پیاری بیٹی محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ کے نام مکتوب (تحریر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں مگر ان کے دل باپ کی دھڑکن کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ اگر باپ کی پدری شفقت کی بات کریں تو ہمارے لیے ایک بہترین رول ماڈل اور مجسم محبت و شفقت کےروپ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات نظر آتی ہے جو اپنی بیٹیوں بلکہ تمام امت کی بیٹیوں کے لیے محبت اور شفقت کی بہترین مثال تھے۔ یہ بات قدرتی طور پہ باپ کے دل میں بھی ڈالی گئی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے دکھ اور تکلیف کو زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں اِلّا ماشاءاللہ ایسے باپ جو فطرتاً نرمی کا مادہ اپنے اندر نہ رکھتے ہوں۔اسی لیے روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’فاطمہ ؓمیرے جگر کاٹکڑا ہے جس نے انہیں تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی ۔‘‘
(روزنامہ الفضل 21ستمبر2010ء)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنے اسوہ حسنہ سے بہترین نمونے قائم کیے بلکہ اپنی امت کے تمام مردوں کو اس پدری شفقت کے اعلیٰ ترین نمونے قائم کرنے کی تلقین فرمائی۔اور تاریخ شاہد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پرعمل پیرا ہوکے اسی محبت اور پدری شفقت کا اظہار کرتے ہوئے آپؐ کے امتیوں نے بھی وہ نیک نمونے قائم فرمائے۔ ذیل میں آپ سب بہنوں ،بچیوں کے لیے اسی محبت اور شفقت کا غماز ایک مکتوب پیش کیا جارہا ہے جہاں نہ صرف باپ کی بے پایاں محبت کا اظہار نظر آتا ہے بلکہ اس کے دل میں پیدا ہونے والےجذبات کا بھی اظہار ہوتا ہے جو اپنے جگر کے ٹکڑے کو دوسروں کے سپرد کرتے ہوئے انسان کے دل میں قدرتی طور پہ پیدا ہوجاتے ہیں ۔اور اس پدری شفقت کا بھی اظہار ہے جو اپنی بیٹی کو خوش و خرم اور ہنستا بستا دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر بغور مطالعہ کریں تو یہ فقط بیٹی کے نام ایک مکتوب نہیں بلکہ نصائح کے رنگ میں خوشگوار اور پرسکون عائلی زندگی گزارنے کا وہ فارمولا ہے جس سے گھر نہ صرف پرسکون بلکہ جنت کا نمونہ بن سکتا ہے ۔اور میرے خیال میں اس مکتوب کا مخاطب صرف چھوٹی آپا (محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)ہی نہیں بلکہ ہر وہ نوجوان بچی ہے جو عائلی زندگی کا آغاز کرنے والی ہے یا اس نے ابھی عائلی زندگی کا آغاز کیا ہے ۔
حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے اپنی بیٹی کو شادی کے بعد گھر سے رخصت کرتے ہوئے بعض ہدایات اپنے قلم سے نوٹ بُک میں تحریر کر کے دیں جن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق الٰہی بشارتیں تحریر کرنے کے بعد تحریر فرمایا:
مریم صدیقہ !
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
……تم اپنی خوش قسمتی پر جتنا بھی ناز کرو کم ہے……
’’مریم صدیقہ جب تم پیدا ہوئیں تو میں نے تمہارا نام مریم اسی نیّت سے رکھا تھا کہ تم کو خدا تعالیٰ اور اس کے سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کروں ۔اس وجہ سے تمہارادوسرا نام نذرِ الٰہی بھی تھا ۔اب اس نکاح سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میرے بندہ نواز خدا نے میری درخواست اور نذر کو قبول کر لیا تھا ۔ اور تم کو ایسے خاوند کی زوجیت کا شرف بخشا جس کی زندگی اور اُس کا ہر شعبہ اور ہر لحظہ خدا تعالیٰ کی خدمت اور عبادت کے لئے وقف ہے ۔پس اس بات پر بھی شکر کرو کہ تم کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور میری نذر کو پورا کر دیا ۔فالحمدللہ ۔
اس کے بعد محترم میر صاحب نے خاوند کی اطاعت کے بارہ میں ارشادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درج کیا اور فرمایا:
’’سمجھنے کے لئے بڑی موٹی بات یہ ہے کہ جس گھر میں خاوند بیوی کا مطیع ہو جائے یا بیوی خاوند کی مطیع ہو جائے وہی گھر بہشت بن جاتا ہے اگر دونوں اپنے تئیں بادشاہ خیا ل کریں تو ایسا گھر جہنم سے بَد تر ہو جاتا ہے ۔ جب ایک سلطنت میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے تو ایک گھر میں کس طرح سما سکتے ہیں ۔پس عورت کو خاوند کے گھر جانے سے پہلے ہی سوچ لینا چاہیے کہ میں نے کامل اطاعت سے اپنے گھر اور آخرت کو جنت بناناہے ۔‘‘
’’میری پیاری مریم صدیقہ! تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری تین سوکنیں پہلے موجود ہیں ۔ وہ تمہاری شادی سے پہلے بھی تمہاری بھابھی جان تھیں اور تم ہم اور سب ان کی عزت اس لئے کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو حضرت خلیفۃ المسیح کی بیویاں بنایا تھا ۔ اب تم بھی اس جماعت میں داخل ہو گئی ہو ۔پس ہمیشہ ان کو اپنابزرگ اور عزیز اور بہنوں کی طرح خیال کرو ۔ بلکہ پہلے سے زیادہ ان کی عزت کرو ۔ جس طرح چھوٹی بہن اپنی بڑی بہن کی عزّت کرتی ہے ۔ اور ان کے بچوں کو ایسی ہی نظر سے دیکھو جس طرح ایک بہن دوسری بہن کے بچوں کو دیکھتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل اور ذرّیت ہیں ۔خدا تعالیٰ تم کو توفیق دے ۔
مریم صدیقہ ! تم اندازہ نہیں کر سکتیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح پر خدمت ِدین کا کتنا بوجھ ہے اور اس کے ساتھ کس قدر ذمہ داریاں اور تفکرات اور ہموم و غم وابستہ ہیں اور کس طرح وہ اکیلے تمام دنیا کے برسر کارزار ہیں ۔اور اسلام کی ترقی اور سلسلہ احمدیہ کی بہبودی کا خیال ان کی زندگی کا مرکزی نقطہ ہے ۔پس ایسے مبارک وجود کو اگر تم کبھی بھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی ان کی تکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت،خدمت گذاری اور اطاعت سے ہلکا کر سکو تو سمجھ لو کہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بڑی کامیاب ہے اور تمہارے نامہ اعمال میں وہ ثواب لکھا جائے گا جو بڑے سے بڑے مجاہدین کو ملتا ہے ۔
بیوی کا پہلا فرض ہے کہ جب وہ خاوند کے گھر جائے تو اس کی مرضی پہچاننے کی کوشش کرے ۔اور اس کی طبیعت اور مزاج کا علم حاصل کرے ۔ پھر اگلا مرحلہ یعنی خاوند کو راضی رکھنا بہت آسان ہو جاتا ہے ۔مگر بعض باتیں ایسی ہیں جو عموماً خاوند کی تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ۔اُن سے خاص کر احتراز کرنا چاہیے اور مَیں اُن کا ذکر کر دیتا ہوں ۔اُن میں سے ایک بات یہ ہے کہ بیوی اکثر اوقات خرچ کے لیے تقاضا کرتی ہے۔ خرچ حکمت سے لینا چاہیےنہ کہ تقاضا اور تنگ کر کے اور جب خاوند کے پاس روپیہ موجود نہ ہو اس وقت مطالبہ کرنا اس کو تکلیف دینا ہے ۔
ایک بات یہ کہ بیوی اکثر اوقات بد مزاج یا خاموش رہے اور جب خاوند گھر آئے تو اسے سچے دل سے خوش آمدید نہ کرے یا اُس کی بات کاٹے یا ایسے الفاظ لوگوں کے سامنے کہے جس میں خاوند کی کسی قسم کی تحقیر ہو یا بہت نخرے کرے اور ناز برداری کی خواہش رکھے ۔اس کی خیر خواہی کی بات کو نہ مانے ۔مثلاً وہ کہے کہ میرے ساتھ کھانا کھاؤتو جواب کہ مجھے بھوک نہیں ۔وہ کوئی دوا تجویز کرے تو کہے یہ مجھے مفید نہیں ہوگی میں اسے استعمال نہیں کروں گی ۔وہ کوئی کپڑا یا تحفہ لائے تو اُسے حقارت سے دیکھے۔غرض ایسی بیسیوں چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن میں بیبیاں فیل ہو جاتی ہیں اور اپنی زندگی کو تلخ کر لیتی ہیں ۔
بحث کرنا اور مخالف جواب دینا یہ خاوند کےدل سے بیوی کی محبت کو اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح ربڑ پنسل کے لکھے کو۔اور یہ عادت آج کل کی تعلیم یافتہ لڑکیوں میں بہت ہے ۔
مریم صدیقہ! تمہاری زندگی اب خلیفہ کی رضا جوئی اور خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے ہے ۔اس لئے دنیا کی چیزوں اور زینتوں سے ابھی سے اپنے دل کو ہٹا لو بجائے رنگین کپڑوں، عمدہ جوتوں،نفیس زیورات کےقرآن مجید،نمازیں، روزے، نیک کام ،عمدہ اخلاق ،دینی کتابوں کا مطالعہ،پاک خواتینِ اسلام کے نقش ِ قدم پر چلنا ،سلسلہ کی خدمات میں حصہ لینا ،یہ باتیں تمہارا مقصود ہو جائیں ۔اور دنیا کی زیب و زینت اصل مقصد نہ رہے ۔
مریم صدیقہ ! صبح کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت اگر ہمیشہ کرتی رہو گی تو تمہارے دل میں ایک نُور پیدا ہو گا ۔‘‘
اس کے بعد محترم میر صاحب نے اپنی بچی کو صفائی کے بارہ میں ہدایات دیں ۔ جن میں یہ درج ہے کہ صبح ، دوپہر ، شام تین وقت مسواک کرو اور فرمایا خوشبو اور عطر کو شارع نے بہت پسند کیا ہے ۔آپ نے فرمایا :
’’مصنوعی پوڈر اور لپ سٹک وغیرہ چیزیں جلد کو آخر کار خراب کر دیتی ہیں اور بعض ان میں سے زہریلی بھی ہوتی ہیں اور جو لوگ ایسی چیزوں کے بہت دلدادہ ہوتے ہیں ۔وہ آخر ادنیٰ خیا لات میں ہی محصور ہو جاتے ہیں اور حُسنِ اخلاق کی جگہ حُسنِ اعضا ہی ان کا منتہائے نظر ہو جاتا ہے ۔ پس سوائے گاہے بگاہے استعمال کے ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں چاہیے۔
مریم صدیقہ!جس نیک بی بی کو گھر کی صفائی ،پکانا ،سینا اور خانہ داری آتی ہے وہ خاوند کو زیادہ خوش کر سکتی ہے ۔بہ نسبت اُس کے جو نکمی ناولیں یا قصّے پڑھتی رہتی ہے یا اپنے ہی بناؤ سنگھار میں مصروف رہتی ہے‘‘۔
بیماری میں زیادہ گھبراہٹ اور بے صبری نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’بے قراری کا اظہار ایک معیوب بات ہے ،صبر ایک اعلیٰ خلق ہے خصوصاًعورتوں کے لئے اور بھوک ،بیماری ،درد اور اذیّت پر صبر کرنا ،صدق ،تقویٰ اور ایمان کی علامت ہے ۔
مریم صدیقہ! ہر معاملہ میں اور ہر تکلیف اور مشکل اور آرام اور راحت میں خدا تعالیٰ تمہاری زندگی کو اپنے فضل سے نہایت کامیاب زندگی بنا دے گا ۔میں بھی تمہارے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اور کرتا رہا ہوں ۔
اَللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيمِ۔ يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرّبِّكِ واسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرَّاكِعِيْنَ۔
پھر اُن کو قادیان کی سکونت مل جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ۔’’
اس خوش نصیبی پر جتنا بھی ناز کرو کم ہے ۔جو لڑکیاں قادیان میں پیدا ہوئیں اور یہاں جوان ہوئیں اور بیاہ کر باہر چلی گئیں اُن کے دل سے پوچھنا چاہیے کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔‘‘
تندرستی اور صحت کا خیال رکھنے کی تاکید کی اور فرمایا : ’’صحت کے گرنے سے انسان کے خیالات اور اخلاق اور اس کے نیک اعمال سب میں ناگوار تغیّر آجاتا ہے‘‘۔
اختتام آپ نےان الفاظ پر کیا :
أُوصِيْكِ بِتَقْوَى اللّٰهِ وَالْمُوَاظَبَةِ عَلَى ذِكْرِ اللّٰهِ
خدا حافظ والسلام ۔محمد اسمٰعیل
(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓ،جلد اوّل صفحہ 559۔563)