متفرق شعراء
غزل
ہزار سجدوں کے بعد بھی گھر جلا رہے ہو، بہت بُرے ہو
کسی کے دل کو بنامِ مذہب دُکھا رہے ہو بہت بُرے ہو
وہی ہے رُستم وہی ولی ہے جو نفس اپنے سے جیت جائے
شکست اپنے وجود سے ہی جو کھا رہے ہو بہت بُرے ہو
میں چاہتا ہوں وطن کے لوگوں کے نام خط میں پیام لکھوں
وطن فروشوں کو پھر سے رہبر بنا رہے ہو بہت بُرے ہو
وہی پٹاری وہی سپیرے وہی مداری وہی تماشے
تماش بینوں میں تم بھی تالی بجا رہے ہو بہت بُرے ہو
یہ جھوٹ غیبت ہیں زہرِ قاتِل، یہ راستے ہیں ہلاکتوں کے
یہ زہر بچوں کو اپنے ہاتھوں کِھلا رہے ہو بہت بُرے ہو
کہو مبارکؔ یہ اہلِ شب سے کسی فسانے کسی غزل میں
یہ تم جو صبحِ ازل کی کرنیں چُھپا رہے ہو بہت بُرے ہو
(مبارک صدیقی)