متفرق مضامین

تین سلطنتوں کی دلچسپ کہانی: برطانوی، عثمانی اور آسمانی (قسط دوم۔ آخری)

(آصف محمود باسط)

حسین کامی کی حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات

قیاس ہے کہ حسین کامی یکم مئی کی رات قادیان میں وارد ہوا [نوٹ: اس کے قادیان میں آنے کی تاریخ کی بحث مضمون کے آخر پر درج ہے]اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کا شرف پایا۔ اس ملاقات کا مقصد اگرچہ واضح طور پر ہمارے لٹریچر میں درج نہیں، مگر مذکورہ بالا تفصیلات سے اس کا مدعا کسی حد تک اخذ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت نواب محمدعلی صاحبؓ کے نام ایک مکتوب میں حسین کامی کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ

’’ظاہراً ایک دنیا دار اور پولیٹیکل مین ہے۔ روحانیت سے کچھ تعلق نہیں۔ ‘‘

(مکتوباتِ احمد، جلد دوم، مکتوب نمبر 20)

وہ ہندوستان بھر میں مسلم علاقوں کے دورے پر تھا اور سلطانِ روم اور سلطنتِ عثمانیہ کے لیے مسلمانانِ ہند میں ہمدردی اور خیر سگالی کے جذبات پیدا کرنے کا کام کررہا تھا۔ ساتھ اس وقت Greco-Turkish جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ کے لیے قائم کردہ فنڈ کے لیے تحریک بھی کرتا تھا۔ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور، ماہ اپریل، مئی و جون1897ء کے متعدد شماروں میں اس کے سفر کی تفصیلات درج ہیں جن سے دونوں مقاصد عیاں ہوتے ہیں۔

قیامِ لاہور کے دوران اس کی ملاقات مختلف مسلم انجمنوں اور وفود سے ہوئی۔ جماعت احمدیہ کے وفد نے ملاقات میں اسے جماعت ِ احمدیہ کا تعارفی لٹریچر بھی دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس کے ساتھیوں نے یہ بتادیا ہوگا کہ جماعتِ احمدیہ اپنے پیشوا اور امام یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ کے ایما کے بغیر کسی بھی سیاسی یا سماجی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ قادیان جانے کے پیچھے کارفرما محرک احمدی مسلمانوں کو pan-Islamic ایجنڈے میں آلۂ کار بنانا تھا جس کے تحت اس نےقادیان جانے اور حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کو ضروری خیال کیا۔

اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے 23؍اپریل کے شمارے میں خبر ہے کہ وہ 22؍اپریل کو صبح 9.35 کی ریل سے لاہور سٹیشن پر پہنچا جہاں مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم نے اس کا استقبال کیا۔ پھر 27؍اپریل کو لکھا ہے کہ حسین کامی نے جمعہ کے روز یعنی 23؍اپریل کو بادشاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ ادا کی اور بعد میں جمعہ کے اجتماع میں موجود مسلمانوں سے خطاب کیا اور انہیں سلطانِ ترکی اور انگریز کی دوستی کی سلامتی کے لیے دعا کی تلقین کی۔ 24؍اپریل کو لکھا کہ وہ لاہور میں شیخ میراں بخش، بار ایٹ لا، کا مہمان بھی رہا۔

لاہور سے اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو جو خط بزبانِ فارسی تحریر کیا، اس کا اردو ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

’’حاملِ ملکوتی صفات آنجناب کی نیک صفات اور اخلاقِ عالیہ کا لاہور شہر میں سنا اور آنجناب کے سعادت مند مریدوں کے توسط سے آپ عالی مقام کی عظیم الشان تقاریر اور تصانیف بصد احترام خاکسار تک پہنچیں۔ لہٰذا اس عاجز کا دل آپ مجسم نور کی زیارت کی خواہش سے لبریز ہے۔ انشاءاللہ لاہور سے براستہ امرتسر عالی جناب کی خاک پا تک پہنچوں گا اور اس ضمن میں آپ سراپا نور کی خدمت اقدس میں ٹیلیگراف بھیجوں گا۔ حسین کامی۔ سفیر سلطان المعظم۔ ‘‘

(ترجمہ از فارسی عبارت مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد2، صفحہ418)

منقولہ خط پر تاریخ درج نہیں، مگر معلوم ہوتا ہے کہ اپریل کے آخر پر لکھا گیا ہوگا، کیونکہ 29؍اپریل، بروز جمعرات، سول اینڈ ملٹری گزٹ نے خبر دی کہ حسین کامی منگل کے روز امرتسر پہنچ گیا ہے۔ گویا 27؍اپریل کو وہ براستہ امرتسر عازمِ قادیان ہوچکا تھا۔

ملاقات کا احوال اور حسین کامی کی مایوسی

حسین کامی کی ملاقات کا احوال درج کردینے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ بتا دیا جائے کہ وہ اس ملاقات سے اپنا مقصد حاصل نہ کرسکا اور ناکام واپس لوٹا۔ 15؍مئی کو اس کا خط اخبار ’’ناظم الہند‘‘میں شائع ہوا جو بنام سید ناظر حسین (مدیر اخبار مذکور) تھا۔ بزبانِ فارسی لکھے گئے اس خط کا اردو ترجمہ ذیل میں پیش ہے:

’’سیدی و مولائی!آپ کا مبارک بادکا خط موصول ہواجس پر بہت بہت شکریہ۔ میں آپ پر قربان کہ آپ نے قادیان اور قادیانی کے عجیب و غریب احوال کے بارہ میں استفسار فرمایا تھا۔ اب میں کمال اعتماد سے ذیل میں آپ کی خدمت عالی میں پیش کرتا ہوں اور آپ کو مستفید کرتا ہوں۔

یہ عجیب و غریب شخص اسلام کے سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا اور گمراہوں کے دائرہ میں داخل ہے اور حضرت خاتم النبیین سے جھوٹی محبت کا دعویدار ہے اور اپنے باطل عقیدہ کے مطابق رسالت کے دروازے کو کھلا سمجھتا ہے۔ نبوت اور رسالت میں جو فرق اس نے سمجھا ہے وہ ہزار ہنسی کے لائق ہے اور معاذ اللہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے رسولﷺ کو کبھی بھی قرآن مجید فرقان حمید میں خاتم المرسلین قرار نہیں دیا، بلکہ صرف خاتم النبیین کے خطاب پر اکتفا کیا ہے۔ القصہ یہ کہ خود کو ملہم ولی کہتا تھا۔ اس کے بعد مسیح موعود بن گیا۔ آہستہ آہستہ بقول خود مہدویت کے عالی مرتبہ پر فائز ہوگیا۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس نے اپنے خیال میں اپنے آپ کو رسالت کے اعلیٰ مقام تک پہنچا لیا ہے۔ اس بنا پر ہمارا غالب گمان ہے کہ اس کا پانچواں قدم یہ ہوگا کہ نمرود شریر کے مقام پر پہنچ کر اپنے سرکش سر پر جو باطل خیالات، مالیخولیا اور بے ہودہ گوئی کا مرکز ہے، الوہیت کی ٹوپی پہن لے گا۔

اور عجیب بات ہے کہ ایک بہت ہی اچھے شاعر نے اس طرح کے ضعیف الاعتقاد و بیان کے بارہ میں چند سال قبل اپنے دیوان میں ان الفاظ میں پیشگوئی کی ہے کہ

سال اوّل مطرب آمد، سال دویم خواجہ شد

بخت گر یاری کند، امسال سیدمی شود

خلاصہ یہ کہ ان باتوں سے درگزر کریں۔ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس پریشان کن تحریر پر ہمیں معاف کریں۔

جناب شریعت مند ابو سعید محمد حسین صاحب اور داروغہ عبدالغفور خاں صاحب کو ہمارا سلام پہنچادیں۔ اور اپنے پاؤں کا ماپ لے کر مجھے بھیجیں تا کہ اسلامبول دارالخلافہ سے اس کے مطابق مسجدی جوتے منگواکر آپ کی عمدہ طبیعت کی بنیاد پر بصد احترام پیش کروں۔ والسلام۔ الراقم۔ حسین کامی‘‘

(ترجمہ از فارسی مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد2، صفحہ419)

سوال یہ ہے کہ وہ لاہور میں جماعت احمدیہ کے ایک وفد سے ملاقات کرچکا تھا۔ پھر اس کی میزبان انجمن ِ اسلامیہ لاہور کے عمال اسے حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی سے خوب متعارف کرواچکے ہوں گے۔ لہٰذا اس کے اس غیظ و غضب کے پیچھے یقیناً کوئی اور ناکامی کارفرما تھی۔

اب ہم ملاقات کے احوال سےحضرت مسیح پاک علیہ السلام کے الفاظ میں آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ حضورؑ نے ناظم الہند میں شائع ہونے والے خط اور ادارتی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اس الزام کی بتصریح تردید فرمائی کہ حسین کامی کو درخواست کر کے قادیان بلایا گیا تھا تا کہ حضورؑ اس کے ذریعہ سلطانِ ترکی کی بیعت میں شامل ہوجائیں۔ نیز فرمایا:

’’مجھے نہ کچھ سلطان روم کی طرف حاجت ہے اور نہ اس کے کسی سفیر کی ملاقات کا شوق ہے۔ میرے لیے ایک سلطان کافی ہے جو آسمان اور زمین کا حقیقی بادشاہ ہے…

آسمان کی بادشاہت کے آگے دنیا کی بادشاہت اس قدر بھی مرتبہ نہیں رکھتی جیسا کہ آفتاب کے مقابل پر ایک کیڑا مرا ہوا۔ پھر جب کہ ہمارے بادشاہ کے آگے سلطان روم ہیچ ہے، تو اس کا سفیر کیا چیز!

میرے نزدیک واجب التعظیم اور واجب الاطاعت اور شکر گزاری کے لائق گورنمنٹ انگریزی ہے جس کے زیر سایہ، امن کے ساتھ یہ آسمانی کارروائی میں کررہا ہوں۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات، جلد 2، اشتہار صفحہ414تا418)

اسی اشتہار میں آگے چل کر حضورؑ نے بیان فرمایا کہ اس نے خلوت میں ملاقات کی خواہش کی۔ حضورؑ نے ’’بوجہ مہمان ہونے کے‘‘اس بات کی اجازت دی، اگرچہ حضورؑ کو اس کے مقاصد سے ’’دنیاپرستی اور منافقت کی بو آتی تھی۔ ‘‘

حضورؑ نے فرمایا کہ اس نے ’’خلوت کی ملاقات میں سلطانِ روم کے لیے ایک خاص دعاکرنے کےلیےدرخواست کی اور یہ بھی چاہا کہ آئندہ اس کے لیے جو کچھ آسمانی قضا قدر سے آنے والا ہے، اس سے وہ اطلاع پاوے۔ ‘‘

اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے اسے واضح طور پر بتایا کہ سلطان اور اس کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصوروار ہے‘‘اور یہ بھی کہ ’’خدا سچے تقویٰ اور طہارت اور نوعِ انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجودہ بربادی کو چاہتی ہے۔ توبہ کرو تا نیک پھل پاؤ۔ ‘‘(ایضاً)

اس ملاقات میں حضور علیہ السلام نے اسے اپنے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ نیز اسے بالخصوص ’’خونی مہدی‘‘ کے تصور کے باطل ہونے سے بھی مطلع فرمایا۔

اس سے آگے کی بات اس کے لیے شدید ناگوار تھی، جب حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا، وہ کاٹا جائے گا۔ بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ۔ ‘‘(ایضاً)

اس ساری گفتگو کے بعد اس نے سلطنتِ برطانیہ سے متعلق حضورؑ کے خیالات جاننا چاہے تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:

’’ہم اس گورنمنٹ سے دلی اخلاص رکھتےہیں اور دلی وفا دار اور دلی شکر گزار ہیں کیونکہ اس کے زیر سایہ اس قدر امن سے زندگی بسر کررہے ہیں کہ کسی دوسری سلطنت کے نیچے ہر گز امید نہیں کہ وہ امن حاصل ہوسکے۔ کیا مَیں اسلام بول [استنبول۔ ناقل] میں امن کے ساتھ اس دعویٰ کو پھیلا سکتا ہوں کہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں اور یہ کہ تلوار چلانے کی سب روایتیں جھوٹ ہیں۔ کیا یہ سن کر اس جگہ کے درندے مولوی اور قاضی حملہ نہیں کریں گے؟ اور کیا سلطانی انتظام بھی تقاضا نہیں کرے گا کہ ان کی مرضی کو مقدم رکھا جائے؟ پھر مجھے سلطانِ روم سے کیا فائدہ؟‘‘(ایضاً)

اس ملاقات سے حسین کامی کے عزائم پر جن باتوں نے پانی پھیر دیا، وہ بنیادی طور پر تین ہیں :

1…خود آسمانی سلطنت کا سفیر ہونے کے ناطے سلطنت عثمانیہ کو ہیچ سمجھنا۔

2…دعویٰ مہدویت۔

3…سلطنتِ انگلشیہ سے وفاداری جہاں آسمانی سلطنت کا یہ سفیر(علیہ الصلوٰۃ والسلام) امن میں رہتے ہوئے اپنی سلطنت کی کارروائی کو جاری رکھے ہوئے تھا۔

ان تینوں امور پر ایک مختصر نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

جہاں تک سلطنتِ عثمانیہ کو سلطنتِ آسمانیہ کے آگے ہیچ سمجھنے کا سوال ہے، تو یہیں پر سفیر حسین کامی کا pan-Islamic ایجنڈا ناکام ہوجاتا ہے۔ دوسری بات کی طرف بعد میں آتے ہیں۔ تیسری بات میں سلطنت انگلشیہ کی مذہبی آزادی پر داد و تحسین اور اس کے مقابل پر سلطنتِ عثمانیہ میں مذہبی آزادی کے فقدان کا بیان یہ ظاہر کرنے کو کافی تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کی جماعت کبھی بھی مسلمانانِ ہند کے اس گروہ میں شامل نہ ہوگی جو سلطانِ روم کو کسی بھی طرح کی سیاسی منفعت پہنچانے کی تحریک کا حصہ ہو۔

1897ء سلطان عبدالحمید کا زمانہ تھا۔ وہ نہ صرف اپنی سلطنت کو بکھرتے دیکھ رہا تھا بلکہ اقتدار پر اپنی گرفت کو ڈھیلا ہوتے بھی محسوس کررہا تھا۔ مغربی طاقتوں سے اندیشے تو تھے ہی، خود ترکی ہی میں Young Turks جیسی انقلابی سوچ کی بنیادیں سلطانی نظام سے برگشتہ نظر آرہی تھیں۔ ایسے میں ہی اس نے اپنے خلیفۃ المسلمین کے مقام و منصب کو زیادہ اجاگر کرنا شروع کیا تا کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی پشت پناہی حاصل ہوسکے۔

(تفصیل : Survey of International Affairs 1925, Vol 1مرتبہ Arthur J Toynbee، مطبوعہOxford University Press، لندن، 1927ء)

اس خالصتاً سیاسی منصب کو روحانی لبادہ پہنانے کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس ایک منصب کے علاوہ اسے ایک منصب ایسا نظر آتا تھا، جو مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر یکجا کرلینے کی صلاحیت رکھتا تھا، اور وہ منصب تھا ’’مسیح‘‘اور ’’مہدی‘‘کا۔

(تفصیل:Survey of Int. Affairs نیز رام لکھن شکلا کی محولہ کتاب)

مسلمان اپنے نجات دہندہ کے طور پر ان دونوں، یعنی مسیح اور مہدی، کے منتظر تھے۔ سلطان عبدالحمید کے اس اندیشے کا تفصیلی تذکرہ Lothrop Stoddardکی کتاب The New World of Islam میں پڑھا جاسکتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ جو امر اسے مسلمانوں میں معزز بناتا ہے وہ خادم حرمین شریفین ہونا ہے، مگر یہ بھی تبھی تک ہے جب تک کوئی مہدویت کا دعویدار اٹھ کھڑا نہ ہو اور مسلمان اس کے خونی ایجنڈے میں اس کے شریک ہوجائیں۔

اس اندیشے کے مبنی بر حقیقت نظر آنے کے لیے سوڈانی مہدی اور اس کی خون ریزیاں سلطان کے لیے کافی تھیں۔

اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے حسین کامی کی مایوسی اور غیظ و غضب کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ وہ ایک ایسے شخص سے مل کر لوٹا تھا جس کے ساتھ ایک مسلم جماعت تھی۔ جو نہ صرف مہدی ہونے کا دعویدار تھا، بلکہ مسیح ہونے کا بھی۔ یعنی مسلمانوں کی دو آخری امیدیں ایک شخص میں یکجا تھیں۔

Azmi Ozcan نے اپنی تحقیق Islamism: Indian Muslims, the Ottomans and Britain میں لکھا ہے کہ جہاں دیگر ہندوستان کے مسلمانوں میں اسے اپنے عزائم کے لیے امید نظر آئی، وہ صرف ایک مذہبی جماعت سے ناکام لوٹا جس کا نام جماعت احمدیہ تھا اور جس کا مرکز قادیان میں تھا۔

(تفصیل: مذکورہ کتاب، صفحہ 106)

سلطنتِ ترکی کے سفیر کا سلطنت ِآسمانی کے خلاف بدگوئی کا انجام

حسین کامی کی تعیناتی کی داستان بھی بتاتی ہے کہ اس کا کردار ایک سفارت کار کا کم اور ایک propagandist کا زیادہ تھا۔ 1896ء میں کراچی پہنچنے والے حسین کامی نے ہندوستان کی سرزمین کے دورے شروع کردیے تھے۔

زیرِ نظر تحقیق کے دوران حسین کامی کے جو کاغذات سلطنتِ عثمانیہ کے آرکائیو واقع استنبول سے حاصل ہوسکے، ان میں بہت سی دلچسپ دستاویزات میسر آئیں۔ مثلاًاس ایک دورے میں ناکامی کے علاوہ سلطان عبدالحمید کے نام ایک مکتوب میں لکھا:

’’اب مجھے یہاں سفارت خانے کا حصہ بنے ایک سال ہوگیا ہے۔ مجھے اپنے مقصد میں جو کامیابی روز بروزحاصل ہوئی ہے، میں اس پیشہ کو جاری رکھنے کے لیے آمادہ ہوں۔ تاکہ میں اس روشنی کو عام کرسکوں جو ہمارے عالی شان اور عالی مرتبہ سلطان کی مرہونِ منت ہے۔ ‘‘

(سلطنتِ عثمانیہ آرکائیو،استنبول، بحوالہBOA/I/HR/00352.00047.001)

اس مکتوب پر تاریخ درج نہیں۔ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ یہ 1897ء کے آخر پر لکھا گیا۔ یعنی اس سال کے آخر پر جس سال اس نے پنجاب کا دورہ کیا تھا۔ اس قیاس کی وجہ بطور نائب قونصل اس کی تقرری پر حکومتِ برطانیہ کی آمادگی کا خط ہے جو 7؍اکتوبر 1896ء کو تحریر کیا گیا۔

مگر ناکامی حسین کامی کی منتظر تھی۔

اس کی دریدہ دہنی اور گستاخی کو سال بھر کا عرصہ گزرا تھا۔ وہ اس سال کو نہایت کامیاب سال قرار دے رہا تھا، مگر حکومتِ برطانیہ اس کی حرکات پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ جیسا کہ آغاز میں بیان کیا گیا تھا، سلطنتِ عثمانیہ کو قونصل خانے کھولنے کی اجازت حکومتِ برطانیہ نے صرف بندرگاہوں پر دی تھی جنہیں وہ حجاج اور دیگر عازمینِ سرزمینِ سلطنتِ عثمانیہ کے سفری انتظامات کے سلسلہ میں استعمال میں لائیں۔ مگر سلطان ترکی نے ان سفارت کاروں کو pan-Islamic پراپیگنڈا کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔

(تفصیل : Azmi Ozcan)

ایسے دورہ جات جن میں وہ مسلمانوں کی ہمدردیاں سمیٹیں اور ان کو ان کی حکمران گورنمنٹ سے بددل کریں، ان کے دائرۂ اختیار میں نہ تھا اور صریحاً بددیانتی تھی۔ نہ ہی یہ کسی بھی حکومت کو گوارا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا حسین کامی کی حرکات پر حکومتِ برطانیہ کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ بالآخرحکومتِ برطانیہ نے 1898ءمیں حسین کامی کو persona non grata (ناپسندیدہ شخصیت) قرار دیا اور حکومتِ عثمانیہ کو باضابطہ طور پر ہدایت کی کہ اسے ہندوستان سے فوری واپس بلا لے۔

(حکومتِ برطانوی ہندوستان کی خفیہ رپورٹ (L/P&S/7/103 no 469

یہاں سے اس کے مشن میں کارفرما خیانت منظر عام پر آنا شروع ہوئی۔ ایک تو اپنی سفارت کاری کا ناجائز استعمال کر کےانگریز حکومت سےمعاہدہ کی خلاف ورزی کی۔ مگراس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ اپنی ہی حکومت اور سلطنت کو گزند پہنچانے سے بھی دریغ نہ کیا۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اسی دَور میں Greco-Turkish جنگ جاری تھی۔ Crete کے متاثرین کے لیے ایک فنڈ جاری تھا جس میں ہندوستانی مسلمان دل کھول کر حصہ لیتے تھے۔ اوپر بیان ہوا ہے کہ حسین کامی کے دورہ 1897ء کے دو عزائم میں سے ایک اس چندہ میں حصہ لینے کے لیے مسلمانانِ ہندکو ترغیب دینا بھی تھا۔

حضرت مسیح موعودؑ نےاپنی تصنیف تریاق القلوب (مطبوعہ 1902ء) میں ذکر فرمایا ہے کہ جو رقوم کریٹ کے مظلومین کے لیے جمع کر کے کراچی کے نائب قونصل یعنی حسین کامی کو ارسال کی گئیں، وہ بتمام سلطنتِ عثمانیہ کے خزانہ تک نہ پہنچی۔ تفتیش پر حسین کامی کا غبن ثابت ہوا اور اس باعث اسے نہ صرف سرکاری نوکری سے معطل کیا گیا، بلکہ اس کی املاک کی نیلامی سے رقم بازیاب کی گئی۔

اس کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے اخبار ’’نیّرِ آصفی‘‘ 12؍اکتوبر 1899ءکا حوالہ دیا جس میں ’’قسطنطنیہ کی چٹھی‘‘ کے نام سے اخبار کے نمائندہ نے اس غبن کی تفصیلات درج کی ہیں۔ اس چٹھی میں خاص طور پر ان رقوم کا ذکر ہے جو اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر کے منتظمین نے جمع کر کے بھجوائے تھے۔

الحمدللہ، آج احمدیہ آرکائیو اینڈ ریسرچ سنٹر اس بات کا ثبوت سلطنتِ عثمانیہ کے ریکارڈ سے پیش کرنے کی توفیق پارہا ہے۔ عثمانیہ آرکائیو سے ملنے والی چٹھی میں اس غبن کی تفصیل میں ’’محمد عیسیٰ مالک اخبار وکیل امرتسر‘‘کا نام خاص طور پر مذکور ہے۔ اس دستاویز پر حکومتی اہلکاروں کا درج ذیل نوٹ تحریر ہے:

’’کراچی سفارت خانہ کے حسین کامی کوایک ہزار چھ صد پچپن روبل کی ادائیگی پر پابند کیا جائے جو اخبار وکیل کے مالک محمد عیسیٰ نے حسین کامی کو ادا کیے مگر اس نے آگے جمع نہ کروائے‘‘

(حوالہ عثمانیہ آرکائیو استنبول، BEO/001242/093148/001)

حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کا وسیع تر ظہور

حسین کامی نے خلوت کی ملاقات میں حضرت مسیح موعودؑ سے درخواست کی تھی کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ کے بارے میں غیب سے خبرپاکر اسے بتائیں کہ اس کامستقبل کیسا ہے؟حضرت مسیح موعودؑ نے اسے بذریعہ الہام خبر پاکر مطلع فرمایا کہ

’’سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے۔ اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا۔ میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں۔ ‘‘

(اشتہار 24؍مئی 1897ء)

اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کی حالت واقعی اچھی نہ تھی۔ انگریز حکومت کی دوستانہ پالیسی بھی تب تک رنگ بدل چکی تھی اور سلطان عبدالحمید اپنی بقا کی خاطر مسلمانانِ ہند کی ہمدردیاں سمیٹنے کا کام جاری کیے ہوئے تھا۔

(تفصیل : Survey of International Affairs 1925, Vol 1)

اس سروے میں درج ہے کہ

Abdul Hamid did, indeed, retort to the new orientation of British policy, which became increasingly unfavourable to Turkey from 1880 onwards, by conducting anti-British propaganda in India.

سلطان عبدالحمید کی مطلق العنان حیثیت تبھی ختم ہوگئی جب Young Turks کی تحریک نے اس سے زبردستی آئین تشکیل دینے کے لیے کہا تھا۔ اس آئین کا پابند ہوکر اس کی جاہ و حشمت سب جاتی رہی اور وہ صرف ایک علامتی سلطان (Constitutional Monarch)بن کر رہ گیا۔ بالآخر نوجوان ترکوں کی تحریک رنگ لائی اور جولائی 1908ءمیں اس نام نہاد خلیفۃ المسلمین کو اس کے دربار تک محدود کردیا گیا۔ نہ وہ سلطانی رہی اور نہ ہی وہ خلافت جس پر اسے بڑا ناز تھا۔ (ایضًا)

حضرت مسیح موعودؑ نے حسین کامی کے چلے جانے کے بعد بذریعہ اشتہار (مطبوعہ 7؍جون 1897ء) اعلان فرمایا کہ

’’یاد رکھو کہ خدا کے فرستادہ کی توہین خدا کی توہین ہے۔ چاہو تو مجھے گالیاں دو۔ تمہارا اختیار ہے۔ کیونکہ آسمانی سلطنت تمہارے نزدیک حقیر ہے۔ سلطان کا خلیفۃ المسلمین ہونا صرف اپنے منہ کا دعویٰ ہے۔ لیکن وہ خلافت جس کا آج سے سترہ برس پہلے براہین احمدیہ اور نیز ازالہ اوہام میں ذکر ہے، حقیقی خلافت وہی ہے۔ کیا وہ الہام یاد نہیں؟

اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلَفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ۔ خلیفۃ اللّٰہ السلطان۔

ہاں ہماری خلافت روحانی ہے اور آسمانی ہے نہ زمینی۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ 423)

یہ الفاظ کس شان سے پورے ہوئے کہ جس سال سلطانِ ترکی کی نام نہاد خلافت اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچی، اسی سال حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ جاری ہونے والی آسمانی خلافت کا قیام عمل میں آیا۔

سلطنتِ عثمانیہ نے اپنی نام نہاد خلافت کا سکہ جمانے کے لیے جس سال حسین کامی کو ہندوستان میں تعینات کیا، اسی سال، یعنی 1896ء میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو دوبارہ اس الہام سے سرفراز فرمایا کہ

’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘

یعنی حضرت مسیح پاکؑ کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت اور جماعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنی آسمانی بادشاہت کو دنیا میں قائم فرمادے گا، جب کہ اپنی طاقت اور ثروت اور جاہ و حشم پر ناز کرنے والی سلطنتیں قصہ پارینہ بن جائیں گی۔

آج تاریخ اور حالاتِ حاضرہ حضرت مسیح موعودؑ کی دنیاداری سےبے نیازی اور آسمانی بادشاہت پر توکل کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ

مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا

مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار

اس تحقیق کے حوالے سے پس نوشت

حسین کامی کے حوالے سے ہمارے لٹریچر میں صرف اس قدر معلومات تھیں کہ وہ سلطان عبدالحمید کا خاص نمائندہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑ سے ملنے کے لیے آیا اور مایوس ہو کر لوٹا اور اپنے غیظ و غضب میں سخت نازیبا الفاظ اخبار ناظم الہند میں تحریر کیے۔ اس کے آنے کا سبب بھی واضح نہ تھا کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ سلطان کے حوالے سے کسی خاص معاملہ پر گفتگو ہوئی۔

قادیان آنے کی تاریخ

اس کے قادیان آنے کی تاریخ میں بھی اشتباہ کا عنصر ہے۔ تاریخ احمدیت، جلد اوّل میں اس کے آنے کی تاریخ ’’10 یا 11 مئی‘‘ لکھی گئی ہے۔ سیرۃ المہدی میں تاریخ درج نہیں۔ حیاتِ احمد مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ میں بھی ’’10 یا 11 مئی‘‘ درج ہے۔

مکتوباتِ احمد جلد دوم میں حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے نام خط میں حسین کامی کی بابت تحریر فرمایا ہے کہ

’’کل آن محب کا خدمت گار پہنچا۔ سفیر نے خود آرزو کی تھی کہ میں کوٹلہ مالیر دیکھوں ‘‘۔ اس خط کے بعد حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ (مولف مکتوباتِ احمد) کا درج ذیل نوٹ ہے:

’’نوٹ از مرتب: تاریخ یکم مئی ہے یا 11مئی۔ حضورؑ بعض جگہ تاریخ کے ساتھ خط بشکل’’؍‘‘ڈالتے ہیں بعض جگہ نہیں۔ اگر یہ خط (؍) سمجھا جائے تو یکم مئی ہے ورنہ 11؍ مئی۔ 5؍نومبر 98کے مکتوب میں یہ خط حضور نے نہیں کھینچا مگر مارچ 1896 کے مکتوب کی تاریخ کے ساتھ کھینچا ہے۔ اس مکتوب سےیہ تو ظاہر ہے کہ حسین کامی سفیر ترکی کے قادیان آنے کے بعد کا ہے۔ اس کی آمد کی معین تاریخ معلوم ہونے سے اس مکتوب کی تاریخ کی صحت کا علم ہوسکتا ہے…مزید معلوم ہوا ہے کہ 11؍مئی ہے کیونکہ مئی میں حسین کامی لاہور آئے اور کئی روز بعد قادیان آئے۔ ‘‘

خاکسار کو دورانِ تحقیق حسین کامی کے اس سفر کی جو تفصیلات ملی ہیں، اس کے مطابق سول اینڈ ملٹری گزٹ کے 23؍اپریل کے شمارہ میں خبر ہے کہ وہ گزشتہ روز(22؍اپریل) لاہور سٹیشن پر پہنچا جہاں مسلمانوں کے ایک بہت بڑے مجمع نے اس کا استقبال کیا۔

24؍اپریل کے شمارہ میں درج ہے کہ حسین کامی ’’جو کہ 22؍اپریل کو لاہور میں وارد ہواتھا‘‘، لاہور میں شیخ میراں بخش کا مہمان ہے۔

27؍اپریل کے سول اینڈملٹری گزٹ میں خبر ہے کہ حسین کامی نے گذشتہ جمعہ(23؍اپریل) بادشاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ ادا کی اور بعد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔

29؍اپریل(جمعرات) کے شمارے میں خبر ہے کہ حسین کامی منگل کے روز امرتسر پہنچ گیا۔ یعنی 27؍اپریل کو وہ امرتسر پہنچ چکا تھا، جہاں سے اس نے اپنے پروگرام کے مطابق(جو اس نے حضورؑ کو لکھا تھا) قادیان جانا تھا۔

اس تمام تفصیل سے ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ حسین کامی کا قیام لاہور اپریل کے آخری عشرہ میں تھا نہ کہ مئی کے مہینہ میں۔ اگر وہ 22؍ اپریل کو لاہور آکر 27؍ اپریل کو امرتسر چلا گیا، اور باقی تمام مقامات پر اس سے بھی کم دن قیام کرتا رہا، تو قرینِ قیاس یہی ہے کہ وہ اپریل کے آخر میں یا مئی کے شروع میں قادیان وارد ہوا ہوگا۔

اخبارات کی رپورٹنگ میں اس کے اس دورہ کو “flying visit” یعنی طوفانی دورہ کہا گیا ہے۔

مکتوباتِ احمد کی جلد دوم کے دوسرے ایڈیشن میں (مرتبہ ملک صلاح الدین ایم اے) حضرت مسیح موعودؑ کے مکتوب کے 11؍ مئی کو تحریر کیے جانے کے قیاس کا واحد امکان اس بات کو قرار دیا ہے کہ حسین کامی مئی کے مہینہ میں لاہور میں تھا۔ پس یہ ثابت ہوجانے سے کہ حسین کامی اپریل کی 27؍تاریخ کو لاہور سے امرتسر جاچکا تھا، یہ امکان زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپریل کے آخری دنوں میں قادیان پہنچا ہوگا۔

اس کی چٹھی جو اخبار ناظم الہند کے ایڈیٹر کےنام تھی اوراخبار مذکور کے 15؍مئی کے شمارہ میں شائع ہوئی، کی ابتدائی سطور سے واضح ہے کہ یہ خط اس نے ایڈیٹر اخبار ناظم الہند سید ناظر حسین کے کہنے پر لکھا تھا۔ اس نے چٹھی کا آغاز یوں کیا ہے کہ’’میں آپ پر قربان کہ آپ نے قادیان اور قادیانی کے عجیب و غریب احوال کے بارہ میں استفسار فرمایا۔ ‘‘

سید ناظر حسین کی استفساری چٹھی اور حسین کامی کی جوابی چٹھی(جو 15؍مئی کے شمارہ میں شامل ہونے کے لیے 14؍مئی کو کاپی میں شامل کی گئی ہوگی) کی آمد و رفت کے لیے اس دور کے لحاظ سےبہت سبک رفتار ڈاک کا اندازہ بھی لگایا جائے تو دونوں چٹھیوں کے تبادلے میں تین تین دن تو لگے ہوں گے۔ یوں حسین کامی کی چٹھی 11؍مئی یا اس سے پہلے کی معلوم ہوتی ہے۔

اس لیے اگر حضرت مسیح موعودؑ کی چٹھی 11؍مئی کی تحریر فرمودہ ہے تو وہ اس سے پہلے قادیان سے ہو کر جاچکا تھا۔ اور اگر یکم مئی کی خیال کی جائے تو وہ اپریل کے آخر میں قادیان آیا۔ چونکہ حضورؑ نے حسین کامی کے مالیر کوٹلہ جانے سے قبل تحریر فرمایا ہے کہ’’کل آں محِبّ کا خدمت گار پہنچا۔ سفیر نے خود آرزو کی تھی کہ میں کوٹلہ مالیر دیکھوں ۔‘‘

لہٰذا اگر اس کی قادیان میں آمد کو 10 یا 11؍مئی فرض کر لیا جائے، اورحضرت مسیح موعودؑ کے مکتوب (بنام حضرت نواب محمد علی خانؓ صاحب) کی تاریخ کو 11؍ مئی، تو حسین کامی 10؍مئی کو قادیان سے جاچکا تھا۔

مگر اس سےیہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ 10؍مئی سے پہلے قادیان آیاتھا، کیونکہ تمام روایات میں یہ موجود ہے کہ وہ رات کو پہنچا۔ تب حضرت مسیح موعودؑ بباعثِ دورانِ سر اس سے ملاقات نہ کرسکے اور ملاقات اگلے روز ہوئی۔

اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپریل کے آخری دنوں میں قادیان آیا اور حضرت مسیح موعودؑ کا یہ مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓیکم مئی کو تحریر فرمودہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی قیاس ہے جو آئندہ تحقیق میں کام آسکتا ہے۔

حسین کامی کے نام کا مسئلہ

حسین کامی کے حالات و واقعات تلاش کرنے میں ایک دقت یہ بھی آئی کہ اکثر محققین(جن کی کتب اور مضامین میں سے اس مضمون میں حوالے پیش کیے گئے ہیں )، اس کا نام Huseyin Kamil (حسین کامل) تحریر کرتے ہیں۔ تاہم سلطنتِ عثمانیہ کے آرکائیو اور انڈیا آفس ریکارڈزتک رسائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کا نام حسین کامی ہی تھا۔ اس کی تعیناتی کے احکامات میں جو کوائف درج ہیں، اس میں ’’حسین کامی بک‘‘تحریر کیا گیا ہے۔

حکومتِ برطانیہ کے وزارتِ خارجہ کے کاغذات میں اس کی تعیناتی کے وقت نام Hussein Kiami درج کیا گیا ہے۔ تاہم سلطنتِ عثمانیہ اور دیگر ترک کتب اور دستاویزات میں اس کا نام Hüseyin Kâmi درج ہے۔

حسین کامی کے بدانجام کی تصدیق

حسین کامی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ شعر بھی کہتا تھا۔ اس کا ذکر ترک شعرا ءکے بارے میں لکھی گئی کتاب’’گذشتہ صدی کے ترک شعراء‘‘( Son Asir Turk Sairleri مرتبہ Mahmud Kemal Inal) میں ان الفاظ میں موجود ہے:

’’حسین کامی اپنا تعلق داغستان سے بتاتا تھاکیونکہ اس کا والد داغستان سے آیا تھا۔ سلطان کے دربار بابِ عالی میں کتابت کے شعبہ میں سرکاری ملازم رہا۔ اس کے بعد کراچی قونصل میں متعین ہوا۔ پانچ چھ سال وہاں رہا۔ یونان اور ترکی جنگ میں شہدا کے لواحقین کے لیے قائم امدادی فنڈ میں خیانت کا مرتکب ہوا اور معطل کر دیا گیا۔ ‘‘

ترک مصنف و محققSefer E Berzeg نے اخبار “Tanin” میں تحریر کیا کہ اس غبن کے جرم میں حسین کامی کو ملک بدر کرکے مصر بھیج دیا گیا۔ 31؍مارچ 1909ءمیں جب ترک انقلاب رونما ہوا تو حسین کامی (جو کہ سلطان عبدالحمید کا حامی اور انقلابیوں کا سخت مخالف رہا تھا) کو گرفتار کر لیا گیا اور متعدد مرتبہ جیل کی ہوا کھانا پڑی۔

حسین کامی کے بارے میں Mahmud Kemal Inal نے مذکورہ بالا کتاب میں لکھا ہے کہ اس نے ’’ داغستانلی دہری افندی‘‘ کےقلمی نام سے اپنا مجموعہ کلام ’’دیوانچۂ دہری‘‘ (Divance-i Dehri) کے نام سے شائع کیا۔

اسی کتاب میں اس کا سنِ پیدائش 1878ء اور سنِ وفات 1912ء درج ہے۔ تاہم حسین کامی کے دیوان پر تازہ ترین کام کرنے والے Dr Ahmed Tanyildiz کے نزدیک تاریخ پیدائش اور وفات دونوں معین نہیں۔ پیدائش کا تو کوئی ریکارڈ نہیں اور وفات گرفتاریوں سے بچتے ہوئے دربدری کی حالت میں 1912ء اور 1916ء کے درمیانی عرصہ میں ہوئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button