ایڈیٹر کے نام خط
محترم سعید احمد انور صاحب بریڈفورڈ یوکے سے لکھتے ہیں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ خط لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ 26؍فروری 2021ء میں جو الفضل ڈائجسٹ شائع ہوا ہے اس میں میرے خیال میں ایک بات درست نہیں ہے۔میںہمیشہ الفضل ڈائجسٹ بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔اس شمارے میں اس کالم میں جاوید چودھری صاحب کا ایک سفر نامہ پیش کیا گیا ہے جس میں آخری کالم میں نیچے سے نویں (9)سطر میں حضرت عثمان ؓکے زیر استعمال رہنے والے قرآن کریم کے ایک نسخے کے حوالے سے لکھا کہ’’اسی قسم کا ایک نسخہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی موجود ہے۔‘‘
خاکسار اپنی مرحومہ اہلیہ کے ہم راہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے 2004ء میں عازم سفر رہا۔اس سفر میں ہمیں ایک دن اور ایک رات استنبول میںرکنا پڑا اور مختلف مقامات کی زیارت کی توفیق بھی ملی۔ ہم نے نیلی مسجد بھی دیکھی۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر دعا کی توفیق بھی ملی اور مسجد میں دو نفل بھی ادا کیے۔اسی طرح ہم وہاں کے میوزیم کو دیکھنے بھی گئے کیونکہ مجھے پتہ چلا تھا کہ اس میں ایک ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن کریم جو غالباً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لکھا گیا تھا۔ وہ بھی رکھا ہوا ہے۔لیکن جب ہم میوزیم میں داخل ہوئے تو ہمیں بتایا گیا کہ چند دن پہلے وہ قرآن حفاظت کی خاطر وہاں سے اٹھا کر وزارت داخلہ نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اگر اس کو دیکھنا ہو تو اس وزارت کو تحریری درخواست دینی ہو گی اور ان کے جواب میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ہم مایوس ہو گئے کیونکہ ہمیں تو اسی شام عمرہ کی خاطر جدہ کے لیے فلائٹ لینی تھی۔
قصہ مختصر یہ کہ جناب جاوید چودھری صاحب نے 2004ءکے بعد یہ کیسے جان لیا کہ حضرت عثمانؓ کے دور سے منسوب قرآن پاک کا نسخہ وہاں موجود تھا۔واللّٰہ اعلم۔
٭…٭…٭