متفرق مضامین

دجال کے خد و خال: ایک تاریخی مطالعہ (قسط دوم۔ آخری)

(’عبدالرحمٰن رانا‘)

انیسویں صدی اور نزول مسیحؑ

انیسویں صدی میں دجالی فتنہ اپنے عروج پر تھا۔ مشنریوں کا مذہبی فتنہ اپنے تمام عناصر کے ساتھ واضح ہوکر سامنے آیا۔ مختلف حربوں کو باطل مذہب کی اشاعت کے لیے پوری طرح استعمال کیا گیا۔ ذیل میں انیسویں صدی کے مذہبی تاریخی منظر نامے کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جاتا ہے:

مشنری جذبہ

انیسویں صدی میں عیسائی پادریوں نے عزم اور جذبہ کے ساتھ ساری دنیا میں باطل مذہب کو پھیلانے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کو اپنے مشن پر کس قدر یقین تھا؟اس کا ایک اندازہ پادری Archibald Alexanderکی 1828ء میں مشنری میٹنگ میں کی گئی تقریر سے ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں :

’’The Conversion of the world to Christianity, is a most certain event. No truth is exhibited in prophecy with more clearness than this…Dear brethren, the world shall be converted, whether we have any instrumentality in work or not.‘‘

(Missionary Paper No. X pg.3,7)

(ترجمہ) ساری دنیا کا عیسائی ہوجانا سب سے یقینی امر ہے۔ پیشگوئی میں کوئی سچائی اس سے زیادہ واضح طور پر بیان نہیں کی گئی…عزیز بھائیو! دنیا عیسائی ہو گی خواہ ہمارے کام اس کے لیے وسیلہ بنیں یا نہیں۔

مشہور پادری فرنچ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے اپنے جذبہ کو یوں بیان کرتے ہیں :

’’If we would win these Moslem lands for Christ, we must die for them‘‘

(The Life and correspondence of Thomas Valpy French V.2 pg. 90)

(ترجمہ) اگر ہم مسلمان ممالک کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے لیے مرنا ہو گا۔

مادی وسائل پر بھروسہ اور روحانیت سے عاری ہونے کا اعتراف

پادری Beecher Lyman ابتدائی زمانہ کے عیسائیوں کے پاس موجود تبلیغ کے وسائل کا موازنہ اپنے زمانہ کے ساتھ کرتےہیں۔ اپنے زمانہ میں تبلیغ کے لیے موجود وسائل کی برتری ثابت کرتے ہوئے 1834ء میں لکھتے ہیں :

’’The Intercourse between different parts of the globe is becoming daily more frequent and easy…..by the rapidity and ubiquity of commercial intercourse, the whole world is more accessible to missionary enterprise now….and as to the potent powers of opposition…..the Mohammedan and the Papal, they too are waxing old and passing away….the resources of the world, physical, intellectual, and moral are greater now….and are chiefly in the possession of nation which are nominally Christian….the number of Christians on earth now, their amount of resources and their character and influence on society, give us advantages in propagating Christianity…We need not be disheartened. We possess a thousand fold advantage of apostles and primitive Christians for the spread of Gospel.‘‘

(Missionary Paper V. pg.38)

(ترجمہ) دنیا کے مختلف حصوں کے درمیان روزمرہ میل جول کی راہ ہموار ہو گئی ہے…تجارتی عمل کی تیزی اور ہمہ وقت سہولت کے ذریعہ پوری دنیا اب مشنریوں کی دسترس میں ہے…جہاں تک طاقتور مخالفانہ قوتوں کا تعلق ہے …یعنی اسلام اور پوپ، وہ دونوں روبہ زوال ہیں …دنیا کے مادی، علمی وسائل بہت زیادہ اور اخلاقی معیار اب بہت بلند ہیں …اور اکثر ان قوموں کے قبضہ میں ہیں جو عیسائی ہیں …دنیا میں عیسائیوں کی تعداد، ان کے وسائل، تشخص اور معاشرے پر اثر، یہ سب عیسائیت پھیلانے کے لیے ہمارے حق میں ہیں …ہمیں بالکل بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہم حواریوں اور ابتدائی عیسائیوں پرانجیل کا پیغام پھیلانے کے وسائل کے لحاظ سے ہزار گنا برتری رکھتے ہیں۔

نیز پادری صاحب عیسائیت کی پیروی میں تازہ نشانات نہ دیے جانے کا اعتراف کرتے ہیں۔ حواریوں کو معجزات کیوں دیے گئے اور اب اس کی ضرورت کیوں نہیں؟پادری صاحب کہتے ہیں :

’’this was only to authenticate their commission as the servants of the Most High God before the canon of revelation was completed… Miracles are not needed now. Our evidence that the Bible is the word of God, is as ample as the apostles evidence was that they spoke by a divine commission‘‘

(Missionary Paper V. pg.5,6)

(ترجمہ) الہامی کتاب کی تدوین مکمل ہونے سے پہلے (ان کو نشانات کا دیا جانا) صرف ان کے خدائے بزرگ وبرتر کے خدمت گار کے طور پر ان کی ماموریت کی توثیق کے لیے تھا…اب معجزات کی ضرورت نہیں ہے۔ بائبل کا خدائی کلام ہونے کا ہمارا پیش کردہ ثبوت حواریوں کے اس ثبوت کے ہم پلہ ہے جو انہوں نے مامور ہونے پر دیا۔

Commerce and Christianity کا نعرہ

جیسا کہ پہلے تفصیلا ًبیان کیا جاچکا ہے کہ آخری زمانے میں عیسائیت کا ورود تجارتی کمپنیوں کے روپ میں ہوا۔ مشنری تجارت اور عیسائیت کے فروغ کو لازم وملزوم سمجھتے رہے۔ بلکہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ مشہور مشنری ولیم کیری نے بائبل سے اس کا ثبوت بھی پیش کیا۔ یہ نعرہ بڑے پرزور انداز میں انیسویں صدی میں بھی پیش کیا گیا۔ اس کی چند مثالیں ہم پیش کرتے ہیں۔ مشہور مشنری Livingstone نے1857ءمیں دیے گئے ایک لیکچر میں کہا:

’’Those two pioneers of civilization-commerce and Christianity- should ever be inseparable‘‘

(Dr. Livingstone`s Cambridge Lectures pg.21)

(ترجمہ)تہذیب کے پیش رو، تجارت اور عیسائیت، ہمیشہ کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

مشہور مشنری Samuel Wilberforce 1860ء میں کی گئی ایک تقریر میں کہتے ہیں :

“What” some simple-minded man might say “is the connection between Gospel and commerce?” There is a great connection between them…Christianity will be able to make its proper way unless we can establish a lawful commerce in the country.‘‘

(Henry Rowley, Speeches on Missions pg.213)

(ترجمہ)بعض سادہ لوح یہ کہیں گے کہ تجارت اور انجیل میں کیا تعلق ہے؟ان دونوں میں بہت بڑا تعلق ہے…عیسائیت اپنا راستہ صحیح طور پر اس وقت بنا سکتی ہے جب ہم ملک میں جائز اور قانونی تجارت قائم کریں۔

مشنری سوچ کے اس افسوسناک پہلو کی بہت سی مثالیں ہمیں تاریخ میں ملتی ہیں۔ ذیل میں ہم صرف ایک مثال افریقہ کے پسماندہ ملک نائیجر کی پیش کرتے ہیں۔ Bishop Crowther کے بارے میں لکھا ہے:

’’He says the poor and oppressed look to him for help, and kings and chiefs put their trust in him…So first he make converts, then he gets them to build a church, and is now in one place teaching the converts how to mix paint to paint their church with. This seems more sensible than first to teach people how to mix paint, then to build a church for them, and then to tell them about Christ. It is less like putting the cart before the horse when both stand still.‘‘

(A Quarterly Token for Juvenile Subscribers April 1871 pg.4)

(ترجمہ)وہ کہتے ہیں کہ غریب اور مظلوم مجھ سے مدد مانگتے ہیں، اور بادشاہ اور سردار اس پر اعتماد کرتے ہیں …پہلے وہ عیسائی بناتے ہیں پھر ان سے چرچ تعمیر کرواتے ہیں اور اب ایک جگہ پر وہ نئے عیسائیوں کورنگ گھولنے کا طریقہ سکھا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے چرچ کو رنگ کر سکیں۔ یہ زیادہ معقول طریق ہے اس کی نسبت کہ وہ پہلے انہیں رنگ گھولنا سکھائے اور پھر ان کے لیے چرچ بنائے اور پھر ان کو مسیح کے بارے میں بتائے۔

میڈیکل مشن

مشنریوں کے ’’انسانی خدمات‘‘ کی آڑ میں جاری کیے جانے والےہسپتالوں کا کیا مقصدتھا؟ امرتسر مشن کے پادری کلارک لکھتے ہیں :

’’Medical Missions are amongst the most important means of evangelizing India.‘‘

(Church Missionary Intelligencer Feb.1874 page 53)

(ترجمہ) ہمارے میڈیکل مشن ہندوستان کو عیسائی بنانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

اسی طرح مشہور مشنری Stock Eugene میڈیکل مشن کی کامیابی کے بارے میں اپنے مضمون THE C.M.S. MISSIONS TO MOHAMMEDANS میں لکھتے ہیں :

’’Medical missions, valuable everywhere, are especially so in Mohammedan countries, where some of the older missionary methods are scarcely possible and often ineffective and the society has established them on considerable scale on the North-West Frontier of India‘‘

(The Muslim World, April 1912, pg.131)

(ترجمہ) میڈیکل مشن ہر جگہ مفید ہیں مگر مسلمان ممالک میں خاص طور پر کارگر ہیں جہاں پرانے مشنری کےطریق شاذ ہی ممکن ہیں اور اکثر غیر مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ (کرسچن مشن )سوسائٹی نے بڑے پیمانے پر میڈیکل مشن ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں قائم کیے ہیں۔

مشن سکول

گذشتہ صدیوں کی مشنری کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ پادری مشن سکولوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سکولوں کے ذریعہ مسلمان بچوں کے دماغوں میں اسلام کے بارے میں شکوک ڈالنا اور عیسائی تعلیمات سے انہیں مانوس کروانا، ایسا مشنری گُر تھا جسے پادری بڑے زور سے استعمال کر رہے تھے۔ مشہور پادری زویمرنے 1914ء میں ایک مضمون بعنوان The Present Attitude of Educated Moslems Toward Jesus Christ and the Scriptures تحریر کیا۔ اس مضمون میں وہ ایک عرب اخبار الشھاب میں شائع شدہ ایک واقعہ کو مشن سکولوں کے اثر کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ اخبار میں واقعہ یوں بیان ہوا:

’’A proof of the extent of preaching in mission schools is the fact that you cannot find two Moslem children one of whom is taught in a Moslem school and the other in a Christian school without seeing them quarrelling in the street on such a question as this: Who is the greatest, the Messiah or Mohammed? And very probably both of them are the sons of one pious Moslem. The other day while I was reclining in my house I heard a quarrel in the street between a boy and a girl. The boy was crying Christ is not greater than Mohammed, but the girl replied, Teacher told us that Christ was greater than Mohammed and than all other creatures, for he saved men from their sins. When they came to me I made clear to the girl that her brother was in the right and she in the wrong.‘‘

(International Review of Mission, October 1914, pg.697)

(ترجمہ) مشنری سکولوں میں کس حد تک تبلیغ کی جا رہی ہے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آپ دو مسلمان بچوں، جن میں سے ایک مشن سکول میں پڑھتا ہے اور دوسرا مسلمان سکول میں، ہمیشہ اس سوال پر جھگڑا کرتے دیکھیں گے کہ کون افضل ہے؟ مسیحؑ یا محمدﷺ؟بہت ممکن ہے کہ دونوں ہی ایک نیک مسلمان کے بیٹے ہوں۔ ایک روز جب میں اپنے گھر میں نیم دراز تھا، میں نے گلی میں ایک لڑکے اور لڑکی کی لڑائی کی آواز سنی۔ لڑکا رو رہا تھا کہ مسیح محمد رسول اللہﷺ سے افضل نہیں ہیں۔ مگر لڑکی نے جواب دیا کہ ہمارے استاد نے بتایا ہے کہ مسیح محمد رسول اللہﷺ سے اور دیگر تمام مخلوقات سے افضل ہیں کیونکہ انہوں نے انسانوں کو گناہوں سے بچایا ہے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو میں نے لڑکی کو سمجھایا کہ اس کا بھائی درست کہہ رہا ہے اور وہ غلطی پر ہے۔

سب سے سخت مقابلہ اسلام کے ساتھ

انیسویں صدی میں جب مشنری تمام مادی وسائل سے لیس ہو کر حملہ آور ہوئے تو ان کے نزدیک ان کا سب سے سخت مقابلہ کس مذہب سے تھا؟ذیل میں اس زمانہ کے پادریوں کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں۔

1838-39ء میں تقریبا ً13مشنریوں کے ایک وفد نے بعض ممالک کا دورہ کیا۔ انہوں نے تفصیلی رپورٹ ارسال کی جو امریکن بورڈ اور کمشنرز کے اجلاس میں پیش ہوئی۔ انہوں نے یہ بیان کیا کہ کسی بھی ملک میں انجیل کی تبلیغ و تعارف کے راستے میں سب سے بڑی روک اسلام ہے۔ متعلقہ الفاظ یوں ہیں :

’’Mohammedism, which is doubtless the greatest barrier to the introduction of the gospel in any country‘‘

(REPORT OF THE AMERICAN BOARD OF COMMISSIONERS FOR PRESENTED AT THE THIRTIETH ANNUAL MEETING, HELD IN THE CITY OF TROY, NEW- YORK, SEPT. 11, 12, & 13, 1839. pg.125)

اسی رپورٹ میں ایک نہایت دلچسپ امر ہے جو پادریوں کی اپنی روحانی حالت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ چنانچہ ایک مشنری لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو جب تک ہم ایک ماہانہ وظیفہ نہ دیں، ان میں سے کسی کو عیسائی بنانا مشکل ہے۔ متعلقہ الفاظ یوں ہیں :

’’unless we give a monthly stipend, we shall never make a convert from their ranks.‘‘

(REPORT OF THE AMERICAN BOARD OF COMMISSIONERS FOR PRESENTED AT THE THIRTIETH ANNUAL MEETING, HELD IN THE CITY OF TROY, NEW- YORK, SEPT. 11, 12, & 13, 1839. pg.108)

مشہور پادری Gairdner اس حقیقت کو یوں تسلیم کرتے ہیں :

’’It was in Islam that Eastern theism has shown its mightiest power‘‘

(Echoes from Edinburgh 1910, pg. 147)

(ترجمہ) مشرقی مذاہب نے اپنی عظیم طاقت اسلام کی صورت میں دکھائی ہے۔

اسلام کے خلاف پادریوں کا حربہ

مشنریوں نے تسلیم کیا کہ عیسائیت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلام ہے۔ اس کے خلاف انہوں نے کیا حربہ استعمال کیا؟مشہور مشنری Jeffery Arthur اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

’’We need no laboured arguments. Islam has a Prophet. Yes, but he is dead…But Jesus lives.‘‘

(International Review of Mission, April 1924 pg.188)

(ترجمہ) (اسلام کے خلاف) ہمیں دلائل تراشنے کی زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام کا ایک نبی ہے۔ ہاں مگر وہ فوت ہو چکا ہے …مگر مسیح زندہ ہے۔

مشہور پادری وھیری لکھتے ہیں :

’’It is for us to set our feet solidly upon the infallible truth of God‘s word and in the spirit of love and purity, to patiently and persistently hold up before these Moslems the person and teachings of the Lord Jesus, who is to every true Mohammedan a holy prophet, who is also a prophet ascended and glorified in heaven,who is destined to return to the earth again to restore the true faith of God among men. He is the hope of Israel, and He is also the hope of Ishmael.‘‘

(Islam and Christianity in India and far east pg. 125)

(ترجمہ) ہمیں چاہیے کہ ہم صبر اور تسلسل سے مسلمانوں کے سامنے یسوع مسیح کی شخصیت اور تعلیمات پیش کریں جو ہر سچے مسلمان کی نظر میں مقدس نبی ہیں اور ایسے نبی ہیں جو آسمان پر مرفوع ہوئے اور جن کا زمین پر واپس آکر لوگوں میں سچا ایمان تازہ کرنا مقدر ہے۔ وہ اسرائیل کی بھی امید ہے اور اسماعیل کی بھی امید ہے۔

ہندوستان کے روحانی معرکہ کا مرکز

انیسویں صدی میں اسلام اور عیسائیت کا سب سے بڑا معرکہ ہندوستان میں ہونے والا تھا۔ ہندوستان میں سے بھی پنجاب مشنری کاموں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ اس کی کیا وجوہات تھیں۔ ذیل میں پادری صاحبان کی اپنی آراء پیش کی جاتی ہیں۔

1832ء میں امریکی مشنری بورڈ اعلان کرتا ہے:

’’India is assailed by the soldiers of the cross in not less than a hundred and fifty points along her coasts and in her great and populous interior‘‘

(Conclusion of the Twenty third Annual Report of the American Board of Commissioners for Foreign Missions pg.11)

(ترجمہ) ہندوستان کے کم از کم 150ساحلی علاقوں اور گنجان آباد اندرون میں صلیب کے سپاہیوں نے ہلہ بول دیا ہے۔

ایسا کیوں ہوا؟ہندوستان ہی کیوں؟پادری سمجھے تھے کہ عیسائیت کے سب سے بڑے معرکہ کا مرکز ہندوستان ہو گا۔ اس کی ایک مثال ہمیں Levi Spaulding(جو ایک لمبا عرصہ ہندوستان اور سیلون میں مشنری رہے)کے الفاظ میں ملتی ہے۔ 1854ء میں لکھتے ہیں :

’’My own private impressions are, that there is to be a great and hard warfare in India‘‘

(FORTY-FIFTH ANNUAL REPORT OF THE AMERICAN BOARD OF COMMISSIONERS FOR FOREIGN MISSIONS, 1854.pg.134)

(ترجمہ) میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک زبردست (روحانی ) جنگ ہونے والی ہے۔

مشہور مشنری رابرٹ کلارک 1887ء میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وسطی ایشیا میں مشنری کام کے لیے پنجاب ایک قدرتی مرکز کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ پنجاب ہندومت اور وسطی ایشیا کے اسلام کے درمیان ایک سرحدی صوبہ ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’We remember that the Punjab is the border Province between the Mahomedanism of Central Asia and the Hinduaism of India.The Punjab is the natural base of all Missionary work for Central Asia‘‘

(Review of some of the chief events in the Punjab and Sindh missions of the Church Missionary Society and the Church of England Zenana Society during the year 1887 p.39)

پروفیسر سراج الدین جو خود عیسائی مشنریوں کی یلغار سے متاثر ہو کر عیسائی ہو گئے تھے اپنے ایک مضمون میں مشنری مہمات کے لیے ہندوستان اور پنجاب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’The British Empire has been called the greatest Mohammedan power in the world and India is by far the most Mohammedan of British possessions. In India, Bengal has a larger number of Mohammedans than the Panjab, but the Bengal Mohammedans are outnumbered by the Hindus, and in point of influence and education they are far behind. The Panjab is therefore the most Mohammedan of India‘s provinces; the bulk of the Panjab population being Mohammedans, and in point of influence, as well as on account of the proximity of the Mohammedan countries of Afghanistan, Baluchistan and Persia, the Panjab holds a unique position in India as the stronghold of Indian Mohammedanism. It is also noteworthy that the largest number of Christian converts from Islam in India are from the Panjab.‘‘

(Vital Forces of Christianity and Islam pg.159 to 160)

(ترجمہ) سلطنت برطانیہ دنیا میں سب سے بڑی اسلامی طاقت کہلاتی ہے(اکثر اسلامی ممالک اس کے قبضہ میں ہیں )اور ہندوستان (مسلم آبادی کے لحاظ سے) سب سے بڑا ملک ہے جو برطانیہ کے قبضہ میں ہے۔ ہندوستان میں بنگال اگرچہ مسلم آبادی کے لحاظ سے پنجاب سے زیادہ ہے مگر بنگال میں ہندو آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے نیز اثر اور تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ لہٰذا پنجاب ہی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ہندوستانی صوبہ ہے۔ پنجاب کی اکثر آبادی مسلمان ہے پنجاب کی مسلم طاقت کے مرکز ہونے کےلحاظ سے خاص اہمیت ہے کیونکہ وہاں کے مسلمان صاحب اثر ورسوخ ہیں نیز مسلم ممالک افغانستان، بلوچستان اور ایران پنجاب کی ہمسائیگی میں ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذ کرہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلمان جو عیسائی ہوئے وہ پنجاب سے ہی ہیں۔

پادری وھیری بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ مشنریوں اور عیسائیت قبول کرنے والوں کا مسلم آبادی پر خاطر خواہ اثر ہے جس نے مسلمانوں کو دفاع پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :

’’The influence of the missionaries and their converts in India upon the Moslem population has been sufficient to place the Moslem upon the defensive.‘‘

(Islam and Christianity in India and far east pg. 142 to 143)

انگریز عملداری میں آنے کے بعد، حکومتی اہلکاروں کی آشیرباد سے پنجاب میں خاص طور پر تبلیغ کا جال پھیلایا گیا۔ Stock Eugene اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’The most important missions to Mohammedans have been in the Punjab. To that newly conquered province (1849), missionaries were invited by great Christian soldiers and statesmen to whom its administration was committed, Henry and John Lawrence and their comrades‘‘

(The Muslim World, April 1912, pg.129)

(ترجمہ) مسلمانوں کی طرف سب سے اہم مشن پنجاب کا مشن رہا ہے۔ (1849ء میں ) اس نئے مفتوح صوبہ میں عظیم عیسائی سپاہی سیاست دان ہنری، جان لاسن اور ان کے ساتھیوں نے، جنہیں اس صوبہ کی انتظامی ذمہ داری سونپی گئی تھی، مشنریوں کو پنجاب مدعو کیا۔

اسی طرح موجودہ زمانہ کی مشہور محققہ Avril A Powell ہندوستان کے شمال مغرب میں عیسائی مشنری کے اثر و رسوخ کا ذکر کرتی ہیں۔ ان کےمطابق ہندوستان کے شمال مغربی صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی صرف 14 فیصد ہے (پنجاب کے مقابلہ میں جہاں 50 فیصد سے زائد ہے)، اس علاقہ میں Presbyterianمشن کےذریعہ عیسائی ہونے والوں کی ایک تہائی مسلمان ہے۔ اگرچہ دیگر انگلیکن مشن کے اعداد وشمار ہمارے پاس موجود نہیں، مگر منقولی ثبوت یہ بتائے گا کہ ان مشن میں بھی مسلمانوں کے عیسائی ہونے کا تناسب، خاص طور پر شرفاء میں، اتنا ہی زیادہ ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :

’’For although Muslims comprised only about fourteen per cent of the population of the NWP, (compared with over fifty per cent in the Punjab) the converts from Islam within the Presbyterian missions in the whole region comprised more than a third of the total. While similar statistics for the Anglican missions are not available, anecdotal evidence would suggest that the Muslim proportion, especially among the elites, was probably at least as high for these missions too‘‘

(Religious Conversion Movements in South Asia : continuities and change 1800 to1900 pg.17 to18)

نیز وہ ایک اور تلخ حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ 19ویں صدی کے وسط میں شمال مغربی ہندوستان میں مذہبی شرفاء کا عیسائی ہونا خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :

’’It was amongst the religious elite groups that conversion was significant in this particular period‘‘

(Religious Conversion Movements in South Asia : continuities and change 1800 to 1900 pg.43)

پادری وھیری مسلمانوں میں عیسائیت کے نفوذ کی ایک بڑی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ شمالی ہند میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے مقامی لوگوں میں سے کم از کم 200ایسے ہیں جو ایک زمانہ میں خود مسلمان تھے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :

’’But perhaps the fact which tells most clearly the story of the advance of Christianity among Moslems in India, is this, that among the native pastors and Christian preachers and teachers in North India, there are at least two hundred who were once followers of Islam.‘‘

(Islam and Christianity in India and Far East pg. 146)

پادری زویمر کے مطابق ہندوستان میں سب سے بڑا مشنری مسئلہ اسلام ہے ان کے مطابق خدا تعالیٰ نے اس کو ہمارے لیے ہی مقدر کیا تھا کیونکہ وہ مشنری تحریک کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کو جانتا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :

’’In India the greatest missionary problem is Mohammedanism….Perhaps God has reserved this tremendous problem for us because he knows the rising strength of the present missionary movement.‘‘

(Mercy and Truth April,1909 No.148 pg.115)

مندرجہ بالا تمام حوالہ جات سے 19ویں صدی کا منظرنامہ ہمارے سامنے کچھ یوں آتا ہے:

1…عیسائی مشنری ساری دنیا کو عیسائی بنانے کا خواب لے کر پر عزم انداز میں نکلتے ہیں۔

2…وہ تجارت کے لبادہ میں اپنے مذہبی مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔

3….وہ مادی وسائل سے مالامال ہیں اور انہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔

4…روحانیت، تعلق باللہ اور نشانات سے عاری ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔

5…مشن سکول اور میڈیکل مشن کے ذریعہ پس ماندہ عوام کی بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے کے بدلے انہیں عیسائی بناتے ہیں۔

6…اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے سخت مقابلہ ان کا اسلام کے ساتھ ہے۔

7…اسلام سے مقابلہ کے لیے حیات مسیحؑ کے عقیدہ کو زور و شور سے پیش کرتے ہیں۔

8…ہندوستان کو اسلام کے ساتھ روحانی جنگ کا میدان قرار دیتے ہیں۔

9…ہندوستان میں خاص کر پنجاب کو وہ اپنی تبلیغ کا قدرتی مرکز قرار دیتے ہیں۔

10…ہندوستان میں اسلام کے خلاف انہیں سب سے زیادہ کامیابیاں پنجاب میں ہوئی ہیں۔

11…اسلام کے شریف گھرانوں کے افراد ان کے دجل میں آ کر نہ صرف یہ کہ اسلام کو چھوڑ دیتے ہیں بلکہ عیسائیت کی تبلیغ کے لیے خود کو وقف کر دیتے ہیں۔

ہندوستان میں نزول مسیحؑ

اس سارے تاریخی منظر نامہ کو مد نظر رکھیں تو نزولِ مسیح کا مقام ہندوستان بنتا ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ انیسویں صدی میں ہندوستان میں تشریف لائے۔ آپؑ فرماتے ہیں :

’’انوارِ مسیحیہ کے ظہور کا مشرق بھی ہندوستان ہی ہے کیونکہ جہاں بیمار ہو وہیں طبیب آنا چاہئے۔ ‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 167)

نیز اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسیح ایسے دلائل کے ساتھ آئے جس سے عیسائیوں کا حیاتِ مسیح کا حربہ بے اثر اور بے وقت ہو جائے۔ چنانچہ آپؑ نے اعلان فرمایا کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ

’’اے میرے دوستو! اب میری ایک آخر ی وصیت کو سنو اور ایک راز کی بات کہتا ہوں اس کو خوب یاد رکھو کہ تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکا ہے۔ یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف لپیٹ دوگے۔ تمہیں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے لمبے لمبے جھگڑوں میں اپنے اوقاتِ عزیز کو ضائع کرو۔ صرف مسیح ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پُر زور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کر دو۔ جب تم مسیح کا مردوں میں داخل ہونا ثابت کردو گے اور عیسائیوں کے دلوں میں نقش کردو گے تو اُس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا۔ یقینا ًسمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو اُن کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری تمام بحثیں اُن کے ساتھ عبث ہیں۔ اُنکے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے۔ اس ستون کو پاش پاش کرو پھر نظر اُٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 402)

عیسائی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر فوت ہوئے پھر 3 دن بعد زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے۔ مسیحؑ کا مرنے کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر جانا عیسائی عقیدہ کی اساس ہے۔ اس کا انکار ایک ایسی حقیقت ہے جس سے عیسائیت کا تمام تانا بانا بکھر جاتا ہے۔ مسیح کے جسمانی رفع کو ان کی الوہیت کی دلیل ٹھہرایا جاتا ہے۔ مثلاً پادریJohn Shawلکھتے ہیں :

’’Through the Resurrection the Divinity of Jesus was established‘‘

(Shaw,The Resurrection of Christ pg.106)

اسی طرح ایک پادری کہتے ہیں کہ اگرچہ مسیح کی بن باپ پیدائش، کفارہ بھی عیسائیت کے بنیادی عقیدوں میں سے ہیں مگر یسوع کا زندہ ہو کر آسمان پر جانا سب سے اہم عقیدہ ہے۔ کیونکہ اگر یسوع آسمان پر نہیں گئے تو پھر انسانیت کے لیے کوئی امید نہیں۔ اصل الفاظ یہ ہیں :

’’There are three basic doctrines on which the house of Christianity rests. These are the virgin birth of Jesus, the substitutionary atonement of our sins by Jesus on the cross and the bodily resurrection of Jesus from the grave. Each of these teachings are important but the resurrection is the most important. If Jesus had not risen from the grave, there would still be no hope for mankind.‘‘

(The Baptist Record March 30, 1995 )

موجودہ زمانہ کے مشہور عیسائی محقق Michael Baumanلکھتے ہیں :

’’If Jesus had not risen, then everything the Creed asserts after his descent into hell would have been ignored. Without the Resurrection, Christianity is no more.‘‘

(Bauman, The Creed: What you believe and Why? Pg.59)

(ترجمہ)اگر عیسیٰؑ زندہ ہو کر آسمان میں نہیں گئے تو اس کے بعد بیان کردہ عقیدہ کہ وہ (معاذ اللہ تین دن کفارہ کے لیے) جہنم میں گئے نظر انداز کر دیا جائے گا۔ (یسوع مسیح ) کے جی اٹھنے کے بغیر عیسائیت کچھ نہیں۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حیات مسیح کے عقیدہ کی اہمیت پولوسی عیسائیت میں شروع سے ہی مسلّم ہے۔ چنانچہ پولوس اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’او ر اگر مسیح نہیں جی اٹھا تو ہماری منادی بھی بے فائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بے فائدہ‘‘

(1 کرنتھیوں باب 15، آیت 14)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’اوریہ بھی پکّی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسٰی کے مرنے میں ہے۔ اگر اس مسئلہ پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہی مسئلہ ہے جو عیسائی مذہب کا خاتمہ کر دینے والا ہے۔ یہ عیسائی مذہب کا بہت بڑا شہتیر ہے اور اسی پر اس مذہب کی عمارت قائم کی گئی ہے اسے گرنے دو۔ ‘‘

(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ290)

دوسری اہم بات جس کو گذشتہ حوالوں میں پادریوں نے خود تسلیم کیا کہ ان کے معجزات نہیں بلکہ صرف بائبل کی کہانیاں ہیں۔ اس کے مقابلہ میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے نہایت آسان فہم دلائل دیے کہ وہ مذہب جو تازہ بہ تازہ نشان نہیں دکھاتا وہ مذہب سچا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :

’’طالب حق کو اس اصل مقصود کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مذہب وہی سچا ہے جو یقین کامل کے ذریعہ سے خدا کو دکھلا سکتا ہے۔ اور درجہ مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ تک پہنچا سکتا ہے اور خدا کی ہمکلامی کا شرف بخش سکتا ہے اور اس طرح اپنی رُوحانی قوت اور رُوح پرور خاصیت سے دلوں کوگناہ کی تاریکی سے چھڑا سکتا ہے اور اس کے سوا سب دھوکہ دینے والے ہیں۔ ‘‘

(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ162)

عیسائیت کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں :

’’ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مُردہ مذہب ہے۔ ہم ایسی کتاب سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو مُردہ کتاب ہے۔ اور ہمیں ایسا خدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مُردہ خدا ہے۔ ‘‘

(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ353)

اس کے مقابلہ میں اسلام زندہ مذہب ہے جو خدا کی خالص توحید کی تعلیم دیتا ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے انسان لقا کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :

’’میں بار بار کہتا ہوں۔ اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے۔ اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مُردے ان کے خدا مُردے اور خود وہ تمام پیرو مُردے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ہرگز ممکن نہیں۔ اے نادانوں ! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟ اورمُردار کھانے میں کیا لذّت؟!!! آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے۔ اور کس قوم کے ساتھ ہے۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے۔ اسلام اِس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہاہے۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہوگیا۔ آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے۔ ‘‘

(انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 345تا346)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button