مغربی ممالک اور اخبارات کا دوہرا معیار
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (الاحزاب:57)
گزشتہ جو مضمون چل رہے ہیں یعنی گزشتہ کئی ہفتے سے جو واقعات ہو رہے ہیں، آزادی صحافت اور آزادئ ضمیر کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ظالمانہ رویہ اختیار کرنے پر مغرب کے بعض اخباروں اور ملکوں نے جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، آج بھی مختصراً اس کے بارے میں کچھ کہوں گا۔ اور اس کے ردّ عمل میں بعض اخباروں اور ملکوں کے خلاف مسلمان ممالک میں جو ہوا چل رہی ہے اس بارے میں مَیں کہنا چاہتا ہوں۔ یہ انفرادی طور پر بھی ہیں، اجتماعی طور پر بھی ہیں، حکومتی سطح پر بھی احتجاج ہو رہے ہیں بلکہ اسلامی ممالک کی آرگنائزیشن( او آئی سی) نے بھی کہا ہے کہ مغربی ممالک پر دبائو ڈالا جائے گاکہ معذرت بھی کریں اور ایسا قانون بھی پاس کریں کہ آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ ضمیر کے نام پر انبیاء تک نہ پہنچیں، کیونکہ اگر اس سے باز نہ آئے تو پھر دنیا کے امن کی کوئی ضمانت نہیں۔ ان ملکوں کا یا آرگنائزیشن کا یہ بڑا اچھا ردّ عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اسلامی ممالک میں اتنی مضبوطی پیدا کر دے اور ان کو توفیق دے کہ یہ حقیقت میں دلی درد کے ساتھ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ایسے فیصلے کروانے کے قابل ہو سکیں۔
گزشتہ دنوں ایران کے ایک اخبار نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس حرکت کا بدلہ لینے کے لئے اپنے اخبار میں مقابلے کروائے گا جس میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا اس سلوک کے حوالے سے، ان کے کارٹون بنانے کا مقابلہ ہو گا۔ گو یہ اسلامی ردّعمل نہیں ہے، یہ طریق اسلامی نہیں ہے لیکن مغربی ممالک جو آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اور ہر قسم کی بیہودگی کو اخبار میں چھاپنے کو آزادئ صحافت کا نام دیتے ہیں ان کو اس پر برا نہیں منانا چاہئے، جو منایا گیا۔ یا تو برا نہ مناتے یا پھر یہ جواب دیتے کہ جس غلطی سے دنیا میں فساد پیدا ہو گیا ہے ہمیں چاہئے کہ اب کسی مذہب یا اس کے بانی اور نبی یا کسی قوم کے بارے میں ایسی سوچ کو ختم کرکے پیار اور محبت کی فضا پیدا کریں۔ لیکن ا س طرح کے جواب کی بجائے ڈنمارک کے اس اخبار کے ایڈیٹرنے جس میں یہ کارٹون شائع ہونے پر دنیا میں سارا فساد شروع ہوا ہے، اس نے ایران کے اس اعلان پر یہ کہا ہے کہ وہاں جو اخبار میں کارٹون بنانے کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا گیا ہے یعنی جنگ عظیم دوم میں یہودیوں سے متعلقہ جو بھی کارٹون بننے تھے وہ ایک قوم پر ظلم ہونے یانہ ہونے کے بارے میں کارٹون بننے تھے۔ کسی نبی کی ہتک یا توہین کے بارے میں نہیں بننے تھے۔ تو بہرحال ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہم اس میں قطعاًحصہ نہیں لیں گے۔ اور اپنے قارئین کی تسلی کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے قاری تسلی رکھیں کہ ہمارے اخلاقی معیار ابھی تک قائم ہیں۔ ہم ایسے نہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کے یاہالو کاسٹ کے کارٹون شائع کریں۔ اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی بھی حالت میں ایرانی اخبار اور میڈیا کے اس بدذوق قسم کے مقابلے میں حصہ لیں۔ تو یہ ہیں ان کے معیار، جو اپنے لئے اور ہیں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے اور ہیں۔ بہرحال یہ اُن کے کام ہیں، کئے جائیں۔
اب دیکھیں کہ معیاروں کا یہ حال۔ پچھلے دنوں یہاں کے ایک مصنف نے 17سال پہلے ایک واقعہ لکھا تھا بات لکھی تھی، آسٹریا میں گیا اور وہاں جاکر اس پر مقدمہ ہو گیا تین سال کی قید ہو گئی۔ تو بہرحال یہ تو ان کے طریقے ہیں۔ اپنے لئے برداشت نہیں کرتے لیکن ہمیں بھی دیکھنا چاہئے کہ ہماری اپنی حالت کیا ہے؟ یہ جرأتیں جو انہیں یعنی مغربی دنیا میں پیدا ہو رہی ہیں ہماری اپنی حالت کی وجہ سے تو نہیں ہو رہیں۔ جو صورت ہمیں نظر آتی ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ مغربی دنیا کو پتہ ہے کہ مسلمان ممالک ان کے زیرنگیں ہیں ان کے پاس ہی آخر انہوں نے آنا ہے۔ آپس میں لڑتے ہیں تو ان لوگوں سے مدد لیتے ہیں۔ یہ جو پابندیاں یورپ کے بعض ملکوں کے سامان پر لگائی گئی ہیں اس کے خلاف احتجاج کے طور پر یہ بھی ان لوگوں کو پتہ ہے کہ چند دن تک معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور وہی چیزیں جو بازار سے اٹھا لی گئی ہیں، اس وقت مارکیٹ سے غائب ہیں وہی ان ملکوں میں دوبارہ مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ اب ان ملکوں میں جو مسلمان رہتے ہیں وہ بھی یہ چیزیں کھارہے ہیں، استعمال کر رہے ہیں۔ ڈنمارک میں ہی( ڈنمارک کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج ہے) تقریباً دو لاکھ مسلمان ہیں اور کافی بڑی اکثریت پاکستانی مسلمانوں کی ہے وہ بھی تو آخر وہ چیزیں استعمال کر رہے ہیں۔ تو بہرحال یہ عارضی رد عمل ہیں اور ختم ہو جائیں گے۔
مسلمانوں کی کس مپرسی کی انتہائی خوفناک حالت
اب دیکھیں ہماری حالت۔ یہ جو عراق میں تازہ واقعہ ہوا ہے کہ امام بارگاہ کا گنبد بم دھماکے سے اڑایا گیا ہے۔ تو نتیجۃًً سُنّیوں کی مسجدوں پہ بھی حملے ہوئے اور وہ بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ یہ کسی نے دیکھنے اور سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ تحقیق کر لیں کہ کہیں ہمیں لڑانے کے لئے دشمن کی شرارت ہی نہ ہو۔ کیونکہ یہ بم یہ اسلحہ جو سب کچھ لیا جا رہا ہے، یہ بھی تو انہی ملکوں سے لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اس طرح سوچ ہی نہیں سکتے۔ ایک تو عقل کے اندھے ہو جاتے ہیں، ان کو غصے اور فرقہ واریت میں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کرنا ہے۔ دوسرے بدقسمتی سے جو منافقت کرنے والے ہیں وہ بھی دشمن سے مل جاتے ہیں جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے اور ان کو سوچنے کی طرف آنے ہی نہیں دیتا۔ بہرحال یہ جو نئی صورتحال عراق میں پیدا ہوئی ہے یہ ملک کو سول وار(Civil War) کی طرف لے جا رہی ہے۔ آج کل تو تقریباً شروع ہے۔ اور اب وہاں پہ لیڈروں کو بڑی مشکل پیش آ رہی ہے کہ یہ صورتحال اب سنبھالی نہیں جائے گی۔ مسلمان سے مسلمان کے لڑنے کی یہ صورتحال افغانستان میں بھی ہے پاکستان میں بھی ہے، ہر فرقہ دوسرے فرقے کے بارے میں پُرتشدد فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، مذہب کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا (النساء:94)
یعنی جوشخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہو گی اور وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ اس سے ناراض ہو گا اور اس کو اپنی جناب سے دور کر دے گا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا۔
(باقی آئندہ)