خداتعالیٰ نے خود ارادہ فرمایا ہے کہ اس سلسلہ کوقائم کرے اور اسے ترقی دے
خوب یاد رکھوکہ کبھی رُوحانیت صعود نہیں کرتی جب تک دل پاک نہ ہو۔ جب دل میں پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے تو اس میں ترقی کے لیے ایک خاص طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھراس کے لیے ہرقسم کے سامان مہیا ہوجاتے ہیں اور وہ ترقی کرتاہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ بالکل اکیلے تھے اور اس بے کَسی کی حالت میں دعویٰ کرتے ہیں
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (الاعراف:159)
۔کون اس وقت خیال کر سکتاتھاکہ یہ دعویٰ ایسے بے یارومددگار شخص کا بارآور ہوگا۔ پھر ساتھ ہی ا س قدر مشکلات آپ کو پیش آئے کہ ہمیں تو ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں آیا۔ وہ زمانہ تو ایسا زمانہ تھاکہ سکھا شاہی سے بھی بدترتھا۔ اب تو گورنمنٹ کی طرف سے پورا امن اور آزادی ہے۔ اُس وقت ایک چا لاک آدمی ہر قسم کی منصوبہ بازی سے جو کچھ بھی چاہتادُکھ پہنچا تا۔ مگر مکّہ جیسی جگہ میں اور پھرعربوں جیسی وحشیانہ زندگی رکھنے والی قوم میں آپؐ نے و ہ ترقی کی جس کی نظیر دُنیا کی تاریخ پیش نہیں کرسکتی۔
اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتاہے کہ خود ان کی مذہبی تعلیم اور عقائد کے خلاف انہیں سنایا کہ یہ لات اور عُزیٰ جن کو تم اپنا معبود قرار دیتے ہویہ سب پلید اور حطبِ جہنم ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کون سی بات عربوں کی ضدی قوم کو جوش دلانے والی ہو سکتی تھی۔ لیکن انہیں عربوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نشوونما پایا اور ترقی کی۔ انہیں میں سے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ جیسے بھی نکل آئے۔ اس سے ہمیں امید ہوتی ہے کہ انہیں مخالفوں سے وہ لوگ بھی نکلیں گے جو خداتعالیٰ کی مرضی کوپورا کرنے والے اور پاک دل ہوں گے اور یہ جماعت جو اس وقت تک تیار ہوئی ہے آخر انہیں میں سے آئی ہے۔
کئی دفعہ میر صاحب(حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ مرتب)نے ذکر کیا کہ دِلّی سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے مگر میر ے دل میں یہی آتاہے کہ یہ بات درست نہیں۔ دِلّی میں بھی بعض پاک دل ضرور چھپے ہوئے ہوں گے جو آخر اس طرف آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جو ہمارا تعلق دِلّی سے کیاہے یہ بھی خالی ازحکمت نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہم کبھی ناامید نہیں ہوسکتے۔ آخر خود میر صاحب بھی دِلّی ہی کے ہیں۔ [حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا منشی عبد العزیز صاحب بابو محمد اسمٰعیل صاحب وغیرہ بھی دہلوی ہی ہیں۔]غرض یہ کوئی ناامید کرنے والی بات نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پاک اور کامل نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ مکّہ والوں نے کیسی مخالفت کی اور پھر اسی مکّہ میں سے وہ لوگ نکلے جو دنیا کی اصلاح کرنے والے ٹھہرے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں میں سے تھے۔ وہ ابوبکررضی اللہ عنہ جن کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابوبکر کی قدرو منزلت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس با ت سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ انہیں مکہ والوں میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ بڑے بھاری مخالف تھے یہاں تک کہ ایک مرتبہ مشورہ قتل میں بھی شریک اور قتل کے لیے مقررہوئے لیکن آخر خداتعالیٰ نے ان کو وہ جوش اظہارِ اسلام کا دیا کہ غیر قومیں بھی ان کی تعریفیں کرتی اور ان کا نام عزّت سے لیتی ہیں۔
غرض ہم کو وہ مشکلات پیش نہیں آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پیش آئے۔ باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فوت نہیں ہوئے جب تک پورے کامیاب نہیں ہوگئے۔ اور آپؐ نے
اِذَاجَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا(النصر:2تا3)
کا نظارہ دیکھ نہ لیا۔
آج ہمارے مخالف بھی ہر طرح کی کوشش ہمارے نابود کرنے کی کرتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کا شکرہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے اور انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ جس قدر مخالفت اس سلسلہ کی انہوں نے کی ہے اسی قدر ناکامی اور نامرادی ان کے شامل حال رہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بڑھایاہے۔ یہ تو خیال کرتے اوررائے لگاتے ہیں کہ یہ شخص مرجاوے گا اور جماعت متفرق ہوجاوے گی۔ یہ فرقہ بھی دوسرے فرقہ برہمو ئوں وغیرہ کی طرح ہے کہ جن میں کوئی کشش نہیں ہے اس لیے اس کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ ہو جاوے گا۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ خداتعالیٰ نے خود ارادہ فرمایا ہے کہ اس سلسلہ کوقائم کرے اور اسے ترقی دے۔
(ملفوظات جلد 8صفحہ 26-28۔ ایڈیشن 1984ء)