دعا کرنے اور برکات حاصل کرنے کا اصل طریق
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:’’کثرت سے اللہ کو یاد کرنا اور مجھ پر درود بھیجنا تنگی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے۔‘‘
اب یہ جو رزق کی تنگی ہے۔ حالات کی تنگی ہے۔ آجکل مسلمانوں پر بھی جو تنگیاں وارد ہو رہی ہیں۔ مغرب نے اپنے لئے اور اصول رکھے ہوئے ہیں اور ان مسلمان ممالک کے لئے اور اصول رکھے ہوئے ہیں، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا جائے اور ان برکات سے فیضیاب ہوا جائے جو درود پڑھنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وابستہ کر رکھی ہیں۔
ایک روایت ہے۔ (تھوڑا سا حصہ پہلے بھی بیان کیا ہے) اس کی تفصیل ایک اور جگہ بھی آتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’قیامت کے روز اس دن کے ہر ایک ہولناک مقام میں تم میں سے سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ شخص ہو گا جس نے دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجا ہو گا۔‘‘
(تفسیردرّ منثور بحوالہ شعب الایمان للبیہقی و تاریخ ابن عساکر)
دیکھیں اب کون نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ پائے۔ اور ہر خطرناک جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ کر نکلتا چلا جائے۔ یقیناً ہر کوئی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنا چاہتا ہے تو پھر یہ اس سے بچنے کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں رہنے کا طریق ہے جو آپؐ نے ہمیں بتایاہے۔ اس لئے ہر وقت مومن کو درود بھیجنے کی طرف توجہ رہنی چاہئے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے درود بھیجنا چاہئے۔
ایک روایت میںآتا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص ایک دن میں ہزار بار مجھ پر درود بھیجے گا وہ اسی زندگی میں جنت کے اندر اپنا مقام دیکھ لے گا۔
(جلاء الافہام۔ بحوالہ ابن الغازی و کتاب الصلوٰۃ علی النبی لأبی عبداللّٰہ المقدسی )
تو دُرود کی برکت سے جو تبدیلیاں پیدا ہوں گی وہ اس دنیا کی زندگی کو بھی جنت بنانے والی ہوں گی۔ اور یہی عمل اور نیکیاں اور پاک تبدیلیاں ہیں جو جہاں اس دنیا میں جنت بنا رہی ہوں گی، اگلے جہان میں بھی جنت کی وارث بنا رہی ہوں گی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’جب تم مؤذن کواذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو۔ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا۔ پھر فرمایا میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو یہ جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندے کو ملے گا اورمَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ مَیں ہی ہوں گا۔ جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی۔‘‘
(صحیح مسلم۔کتاب الصلوٰۃ باب القول مثل قول المؤذّن لمن سمعہ ثم یصلی علی النبیﷺ)
پس یہ جو اذان کے بعد کی دعا ہے اس کو ہر احمدی کو یاد کرنا چاہئے اور پڑھنا چاہئے۔
دُرود بھیجنے کی اہمیت اور درود کے فوائدتوواضح ہو گئے لیکن بعض لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کس طرح درود بھیجیں۔ مختلف لوگوں نے مختلف درود بنائے ہوئے ہیں ۔ لیکن اس بارے میں ایک حدیث ہے۔
حضرت کعب بن عجرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کی کہ یارسول اللہ! آپ پر سلام بھیجنے کا تو ہمیں علم ہے مگر آپ پر درُود کیسے بھیجیں ۔فرمایا کہ یہ کہو کہ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ وَ بارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔
(ترمذی ۔ابواب الوتر۔ باب ما جاء فی صفۃ الصلوٰۃ علی النبی ﷺ)
تو یہ ہے۔ جو نماز کا درود ہے وہ ذرا اور تفصیل میں ہے۔
پھر اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی کو خط میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’ نماز تہجد اور اورادِ معمولی میں آپ مشغول رہیں۔تہجد میں بہت سے برکات ہیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں۔ بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا۔
وقال اللہ تعالیٰ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:70)
درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
فرمایا کہ’’جو الفاظ ایک پرہیزگار کے منہ سے نکلتے ہیں اُن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کرلینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالا رہے اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔‘‘
(مختلف قسمیں ہیں درود شریف کی ان میں سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ )’’یہی اس عاجز کا وِرد ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رِقّت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہوجائے اور سینے میں انشراح اورذوق پایا جائے‘‘۔
(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ17-18)
تو یہ وہی درود ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں، جیساکہ میں نے کہا، اور زیادہ تر اسی کا ورد کرنا چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تعداد نہیں دیکھنی چاہئے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جو ایک ہزار مرتبہ کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ کرتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بعض لوگوں کو تعداد بتائی۔ کسی کو سات سو دفعہ روزانہ پڑھنا یا گیارہ سو دفعہ پڑھنا بتایا۔ تو یہ حکم ہرشخص کے اپنے حالات اور معیارکے مطابق ہے، بدلتا رہتا ہے۔ بہرحال یہ درود شریف ہمیں پڑھنا چاہئے اس لئے مَیں نے جوبلی کی دعائوں میں بھی ایک تو وہ حضرت مسیح موعودؑ کی الہامی دعاہے
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔
اس کے علاوہ مَیں نے کہا تھاکہ درود شریف بھی پورا پڑھا جائے تو اس لئے کہا تھا کہ اصل درود شریف جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اس کو ہمیں اپنی دعائوں میں ضرور شامل رکھنا چاہئے۔ لیکن وہی بات جس طرح حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ اتنا ڈوب کر پڑھیں کہ ایک خاص کیفیت پیدا ہو جائے اور جب اس طرح ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن رہے ہوں گے۔
(باقی آئندہ)