متفرق مضامین

حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ

(باسل احمد بشارت)

قبل از اسلام عرب کی طاقت کا مرکز قبیلہ قریش تھا۔ قریش کی مختلف شاخوں میں بنو ہاشم اور بنو امیہ کو امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ بنو ہاشم کو اگرچہ رسولؐ اللہ کی وجہ سے ممتاز حیثیت حاصل ہوگئی لیکن بنو امیہ طاقت اور ملکی اقتدار کے لحاظ سے برتر تھے۔ رسولؐ اللہ کے تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ بنو امیہ میں سے تھے۔ بنو امیہ میں حضرت امیر معاویہ ایسی سیاسی شخصیت کے حامل تھے جنہوں نے شام میں مستقل حکومت کو قائم کیا اور اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کیا۔ اس لحاظ سے بنو امیہ کی سیاسی تاریخ کا آغازحضرت امیر معاویہ بن ابوسفیان کے دور سے ہوتا ہے۔ یزید کی وفات کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے خلافت کا اعلان کیا جس کی وجہ سے شام و مصر کے علاوہ باقی اسلامی ممالک ان کے زیر تسلط آگئے اور شام و مصر کے لوگوں نے معاویہ بن یزید کی بیعت کی جو چند دنوں بعد خلافت سے دستبردار ہوگئے اور معاویہ بن یزید نے اپنے بعد کسی جانشین کو مقرر نہیں کیا تھا۔ یوں مروان بن الحکم شام پر قابض ہوگیا اور اموی خلافت کے لیے سعی کی۔ اس کے بعد عبد الملک بن مروان نے 31 برس حکومت کر کے اموی حکومت کو استحکام بخشا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اسی عبد الملک کے بھتیجے تھے۔

نام و نسب

آپ کا نام عمر اور ابو حفص کنیت تھی۔ آپ کے والد محترم کا نام عبد العزیز اور والدہ کا نام ام عاصم ہے۔ آپ کے والد بنو امیہ میں ایک ممتاز اور خاص مقام رکھتے تھے اور مصر کے گورنر تھے۔ اور ان کی گورنری کا زمانہ قریباً اکیس سال کے ایک طویل عرصہ پر محیط تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کی والدہ ام عاصم حضرت عاصم بن عمر بن خطابؓ کی صاحبزادی تھیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر خلیفۂ راشد آپؓ کے پڑنانا ہوئے۔

نافع سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے فرمایا: ’’کاش اپنی اولاد میں سے مجھے وہ شاندار شخص معلوم ہوتا جو زمین کو اسی طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم سے بھری ہوگی۔‘‘

(طبقات ابن سعدجزء 5صفحہ 330)

پھر کہتے ہیں کہ ’’میں اکثر ابن عمرؓ کو کہتے سنا کرتا تھا کہ اولاد عمرؓ میں وہ کون شخص ہے جس کے چہرے پر علامت ہے اور جو زمین کو عدل سے بھر دے گا۔‘‘ عبد اللہ بن دینارؒ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ہم لوگ بیان کیا کرتے تھے کہ یہ حکومت ختم نہ ہوگی تا وقتیکہ اولاد عمرؓ میں سے اس امت کا والی ایک ایسا شخص نہ ہو جو عمرؓ کے نقشِ قدم پر چلے اور چہرے پر ایک مسّا ہو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ عمر بن عبد العزیز کو لایا، ان کی والدہ ہام عاصم بنت عاصم بن عمر بن الخطابؓ تھیں۔‘‘

(طبقات ابن سعد جزء5ص330)

پیدائش

اس پیشگوئی کے مصداق حضرت عمر بن عبد العزیز مصر کے ایک گاؤں حلوان میں 62ھ میں پیدا ہوئے۔

(تاریخ الخلفاء جزء 1ص171)

علامہ ذہبی کے نزدیک آپ کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی۔

(تذکرۃ الحفاظ جزء 1صفحہ118)

تعلیم و تربیت

آپ کا بچپن مدینہ منورہ میں گزرا اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے زیر سایہ تربیت پائی اور صالح بن کیسان ان کے اتالیق مقرر ہوئے۔ آپ نے بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کیا اورفصاحت و بلاغت اورشعر و شاعری کا علم حاصل کیا۔ آپؓ نے مدینہ کے متعدد علماء و فقہاء سے علم حاصل کیا۔ علوم دینیہ میں آپ بڑے پایہ کے عالم تھے۔ علامہ ذھبی لکھتے ہیں: ’’وہ بڑے امام، بڑے فقیہہ، بڑے مجتہد، حدیث کے بڑے ماہر اور معتبر، حافظ، سند اور نرم خوتھے۔‘‘

(تذکرۃ الحفاظ جزء 1صفحہ118)

میمون بن مہران کہا کرتے تھے کہ ہم عمر ؒکے پاس اس خیال سے آئے تھے کہ ہم سے وہ کچھ سیکھیں لیکن ہم کو معلوم ہوا کہ ہم خود ان کے شاگرد ہیں۔ آپ کے نزدیک علماء شاگردوں کی طرح ہوتے تھے (تذکرۃ الحفاظ جزء 1صفحہ118)عبد الملک کے بعد ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں جب مدینہ کے گورنر مقرر ہوئے تو مدینہ کے علماء و صلحاء آپ کے ہم جلیس رہے۔

(فتح الباری جزء 2ص3،تذکرۃ الحفاظ جزء 1صفحہ118)

مدینہ کی گورنری

حضرت عمر بن عبد العزیز 87ھ تا 93ھ مدینہ کے گورنر رہے۔ اس دور میں مکہ اور طائف بھی ان کے زیر حکومت تھے۔آپؓ نے مسجد نبوی کی از سر نو تعمیر کروائی اور ولید بن عبد الملک کے ایماء پر مسجد میں ایک فوارہ بھی تعمیر کروایا۔مسجد نبوی کے ساتھ اطرافِ مدینہ کی مساجد جن میں رسولؐ اللہ نے نماز ادا فرمائی تھی ان کو منقّش پتھروں سے تعمیر کروایا۔(فتح الباری جزء1ص571)مدینہ میں مختلف جگہوں پر کنوئیں کھدوائے۔ آپؓ نے متعدد بار امیر الحجاج کا فریضہ سر انجام دیا۔ 93ھ میں ولید بن عبد الملک نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو بوجوہ معزول کر کے خالد بن عبد اللہ کو مکہ کا اور عثمان بن حیان کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا۔

(تاریخ طبری جزء4ص11تا19)

سلیمان بن عبد الملک کی وفات اورخلعتِ خلافت

ولید بن عبد الملک کے بعد سلیمان بن عبد الملک خلیفہ مقرر ہوا۔ سلیمان کو آپ پر بے حد اعتماد تھا۔ اور اہم امور میں آپ سے مشورہ و معاونت لیتا تھا۔ 99ھ میں سلیمان بن عبد الملک کی وفات ہوئی تو رجاء بن حیات نے بنو امیہ کو مسجد وابق میں جمع کر کے ان سے نئے سرے سے سلیمان کے فرمان پرنئے خلیفہ کے لیے بیعت لی۔ جب اسے معاہدہ کے استحکام کا یقین ہوگیا تو اس نے سلیمان کی وفات کی خبر سنائی اور فرمان کھول کر پڑھا جس میں حضرت عمر بن عبد العزیز کا نام تھا۔ رجاء بن حیات نے ان کو اٹھا کر منبر پر کھڑا کردیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز انّا للہ پڑھ رہے تھے کہ یہ بارِ عظیم مجھ پر کیسے آن پڑا اور ہشام بن عبد الملک اس لیے انّا للہ پڑھ رہا تھا کہ خلافت مجھے کیوں نہیں ملی۔

(تاریخ طبری جزء4ص59-60،طبقات ابن سعد جزء 5ص338)

بیعت ہوجانے کے بعد سلیمان بن عبد الملک کی نماز جنازہ آپ نے پڑھائی۔ تجہیز و تکفین کے بعد شاہی سواری آئی لیکن آپ نے اسے ناپسند کیا اور اپنے خچر پر سوار ہوگئے۔ لوگوں نے قصر خلافت کی طرف لے جانا چاہا تو فرمایا کہ جب تک سلیمان کے اہل و عیال وہاں سے منتقل نہ ہوںمیں اپنے خیمہ میں رہوں گا۔

(تاریخ طبری جزء4ص60،طبقات ابن سعد جزء 5ص338)

بحیثیت خلیفہ خدمات

آپ کی خلافت کے بارہ میں لوگوں نے خوابیں دیکھی تھیں۔ (سیرت عمر بن عبد العزیز جزء 1ص36) خلافت کا آغاز آپ نے امن کے پیغام سے کیا۔ کتاب اللہ، دین اللہ اور سنت رسولؐ کو مستحکم کرنے اور اپنانے پر زور دیا۔ (سیرت عمر بن عبد العزیز جزء 1ص40) حضرت عمر بن عبد العزیز نے مسلمانوں میں جمہوریت کو از سر نوزندہ کیا اور اسلامی سیاست کی تجدید کر کے اس کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق مقرر کر دیا۔ خلافت اسلامیہ کی بنیاد کتاب و سنت اور آثار صحابہ پر قائم کی۔ اسی بنا پر علمائے امت نے ان کو خلفائے راشدین میں شمار کیا ہے اور بعض نے انہیں پہلی صدی کا اور بعض نے دوسری صدی کا مجدّد قرار دیا ہے۔ بنو امیہ کے حکمرانوں نے لوگوں کے مال و جائداد پر جو ظالمانہ قبضہ کیا تھا ان کو واپس دلانا ایک مجدّد خلافت اسلامیہ کا سب سے اولین فرض تھا۔ آپ نے سب سے پہلے یہی کام کیا جس پر خاندانِ بنوامیہ نے برہمی کا اظہار کیا۔ باغِ فدک جس پر ان کے خاندان کی معاش کا دارومدار تھا۔ خلیفہ بنتے ہی فدک کے متعلق رسولؐ اللہ اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کا پتا کیا جب حقیقت کا پتا چلا تو آپ نے قریش اور دیگر قبائل کو جمع کر کے کہا کہ فدک آنحضور ؐ کے ہاتھ میں تھا، ان کے بعد حضرت ابو بکرؓ اور بعد میں حضرت عمرؓ اس کا انتظام فرماتے رہے۔ آخر میں مروان نے اس کو اپنی جاگیر میں داخل کر لیااس کے بعد وہ میرے قبضہ میں آیا اور میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو حالت عہد رسالت میں تھی اس کو اسی طرف لوٹاتا ہوں۔

(سنن ابو داؤد کتاب الخراج باب فی صفایا النبیؐ من الاموال، طبقات ابن سعدجزء5ص388)

اسی طرح امراء نے اپنے علاقوں میں اپنے اغراض کے لیے جوظالمانہ رقمیں اور نذرانے مقرر کر رکھے تھے وہ ختم کروائے اور ظالم عمّال کو معزول کر دیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز اپنی امارت کے دور میں نہایت شان و شوکت سے رہتے تھے لیکن خلافت کے زمانہ میں نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ لباس اور غذا نہایت سادہ تھی۔

(سیرت عمر بن عبد العزیز لابن عبد الحکم جزء 1ص43)

بحیثیت فاتح

آپ اسلامی تاریخ میں ایک فاتح کی حیثیت سے تو معروف نہیں لیکن آپ کا عہد خلافت جنگی مہمات سے خالی نہ تھا۔ سلیمان بن عبد الملک نے روم کی طرف فوج بھیج رکھی تھی جو رسد کی کمی کی وجہ سے پریشان حال تھی۔ خلیفہ بنتے ہی آپ نے ان کو کمک مع رسد بھجوائی۔ اسی طرح جب ترکوں نے آذر بائیجان پر حملہ کیا اور بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا اور قیدی بنایا تو آپ نے ابن حاتم بن نعمان باہلی کو روانہ کیا جنہوں نے وہاں مسلمانوں کو بچایا اور مجرمین کو سزا دی۔ اندلس وغیرہ کی طرف بھی انہوں نے کثرت سازو سامان کے ساتھ فوجیں بھجوائیں۔ ہندوستان میں جنگیں تو بنو امیہ کے دور میں کافی عرصہ پہلے سے ہی شروع ہو چکی تھیں۔ آپؓ کے دور میں بھی کسی قدر اس میں اضافہ ہوا۔

(تاریخ طبری جزء4ص61)

بطور مناظر

100ھ میں عراق میں فرقہ حروریہ نے سر اٹھایاتو آپ نے اپنے عامل عبد الحمید کو ایک دور اندیش سردار کی کمان میں فوج بھجوانے کا حکم دے کر کہا کہ جب تک یہ لوگ خون ریزی اور فتنہ فساد نہ کریں ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے۔ عبد الحمید نے محمد بن جریر بن عبد اللہ بجلی کو حضرت عمر بن عبد العزیز کا حکم سنا کر دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا۔ حضرت عمربن عبد العزیز نے خود بسطام سردارِخوارج کو خط لکھا اور مناظرہ کی دعوت دی۔ بسطام راضی ہوگیا اور دو اشخاص کو مناظرے کے لیے بھیجا۔ جس کا کوئی خاص نتیجہ نہ نکلا۔ خیر جنگ ہوئی عبد الحمید نے شکست کھائی پھر مسلمہ بن عبد الملک کی قیادت میں اہل شام کی فوج بھیجی جس نے فتح حاصل کی۔

(تاریخ طبری جزء4ص62)

وفات و تدفین

حضرت عمر بن عبد العزیز نے 25 رجب 101ھ میں زہر خورانی کی وجہ سے بیس روز بیمار رہنے کے بعد بمقام دیر سمعان وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کی وفات ایک سازش کا نتیجہ تھی۔ اس وقت آپ کی عمر 39 برس تھی۔ آپ دو برس، پانچ مہینے اور چار دن مسندِخلافت پر متمکن رہے۔

(طبقات ابن سعد جزء 5ص408 ،تاریخ طبری جزء 4ص68)

آپ نے اپنی قبر کے لیے زمین اپنی زندگی میں ہی خرید لی تھی اورخالد بن ابی بکر سے مروی ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے وصیت کی تھی کہ انہیں پانچ سوتی کپڑوں کا کفن دیا جائے جن میں کرتہ اور عمامہ بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ابن عمرؓ کے اعزہ میں سے جو مرتا تھا وہ اس کو اسی طرح کفن دیتے تھے۔ بوقتِ وفات آپ کی زبان پر سورة القصص کی آیت 84 تھی۔

(طبقات ابن سعد جزء 5ص406)

شاہ روم کا اظہارِ افسوس

محمد بن معبد کا بیان ہے کہ میں شاہ روم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کو نہایت غمزدہ حالت میں زمین پر بیٹھا ہوا پایا۔ میں نے پوچھا کیا حال ہے؟ بولا جو کچھ ہوا تم کو خبر نہیں؟ میں نے کہا کہ کیا ہوا؟ بولا: مرد صالح کا انتقال ہوگیا، میں نے کہا وہ کون۔ بولا: عمر بن عبد العزیز۔ پھر کہا ’’اگر عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی مُردوں کو زندہ کر سکتا تو حضرت عمر بن عبد العزیز ہی کر سکتے تھے، مجھے اس راہب کی حالت پر کوئی تعجب نہیں جس نے اپنے دروازے کو بند کر کے دنیا کو چھوڑ دیا اور عبادت میں مشغول ہو گیا، مجھے اس شخص کی حالت پر تعجب ہے جس کے قدموں کے نیچے دنیا تھی اور اس نے اس کو پامال کر کے راہبانہ زندگی اختیار کی۔‘‘

(تاریخ دمشق لابن عساکر جزء56ص15)

ازواج و اولاد

حضرت عمر بن عبد العزیزکی تین بیویاں تھیں جن میں سے ایک بیوی عبد الملک بن مروان کی صاحبزادی فاطمہ بنت عبد الملک تھیں۔ اس کے علاوہ ایک ام الولد تھی۔ آپ کی اولاد کی مجموعی تعداد 16تھی۔

سیرت و اخلاق

حضرت عمر بن عبد العزیز درویش صفت، نہایت خوش خلق، حلیم الطبع، متحمل مزاج اور نرم خو انسان تھے۔ دنیاوی شان و شوکت سے بالکل بیزار تھے۔ متانت، سنجیدگی اور شرم و حیا کا پیکر تھے۔ رحمدلی ان کا خاص وصف تھا۔ اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے ہر دلعزیز تھے۔ آپ ہمیشہ علماء کی قدر کیا کرتے تھے اور ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ عبادات کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ عام معمول یہ تھا کہ شام ہونے کے بعد آدھی رات تک امور خلافت انجام دیتے، آدھی رات کے بعد علماء سے صحبت رکھتے اور رات کا پچھلا پہر عبادت میں گزارتے۔ نماز فجر پڑھنے کے بعد پھر حجرے میں چلے جاتے اور اس وقت کوئی دوسرا نہیں جا سکتا تھا۔ آپ نے تقویٰ اور پرہیز گاری سے زندگی کو گزارا۔ بلا شبہ آپ صدق میں حضرت ابوبکرصدیقؓ، عدل میں حضرت عمر فاروقؓ، حیا میں حضرت عثمان غنیؓ اور زہد میں حضرت علیؓ کے مثیل تھے۔

احیائے شریعت و ترویج سنت نبویہؐ

آپ نے احیائے شریعت، ترویج سنت نبویہؐ، امحائے بدعات اور تحفظ عقائد کے لیے بہت سعی کی اور اسے ایک خلیفہ کا نصب العین قرار دیا۔

حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کے بعداس نوجوان یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیزکے سواکسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسولؐ اللہ کی نمازسے زیادہ مشابہت رکھتی ہو۔

سنن ابو داؤد جلد اول حدیث نمبر886)

یحییٰ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔

(طبقات ابن سعد جزء5ص332-333)

محبت و خشیت الٰہی و محبت رسول و اہل بیت

حضرت عمر بن عبد العزیز خشیت الہٰی بہت رکھتے تھے۔ آپ کی زوجہ فاطمہ بنت عبد الملک بیان کرتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے عمر سے بڑھ کر کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔

(طبقات ابن سعد جزء5 ،سیرت عمر بن عبد العزیز جزء 1ص47)

محبت رسولؐ اور محبت اہل بیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ نے بنو امیہ کے دورسے جاری بد رسم خطبہ میں حضرت علیؓ کے خلاف الفاظ کے استعمال کو ختم کروایا۔

عدل و انصاف کا قیام

حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے عہد خلافت میں خلفائے راشدین کے عدل و انصاف اور مساوات کو قائم کر دکھایا۔ آپ کے عدل و انصاف کی وجہ سے لوگ اتنے خوشحال تھے کہ رسول اللہ ؐ کی پیشگوئی جو عدی بن حاتم سے مروی روایت میں مذکور ہے کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر ایسے شخص کو ڈھونڈے گا جو اسے قبول کرے لیکن اسے کوئی قبول کرنیوالا نہ ملے گا، ظاہری طور پرآپ کے عہد خلافت میں پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ یحیٰ بن سعید کا بیان ہے کہ مجھ کو حضرت عمر بن عبد العزیز نے افریقہ کا صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ میں نے صدقہ وصول کر کے فقراء کو بلایا کہ ان میں تقسیم کر دوں لیکن مجھ کو کوئی فقیر نہ ملا کیوں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے لوگوں کو امیر بنا دیا تھا۔ اس لیے میں نے صدقہ کی رقم سے غلام خرید کر آزاد کر دیے۔

(سیرت عمر بن عبدا لعزیزلابن عبد الحکم جزء1ص65 )

آپ نے رعایا کے اموال اور حقوق کی حفاظت کی۔ جابجا سرائے بنوائیں، مہمان خانے تعمیر کروائے اور ایک لنگر خانہ بنوایا جس سے فقراء و مساکین اور مسافر کھانا کھاتے تھے۔ سابق ظالمانہ طرز حکومت کو یکسر تبدیل کر دیا اور اس کی اصلاح کی۔

(طبقات ابن سعد جزء 5ص341)

حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے پڑنانا حضرت عمر بن خطابؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی رعایا کا خاص خیال رکھا اور عدل و انصاف کا خاص قیام فرمایا۔

عوام کی فلاح و بہبود

آپ کی خلافت کا زمانہ اگرچہ بہت مختصرتھا لیکن پھر بھی آپ نے بہت سی اصلاحات کیں اور خلافت کو اس سطح پر لائے جس پر خلفائے راشدین کی خلافت تھی۔ آپ نے بدعات کا خاتمہ کیا۔ بیت المال کی اصلاح کی۔ خراج، جزیہ اور ٹیکس وغیرہ ملکی محاصل کی اصلاح کی۔ ذمیوں کے حقوق اور ان کے مذہبی مقامات کو پورا تحفظ دیا۔ اسی طرح جیل خانہ کی اصلاح کی اور قیدیوں کے ساتھ ان مراعات کو قائم رکھا جو مقتضائے انسانیت ہیں۔ غرباء کی امداد کے لیے وظائف مقرر کیے ۔ اور بیت المال میں ایک مدّ قائم کی جس سے قرضداروں کا قرض ادا کیا جاتا تھا۔

(طبقات ابن سعدجزء5 +سیرت عمر بن عبدا لعزیز جزء1ص63)

آپ نے اپنے عہد میں بہت سی مساجد تعمیر کروائیں اور حدود حرم کی تجدید کروائی۔ (طبقات ابن سعد) اپنی زندگی میں صرف ایک محل خناصرہ میں تعمیر کروایا جس میں اکثر رہا کرتے تھے۔

(نھر الذھب فی تاریخ حلب جزء1ص68)

فرض شناسی

حضرت عمر بن عبد العزیز نے خلافت کا فریضہ پوری تندہی سے انجام دیا۔ سارا دن رعایا کی فلاح و بہبود میں گزر جاتا۔ رات گئے تک اسی کام میں مشغول رہتے اور رات کے بقیہ حصے میں عبادت اور استراحت فرماتے۔

(سیرت عمر بن عبدا لعزیز جزء1ص150)

آپ کے اس معمول کو دیکھ کر ایک روز آپ کے بھائی ریان بن عبد العزیز نے مشورہ دیا کہ کبھی کبھی سیر و تفریح کے لیے باہر چلے جایا کریں تو فرمایا کہ اس دن کا کام کیسے پورا ہوگا؟ بھائی نے کہا کہ دوسرے دن ہو جائے گا۔ تو فرمایا کہ روز کا کام انجام پاجائے تو یہی بہت ہے، دو دن کا کام ایک دن میں کیسے پورا ہوگا؟

(تاریخ دمشق لابن عساکر جلد45ص198)

ایک شخص نے آپ سے فارغ اوقات میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو فرمایا کہ فرصت کہاں؟ فرصت تو گئی، فرصت تو اب سوائے اللہ کے ہاں اور کہیں نہیں۔

(طبقات ابن سعدجزء5ص397)

اشاعت دین

اشاعت اسلام آپ کی زندگی کا ایک اہم مقصد تھا۔ تالیف قلب کے لیے لوگوں کو رقوم دے کر اسلام کی طرف مائل کیا۔ چنانچہ ایک پادری کو اس غرض سے ایک ہزار دینار دیے۔ (طبقات ابن سعدجلد سوم ص265)آپ نے بادشاہوں کوبذریعہ خطوط اسلام کی دعوت دی اور ان میں سے بعض نے اسلام بھی قبول کیااور اپنے نام عربی میں رکھے۔ (فتوح البلدان از علامہ بلاذری جزء1 ص425)آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے آپ کے عہد میں ذمی کثرت سے مسلمان ہوئے۔

نیکی و بھلائی کا دور دورہ

حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور خلافت میں لوگوں میں روحانیت کو فروغ دیا اور نیکی و بھلائی کی طرف تحریض دلائی حتیٰ کہ نیکی پر ترغیب دلانے کی خاطر انعامات دینے کا بھی اعلان فرمایا (سیرت عمر بن عبد العزیز جزء1ص121) اور اس کابہت مثبت نتیجہ نکلا۔ ایک راوی لکھتے ہیں ’’جب وہ خلیفہ ہوئے تو باہمی ملاقات میں ایک شخص دوسرے شخص سے کہتا تھا کہ رات کو تم کونسا وظیفہ پڑھتے ہو؟ تم نے کتنا قرآن یاد کیا ہے؟ تم قرآن کب ختم کرو گے؟ اور کب ختم کیا تھا؟ اور مہینے میں کتنے روزے رکھتے ہو؟‘‘

(تاریخ طبری جزء4ص29)

تدوین حدیث کی طرف خصوصی توجہ

آپ نے تدوین حدیث کی طرف خصوصی توجہ کی اور قاضی ابوبکر بن حزم گورنر مدینہ کو لکھا کہ ’’احادیث نبویہؐ کی تلاش کر کے ان کو لکھ لو کیونکہ مجھے علم کے مٹنے اور علماء کے فنا ہونے کا اندیشہ ہے اور نبی کریمؐ کی حدیث کے علاوہ کوئی حدیث قبول نہ کی جائے۔‘‘

(بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم)

علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ حکم صرف گورنر مدینہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ تمام علاقوں کے گورنروں کو بھیجا گیا تھا۔ (فتح الباری جزء1ص194) اور اس حکم کی تعمیل کی گئی اور تمام ممالک میں ان احادیث کی کاپیاں بھیجی گئیں۔ (جامع بیان العلم و فضلہ جزء1ص331) آپ نے نہ صرف تدوین احادیث نبویہ فرمائی بلکہ اس کی تعلیم و اشاعت کے لیے گورنروں اور عمّال کو تلقین کی کہ ممالک میں علماء بھجوائے جائیں اور مدرس و علماء کے لیے وظائف مقرر کیے تا کہ وہ فکر معاش سے بے نیاز ہوکر لوگوں کو اس کی تعلیم دیں اور نہ صرف مدرس و علماء بلکہ طلباء کے لیے وظائف مقرر کیے ۔

(سیرت عمر بن عبدا لعزیز لابن عبد الحاکم جزء1 ص141، جامع بیان العلم جزء 1ص647،تذکرۃ الحفاظ)

آپ نے تعلیم کے علاوہ لوگوں کی تربیت اور دینی مسائل کے حل کے لیے واعظ اور مفتی مقرر کیے ۔

(حسن المحاضرۃجزء1ص298,299)

سیرت صحابہ کی اشاعت

سیرت و مناقب صحابہ کے متعلق سب سے پہلے آپ نے ہی توجہ فرماتے ہوئے عاصم بن عمر بن قتادہ کو مقرر کیا کہ دمشق کی مسجد میں مغازی اور مناقب صحابہؓ کا درس دیا کریں۔

(تھذیب التھذیب جزء5ص47)

حضرت عمر بن عبد العزیز نے صرف کتاب و سنت کی اشاعت پر ہی توجہ نہیں کی بلکہ دیگر علوم و فنون کے لیے بھی تدابیر کیں تا مسلمان دوسرے علوم سے بھی بہرہ ور ہوسکیں۔ ایک یونانی حکیم اہرن القس کی کتاب کا عربی ترجمہ ماسر جیس نے مروان بن حکم کے زمانہ میں کیا تھا جو شاہی کتب خانے میں متروک پڑی تھی۔ آپ نے اسے چالیس روز استخارہ کرنے کے بعد شائع کرواکے ممالک میں تقسیم کر دیا۔

(اخبار العلماء باخبار الحکماء جزء 1ص243)

خلافت راشدہ کی یادِ نو

غرضیکہ حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت ایسی تھی جس نے مسلمانوں میں خلافت راشدہ کی یاد از سر نو تازہ کر دی۔ ابن خلدون لکھتے ہیں:’’حضرت عمربن عبد العزیز مروانی سلسلہ کی درمیانی کڑی تھے، انہوں نے اپنی تما م تر توجہ خلفائے راشدین اور صحابہؓ کے طریقہ کی طرف مبذول کی۔‘‘

(تاریخ ابن خلدون جزء1ص258)

معروف شاعرفرزدق نے آپ کی وفات پرحسرت سے کہا:

کم من شریعۃ حیّ قد شرعت لھم
کانت میتۃ و اخریٰ منک تنتظر
یا لھف نفسی و لھف اللاھین معی
علی العدول والتی تغتالھا الحضر

ترجمہ:کتنی مردہ شریعتوں کو تم نے زندہ کیا اور دوسری شریعتیں احیاء کے لیے منتظر تھیں۔ میرے نفس کا پچھتاوا اور میرے ساتھ تمام افسوس کرنے والوں کا پچھتاوا اس عادل پر جس کو قبر نے اچک لیا۔

(سیرت عمر بن عبد العزیز لابن جوزی ص293)

عباد سماک کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری سے سناکہ خلفاء پانچ ہیں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیز۔

(سنن ابو داؤدکتاب السنۃ باب فی التفضیل)

٭…٭…٭

مراجع و مصادر

1۔صحیح بخاری۔
2۔سنن ابو داؤد۔
3۔فتح الباری از علامہ ابن حجرعسقلانی (852ھ)۔
4۔تذکرۃ الحفاظ از شمس الدین الذھبی (متوفی 748ھ)۔
5۔طبقات ابن سعد از علامہ محمد بن سعد (متوفی 230ھ)۔
6۔تھذیب التھذیب از علامہ ابن حجرعسقلانی (528ھ)۔
7۔تاریخ طبری از ابو طیب طبری (متوفی 450ھ)۔
8۔تاریخ ابن خلدون از عبد الرحمن بن محمد بن محمد ابن خلدون( متوفی 808ھ)۔
9۔تاریخ دمشق لابن عساکراز ابو القاسم ابن عساکر(متوفی 571ھ)۔
10۔سیرت عمر بن عبد العزیز علی ما رواہ الامام مالک بن انس و اصحابہ از عبد اللہ بن عبد الحکم ابو محمد المصری( متقی 214ھ)۔
11۔سیرت عمر بن عبد العزیز لابن الجوزی (متوفی597ھ)۔
12۔نھر الذھب فی تاریخ حلب از کامل بن حسین الغزی(متوفی1351ھ)۔
13۔اخبار العلماء باخبار الحکماء از جمال الدین ابو الحسن القفطی (متوفی 646ھ)۔
14۔حسن المحاضرۃ از جلال الدین سیوطی( متوفی 911ھ)۔
15۔فتوح البلدان از احمد بن یحی بن جابر بن داؤد البلاذری (متوفی 279ھ)۔
16۔جامع بیان العلم وفضلہ از ابن عبد البر( متوفی 463ھ)۔
17۔تاریخ الخلفاء از جلال الدین سیوطی( متوفی 911ھ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 4

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ. مجھے اس امر کا تزکرہ کہ اس زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے قرآن پاک کی تلاوت اور نماز روزہ کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھتے تھے. ایسے سوال وجواب کے لیے اگرچہ زہد کے اعلی درجہ پہ ہونا اور ریا سے یکسر پاک ہونا ضروری ہے. ایسی بات کے سننے سے سامعین یا ساتھیوں پہ ایک اچھا اور نیک اثر پڑسکتا ہے. اور فاستبقو الخیرات کی روح کے عین مطابق ہے
    حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور اتنا مختصر ہونے کے باوجود اسلامی تاریخ کا خلافت راشدہ کے بعد ایک درخشاں دور ہے. کاش کہ آج کے دور میں کوئی ایک مسلم حکمران ہی ان اطوار کو اپنانے کی کوشش کرے. مگر اے بسائے آرزو کہ خاک شدہ..

  2. ماشااللہ بہت ہی مفید مضمون ہے اگر اسی طرح دیگر خلفائے راشدین اور اس کے بعد دیگر صحابہ کی زندگی پر بھی مختصر اور جامع مضامین لکھے جائیں تو بہت ہی فائدہ مند ثابت ہو ں گے

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button