متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حق کے طالبوں کے لیے چھ طریق فیصلہ کا عام اعلان

(ابن قدسی)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مامور من اللہ ہونے کی حیثیت سے اپنا پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔آپ علیہ السلام کا دعویٰ دو باتوں پر مبنی تھا جیسا کہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’تم سن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو باتوں پر مبنی تھا۔ اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر دوسرے الہامات الہٰیہ پر۔

سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کے کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے۔ اب میرے بناء دعویٰ کا دوسرا شق باقی رہا۔ سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار رد نہیں کرسکتا کہ اب اس دوسری بناء کی تصفیہ کے لئے مجھ سے مباہلہ کر لو۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 65)

حضرت سلطان القلم علیہ السلام نے اپنے دعویٰ کو عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے مختلف کتب میں دلائل بیان فرمائے۔ فرمایا کہ

’’منقولی بحث مباحثہ کی کتابیں جو میری طرف سے چھپی ہیں جن میں ثابت کیا گیا ہے جو درحقیقت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور دوبارہ آنا ان کا بطور بروز مراد ہے نہ بطور حقیقت وہ یہ ہیں۔ فتح اسلام۔ توضیح مرام۔ ازالہ اوہام۔ اتمام الحجۃ۔ تحفہ بغداد۔ حمامۃ البشریٰ۔ نور الحق دو۲ حصے۔ کرامات الصادقین۔ سر الخلافہ۔ آئینہ کمالات اسلام۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 48حاشیہ)

روحانی روشنی سے ناآشنا علماء نے قرآن وحدیث کے دلائل کو قبول نہ کیا اور حضرت سلطان القلم علیہ السلام کی مخالفت پر کمر بستہ رہے۔ ہرطریق سے دلائل پہنچائے گئے لیکن نور ہدایت نصیب نہ ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ کا حق ادا کرتے ہوئے علماء کو مخاطب کیا اور اپنی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘میں اس وقت کے مسلمان علماء،مشائخ اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کی دعوت دی۔ فرمایا:

’’اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینو!! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اور اگرچہ یہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فئہ قلیلہ ہے اور شائد اس وقت تک چار ہزار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی تاہم یقینا ًسمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے خدا اس کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔ وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے۔ اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا۔ کیا تم نے کچھ کم زور لگایا۔ پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام و نشان باقی نہ رہتا۔

اسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 64)

اس کے بعدیہ درخواست مباہلہ بذریعہ رجسٹری اس وقت کے مشہور 83علماء ومشائخ اور 48سجادہ نشینوں کے نام ارسال کی گئی۔ اس دعوت مباہلہ کے ساتھ 209صفحات پر مشتمل فصیح وبلیغ عربی وفارسی مکتوب بھی تحریر فرمایا۔ جس میں 258اشعارپر مشتمل منظوم کلام بھی شامل تھا۔

مباہلہ میں شرط کے طور پر آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ

’’میرے مباہلہ میں یہ شرط ہے کہ اشخاص مندرجہ ذیل میں سے کم سے کم دس آدمی حاضر ہوں اس سے کم نہ ہوں اور جس قدر زیادہ ہوں میری خوشی اور مراد ہے کیونکہ بہتوں پر عذب الٰہی کا محیط ہوجانا ایک ایسا کھلا کھلا نشان ہے جو کسی پر مشتبہ نہیں رہ سکتا۔

گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہواور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 67)

متلاشیان حق کے لیے ایک بہت بڑا موقع تھا کہ اگر وہ عقلی اور نقلی دلائل سے مطمئن نہیں،قرآن وحدیث سے ان کی تشفی نہیں ہوئی تو وہ مباہلہ کرکے اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کروا لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف ایک مباہلہ کا طریق بیان نہیں فرمایا بلکہ اسی کتاب ’’انجام آتھم ‘‘میں کئی اور ذرائع بھی بیان فرمائے جس سے آپ علیہ السلام کی سچائی کو پرکھا جاسکتا تھا۔

اگر کسی کے دل میں ذرہ برابر بھی حق کی جستجو ہوتی یا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو (نعوذ باللہ )جھوٹا قرار دے کر اسلام کے لیے خطرہ سمجھتا اور آپ علیہ السلام کی مخالفت کو اسلام کی خدمت خیال کرتا تو اسے چاہیے تھا وہ میدان میں آتا اور اس دعوت کو قبول کرتا۔ آپ علیہ السلام نے تو دعوت حق کو اپنے کمال تک پہنچایا اور نام نہاد علماء کے لیے کوئی جائے فرار نہیں چھوڑی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام صدائے عام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ماسوا اس کے میں دوبارہ حق کے طالبوں کے لئے عام اعلان دیتا ہوں کہ اگر وہ اب بھی نہیں سمجھے تو نئے سرے اپنی تسلی کرلیں۔ اور یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ سے چھ6 طور کے نشان میرے ساتھ ہیں۔

اول۔ اگر کوئی مولوی عربی کی بلاغت فصاحت میں میری کتاب کا مقابلہ کرنا چاہے گا تو وہ ذلیل ہوگا۔ میں ہر ایک متکبر کو اختیار دیتا ہوں کہ اسی عربی مکتوب کے مقابل پر طبع آزمائی کرے۔ اگر وہ اس عربی کے مکتوب کے مقابل پر کوئی رسالہ بالتزام مقدار نظم و نثر بناسکے اور ایک مادری زبان والا جو عربی ہو قسم کھا کر اس کی تصدیق کرسکے تو میں کاذب ہوں۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 304)

عالم فاضل ہونے کا دعویٰ کرنے والے مولوی حضرات کے لیے بظاہر یہ امر بہت آسان تھا کہ انہوں نے صرف دو سو صفحات پر مشتمل ایک عربی مکتوب کا عربی میں جواب لکھنا تھا جس میں تقریباً اڑھائی سو اشعار تھے۔ اس وقت کے علماء حضرات یہ کام کر لیتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا (نعوذ باللہ )کاذب ہونا ثابت کردیتے تو آج کل کے نام نہاد علماء پر بہت بڑا احسان ہوجاتا۔ ان کے لیے ایک واضح ثبوت مہیا ہوجاتا ہے۔ بظاہر اتنا مشکل کام نہیں تھا لیکن وہ بڑے بڑے علماء اس کام سے عاجز رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھی اور اس بات کو آپ علیہ السلام نے بطور نشان پیش کیا۔ اس وقت کے مخاطبین علماء کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس عربی مکتوب کا جواب لکھتے لیکن انہوں نے اس کا جواب نہ لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشان کی توثیق کر دی۔ اس لیے موجودہ زمانے کے علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کرنے کی بجائے اپنے ان بڑے بڑے علماء کو قصور وار ٹھہرائیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو عربی مکتوب کے جواب لکھنے سے عاجزی ظاہر کرنے کی صورت میں دوسری صورت نشان کے طور پر یوں بیان فرمائی کہ

’’دوم۔ اور اگر یہ نشان منظور نہ ہو تو میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں یعنی روبرو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے۔ اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیرمَیں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے۔ پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 304)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عربی مکتوب میں اپنے دعویٰ کے دلائل بیان فرمائے تھے۔ ان دلائل کا جواب دیے بغیر مکتوب کا جواب لکھنا کسی پر بوجھل ہوسکتا تھا تو آپ علیہ السلام نے دوسری صورت بیان فرمائی کہ قرآن کی محبت کا دعویٰ تمام علماء کرتے ہیں۔ اس کی تفسیر بیان کرنا تو ہر ایک کے لیے اعزاز کی بات ہوگی اس لیے تفسیر نویسی کا مقابلہ کرکے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیں۔ اگردوسرے کے دلائل توڑنا مشکل امر ہے تو قرآن کی تفسیر ایک عالم کے لیے تو بہت آسان کام ہے۔ تفسیر لکھنے سے ان کے اپنے علم کا اظہار ہوجاتا اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے جس مشکل کا سامنا آج کل کے علماء کر رہے ہیں وہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا اور آ پ علیہ السلام کا جھوٹ روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا لیکن آج کل کے علماء کے بڑے بزرگوں نے خاموشی اختیار کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

اگر کسی کو عربی تفسیر لکھنا بھی طاقت سے باہر نظر آرہا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے بھی آسان امر بیان فرمایا:

’’سوم۔ اور اگر یہ نشان بھی منظور نہ ہو تو ایک سال تک کوئی مولوی نامی مخالفوں میں سے میرے پاس رہے۔ مگر اس عرصہ میں انسان کی طاقت سے برتر کوئی نشان مجھ سے ظاہر نہ ہو تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں گا۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 304)

اب کسی مخالف مولوی کو علم ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں صرف ایک سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس رہنا تھا۔ نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہر کرنا تھا۔ اسلام کا درد رکھنے والے اور متلاشی حق کے لیے اس سے آسان راستہ اورکیا ہوسکتا تھا لیکن اگر کسی کو ایک سال تک رہنا مشکل نظر آرہا تھااور اپنے کسی اور اہم کام کو چھوڑنا نہیں چاہتا تو اس کے لیے ایک اور آسان صورت بیان فرمائی۔ فرمایا:

’’ چہارم۔ اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو ایک تجویز یہ ہے کہ بعض نامی مخالف اشتہار دے دیں کہ اس تاریخ کے بعد ایک سال تک اگر کوئی نشان ظاہر ہو تو ہم توبہ کریں گے اور مصدق ہوجائیں گے۔ پس اس اشتہار کے بعد اگر ایک سال تک مجھ سے کوئی نشان ظاہر نہ ہوا جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو خواہ پیشگوئی ہو یا اور تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ نمبر 304)

اب ایک سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس رہنے کی شرط سے آزاد کر دیا۔ نیک نیتی کے ساتھ سچ کی جستجو تھی تو صرف ایک اشتہار دینا اور مدت مقرر کرنی تھی اوربس۔ اور پھر انتظار کرنا تھا۔نشان ظاہر ہونے پر تصدیق اور توبہ کرنی تھی۔ انسانی طاقتوں سے بالا تر نشان ظاہر نہ ہونے کی صورت میں مخالفت اپنے انجام کو پہنچ جانی تھی۔ ان علماء ومشائخ اور سجادہ نشینوں کا یہ اقدام قیامت تک یاد رکھا جاتا۔ جس فتنہ کو فرو کرنے کے لیے موجودہ زمانے کے علماء ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اس کا اسی زمانے میں سد باب ہو جاتا۔ اُس زمانے کے مشہور ومعروف 83علماء ومشائخ اور 48سجادہ نشینوں کی طرف ہی موجودہ زمانے کے علماء اور سجادہ نشین اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ اگر ان کے بڑے بزرگ ہمت کرتے تو آج ان کو مخالفت کا بوجھ نہ اٹھانا پڑتا۔

پانچویں صورت یہ بیان فرمائی کہ

’’پنجم۔ اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو شیخ محمد حسین بطالوی اور دوسرے نامی مخالف مجھ سے مباہلہ کرلیں۔ پس اگرمباہلہ کے بعد میری بددعا کے اثر سے ایک بھی خالی رہا تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں ‘‘

(انجام آتھم،روحانی خزائن جلد 11صفحہ 304تا305)

پھر فرمایا کہ

’’یہ طریق فیصلہ ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں۔ اور میں ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اب سچےدل سے ان طریقوں میں سے کسی طریق کو قبول کریں۔ یا تو میعاد دو ماہ میں جو مارچ1897ءکی دس10تاریخ تک مقرر کرتا ہوں۔ اس عربی رسالہ کا ایسا ہی فصیح بلیغ جواب چھاپ کر شائع کریں یابالمقابل ایک جگہ بیٹھ کر زبان عربی میں میرے مقابل میں سات آیت قرآنی کی تفسیر لکھیں اور یا ایک سال تک میرے پاس نشان دیکھنے کے لئے رہیں اور یا اشتہار شائع کرکے اپنے ہی گھر میں میرے نشان کی ایک برس تک انتظار کریں۔ اور یا مباہلہ کرلیں۔ ‘‘

(انجام آتھم،روحانی خزائن جلد 11صفحہ 306تا311)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی قسم دے کر کسی ایک طریق فیصلہ کو اپنانے کی طرف بلایاتھا۔ اگر ان مخالف علماء اور سجادہ نشینوں کے دل میں حق کی طلب اور جستجو ہوتی تو لازماً کسی ایک طریق کو اپنا کر حق وباطل میں فرق عیاں کر دیتے۔ موجودہ زمانے کے علماء اس زمانے کے اکثر علماء کی علمیت اور تقویٰ کے گن گاتے ہیں۔ اگر وہ علماء حقیقت میں تقویٰ شعار ہوتے اور اسلام کا درد رکھتے تو انہیں چاہیے تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اعلان عام کا جواب دیتے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ علمی میدان میں عقلی اورنقلی دلائل کا جواب دینے سے عاجز رہے پھر ان مذکورہ بالا طریق ہائے فیصلہ میں کسی ایک طریق کا انتخاب نہ کرکے عملاًاپنی شکست کا اعتراف کر رہے تھے۔

اب موجودہ زمانے کے نام نہاد علماء اس زمانے کے علماء اور سجادہ نشینوں سے زیادہ علم اور اسلام کا درد رکھتے ہیں جو اس طرح احمدیت کی مخالفت پر آمادہ ہیں۔ اگر انہوں نے شکوہ کرنا ہے تو ان علماء اور سجادہ نشینوں سے کریں جنہوں نے اس وقت خاموشی اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی ثابت کر دی۔

ان علماء اور سجادہ نشینوں میں سے بعض نے مخالفت برائے مخالفت کی روش کو قائم رکھا۔ اگر وہ کچھ عرصہ کے لیے اس مخالفت کو ہی ترک کر دیتےتو پھر بھی ان سب سے آسان طریق فیصلہ سے حق وباطل ظاہر وباہر ہوجاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےایک چھٹا طریق فیصلہ کچھ اس طرح بیان فرمایا:

’’ششم ۔اور اگران باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات 7سال تک اس طور سے صلح کرلیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سےمُنہ بند رکھیں۔ اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں اور قہرالٰہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں مسلمانوں کی عادت کے طور پر پیش آویں۔ ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں۔ پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کےہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہوجائے۔ اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہوجائے اور دنیااوررنگ نہ پکڑ جائےتو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذب خیال کرلوں گا اور خدا جانتا ہے کہ میں ہرگز کاذب نہیں۔ یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں۔ اور اس قدر انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہوجانا انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں۔ پس جبکہ میں سچے دل سے اور خداتعالیٰ کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں تو اب تم خدا سے ڈرو۔ اگر میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا۔ ‘‘

(انجام آتھم،روحانی خزائن جلد 11صفحہ 311تا319)

کس قدر یقین اور انصاف پر مبنی طریق فیصلہ ہے۔ اگر کسی کے دل میں اسلام کی سچی محبت ہوتی تو وہ لازماً اس طریق فیصلہ پر عمل درآمد کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اپنا ہر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر رہے تھے۔ اگر اس وقت کے علماء صرف آپ کی مخالفت ترک کردیتے تو سات سالوں میں اسلام کا بول بالا ہوجانا تھا۔ ہر طرف سے لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہوجانے تھے اوراسلام کے بالمقابل دیگر جھوٹے ادیان کا جھوٹ بھی واضح ہو جانا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو جس مقصد کےلیے علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کر رہے تھے اور آپ علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے دن رات ایک کر رہے تھے وہ مقصدتو ویسے ہی سات سال کے بعدحاصل ہوجانا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اعلان فرما رہے تھے کہ اگر سات سالوں میں اسلام کا بول بالا نہ ہوا ’’تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذب خیال کرلوں گا ‘‘

انصاف کی نظر سے دیکھا جائے توعلماء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے تھے۔ صرف سات سالوں میں سب کچھ واضح ہوجاتا لیکن اس وقت کے مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگاکر خود اس سلسلہ کو ختم اور تباہ کرنے کی کوشش کی اوروہ تباہ نہ کر سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات سچ ثابت ہوئی کہ

’’ اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا۔ ‘‘

موجودہ زمانے کے علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بالمقابل آنے والے علماء سے اپنے آپ کو بڑا خیال کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے مامور کے قائم کردہ اس سلسلہ کی مخالفت کر رہے ہیں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہی جواب ہے کہ’’خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا۔ ‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button