب کے ذکر کے بعد خطبہ میں یہ دعا بھی تو کی تھی کہ اللہ تعالیٰ خلافت کواور سلطانِ نصیر عطا فرمائے۔ تو دعا ہی ہےجو انسان کرسکتا ہے۔‘‘

کچھ توقف کے بعد فرمایا:

’’زندگی انساں کی ہے مانند مرغِ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا کوئی دم، چہچہایا، اڑ گیا

تو زندگی تو اسی طرح ہے۔ اور وہ بھی سنا ہے تم نے، جو کہتے ہیں کہ

زندگی کی دوسری کروٹ ہے موت

زندگی کروٹ بدل کر رہ گئی‘‘

تو آئیے۔ محترم مبارک احمد طاہر صاحب کےاس ذکر کا اختتام حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان دعائیہ الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خلافتِ احمدیہ کو سلطانانِ نصیر عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button