کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام
برکاتِ تقویٰ
’’پس ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے تقویٰ وطہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیارقرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کرکے اس کے کاموں کا خود متکفل ہوجاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا
وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطلاق:3۔4)
جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لیے راستہ مَخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لیے ایسے روزی کے سامان پیدا کردیتا ہے کہ اس کے علم وگمان میں نہ ہوں، یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکارضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔مثلاًایک دوکانداریہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا،اس لیے وہ دروغ گوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لیے وہ مجبوری ظاہر کرتاہے لیکن یہ امرہرگزسچ نہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہوجاتا اور اسے ایسے موقع سے بچالیتاہے جوخلاف حق پر مجبورکرنے والے ہوں۔ یاد رکھوجب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا توخدانے اسے چھوڑدیا۔جب رحمان نے چھوڑ دیا توضرورشیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔ یہ نہ سمجھوکہ اللہ تعالیٰ کمزورہے۔ وہ بڑی طاقت والی ذات ہے۔ جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کروگے وہ ضرور تمہاری مددکرے گا۔
وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق :4)
لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے وہ اہل دین تھے۔ ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لیے تھیں اور ان کے دنیوی امورحوالہ بخدا تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ غرض برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مَخلصی بخشتا ہے جو دینی امور کے حارج ہوں۔
متقی کے لیے روحانی رزق
ایسا ہی اللہ تعالیٰ متقی کو خاص طور پر رزق دیتاہے۔ یہاں میں معارف کے رزق کا ذکر کروںگا۔آنحضرتؐ کو باوجود اُمّی ہونےکے تمام جہان کا مقابلہ کرنا تھا جس میں اہل کتاب ، فلاسفر، اعلیٰ درجہ کے علمی مذاق والے لوگ اورعالم فاضل شامل تھے لیکن آپ کو روحانی رزق اس قدرملا کہ آپؐ سب پر غالب آئے اور ان سب کی غلطیاں نکالیں۔
یہ روحانی رزق تھاکہ جس کی نظیر نہیں۔ متقی کی شان میں دوسری جگہ یہ بھی آیا ہے۔
اِنْ اَوْلِيَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ (الانفال:35)
اللہ کے ولی وہ ہیں جو متقی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے دوست۔ پس یہ کیسی نعمت ہے کہ تھوڑی سی تکلیف سے خدا کا مقرب کہلائے۔ آج کل زمانہ کس قدرپست ہمت ہے۔ اگر کوئی حاکم یا افسر کسی کو یہ کہہ دے کہ تو میرا دوست ہے یا اس کو کرسی دے اوراس کی عزت کرے تو وہ شیخی کرتا ہے۔ فخرکرتا پھرتاہے لیکن اس انسان کا کس قدرافضل رتبہ ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ اپنا ولی یادوست کہہ کر پکارے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم ؐ کی زبان سے یہ وعدہ فرمایاہے جیسے کہ ایک حدیث بخاری میں وارد ہے
لَایَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّـہٗ فَـاِذَا اَحْـبَبْتُہٗ کُنْتُ سَـمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَـرَہُ الَّذِیْ یُبْصِـرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِـہَا وَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَـمْشِیْ بِـھَا وَاِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّـہٗ۔
(بخاری، کتاب الرقاق ،باب التواضع)
یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میراولی ایسا قرب میرے ساتھ بذریعہ نوافل کے پیدا کرلیتاہے۔ الـخ‘‘
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 10تا12۔ ایڈیشن 2016ء)
٭…٭…٭