متفرق مضامین

تحریک وقف نَو

(محمد سلطان ظفر۔ کینیڈا)

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ۔

(آلِ عمران :93)

تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

اسلام کا آغاز، مسلمانوں کی اعلیٰ ترین قربانیوں سے ہوا اور ان تمام قربانیوں کی اعلیٰ و ارفع مثال ہمارے پیارے آقا و مولا خاتم النبیین حضرت محمدﷺ ہیں، جنہوں نے دَورِ نبوت میں میدے کی روٹی تو کُجا چَھنے ہوئے آٹے کی روٹی بھی کبھی نہ کھائی اور ہمیشہ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرتے رہےاور آپﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے، آپﷺ کے صحابہؓ بھی اپنے جان و مال اللہ تعالیٰ کے حضور بخوشی پیش کرتے رہے۔

آج کے دَور میں قربانی کا یہ جذبہ حقیقی رنگ میں صرف جماعت احمدیہ ہی اپنائے ہوئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آپؑ کے صحابہؓ، خلفائے احمدیت اور ان کے غلاموں کی زندگیاں عظیم الشان قربانیوں کا مرقع ہیں جن کی وجہ سے آج دنیاکے کروڑوں نفوس حقیقی اسلام کا پھل کھارہے ہیں۔

مقصد جتنا اعلیٰ اور عظیم ہو اس کے لیے محنت اور قربانی بھی اسی قدر زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام احمدیت کے لیے جو ترقیات مقدر کی ہیں، اُن کو حاصل کرنے کے لیے ہماری قربانیوں کا معیار بھی بلندپایہ ہونا ضروری ہے۔ اسی ضرورت کےپیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 3؍اپریل 1987ءکو ایک عظیم الشان تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نام تحریکِ وقف ِنو ہے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک پیش کرنے سے پہلے انتہائی عارفانہ اور ایمان افروز انداز میں رسول کریم حضرت محمدﷺ کی پاک سیرت کے اس پہلو سے روشناس کروایا جو آپﷺ کی عظیم قربانیوں سے تعلق رکھتا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنا سکھلاتا ہے۔

تحریک ِ وقف نو کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ، تحریک وقفِ نو پیش کریں۔ آپؒ نے فرمایا:

’’پس اس رنگ میں آپ اگلی صدی میں خدا کے حضور جو تحفے بھیجنے والے ہیں یا مسلسل بھیج رہے ہیں مسلسل احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار چندے دے رہے ہیں مالی قربانیاں کررہے ہیں، وقت کی قربانیاں کررہے ہیں، واقفین زندگی ہیں، ایک تحفہ جو مستقبل کا تحفہ ہے وہ باقی رہ گیا تھا۔ مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو بتادوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ عہد کرلیں جس کو بھی جو اولاد نصیب ہوگی وہ خدا کے حضور پیش کردے اور اگر آج کچھ مائیں حاملہ ہیں تو وہ بھی اس تحریک میں اگر پہلے شامل نہیں ہوسکی تھیں تو اب ہوجائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍اپریل1987ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد6صفحہ249تا250)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بات بھی بڑے واضح الفاظ میں، مثالوں سے سمجھائی کہ اولاد کی قربانی، درحقیقت مال اور جان کی قربانی سے بڑھ کر ہے۔ آپؒ نے فرمایا:

’’…ہمایوں کے متعلق بھی بابرنے جب یہ سوچا کہ ہمایوں کی زندگی بچانے کے لئے میں خدا کے سامنے اپنی کوئی پیاری چیز پیش کروں تو کہتے ہیں کہ بابر اس کے گرد گھومتا رہا اوراس نے سوچا کہ میں یہ ہیرا جو مجھے بہت پیارا ہے دے دوں۔ پھر خیال آیا کہ ہیرا کیا چیز ہے میں یہ دے دوں۔ پھر خیال آیا کہ پوری سلطنت مجھے بہت پیاری ہے میں پوری سلطنت دے دیتا ہوں اور پھر سوچتا رہا۔ پھر آخر اس کو خیال آیا۔ اس کے نفس نے اس کو بتایا کہ تجھے تو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہے۔ اس وقت اس نے یہ عہد کیا اور خدا سے دعا کی کہ اے خدا واقعی اب میں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پیاری چیز میری جان ہے۔ اے خدا! تو میر ی جان لے لے اور میرے بیٹے کی جان بچالے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ واقعۃً اس وقت کے بعد سے پھر ہمایوں کی صحت سدھرنے لگی اور بابر کی صحت بگڑنے لگی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍اپریل1987ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 6صفحہ245)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک وقف نو کے بارے میں پانچ خطبات جمعہ درج ذیل تاریخوں کو ارشاد فرمائے:

1۔ 3؍اپریل1987ء

2۔ 10؍فروری1989ء

3۔ 17؍فروری1989ء

4۔ 8؍ستمبر1989ء

5۔ یکم دسمبر1989ء

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی تحریکِ وقفِ نو کے بارے میں کئی تفصیلی خطباتِ جمعہ ارشاد فرمائے ہیں جن میں درج ذیل خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

1۔ 27؍جون2003ء

2۔ 18؍جون2004ء

3۔ 22؍اکتوبر2010ء

4۔ 18؍جنوری2013ء

5۔ 28؍اکتوبر2016ء

28؍اکتوبر 2016ءکو مسجد بیت السلام ٹورانٹو کینیڈا میں فرمودہ خطبہ جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس خطبہ جمعہ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے وقف نو کے لیے لائحہ عمل قرار دیا۔

تحریک وقف نو کی روح کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس کے بارے میں جامع ہدایات حاصل کرنے کے لیے مذکورہ بالا خطابات سننا، پڑھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔

ان خطبات میں ہمارے پیارے خلفاء نے واقفینِ نو کی آئندہ زندگی کے ہر پہلو کا کماحقہ احاطہ کیا ہے اور ہمیں ان تمام ہدایات سے نوازا ہے جن کی ہمیں مستقبل قریب و بعید میں ضرورت پیش آسکتی ہے۔ یہ خطبات واقفین و غیر واقفین بچوں کے لیے یکساں مشعل راہ ہیں۔ خلفائےکرام نے اپنے خطبات میں، واقفینِ نو بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت اوران کے مستقبل کے بعض ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جن کو ایک عام انسان معمولی خیال کرتا ہے اور زیادہ توجہ نہیں دیتا۔

اس سے بڑھ کر کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے کہ تمام دنیا کے واقفینِ نو کی تعلیم و تربیت، خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بذاتِ خود فرماتے ہیں۔ گلشن وقف ِنو اور بستانِ وقف ِ نو کے ناموں سے تیار ہونے والے پروگراموں میں حضور بنفسِ نفیس رونق افروز ہوکر بچوں میں علم و معرفت کے خزائن لٹاتے ہیں۔

والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اس تحریک کے وسیع مقاصد کو پیشِ نظر رکھ کر کریں اور اس کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنی تربیت کریں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ والدین خود بروقت نماز ادا نہ کریں اور بچے پنج وقتہ نمازی بن جائیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ والدین خود تلاوت نہ کریں اور صرف ان کے کہنے سے بچے روزانہ تلاوت کرنے والے بن جائیں۔ الاماشاء اللہ بعض مثالیں مل سکتی ہیں جن میں بچے اپنے والدین سے آگے نکل جاتے ہیں مگر عموماً اور کثرت سے یہی تجربہ ہوا ہے کہ بچے ہمیشہ اپنے والدین کے فعل کواپنا کر عمل کرتے ہیں نہ کہ ان کے خالی خولی قول پر۔

والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو پہلے دن سے سمجھائیں کہ بلوغت کی عمر کو پہنچ کر انہوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خلیفۂ وقت کی مرضی سے کرنا ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کو بروقت نہیں سمجھائیں گے کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے تو وہ جب ہائی اسکول اور کالج /یونیورسٹی میں پہنچیں گے تو اپنے مستقبل کے لیے وہ پیشے منتخب کریں گے، جن کی ہوسکتا ہے، جماعت کو ضرورت ہی نہ ہو۔ مثلاً اگر کوئی بچہ پائلٹ بن جاتا ہے تو جماعت کے لیے اس کا یہ پیشہ بے کار ہے۔

مستقبل کے لیے بچوں کو یہ ترغیب دینی چاہیے کہ ان کی پہلی خواہش یہ ہو کہ وہ اسکول ختم کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیں۔ اور اگر جامعہ میں داخلہ نہ مل سکے یا ذہنی رجحان اس طرف نہ ہو تو پھر خلیفۃ المسیح کے ارشاد کردہ پیشوں یعنی

٭…میڈیکل

٭…ٹیچنگ

٭…انجنیئرنگ

٭…کمپیوٹر سائنس

٭…لسانیات

٭…صحافت

میں سے کوئی ایک فیلڈ منتخب کریں۔

اگر چہ مندرجہ بالا تمام شعبوں کے لیے بھی خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عمومی اجازت ہے تاہم مناسب یہی ہے کہ حضورِ انور سے اجازت کے طلبگار ہوں۔ تاہم ان شعبوں کے علاوہ کوئی بھی شعبہ منتخب کرنا چاہیں تو اس کے لیے حضورِ انور سے اجازت لینا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں حضورِ انور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’کچھ شعبہ جات تو میں نے گنوا دئیے ہیں تو یہ ہی نہ سمجھیں کہ ان کے علاوہ کوئی شعبہ اختیار نہیں کیا جا سکتا یا ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ بعض ایسے بچے ہوتے ہیں جو بڑے ٹیلینٹڈ(Talented)ہوتے ہیں، غیر معمولی ذہین ہوتے ہیں ریسرچ کے میدان میں نکلتے ہیں جس میں سائنس کے مضامین بھی آتے ہیں، تاریخ کے مضامین بھی ہیں یا اور مختلف ہیں تو ایسے بچوں کو بھی ہمیں گائیڈ کرنا ہو گا وہی بات ہے جو میں نے کہی کہ ہر ملک میں کونسلنگ یا رہنمائی وغیرہ کے شعبہ کو فعال کرنا ہو گا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے تو اس کمال کے لئے کوشش بھی کرنی ہوگی۔ پھر انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہوں گے۔ بہرحال بچوں کی رہنمائی ضروری ہے چند ایک ایسے ہوتے ہیں جو اپنے شوق کی وجہ سے اپنے راستے کا تعین کر لیتے ہیں، عموماً ایک بہت بڑی اکثریت کو گا ئیڈ کرنا ہو گا اور جیسا کہ میں نے کہا گہرائی میں جا کر سارا جائزہ لینا ہو گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍جون 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍جولائی2004ءصفحہ8)

یہ بھی یاد رہے کہ کوئی بچہ بھی بلوغت کی عمر کو پہنچ کر اچانک ہی مندرجہ بالا شعبوں کو پسند کرنے یا ان میں سے کسی کواختیار کرنے یا حضورِ انور سے ان کو اختیار کرنے کی اجازت میں تردّد نہیں کرے گا جب تک اس کا خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بچپن سے ذاتی تعلق نہ ہو۔ جس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ وقفِ نو بچپن سے ہر ماہ حضورِ انور کو خط لکھنے کی عادت ڈالیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تاکید کرنے اور عادت ڈالنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تاکید زبانی کلامی ذمہ داری پوری کرنے کا نام ہے جبکہ عادٹ ڈالنے کے لیے سب سے پہلے خود کو عادت ڈالنی پڑتی ہے پھر وقت نکال کر، بچے کو پاس بٹھا کر، کاغذ قلم دے کر، خط لکھواکر پوسٹ کرنا اور پھر یہ کام ہر ماہ کرنے سے، عادت پڑتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی کام کی عادت اپنانے کے لیے وہ کام کم از کم چالیس بار تسلسل سے کرنا پڑتا ہے۔ وقفِ نو بچوں کو یہ عادت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے فیصلہ کے لیے خلیفۃ المسیح سے رہنمائی کے طلب گار ہوں۔

والدین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’تو ہم نے واقفین نو بچوں کو پڑھا کے نئے نئے علوم سکھا کے پھر دنیا کے منہ دلائل سے بند کرنے ہیں۔ اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اصل قرآن کا علم اور معرفت دی ہے، اللہ کرے کہ واقفین نو کی یہ جدید فوج اور علوم جدیدہ سے لیس فوج جلد تیار ہو جائے۔ پھر واقفین نو بچوں کی تربیت کے لئے خصوصاً اور تمام احمدی بچوں کی تربیت کے لئے بھی عموماً ہماری خواتین کو بھی اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی وقت دینے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اجلاسوں میں اجتماعوں میں، جلسوں میں آ کر جو سیکھا جاتا ہے وہیں چھوڑ کر چلے نہ جایا کریں، یہ تو بالکل جہالت کی بات ہو گی کہ جو کچھ سیکھا ہے وہ وہیں چھوڑ دیا جائے۔ تو عورتیں اس طرف بہت توجہ دیں اور اپنے بچوں کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دیں۔ کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ جن واقفین نو یا عمومی طور پر بچوں کی مائیں بچوں کی طرف توجہ دیتی ہیں اور خود بھی کچھ دینی علم رکھتی ہیں ان کے بچوں کے جواب اور وقف نو کے بارے میں دلچسپی بھی بالکل مختلف انداز میں ہوتے ہیں اس لئے مائیں اپنے علم کو بھی بڑھائیں اورپھر اس علم سے اپنے بچوں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ باپوں کی ذمہ داریاں ختم ہو گئی ہیں یا اب باپ اس سے بالکل فارغ ہو گئے ہیں یہ خاوندوں کی اور مردوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک تو وہ اپنے عملی نمونے سے تقویٰ اور علم کا ماحول پیدا کریں پھر عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف خود بھی توجہ دیں۔ کیونکہ اگر مردوں کا اپنا ماحول نہیں ہے، گھروں میں وہ پاکیزہ ماحول نہیں ہے، تقویٰ پر چلنے کا ماحول نہیں۔ تو اس کا اثر بہرحال عورتوں پر بھی ہو گا اور بچوں پر بھی ہو گا۔ اگر مرد چاہیں تو پھر عورتوں میں چاہے وہ بڑی عمر کی بھی ہو جائیں تعلیم کی طرف شوق پیدا کر سکتے ہیں کچھ نہ کچھ رغبت دلا سکتے ہیں۔ کم از کم اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں اس لئے جماعت کے ہر طبقے کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مرد بھی عورتیں بھی۔ کیونکہ مردوں کی دلچسپی سے ہی پھر عورتوں کی دلچسپی بھی بڑھے گی اور اگر عورتوں کی ہر قسم کی تعلیم کے بارے میں دلچسپی ہو گی تو پھر بچوں میں بھی دلچسپی بڑھے گی۔ ان کوبھی احساس پیدا ہو گا کہ ہم کچھ مختلف ہیں دوسرے لوگوں سے۔ ہمارے کچھ مقاصد ہیں جو اعلیٰ مقاصد ہیں۔ اور اگر یہ سب کچھ پیدا ہو گا تو تبھی ہم دنیا کی اصلاح کرنے کے دعوے میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ورنہ دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے۔ اگر ہم خود توجہ نہیں کریں گے توہماری اپنی اولادیں بھی ہماری دینی تعلیم سے عاری ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍جون2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل2؍جولائی2004ءصفحہ8تا9)

جیسا کہ شروع میں بیان ہوچکا ہے کہ اپنی اولاد کی قربانی، مالی قربانی اور جانی قربانی سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اور ایک بچہ کی قربانی بھی نسلوں کے سنوارنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ المسیح الاوّل کا واقعہ انتہائی ایمان افروز اور مشعل راہ ہے۔

…ابھی آپ (حضرت حکیم مولوی نورالدین، خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ)ریاست جموں و کشمیر میں تشریف نہیں لے گئے تھے بلکہ بھیرہ ہی میں قیام تھا۔ غالباً 1872ء کی بات ہے کیونکہ روم اور روس میں جنگ ہورہی تھی اورہندوستان میں ہرروز خبریں مشہور ہوا کرتی تھیں کہ آج اس قدر آدمی مارے گئے اور آج اس قدر مارے گئے۔ آپ کا گھر ماشاء اللہ سات بھائیوں اور دوبہنوں سے بھرا ہوا تھا اور سوائے آپ کے سارے ہی شادی شدہ تھے۔ آپ نے اپنی والدہ محترمہ سے کہا کہ اماں جی! دیکھئے ہمارے گھر میں ہرطرح امن و امان ہے اور کوئی فکر نہیں۔ آپ اپنی اولاد میں سے ایک بیٹے کو یعنی مجھ کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردیجئے۔ یہ سُن کر آپ کی والدہ نے فرمایا کہ ’’میرے سامنے بھلا یہ کیسے ہوسکتاہے۔‘‘آپؓ فرماتے ہیں :

’’میں خاموش ہورہا۔ اب سنو! تھوڑے ہی دنوں کے بعد ہمارے بھائی مرنے شروع ہوئے۔ جو مرتا اس کی بیوی جو اس کے ہاتھ آتالے کر گھر سے نکل جاتی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ باقی بھائی قبضہ کرلیں گے اور اسباب میرے قبضہ میں نہ رہے گا۔ رفتہ رفتہ سب مرگئے اور سارا گھر خالی ہوگیا۔ (اس کے بعد) جبکہ میرا تعلق ریاست جموں سے تھا۔ میں ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں اپنے مکان پر آیا۔ وہاں میں اس جگہ جو ہمارے مشترکہ خزانہ کی کوٹھڑی گھر کی عام نشست گاہ کے قریب تھی، دوپہر کے وقت سورہا تھا۔ میری والدہ قریب کے کمرہ میں آئیں۔ انہوں نے اس قدر زور سے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ صبر کے کلمہ کو تو اس قدر بے صبری کے ساتھ نہیں کہناچاہئے۔ پھر میں نے اُن سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام گھر اب ویران اور خالی کیوں پڑا ہے؟ کہا کہ ہاں۔ مجھ کو وہ تیری اس روز کی بات خوب یاد ہے۔ اسی کا یہ اثر ہے کہ مجھ کو ہر ایک بیٹے کی موت کے وقت وہ بات یاد آتی رہی ہے۔ پھر میں نے کہا کہ اَور بھی کچھ سمجھ میں آیا؟ کہا کہ ہاں میں جانتی ہوں کہ میرا دم تیرے سامنے نہ نکلے گا بلکہ میں اس وقت مروں گی جبکہ تو یہاں نہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور قاضی امیر حسینؓ نے جواس وقت موجود تھے، کفن دفن کا کام انجام دیا۔ میں اس وقت جموں میں تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے چاہا تھا کہ نورالدین کفن دفن میں شریک ہو اور ہم اِس کے سامنے فوت ہوں گے۔‘‘

(حیاتِ نور ازحضرت عبدالقادر(سابق سوداگرمل) صفحہ99تا100)

مندرجہ بالا واقعہ تحریر کرنے کے بعد کتاب ’حیاتِ نور‘کے مؤلف حضرت عبدالقادر کتاب کے اسی صفحہ پر اپنے نوٹ میں لکھتے ہیں :

’’اس واقعہ سے جماعت کے دوست اگر چاہیں تو بہت فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔ اولاد بے شک ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے لیکن اولاد کی زندگی اور موت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ پھر کون جانتا ہے کہ اس کی اولاد نیک ہوکر اس کے نام کو روشن کرے گی۔ یا بد ہوکر اس کے خاندان کو بدنام کردے گی۔ اس لئے وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کی تعلیم کے مطابق ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو بھی عطایات الٰہیہ میں سے سمجھ کر اپنے کسی نہ کسی بچہ کو فی سبیل اللہ وقف کرے اور پھر دیکھے کہ وہ کس قدر انعامات الٰہیہ میں سے حصہ پاتا ہے۔ دیکھ لیجئے، حضرت خلیفۃ المسیحؓ نے اپنے آپ کو وقف کرکے جناب الٰہی سے کس قدر انعامات پائے۔ اگر آپ کی والدہ ماجدہ بھی خوشی کے ساتھ آپ کو وقف کرنے کے لئے تیارہوجاتیں تو ہوسکتا تھا کہ اس قربانی کے بدلہ میں اپنی دوسری اولاد کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے سرسبز اور بابرگ وبار ہوتے دیکھتیں۔

اس واقعہ میں ان بچوں کے لئے بھی ایک قیمتی سبق موجود ہے جو کہا کرتے ہیں کہ ہم تو زندگی وقف کرنے کے لئے تیارہیں۔ لیکن والدین اجازت نہیں دیتے۔ وہ اگر چاہیں تو حضرت مولوی صاحبؓ کی زندگی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ پھر یہ واقعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ جو لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنے بچہ کو وقف کردیں تو وہ کھائے گا کہاں سے اور پہنے گا کہاں سے؟ اس کے دوسرے بھائی تو دنیا میں عزت و آرام کی زندگی بسر کریں گے لیکن یہ واقف زندگی ان کو دیکھ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتا رہے گا۔ لیکن ان کا یہ خدشہ بالکل موہوم ہے۔ حضرتؓ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ شاہد ہے کہ وہ جواپنے آپ کو کامل طور پر خدا کے سپرد کردیتے ہیں۔ خداتعالیٰ خود ان کا متکفل ہوجاتاہے۔‘‘

تحریکِ وقفِ نو کوئی عام دنیاوی تحریک نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی عظیم تحریک ہے جو خد ا کے حکم سے شروع کی گئی ہے اور جس کی نگرانی خلیفۃ المسیح کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان ننھے ننھے پودوں کی حفاظت اور تربیت کے دوران ہمیں اپنے عمل، صبر اور دعاؤں سے اپنی قربانیوں کےمعیار اتنے اعلیٰ کرنے پڑیں گے، جو مالی قربانیوں کے معیار سے بھی بڑھ کر ہو اور جان کی قربانیوں کے معیار سے بھی بڑھ کر ہو۔ اسی صورت میں ہم یہ ثابت کرسکیں گے کہ بچوں کی قربانی جان و مال کی قربانی سے بڑھ کر ہے۔

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ1987ءمیں پیدا ہونے والے واقفینِ نو، ہماری آنکھوں کے سامنے جوان ہورہے ہیں اورعملی زندگیوں میں قدم رکھ چکے ہیں۔ یقینی طور پر یہ بھی احمدیت کی سچائی اور الٰہی قدرت کا ایک نشان ہے کہ آج سے 34سال قبل، جب اسلام احمدیت قبول کرنے والوں کی تعداد اوسطاً ایک لاکھ سالانہ بھی نہ تھی تو اللہ تعالیٰ نے آنے والےکروڑوں نئے احمدیوں کو سنبھالنے کے لیے ایسا بیج بویا جس کی فصل عین ضرورت کے وقت تیار ہو۔

کہاوت ہے کہ بچوں کی تربیت ان کی پیدائش سے بھی اٹھارہ، بیس سال پہلے شروع ہوجاتی ہے۔ یعنی، اگر ماں کی تربیت اعلیٰ ہوگی تو اس کے بچوں کی تربیت خودبخود ہوجائے گی۔ آج تیس ہزار سے زائد بچیاں اس بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ ان بچیوں کی تعلیم و تربیت جس اعلیٰ معیار سے ہورہی ہے اس کی ادنیٰ مثال بھی پوری دنیا میں نظر نہیں آسکتی۔ اور صرف چند سالوں کے بعد جب ان کی نسل دینی و دنیاوی علوم سے مکمل طور پر لیس ہو کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کا جھنڈاپوری دنیا میں گاڑنے کے لیے نکلے گی تو کونسی طاقت جو اسلام کی فتح میں رکاوٹ بن سکےگی؟

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسلام احمدیت میں بچیوں کی تربیت اور تعلیم ایک نہایت اہم مقام رکھتی ہے۔ اس حوالے سے ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’…تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں۔ اور جب مرد فوت ہوگئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچاسکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طور پر دین کا علم پیدا کرنے اور اگلی نسلوں میں قائم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍جون2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل2؍جولائی2004ءصفحہ9)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔ (الانفال:29)

اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محض ایک آزمائش ہیں اور یہ (بھی) کہ اللہ کے پاس ایک بہت بڑا اَجر ہے۔

مندرجہ بالا آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت ایک بارِ عظیم ہے۔ اور اس سے کماحقہ عہدہ برآ ہونا بہت زیادہ محنت، توجہ اور سب سے بڑھ کر دعاؤں کا متقاضی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خوش خبری ہے کہ اگر ہم اس امتحان میں کامیاب ہوجائیں تو اس کا اجربھی عظیم ہے۔

واقفینِ نو بچوں اور ان کے والدین کو اس اہم نکتہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ والدین نے اپنی مرضی سے، بغیر کسی لالچ، دباؤ یا خوف کے، اپنے بچوں کو وقف کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح پندرہ سال کی عمر کو پہنچ کر بچہ اپنے وقف کو خود بھی کنفرم کرتا ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد بطور بالغ ایک بار پھر اپنے وقف کو حتمی طور پر کنفرم کرتا ہے۔ اس کے پاس موقع ہوتا ہے کہ اگر اس کی خواہش نہ ہو تو اپنا وقف کنفرم نہ کرے اور خود کو تحریکِ وقفِ نو سے الگ کرلے۔ اس کا نہ تو کوئی گناہ ہے نہ ہی یہ قابلِ ملامت یا قابلِ گرفت عمل ہے۔ تاہم اگر کوئی بچہ اپنا وقف کنفرم کرکے، اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرے اور اپنی مرضی سے اپنی ملازمت یا کاروبار کرے اور اپنی زندگی جماعت کی کُل وقتی خدمت کے لیے پیش نہ کرے تو وہ بدعہدی اور بےوفائی ہوگی۔ اور ہمیں ہر قیمت پر بدعہدی اور بے وفائی سے بچنا ہوگا اور ان بچوں کو بچانا ہوگا لہٰذا اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنا اور سمجھانا ہوگاکہ اگر ہم تحریکِ وقفِ نو میں شامل ہیں تو ہم نے خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مرضی سے خدمتِ دین سرانجام دینی ہے اور اگر ہم نے اپنی مرضی کرنی ہے تو بدعہدی اور بے وفائی سے بچنے کے لیے اس تحریک سے نکلنا ہی مناسب ہے۔ اور اگر کوئی وقفِ نو لاعلمی میں اپنی مرضی سے کوئی کاروبار یا ملازمت شروع کرچکا ہے تو اس کے لیے فرض ہے کہ وہ فوری طور پر خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو تمام صورت حال سے آگاہ کرکے رہ نمائی کی درخواست کرے۔

واقفینِ نو اور ان کے والدین کی رہ نمائی، مدد اور تعلیم و تربیت کےلیے ہر سطح پر شعبہ وقفِ نو قائم ہے۔ واقفینِ نو کو چاہیے کہ وہ مقامی سیکرٹری وقفِ نو سے مسلسل رابطہ رکھیں۔ نیز اس شعبہ کے تحت ہونے والی کلاسز اور سالانہ امتحانات میں باقاعدگی سے شامل ہوں۔ واقفاتِ نو بھی اگرچہ شعبہ وقفِ نو کی ہی ذمہ داری ہیں تاہم ان کے لیے تمام پروگرام لجنہ اماء اللہ کے ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہر سطح پر صدرلجنہ اماء اللہ کی معاونہ موجود ہے۔ معاونہ صدر لجنہ اماء اللہ تمام واقفات اور سات سال سے چھوٹے واقفینِ نو (لڑکوں ) کےلیے کلاسز اور دوسرے پروگراموں کا انعقاد کرتی ہیں۔

چند سال قبل مجلس خدام الاحمدیہ کی نیشنل عاملہ میں بھی معاون صدر برائے واقفینِ نو کا عہدہ متعارف کروایا گیا ہے جس کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم ، تعلیمی کلاسز کا انعقاد اور انفرادی ماہانہ تعلیمی و تربیتی رپورٹس کو حاصل کرنا ہے۔اسی طرح ریجنل اور مقامی سطح پر بھی معاون برائے واقفینِ نو مقرر ہیں۔

واقفینِ نو کو حضورِ انور کی تازہ ہدایات کی روشنی میں سول سروس کے شعبہ جات میں آگے بڑھ کر ملک اور جماعت کی خدمت کرنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ خواہشمند واقفین حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تحریری اجازت کے ساتھ ایسا کریں۔

اس اتمام واقفینِ نو کو اپنے سیکرٹری وقفِ نو جماعت/حلقہ نیز معاون وقفِ نو برائے قائد مجلس خدام الاحمدیہ سے مسلسل رابطہ میں رہنا چاہیے۔آپ کو اس بات کی تسلی کرنی چاہیے کہ مرکز میں آپ کا موجودہ پتہ نیز وقفِ نو بچوں کے تمام کوائف موجود ہیں۔ خصوصاً اگر وقفِ نو بچے اپنے مستقبل کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے کوئی رہنمائی لیتے ہیں یا حضورِ انور ان کو کوئی خصوصی ہدایت فرماتے ہیں تو مقامی سیکرٹری کی معرفت مرکز کو اس خط کی نقل ضرور بھجوائیں۔ اس سے وقفِ نو بچے کا ریکارڈ مقامی سطح پر/ملکی سطح پر نیز مرکز میں بھی اَپ ڈیٹ ہوجاتا ہے۔

واقفینِ نو کے لیے تمام ممالک میں مقامی طور پر حسبِ ضرورت رہ نمائی کے لیے شعبہ جات سعی کرتے ہیں۔ اسی طرح مرکزی طور پر واقفینِ نو کے لیے ایک ویب سائٹ www.waqfenauintl.orgبھی تیار کی گئی ہے جس میں ہر قسم کا مواد مہیا کیا گیا ہے۔ اس ویب سائٹ کو اکثر وزٹ کرتے رہنا چاہیے تاکہ تازہ ترین ہدایات سے بروقت فائدہ اٹھایا جاسکے۔

تحریک وقف نو ایسی تحریک ہے جو ہمارے بچوں کو ہرقسم کے تربیتی مسائل سے محفوظ رکھے گی بشرطیکہ ہم حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان پر شیطانی حملے نہیں ہوں گے، شاید عام بچوں سے زیادہ ہی ہوں لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نقصان کا احتمال کم ترین ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

اس یاددہانی کے ساتھ اس مضمون کو ختم کیا جاتا ہے کہ واقفینِ نو کی تعلیم وتربیت والدین اور نظام جماعت کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بلوغت کی عمر کو پہنچ کریہ بچے اپنی بقیہ زندگی حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم کے تحت، بغیر کسی شرط کے، بغیر کسی مالی ودُنیاوی و مادّی انعام کی چاہ کے، صرف اور صرف اللہ کی راہ میں دُنیا کے کسی بھی حصہ میں، کسی بھی مشکل میں، کسی بھی ابتلامیں جانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں اور جائیں بھی۔ ان شاء اللہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button