جو خد اکے واسطے کھوتا ہے اسے ہزار چند دیا جاتا ہے
جو شخص خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے (اس پر)خدا سے نور اترتا ہے۔ (وہ) اپنے فرشتوں کو اس کی خدمت کے واسطے مامور فرماتا ہے۔ جو اس کے واسطے کچھ کھوتا ہے اس کو اُس سے ہزار چند دیا جاتا ہے۔ دیکھو صحابہؓ میں سے سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا تھا اور کمبل پوش بن پھرا تھا۔ مگر جب خدا تعالیٰ نے اسے دیا تو کیا دیا۔ دیکھ لو کیسی مناسبت ہے کہ اس نے چونکہ سب صحابہؓ سے اول خرچ کیا تھا اسے سب سے پہلے خلافت کا تخت عطا کیا گیا۔ غرض خدا کوئی بخیل نہیں اور نہ اس کے فیض خاص خاص ہیں بلکہ ہر ایک جو صدق دل سے طا لب بنتا ہے۔ اسے عزت دی جاتی ہے۔ یہ ہمارے دشمن تو اللہ تعالیٰ سے جنگ کرتے ہیں ۔بھلا ان سے آسمانی باتیں اور تائیدات روکی جاسکتی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ پرنالہ کے پانی کو تو کوئی روک بھی سکتا ہے مگر جوآسمان سے موسلادھار بارش ہونے لگ جاوے۔ اس کو کون رو ک سکے گا۔ اور اس کے آگے کونسا بند لگادیں گے؟ ہماراتو سارا کا روبار ہی آسمانی ہے۔پھر بھلا کسی کی کیا مجال کہ اس میں کسی قسم کا حرج یا خلل واقع کرسکے۔
[حاشیہ:البدر میں بعض مزید باتوں کا ذکر ہے۔ وہاں لکھا ہے کہ حضور نے فرمایا:’’تجربہ ہے کہ جب ہندوؤں میں سے مسلمان ہوتے ہیں تو وہ متقی ہوتے ہیں جیسے مولوی عبید اللہ صاحب۔ سناتن دہرم والے زوائد کو چھوڑ کر وہ تمام باتیں مانتے ہیں۔ جن کے ہم قائل ہیں۔ خدا کو خالق مانتے ہیں۔ فرشتوں پر بھی ان کا ایمان ہے نیو گ کے سخت مخالف ہیں۔ جو لوگ اخلاص سے اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ کوئی شرط نہیں باندھتے جو شرطیں پیش کرکے اسلام لا نا چاہتا ہے وہ ضرور کھوٹ رکھتا ہے۔‘‘]
(ملفوظات جلد 5صفحہ 168تا169ایڈیشن 1984ء)