ہے ارفع اُس کی شان اِس بیان سے
اُٹھی تھی وہ صدا جو قادیان سے
ندائے غیب تھی وہ آسمان سے
کہا، مثیل ہوں مسیح کا مگر
جڑا ہوں مصطفیٰ کے آشیان سے
دیں منکرینِ مہدی و مسیح کو
شہادتیں حدیث اور قُران سے
قلم میں اُس کے سحر تھا چھپا ہوا
تو بولتا خدا کی تھا زبان سے
صلیب اُس نے کسر کی تو دشمناں بھی
اعتراف کر اُٹھے لسان سے
جہاد بالقلم کا وہ امام تھا
قلم مگر تھا تیز تر سنان سے
بتائیے، عدو کدھر کہاں گئے
میں پوچھتا ہوں اب یہ کُل جہان سے
ہُوا کبھی نہ فائز المرام وہ
جدا ہوا جو مہدیٔ زمان سے
وہ جس کے تم دمشق سے ہو منتظر
ظہور کر چکا ہے قادیان سے
اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
ہے عرض اب مری یہ خفتگان سے
وہ آ چکا ہے کیا، خدا سے پوچھ لو
عجب ہے، پوچھتے ہو بندگان سے
جو ڈھونڈنے گیا، خدا ملا
اُسے امامِ وقت کے ہی آستان سے
خوشا نصیب، جن نے اُس کو جان کر
قبول کر لیا ہے قلب و جان سے
خدا کے فضل سے ہی اُس کو پاؤ گے
ملے نہ محض، معرفت گیان سے
میں کیا کروں بیاں جو اُس کی شان ہے
ہے ارفع اُس کی شان اِس بیان سے
میں اُس کے اِک غلام کا غلام ہوں
یہ سب سخن مرا اُسی کی دان سے