الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(مرتبہ : محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

دل کا حلیم۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ

مجلس انصاراللہ کے جریدہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری و فروری 2019ءمیں حضرت مصلح موعودؓ کی شفیق اور ہمدردانہ طبیعت کے حوالہ سے مکرم راجہ برہان احمد طالع صاحب نے متعدّد ایمان افروز واقعات بیان کئے ہیں۔

٭ صاحبزادی امۃ الرشید بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ حضورؓ باوجود بے حد عدیم الفرصت ہونے کے اور باوجود اس کے کہ آپ کی اولاد خدا کے فضل سے بہت زیادہ ہے سب کی تربیت اور تعلیم کا خیال رکھتے۔ آپ نہایت ہی شفیق اور رحیم واقع ہوئے ہیں۔ بچوں کو سبق آموز کہانیوں اور لطائف سے محظوظ کرتے ہوئے ان کی تربیت فرماتے ہیں ۔ خود خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو خوش رکھتے ہیں لیکن خوشی کی گھڑیوں میں بھی حقیقی مقصد کبھی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتا۔ شادی کے موقع پر میری بڑی بہن امۃالقیوم صاحبہ کو قرآن کریم پر تحر یر فرمایا :’’ امۃ القیوم ! یہ خدا کا کلام ہے ۔ میں نے سب کچھ ا س سے پایا، تم بھی سب کچھ اس سے ہی پاؤ۔میرے اللہ ! تیرا یہ کلام میری اس بچی اور اس کی اولا د کے دل میں دائمی طور پر جاگزیں ہو…‘‘۔

٭ حضرت مصلح موعود ؓ کا دستور تھا کہ اپنے خدام کو مخاطب کرتے وقت ’صاحب ‘ کا لفظ ضرور استعمال فرماتے۔ اور ایک ادارہ کے افسر کو اس طور پر ہدایت دی کہ اپنے ماتحت کارکنوں کے نام کے ساتھ ’’ صاحب‘‘ کا اعزازی لفظ ضرور استعمال کیا کریں ۔ فرمایا: دیکھیں میں نے آ پ کا نام تین چار دفعہ لکھا ہے یا پکارا ہے ۔ میرا بھلا کتنا وقت زیادہ لگ گیا ہوگا اور مجھے بھلا کتنی دقّت ہوئی ہوگی؟ کچھ بھی نہیں ۔

٭ مکرم لطیف احمد خان صاحب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری بیان کرتے ہیں کہ 1942ء میں حضور پالم پور تشریف لے گئے ۔ وہاں سے ایک دن حضور کا ٹرپ کا پروگرام بنا ۔ چونکہ کاروں میں جگہ کم تھی اس لئے حضور نے مجھے اور مرزا فتح الدین صاحب کو فرمایا کہ آپ بس پر آجائیں ہم وہاں انتظار کریں گے ۔ پہلے تو ہمارا ارادہ نہ جانے کا ہوا کیونکہ بس کی آمد کی امید نہ تھی ۔ مگر پھر ہم حضور کے اس ارشاد پر کہ کھانے پر انتظار کریں گے، پیدل چل پڑے ۔ ڈیڑھ بجے ڈاک بنگلہ میں پہنچے تو حضور کھانا تناول فرمارہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر مسکرا کر فرمایا کہ انتظار کرکے کھانا شروع کیا ہے ۔ اتنی دیر کیوں ہوگئی؟ ہم نے عرض کیا کہ بس نہیں آئی ہم پیدل آئے ہیں۔ چنانچہ اسی وقت حضورؓ نے پیالوں میں کھانا ڈال کر اپنے ہاتھ سے ہمیں دیا۔

اسی طرح 1941ء میں حضورؓ ڈلہوزی میں تھے جہاں سے سیر کے لئے کسی اونچی جگہ پر تشریف لے گئے۔ وہاں چائے کا بھی پروگرام تھا مگر بارش شروع ہوگئی ۔ ہم دو تین کارکن آگ جلانے میں مصروف تھے مگر لکڑیوں کے گیلا ہونے کی وجہ سے بڑی دقّت تھی کہ اتنے میں حضور خود دو چا ر سوکھی لکڑیا ں پکڑے تشریف لائے اور ہمارے سروں پر چھتری کرکے کھڑے ہوگئے۔ ہم نے آگ جلائی اور جب تک پانی اُبل نہیں گیا حضور چھتری لئے دُھوئیں میں کھڑے رہے ۔

٭ ایک بار حضورؓ کے کمرہ میں خاندا ن کے کسی فرد کی خواہش پر قالین بچھوایا گیا ۔ اتفاق سے ایک دن کوئی دیہاتی خاتون حضورؓ کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں جن کے گرد آلود پاؤں سے قالین پر نشان پڑ گئے ۔ حضورؓ نے محسوس فرمایا کہ آپ کے اس عزیز کے چہرہ پر کچھ ناپسندیدگی کے آثار ہیں۔ اُس خاتون کے جانے کے بعد حضورؓ نے وہ قالین اسی وقت یہ کہتے ہوئے اُٹھوادیا کہ مَیں اسے اپنے اور اپنی جماعت کے درمیان حائل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

٭ حضرت مصلح موعود ؓ نے ساری زندگی دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھا اور اپنے آرام کوترک کرکے دوسروں کی تکلیف کو دُور کرنے کی سعی کی ۔ حضرت مہر آپا صاحبہ نے بیان کیا کہ ایک گرم اور حبس والی رات گیارہ بجے دروازہ کھٹکا، ان دنوں بجلی ابھی ربوہ میں نہیں آئی تھی ۔ حضور لالٹین کی روشنی میں صحن میں لیٹے ہوئے کتاب پڑھ رہے تھے ۔ حضورؓ نے مجھے کہا کہ دیکھو کون ہے ؟ مَیں نے دریافت کیا اور آکر بتایا کہ ایک عورت ہے، وہ کہتی ہے کہ میرے خاوند کو حضور نے دوائی دی تھی اس سے بہت افاقہ ہوگیا تھا ، مگر اب طبیعت پھر خراب ہوگئی ہے ، دوا ئی لینے آئی ہوں۔ آپؓ نے فرمایا:’’کمرہ میں جاؤ فلاں الماری کے فلاں خانے سے فلاں دوائی نکال لاؤ ‘‘۔ گرمی مجھے بہت محسوس ہوتی ہے اور یہ موسم میرے لئے ہمیشہ ناقابلِ برداشت رہا ہے ۔ اپنی اس کمزوری کی بِنا پر مَیں کہہ بیٹھی: ’’ یہ کوئی وقت ہے، مَیں اُسے کہتی ہوں کہ صبح آجائے۔ اندر جاکر تو حبس سے میرا سانس نکل جائے گا‘‘۔ اس پر حضورؓ نے بڑے جلال سے فرمایا !’’ تم اس اعزاز کو جو خدا نے مجھے دیا ہے چھیننا چاہتی ہو! ایک غرض مند میرے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آتاہے، یہ خدا کی دی ہوئی عزت ہے کہ مجھے خدمت کاموقع ملتا ہے، اِسے مَیں ضائع کردوں تو قیامت کے دن خدا کو کیا شکل دکھاؤں گا، مَیں خود جاتاہوں ‘‘۔ مَیں نے کہا:’’آپ نہ جائیں، گرمی بہت ہے، مَیں چلی جاتی ہوں ‘‘۔ حضورؓ نہ مانے اور خود اندر گئے اور دوائی لاکر اُسے دی اور ساتھ ہدایت کی صبح آکر اپنے خاوند کی خیریت کی خبر دے ۔

٭ محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کو جماعت سے بے پایاں محبت تھی ۔ جب بھی قادیان سے کوئی قافلہ پاکستان کے لئے روانہ ہوتا تو آپ قرآن شریف ہاتھ میں لئے برآمدہ میں اس وقت تک ٹہلتے ہوئے تلاوت فرماتے رہتے جب تک اس قافلہ کی حفاظت سے سرحد پار کرنے کی اطلاع نہ آجاتی ۔ ان مواقع پر آپؓ مسلسل دعا کرتے رہتے ۔اسی طرح جب بھی جماعت کسی ابتلا کے دَور سے گزر رہی ہوتی تو آپؓ بستر پر سونا ترک کرکے فرش پر سوتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمائش کے بادل چھٹنے کا اشارہ ملتا کہ چلو جاکر بستر پر آرام کرو ۔ ایک اور بات جس نے مجھ پر نقوش چھوڑے یہ کہ میری شادی کے تھوڑے عرصہ بعد ہی جب میں ملتان میں بطور اسسٹنٹ کمشنر متعین تھا تو حضور نے سند ھ جاتے ہوئے وہاں ایک روز قیام فرمایا ۔ آپ مجھے ڈرائنگ روم میں لے گئے اور فرمایا کہ دیکھو تم آئی سی ایس ہو اور تمہیں اعلیٰ طبقہ سے ملاقات کے بہت مواقع ملیں گے لیکن یہ بات تمہیں ہرگز غرباء اور کمزور لوگوں کی مدد کرنے سے کبھی باز نہ رکھے۔ آپ نے فرنیچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا فرنیچر جو غریبوں سے ملاقات میں روک بنے ، رکھنے کے قابل نہیں۔ جس طرح ہر غریب پر رسول ﷺ کے دروازے بلا امتیاز کُھلے رہتے تھے یہی وہ سنّت ہے جسے اپنانا چاہئے۔ اُس وقت آپؓ کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور آنکھیں پُرنم تھیں ۔ مَیں نے آپؓ کو کبھی اتنی جذباتی حالت میں نہیں دیکھا۔

٭ حضر ت منشی اروڑا خان صاحبؓ کی عیادت کے لئے ایک جمعہ کی نماز کے بعد حضورؓ ہسپتال تشریف لے گئے۔ آپؓ کی کوٹھڑی میں گئے نبض دیکھی، چمچے کے ذریعہ دودھ دیا، آنکھیں کُھلی تھیں، بخار زور کا تھا ہوش بجا نہ تھے ، سانس اُکھڑی ہوئی تھی ، حضورؓ عصر کے وقت تک کوئی ڈیڑھ گھنٹہ منشی صاحبؓ کے پاس اسی کوٹھڑی میں بیٹھے رہے ۔ ٭ مکرم مولوی عبد الرحمٰن انور صاحب (سابق پرائیویٹ سیکرٹری) کی اہلیہ نے بیان کیا کہ ربوہ میں ایک بار بہت بجلی بند ہوئی تو حضور نے انور صاحب کو سزا دی کہ ان کے گھر کی بجلی کاٹ دی جائے کیونکہ ان کی سستی ہے یہ بجلی کے صحیح ہونے کے لئے واپڈا سے مل کر کوشش نہیں کرتے۔ کہتی ہیں خیر ہمارے گھر کی بجلی کاٹ دی گئی ۔ مغرب کا وقت ہوگیا۔ ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا ۔ جاکر دیکھا تو ایک کارکن ہاتھ میں مٹی کے تیل کا کنستر اور لالٹین لئے کھڑا تھا کہ حضور ؓنے فرمایا ہے کہ وہ اندھیرے میں بیٹھے ہوں گے، یہ چیزیں ان کے گھر پہنچاؤ۔ اسی طرح کوئٹہ میں کسی کارکن سے ناراض ہو کر سزا دی کہ تین دن مسجد میں بیٹھ کر استغفار کرے ۔ بعد میں خیال آیا بیچارہ اکیلا بیٹھا کیا کرے گا ساتھ ہی کچھ کتابیں بھی پڑھنے کو بھیج دیں اور کھانا وغیرہ بھی گھر سے جاتا رہا۔ تو کسی نے یونہی نہیں کہا تھا کہ حضور جب سزا دیتے ہیں تو بڑا مزہ آتاہے۔

٭ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ میرے پیارے بڑے بھائی حضرت خلیفۃ المسیح کی صفات میں ایک نہایت پیاری صفت نمایاں دیکھی کہ آپ کا دل بہت ہی صاف ہے۔ اتنا صاف دل کہ غصہ ، کینہ جس میں ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ کسی کی برائی آپ سوچ ہی نہیں سکتے۔ ہمیشہ دوسروں کے لئے خیر کے الفاظ ہی آپ کی زبان مبارک سے نکلے اور خیر ہی ہر ایک کی آپ نے چاہی ۔ دل کے حلیم آپ سچے معنوں میں ہیں ۔ بہت تنگ آکر یا کاموں کے سلسلہ میں آپ کو غصہ کے بعد جس پر غصہ کیا گیا اُس سے زیادہ آپ کو تکلیف ہوتی رہی ہے اور کسی نہ کسی طرح اس کے تدارک میں کوشاں رہے ۔ کسی صورت میں جب تک نرمی کا اظہار نہ ہوجائے آپ کو خود چین نہ آتاتھا … جیسے ماں تنگ آکر اپنے پیارے بچے کو مار کر خود آنسو بہاتی ہے … نرمی اور رحم و شفقت آپ میں اعلیٰ درجہ کا ہمیشہ پایا ۔ ایک بار اخبار میں خبر آئی کہ ایک تین سالہ بچی نے اپنے غریب باپ کی جمع پونجی سے دو تین سو کے نوٹ چولہے میں پھینک دیے اور باپ نے فوری غیظ و غضب کے تحت اس معصوم کی ٹانگیں چیر کر مار ڈالا ۔ اس خبر کو پڑھ کر جو آپ کی حالت ہوئی تھی سخت صدمہ تھا۔ ٹہلتے تھے اور کہتے تھے کہ’’ غربت کی وجہ سے جو باپ جوش میں ایسا فعل کر بیٹھا اب خود اس کے دل کی کیا حالت ہوگی ۔ جب تک زندہ رہا اس بچی کی موت اور اپنے ظالمانہ سلوک کو یاد کرکے تڑپتا ہی رہے گا۔ جو تکلیف اس وقت آپ کو تھی اور آپ کا کرب وہ مجھے ہمیشہ یاد آتاہے ‘‘۔

٭ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا : ’’جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا ، جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے ، جب سخت دل سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتاہوگا ماضی پر نگاہ ڈالے گا ،جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناًمحسوس کر ے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا ۔ حملہ پر حملہ کیا گیالیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا … یہ بہترین بدلہ ہوگا جو آنے والا زمانہ اور آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابلِ قدر انعام ہوگا جو اس صورت میں مجھے ملے گا‘‘۔ (انوار العلوم جلد 10صفحہ 323)

خود حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا

اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام

لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

٭…٭…٭

جلسہ سالانہ 1960ء کی ایک یادداشت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5نومبر 2012ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے ایک تاریخی مضمون شامل اشاعت ہے جو جماعت احمدیہ کے 68ویں جلسہ سالانہ کے حوالہ سے لکھا گیا ہے۔ یہ جلسہ سالانہ (جو کہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں 28,27,26 دسمبر 1959ء کو منعقد ہونا تھا لیکن) ملکی حالات کے پیش نظر 24,23,22 جنوری 1960ء کو منعقد ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تینوں دن خطاب فرمانا تھا لیکن پہلے روز افتتاحی تقریر، پیہم ملاقاتوں اور دیگر مصروفیات کے باعث حضورؓ کو ضعف کی شکایت ہو گئی۔ ڈاکٹری مشورہ کے تحت حضورؓ دوسرے روز 23 جنوری 1960 ء کو جلسہ میں تقریر کے لئے تشریف نہ لاسکے۔ احباب جماعت کو اس طرح شدید اشتیاق کے باوجود حضورؓ کے روح پرور کلمات سننے کی سعادت سے محروم رہنا پڑا۔

خلافت ثانیہ میں یہ پہلا موقع تھا کہ حضور جلسہ سالانہ کے دوسرے روز احباب سے خطاب نہ فرماسکے۔ ہر شخص نے حضور کی اس دن کی تشریف آوری نہ ہونے کو بہت محسوس کیا۔ مکرم ثاقب زیروی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی صحتیابی کے لئے دردمندانہ دعا پر مشتمل اپنی ایک نظم نہایت خوش الحانی سے پُرسوز انداز میں پڑھ کر سنائی جس سے حاضرین پر رقّت کا عالم طاری ہو گیا۔ اس نظم کے دوران سب احباب آبدیدہ ہو کر حضورؓ کی صحتیابی کے لئے متضرّعانہ دعائیں کرتے رہے۔ نظم کے چند اشعار یہ ہیں:

چشم میگوں میں یہ دلدوز سی حسرت کیا ہے

روئے روشن پہ پریشان سی نکہت کیا ہے

شمع افسردہ ہو پروانوں کی حالت معلوم؟

جانے اس کرب میں مالک کی مشیت کیا ہے

تیری دہلیز پہ جھک جھک کے دعائیں مانگوں

اس سے بڑھ کر مجھے طاقت، مجھے قدرت کیا ہے

ساری دنیا کے مریضوں کو شفا دے یا ربّ

آج معلوم ہوا ہے کہ علالت کیا ہے

اجلاس کا آخری خطاب صدر اجلاس محترم شیخ بشیر احمد صاحب جج ہائی کورٹ لاہور کا تھا۔ آپ نے احباب جماعت سے پُردرد لہجے میں ایک نہایت ہی اہم فرض کی طرف توجہ دلائی۔ آپ کی آواز میں اس قدر سوز اور اثر سمویا ہوا تھا کہ ایک ایک فقرہ احباب کے دلوں میں اترتا جاتا تھا۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے نئے مرکز ربوہ کے بنانے پر روشنی ڈالی اور وہ حالات بیان کئے کہ کس طرح قادیان کا مرکز ہاتھ سے نکل جانے کے بعد حضورؓ بے چین تھے۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضورؓ جلسہ سالانہ کے انتظار میں گن گن کر دن گزار رہے تھے۔ جلسہ کی تاریخیں تبدیل کرنے کے لئے بھی آپ تیار نہ تھے بلکہ لوگوں سے جلدی ملنے کے لئے بیتاب تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اب وقت ہے کہ ہم سب مل کر درد و الحاح کے ساتھ اپنے مولیٰ کو پکاریں اور یہ دعا مانگیں کہ اے ارحم الراحمین! تُو ہمیں اُس دعا کی توفیق عطا کرجو خطا نہیں جاتی اور جسے تیری جناب سے قبولیت عطا ہوتی ہے۔ ہم اللہ سے راہنمائی اور مدد مانگیں اور اس یقین کے ساتھ اس کے دروازے پر گریں کہ خالی ہاتھ نہیںلوٹیں گے۔

محترم شیخ صاحب نے بتایا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے 52 سالہ دور خلافت میں بہت سی آزمائشیں آئیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دفعہ آپ کو ڈَٹ کر مقابلہ کرنے کی توفیق دی کیونکہ پیشگوئی مصلح موعود میں ہے کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا، دل کا حلیم، علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ ہمارے زمانہ میں ہی 1956ء میں اللہ رکھا والا فتنہ اٹھا۔ جماعت نے بے چینی کے عالم میں حضورؓ سے تجدید بیعت کی اورفتنہ پردازوں کی مذمت کی۔ آج ان لوگوں کا نام ونشان نہیں۔ مگر جو خلافت سے وابستہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک خلافت کا انعام پارہے ہیں۔

احمدیوں کی خلافت سے محبت اس قدر تھی کہ ہر شخص کو حضور کی ایک دن کی جلسہ میں عدم شرکت نے ہلا کر رکھ دیا۔ ثاقب صاحب نے اپنی نظم میں یہ شعر زور دے کر پڑھا۔ ؎

جو کبھی دیکھ چکی ہو تیری سطوت کا کمال

ان نگاہوں میں بھلا دنیوی شوکت کیا ہے

محترم شیخ صاحب کے خطاب کے بعد حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ نے 20 منٹ تک دعا کرائی۔ آپؓ کی اقتداء میں اس درد و کرب اور اضطراب میں دعا مانگی گئی کہ ربوہ کی سرزمین مضطرب روحوں کی آہ و زاری اور چیخ و پکار سے گونج اٹھی۔ ایک سیلاب تھا ہچکیوں اور سسکیوں کا جو ہزارہا سینوں سے بیک وقت اٹھ رہا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس وقت آسمان میں ایک تلاطم برپا ہے۔ ہر شخص کی وارفتگی اور اس کی حالت زار اپنے آسمانی آقا سے فریاد کر رہی تھی:

شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر

خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا

یہ عجیب نظارہ تھا جو چشم فلک نے دیکھا۔

اللہ تعالیٰ اُس پیارے وجود پر ہزاروں رحمتیں نازل کرے۔ جیسا کہ آپؓ نے اپنے کلام میں خود فرمایا ہے

؎ اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ

ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

٭…٭…٭

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ کے شمارہ فروری 2012ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

اے ابنِ مسیح تجھ پہ مری جان فِدا ہو
ہر دَور میں حامی ترا خود آپ خدا ہو
کچھ کہنے کو منہ کھولوں تو اِک عمر بسر ہو
تیرے لئے کچھ کہنے کا حق کیسے ادا ہو
چہرہ ترا جی بھر کے کبھی دیکھ نہ پائی
چہرے سے قریں جیسے حجابوں کی رِدا ہو
جب بھی تجھے دیکھا ہے مجھے ایسا لگا ہے
ہر رُوپ نیا رُوپ ہو ہر رُوپ جُدا ہو
مَیں جی سے گزر جاؤں تو شاید بنے کچھ بات
خدمت کی لگن دل میں ، کوئی درد سدا ہو
دل درد سے روتا ہے تری یاد کے ہاتھوں
یہ درد ٹھہر جائے کوئی ایسی دوا ہو

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ فروری 2012ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں کہی گئی محترم حسن رہتاسی صاحب مرحوم کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ محترم رہتاسی صاحب 10؍مارچ 1951ء کو وفات پاگئے تھے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

کل مجھ سے ایک لیڈرِ احرار نے کہا
آساں نہیں ہے فتح تو دُشوار بھی نہیں
پنجاب کے ہیں احمدی چھپّن ہزار کُل
اور لطف یہ کہ واقفِ پیکار بھی نہیں
سارے جہاں کی قوموں سے ہے ان کی چپقلش
ان منچلوں کا کوئی مددگار بھی نہیں
ناداں بگاڑ بیٹھے ہیں حکّامِ وقت سے
پہچانتے زمانے کی رفتار بھی نہیں
بات اُس کی سُن کے کہا مَیں نے بس خموش
تم کو تو کچھ سلیقۂ گفتار بھی نہیں
ناداں ہماری پشت پہ وہ بادشاہ ہے
یہ دنیا جس کے وار کی اِک مار بھی نہیں
محمودؔ کا کمالِ سیاست یہی تو ہے
لڑتا ہے اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button