سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

قلمی مجاہدات

آریہ سماج کے بانی پنڈت دیانندسرسوتی کو بحث کی دعوت

گذشتہ اقساط میں آئینہ کمالات اسلام سے ایک اقتباس درج کیاگیاہے جس میں ہے کہ آپؑ کی عمر بیس سال کی ہوگی کہ آپؑ نے عیسائی پادریوں اورمشنریزکے ساتھ بحث مباحثہ شروع کردیاتھا۔ پھرسیالکوٹ میں سات سال کے قیام میں سکاچ مشن کے پادری جان ٹیلراور الیشع سوِفٹ(الائشہ) اوردیگر عیسائی سرکردہ علماء سے بحث اور مناظرے ہوتے رہے۔ لیکن جب آپؑ قادیان واپس تشریف لائے تو کچھ ہی دیر بعد ہندوستان میں ایک نئی مذہبی تنظیم کاوجودعمل میں آیا، یہ ہندومذہب کی ایک پُرجوش اوربےباک تنظیم تھی۔

آریہ سماج

کتابوں میں اس تحریک کو ایک اصلاحی تحریک کا بھی نام دیا گیا ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ’’ایک ہندو اصلاحی تحریک جس کی بنیاد ایک سنیاسی (تمام دنیاوی لذتوں اور خواہشوں کو ترک کرنےوالا)سوامی دیانندسرسوتی نے7؍اپریل 1875ء میں رکھی‘‘۔

(ماخوذ از وکی پیڈیا زیر لفظ ’’Arya Samaj‘‘)

اس تحریک کو قائم کرنے کا اولین مقصد ہندو مذہب کے قدیم مشرقی نظریات (ویدوں) کو مغربی نظریات (سائنس) کے ساتھ ملا کر ہندو مت میں اصلاح کی کوشش کرنا تھا۔ چنانچہ اسی کوشش میں یہ ثابت کیا جانے لگاکہ قدیم ترین ہندو صحائف یعنے وید ہی واحد الہام تھے اور یہ کہ انہیں تمام سائنس کی بنیاد ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے تمام ہندوؤں پر زوربھی دیا گیا کہ وہ ویدوں سے رجوع کریں اور دنیا میں ان کی تبلیغ کریں۔

(ماخوذ از انسائیکلو پیڈیا از یاسر جواد زیر لفظ آریہ سماج)

آریہ حضرات کے نزدیک یہ تحریک ہندو مذہب سے الگ نہ تھی بلکہ ہندو مذہب ہی میں ایک اصلاح پسند تحریک تھی جس کا اولین مقصد ہندومذہب کی اصلاح کرنا تھا، اور مغلوں اور انگریزوں کے اثرات سے اسے باہر لے کر آنا تھا۔

(Vedicculturalcentre.com “Arya Samaj in Hindu-Dharama” )

ستیارتھ پرکاش کی تصنیف

سوامی جی کو گو اپنے کام میں کامیابی حاصل ہو رہی تھی لیکن ابھی بھی اس کا دائرہ کار بہت محدود تھا یہانتک کہ آپ کے چند لیکچروں کو سننے کے بعد راج جے کشن داس (Raj jaikishan Das)نے جو کہ ہندوستان کا ایک سرکاری ملازم تھا، یہ مشورہ دیا کہ سوامی جی اپنے خیالات و عقائد کو ایک کتاب کی صورت میں شائع کریں۔

سوامی جی کو اس مشورہ میں وزن معلوم ہوااور آپ نے اس سلسلہ میں فوری قدم اٹھایا۔ چنانچہ سوامی جی نے جون تا ستمبر 1874ء لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کو آپ کا ایک نمائندہ پنڈت بھیم سین شرما (Pundit Bhimsen Sharma)ضبط تحریر میں لاتا رہا۔ یہ لیکچر بہت سے اہم موضوعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھے جن میں وید، دھرما، روح، فلاسفی، تعلیم اور حکومت وغیرہ جیسے موضوعات شامل تھے۔ یہ تمام لیکچر 1875ء میں کتابی صورت میں شائع کر دیے گئے۔ اس کتاب کو ’ستیارتھ پرکاش‘ کا نام دیا گیا۔

آریہ سماج کے قیام کی پہلی کاوش اور ناکامی

ستیارتھ پرکاش کی تیاری و ترمیم کے دوران سوامی دیانند کو بمبئی سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا جس میں والا بچاریہ فرقہ(Vallabhacharya)کے کچھ معززین سے بحث کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ دیانند 20؍اکتوبر 1874ء کو بمبئی پہنچے۔ گو کہ مباحثہ کی کافی تشہیر کی گئی تھی لیکن اس کو لکھ کر اکٹھا نہیں کیا گیا تھا، اسی دوران پرارتھنا سامراج کے دو ممبران آپ سے ملے اور آپ کو پرارتھنا سامراج کی میٹنگ میں اپنے چند لیکچرز دینے کی دعوت دی بعد میں لیکچرز کی کافی تعریف کی گئی۔

بمبئی کے پرارتھنا سامراج کے ممبران نے دیانند میں موجود منفرد علمی قابلیت کو بھانپ لیا اور انہوں نے دیانند میں اس مہارت کو شناخت کر لیا جو کہ ان کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درکار تھی، جس میں سب سے بڑا مقصد ہندو سوسائٹی کو مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرے سے بچانا شامل تھا۔

بمبئی میں دیانند کے تقریباً ایک ماہ کے قیام کے دوران پرارتھنا سامراج کے 60ممتاز ممبران نےدیانند کے خیالات اور تصورات کے مطابق ایک ’’نئے سماج ‘‘ کے قیام کا خیال پیش کیا۔ لیکن اسی دوران دیانند کو گوپال راؤ ہری دیش مکھ (Gopalrao Hari Deshmukh)کی طرف سے ذاتی دعوت نامہ ملا جس کی وجہ سے دیانند بمبئی کو چھوڑ کر احمد آباد(گجرات) روانہ ہو گئے اور11؍ دسمبر 1874ء کو احمدآباد پہنچے، ایک وقت میں دیانند نے یہاں ایک مقامی پنڈت سے ویدوں کی حیثیت پر مباحثہ کیا تھا اور اس میں فتح حاصل کی تھی اور بیان کیا جاتا ہے کہ احمد آبا د میں ویدک سکولز کا قیام ان کی اسی فتح کے بعد تجویز کیا گیا تھا، لیکن ابھی بھی انہیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے مطلوبہ حمایت حاصل نہ ہوسکی تھی۔

ستیارتھ پرکاش کی کامیابی نے بہت سے لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کیاجن میں پرارتھنا سامراج کے ماننے والے بھی شامل تھے اور اسی سلسلہ میں 31؍ دسمبر 1874ء کو راجکوٹ(Rajkot)(گجرات)کے پرارتھنا سامراج کے سیکرٹری ہرگووند داس (Hargovind Das) نے آپ کو راجکوٹ آنے کی دعوت دی۔

اپنے طے شدہ لیکچرز کے برخلاف سوامی جی نے عوام کے منتخب کردہ 8 موضوعات پر لیکچر دیے۔ عوام ان کے جوابات سے قائل ہو گئے اور اس طرح ان کو بہت سے تحائف بھی ملے اور اس طرح پرارتھنا سامراج کے ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا اور اس کی جگہ ایک نئے سماج کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کو سوامی جی نے کافی غور کے بعد ’آریہ سماج‘ نام دیا۔ سوامی جی نے اس سماج کے 28 قوانین مرتب کیے اور ان کو طبع کرکے عوام میں تقسیم کر دیا گیا۔

یہاں سے فارغ ہو کر سوامی جی بمبئی کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں انہوں نے احمد آباد میں قیام کیا اور انہیں راجکوٹ میں آریہ سماج کی خبر سے آگاہ کیا اور قوانین و ضوابط کی کاپیاں تقسیم کیں۔ 27؍جنوری 1875ء کو ایک میٹنگ کا بندوبست کیا گیا تاکہ احمد آباد میں آریہ سماج کے قیام پر غور کیا جائے۔ ابھی معاملے کا کوئی فیصلہ نہ ہو پایاتھا کہ دیانند نے نتیجہ کا انتظار کیے بغیر بمبئی کا سفر جاری رکھا لیکن ابھی وہ راستہ ہی میں تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ راجکوٹ آریہ سماج کسی سیاسی جھگڑے میں شامل ہو گئی ہے اور اس کو سرکار کی طرف سے تنبیہ کی گئی ہے اور اس طرح آریہ سماج شروع ہی سے شکست و ریخت کا شکار ہو گئی۔

29؍ جنوری 1875ءکو دیانند بمبئی پہنچ گئےاور وہاں بھی آریہ سماج کے قیام کے حوالے سے کوششیں شروع ہوئیں۔ لیکن دیاننداحمدآباد کی طرزکی طویل بحث اور لا متناہی مشاورت سے بچنا چاہتے تھے اس لیے آریہ سماج کے قیا م کے لیےایک رکنیت مہم شروع کی گئی۔ جلد ہی 100 افرادنے اپنے آپ کو ممکنہ ارکان کے طور پر داخل کروا لیا۔

7؍ اپریل 1875ء کو آریہ سماج بمبئی کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا، اور اس کے ممبرز کی تعداد 100 تک پہنچ گئی جس میں سوامی جی بھی شامل تھے۔ آریہ سماج کی دوسری بڑی شاخ کا افتتاح 24؍جون 1877ءکو لاہور میں کیا گیا۔ اور پہلے سے موجود قوانین پر نظر ثانی کرنے کے بعد ان کو موجودہ 10 قوانین میں ڈھال دیا گیا۔

(ماخوذ از وکی پیڈیا زیر لفظ “ Arya Samaj”)

آریہ سماج کے دس بنیادی اصول

پہلے تین اصول تو خدا اور ویدوں کی صفات کےمتعلق ہیں۔ چھ اصولوں کا تعلق اخلاقی چال چلن سے ہے اور دسواں اصول گو ذاتی معاملات میں آزادی دیتا ہے لیکن کسی ممبر کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ سماج کے مفاد میں حارج ہو۔

(ماخوذ از مذاہب عالم کا تقابلی جائزہ از پروفیسر چودھری غلام رسول چیمہ ایم۔ اے، ایل ایل بی صفحہ 237)

پنڈت دیانند سرسوتی نے اس تنظیم (آریہ سماج) کے قیام کے بعد جو اصول بھی مقرر کیے وہ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :

1۔ تمام علم اور معلوم کی اولین مستور علت خدائے مطلق ہے۔

2۔ خدا کی ہستی موجود، ذہین اور کامل مسرت ہے وہ بے ہیئت، قادر مطلق، منصف، رحیم، لاولد، غیر محدود، غیرمتغیر، بے ابتدا، یکتا، سب کو قائم رکھنے والا، مالک کل، حاضر مطلق خلقی، ناقابل تغیر، لا فانی، بے خود ابدی اور خالق کل ہے۔

3۔ وید حقیقی علم کے صحائف ہیں۔ انہیں پڑھنا، سیکھنا، ان کا ورد اور دوسروں سے سننا سب آریوں کا فرض ہے۔

4۔ حقیقت کو قبول اور غیر حقیقی کو مسترد کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

5۔ آریہ سماج کا بنیادی مقصد ساری دنیا کی بھلائی ہے یعنی اس کی مادی، سماجی اور روحانی بہتری میں مدد کرنا۔

6۔ سب انسانوں کے ساتھ برتاؤ محبت اور انصاف کے تحت، دھرم کے اصول کے مطابق ہونا چاہیے۔

7۔ وِدّیا (موضوع و معروض کا علم )کو فروغ دینا،اودیا (سراب )کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔

8۔ صرف اپنے فائدے اور بہتری کے لیے نہیں بلکہ سب کے فائدے اور بہتری کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

9۔ معاشرے کی بے غرضانہ حکمرانی پر عمل کرکے خود کو پابند سمجھنا چاہیے جبکہ انفرادی فلاح کے اصولوں کی پیروی میں آزاد ہونا چاہیے۔

(ماخوذ از مذاہب عالم کا تقابلی جائزہ از پروفیسر چودھری غلام رسول چیمہ ایم۔ اے، ایل ایل بی صفحہ 236)

10۔ سب کچھ دھرم کے اصولوں یا حکم کے مطابق کرنا چاہیے۔

(ماخوذ از Modern Religious Movements in India by J.N. Farquhar pg:120)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button