شہنشاہِ چین کی محبتِ رسولﷺ سے سرشار ’’سو لفظوں کی نعت‘‘
چین پر تین سو سال حکمرانی کرنے والے مِنگ حکمرانوں کی خدمتِ اسلام
تیرھویں صدی عیسوی میں منگول سلطنت بامِ عروج پر تھی۔ چنگیز خان کے پوتے مونگے خان،برکے خان، ہلاکو خان اور قبلائی خان مشرقی یورپ، وسط ایشیا، روس،چین اور مشرقِ وسطی کو زیر کرتے ہوئے تاریخ کی وسیع ترین سلطنت کے حکمران بن چکے تھے۔روسی، چینی، کورین، عرب،ترک اور فارسی اقوام ایک ہی ریاست یعنی منگول سلطنت کے باسی تھے۔چنگیز خان کا ایک پوتا قبلائی خان چین میں حکمران تھا تو دوسرا ہلاکو خان کی صورت میں سقوطِ بغداد کے بعدمسلمانانِ عرب و عجم کا والی تھا۔ چین میں قبلائی خان سے شروع ہونے والا منگول عہدِ حکمرانی1368ء میں Mingخاندان کے ہاتھوں اختتام کو پہنچا۔مِنگ عہد کے بانی عزت مآب Hongwuاس دور کے پہلے شہنشاہ تھے۔
چین میں مِنگ خاندان کا دورِ اقتدار وہ عرصہ ہے جب یورپی طاقتیں نو آبادیاتی نظام کے تانے بانے بُن رہی تھیں۔ یورپ کےاستعماری حربوں کا مقابلہ کرنے اور چین کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے مِنگ حکمرانوں نے بین الاقوامی تعلقات کو محدود کرنے کی پالیسی اپنا لی۔اس نئی صورتحال کے فوری اثرات یہ ظاہر ہوئے کہ چین کی مشہور بندر گاہوں اور ساحلی علاقوں میں بسنے والے مسلمان نقل مکانی کرکے ملک کےطول وعرض میں پھیلنے لگے۔اسی طرح منگول تسلط ختم ہوا تو چین میں غیر ملکی عناصرکو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ان دو وجوہات کے باعث یہ دور چین میں مسلمانوں کے حوالہ سے غیر معمولی تغیرات کا دور کہا جا سکتا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’اب تک مسلمان چین میں ایک غیر ملکی گروہ کے طور پر بودوباش رکھتے تھے،لیکن منگول عہد کے خاتمہ کے بعد دیگر علاقوں میں آباد اپنی ہم مذہب اقوام سے چینی مسلمانوں کے روابط منقطع ہوگئے۔نیز حکومتِ وقت کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے چین کے مسلمانوں نے مقامی رسم ورواج اور تہذیب وثقافت کو اپنانا شروع کردیا۔حتی کہ اپنے مذہبی طور اطوار میں بھی جس حد تک ممکن تھا چینی روایات سے ہم آہنگی اختیار کر لی گئی۔(1)
قبلائی خان کے دورِ حکومت میں چین میں مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا،لیکن منگولوں کے ہاتھوں سقوطِ بغداد اور مسلمان سلطنتوں کے پے درپے انہدام کے نتیجہ میں چینی باشندوں اور مسلمانوں کے مابین قربتیں بڑھنے لگیں۔
مِنگ عہد کے بانی عزت مآب شہنشاہ کا اخلاق وکردار
مِنگ خاندان کے بانی عزت مآب Hongwuکا نام Zhu Yuanzhangتھا۔ آپ ایک غریب کسان گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔جب آپ کی عمر سولہ برس ہوئی توچین کو ایک شدید قحط نے آلیا۔ جس میں آپ کے ایک بھائی اور آپ کے علاوہ تمام افرادِ خاندان ہلاک ہوگئے۔ چین میں پڑھنے لکھنے کا رواج عام تھا لیکن آپ بوجہ غربت کے رسمی تعلیم سے بھی محروم رہے۔ایک یورپی مصنف Simon Leysآپ کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ ایک ذخیرہ کرنے والے کسان گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے۔نہایت کم تعلیم یافتہ لیکن عمل کے پیکر ، جرأت مند، بلا کے ذہین اور مدبر تھے۔‘‘ (2)
منگولوں کی چین سے آزادی آپ کی قیادت و صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے،لیکن بنیادی طور پرآپ جارحانہ جنگوں،ہمسایہ ممالک پر قبضہ اور قتل و غارت کے خلاف تھے۔آپ نے اپنے بعد آنے والے شاہانِ چین کو نصیحت کی تھی کہ
’’بیرونی حملہ آوروں اور جنگی جنون میں مبتلا لوگوں کے خلاف صرف دفاعی جنگ کی جائے۔محض فوجی گھمنڈدکھانے اور عظمت کی دھاک بٹھانے کی خاطر جنگوں سے اجتناب کیا جائے‘‘ (3)
مِنگ عہد حکومت کی خصوصیات
مِنگ حکمرانوں کا دور چین میں اصلاحات کا دور کہلاتا ہے۔منگولوں کے قبضہ سے ہونے والی شکست وریخت اور نظامِ حکومت کو چند سالوں میں دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کردینا اور چین میں ایک مستحکم سلطنت کا قیام شاہانِ مِنگ کا کارنامہ ہے۔اسی دور میں دیوارِ چین کی تعمیر نو ہوئی۔شاہانِ مِنگ کے مسلمان ایڈمرل Zheng Heنے واسکو ڈے گاما سے بھی پچاس برس قبل نہایت عظیم الشان بحری بیڑے تعمیر کروائے اور ان کے ذریعہ دنیا کے طول وعرض کا سفر کیا۔چین کی ہان نسل میں سے مِنگ خاندان چین کے آخری حکمران تھے۔
مسلمانوں کے لیے مذہبی آزادیوں کا دور
مِنگ عہد میں مسلمانوں کو بیجنگ او ر چین کے طول عرض میں مذہبی آزادیاں نصیب تھیں، اپنی عبادات اور مذہبی رسوم ورواج پر عمل کرنے میں کوئی پابندی نہ تھی۔ مؤرخین کے مطابق تبت کے بدھ مت اورکیتھولک مسیحیوں کی نسبت مسلمانوں کی مذہبی زندگی زیادہ آزاد اور خودمختار تھی۔(4)
شاہانِ چین کی اسلامی خدمات
مِنگ عہد کے بانی عزت مآب Hongwuنے جنوبی چین میں متعدد مسجدیں تعمیر کروائیں۔چین کے بڑے شہروں Nanjing,Yunnan,Guangdongاور Fujianکی مساجد آپ کے عہد کی یاد ہیں۔آپ کی سپاہ میں دس مشہور جرنیل مسلمان تھے۔
مِنگ عہد کا دارلحکومت Nanjing دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی علوم وفنون کا مرکز بن گیا۔ چینی مسلمان علامہ Hu Dengzhou نے نانجِنگ میں اسلامی مدرسہ قائم کرکے قرآن و حدیث کی ترویج شروع کی۔اس ادارہ میں عربی اور فارسی زبان میں تعلیم دی جاتی اور مختلف مضامین اور علوم کے ماہرین اورمتخصصین پیدا ہونے لگے۔ اسلامی کتب کے چینی زبان میں تراجم ہونے لگے۔ہوئی نسل کے مسلمانوں نے چین کے اصلی باشندوں یعنی ہان نسل کے چینیوں میں اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے چینی زبان کے اسلامی لٹریچر میں خوب اضافہ کیا اور چینی باشندوں کو یہ باور کروانے کی کوششیں کہ اسلامی تعلیم کنفیوشس کے تصورات سے زیادہ بُعد نہیں رکھتی۔یہ وہ تبلیغی حکمت عملی تھی جس نے یہودیت اور مسیحیت کی نسبت چین میں اسلام کی جڑیں مضبوط اور پیوست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مِنگ عہد کے مسلمان ایڈمرل،مبلغ اور سفیر
مِنگ عہد میں شاہانِ چین کے دربار میں سب سے بارسوخ اور معتبر شخصیتZheng Heسمجھے جاتے، جن کا اسلامی نام Ma Heتھا۔چینی تلفظ کے فرق کی وجہ سے بعض تاریخی کتب میں آپ کا نام Cheng Ho بھی مشہور ہے۔ آپ نے مِنگ حکمرانوں کے سفیر اور چینی بحریہ کے سربراہ کی حیثت سے چین کی سمندری طاقت کو نئی جہات عطا کیں۔آپ نے اس عہد کے سب سے بڑے بحری بیڑے تیار کروائے اور برصغیر سے لے کر مشرق وسطی، یورپ اور افریقی ممالک تک متعدد سفر کیے۔گوکہ چودھویں صدی سے پیشتر ہی انڈونیشیا، ملائیشیااور برونئی وغیرہ کے جزائر میں اسلام متعارف ہوچکا تھا لیکن ساحلی علاقوں میں آپ کی آمد ورفت اورنہایت ارفع کردار کی بدولت اسلام کا پیغام نہایت سرعت اور تیزی سے پھیلنا شروع ہوا اوردیکھتے ہی دیکھتے مِنگ عہد کے دوران ہی ان جزائر میں آباد لوگوں کی اکثریت حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئی۔محققین کے مطابق:
’’آپ کے سمندری سفروں کے ذریعہ مشرق ومغرب میں روابط استوار ہوئے اور جنوب مشرقی ایشیا اور اسلامی دنیا میں تعلقات قائم ہوئےاور اسلام کے پھیلاؤ میں غیر معمولی تیزی آگئی۔مِنگ شہنشاؤں کے باعتماد وزیر اور سفیر کی حیثیت سے Zheng He نےسلطنت ملاکہ کی آزادی کی حمایت کی اور یوں اس علاقہ میں پہلی اسلامی سلطنت کے قیام سے اشاعتِ اسلام کو ایک مہمیز نصیب ہوئی۔‘’ (5)
انڈونیشیا کے دوسرے بڑے شہر Surabayaمیں The Cheng Hoo Mosqueچین کے Quanzhou Maritime Museum میں آپ کے کارہائے نمایاں پر مشتمل نمائش اور ملائیشیا کے Stadthuys Museum Malaccaمیں آپ کا قد آدم مجسمہ چینیوں کے نزدیک آپ کے مقام و مرتبہ اور انڈونیشین جزائر میں آپ کے عزو وقار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مِنگ عہد میں مسلمانوں کا چینی تہذیب وثقافت میں انضمام
جیساکہ عرض کیا جاچکا ہےچین پر منگولوں کا اقتدار مِنگ خاندان کے ہاتھوں اختتام کو پہنچا۔ غیر ملکی تسلط ختم ہونے کے بعد چین میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے چینی تہذیب وثقافت اور اسلام کے امتزاج کاایک نیا چہرہ متعارف کروایا۔ چین میں بیرونی خطوں سے ہجرت کرکےآباد ہونے والے مسلمانوں نے مقامی نام اختیار کرنے شروع کیے اورسعید کے لیے Sa،حسن کی جگہHa،حُسین کی بجائے Huاور محمد نام رکھنے والوں نے Maیا Moکے اسماء اختیار کر لیے۔اسی طرح لباس اور کھانے پینے کے لحاظ سے بھی اسلامی تعلیم اور چینی آداب کا امتزاج سامنے آیا۔
چینی زبان چونکہ تصویری زبان تھی لہذا،خوش نویسی اور خطاطی چین کی تہذیب وثقافت کا اہم حصہ بن گئی۔مِنگ عہد میں عربی زبان میں آیات قرآنی اور احادیث کی خوش نویسی او ر خطاطی کے ذریعہ چین میں اسلامی تعلیم وتہذیب کا نیارنگ جلوہ گر ہوا۔
اسی طرح مساجد بناتے وقت فارسی، عربی اور ترک فنِ تعمیر کی جگہ چینی فنِ تعمیرجھلکنے لگا۔ مناروں، گنبدوں اور چھتوں کے ڈیزائن بھی روایتی مساجد کی بجائے چینی معابد کی طرز اختیار کرنے لگے۔ (6)
چینی تہذیب وثقافت اور مسلمانوں کے طرز زندگی کے امتزاج کے نتیجہ میں چین میں اسلام کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ چین میں بسنے والے یہودیوں اور مسیحیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا طرز زندگی ایک ایسا پرکشش رنگ اختیار کر گیا کہ ایک طرف تو چینی عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب چین میں بسنے والے یہودی ومسیحی باشندے اسلام کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوگئے۔ تاریخی حقائق کے مطابق:۔مِنگ عہد میں سترھویں صدی عیسوی کے قریب چین میں آباد یہودیوں کی اکثریت حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔(7)
مِنگ حکمرانوں کی اسلام سے غیر معمولی عقیدت اور چین میں بسنے والے مسلمانوں کی چینی تہذیب وثقافت میں انضمام کی کامیاب کاوشوں کی بدولت ’’چین میں اسلام‘‘یا ’’چین میں مسلمانوں‘‘ کی بجائے چینی مسلمان کی اصطلاح عام ہونے لگی اور چینی مسلمان چین کی تہذیب و ثقافت کا اٹوٹ انگ حصہ بن گئے۔
شادی کے بارہ میں شاہِ چین کا قانون
شاہانِ چین Hanنسل سے تعلق رکھتے تھے جو چین میں سب سے زیادہ معزز اور قابل احترام نسلی گروہ سمجھا جاتا ہے۔مِنگ خاندان تک تقریباً دو ہزار سال چین پر حکمرانی کرنے والے شاہانِ چین کا تعلق بھی ہان نسل سے ہی تھا۔ ہان چینیوں کے رسم ورواج کے مطابق دیگر چینی اقوام میں شادیاں کرنا ممنوع تھا،مگر مِنگ عہد کے بانی عزت مآبHongwuنےآرٹیکل122کے تحت مسلمانوں کو ہان چینیوں سے شادی کی اجازت عطا فرمادی۔(8)
شاہانِ چین کی اسلام سے عقیدت
مِنگ عہد کے بانی عزت مآب Hongwuکی سیرت وکردار اور اسلام کی طرف آپ کےغیر معمولی میلان سےمترشح ہے کہ آپ کا قلب ورح بانئ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت سے سرشار تھا۔آپ کے عہد میں جنوبی چین میں متعدد تاریخی مساجد تعمیر ہوئیں۔Nanjing,Yunnan, Guangdong , Fujianجیسے شہروں میں مساجد کی تعمیر بھی آپ کے عہد مبارک میں ہوئی۔(9)
ایک طرف شاہانِ چین کی اسلام سے عقیدت اور دوسری طرف چینی مسلمانوں کے مقامی تہذیب وثقافت کے احترام کے نتیجہ میں چین میں اسلام کو ایک نئی جہت نصیب ہوئی اور چین میں وجود رکھنے والے دیگر غیر ملکی مذاہب خصوصاً یہودیت اور مسیحیت چین سے ناپید ہونا شروع ہوگئے۔چین میں اسلام اور یہودیت کے آسٹریلین محقق Donald Danielاس موضوع پر رقمطراز ہیں کہ
’’مِنگ شہنشاہ اسلام کی طرف خصوصی میلان رکھتے تھے۔شاید اس لیے کہ مسلمانوں نے منگولوں کے خلاف مِنگ خاندان سے مل کر جدوجہد کی تھی۔اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پہلے مِنگ شہنشاہ Hongwuمسلمانوں سے خصوصی تعلقات رکھتے تھے اور غالباً ان کی ایک بیگم بھی مسلمان تھیں۔تین ابتدائی مِنگ جرنیلوں کے بارہ میں بھی خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان تھے۔دوسرے مِنگ شہنشاہ Yongleکے ایڈمرل مسلمان تھے،جنہوں نے چین کے سفیر کی حیثیت سے دنیا بھر کے متعدد سفر کیے۔(10)
مِنگ شہنشاہ کی طرف سے مسلمانوں کو امان
مِنگ خاندان کے بانی عزت مآب Hongwuکی اولاد اور آنے والی تین صدیوں تک مسندِ شاہی پر بیٹھنے والے مِنگ حکمرانوں نے مسلمانوں سے قرب و محبت کی پالیسی کو جاری وساری رکھا۔ خصوصا آپ کے صاحبزادے Yongleنے اپنے والد محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے چینی مسلمانوں سے خصوصی شفقت و عنایت کا سلوک فرمایا۔آپ کی طرف سے مسلمانوں کو تحریری امان عطا کی گئی جس کے الفاظ Fuzhou اور Quanzhouکی مساجد میں صدیوں تک آویزاں رہے۔ اس امان میں تحریر تھا کہ
میں آپ لوگوں کی رہائشوں اور گھروں کی حفاظت کا شاہی فرمان جاری کرتا ہوں۔عام شہری ہوں، سرکاری حکام یا میری فوج کوئی شخص آپ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچائے۔ نہ آپ لوگوں سے جارحیت سے پیش آئے۔ آپ لوگوں کو رنج اور تکلیف پہنچانے والا میرے احکام کا نافرمان اور مجرم تصور ہوگا نیزسزا کا مستحق ٹھہرے گا۔(11)
شہنشاہِ چین کی سو لفظوں کی نعت
مِنگ عہد کے بانی عزت مآب Hongwuکے مسلمانوں سے خصوصی حُسنِ سلوک، چین کے طول وعرض میں مساجد کی تعمیر، دربار شاہی میں مسلمان جر نیلوں کے اثر ورسوخ سے ظاہر ہے کہ آپ کے قلب ورح اسلام سے متاثر تھے۔ نہ صرف یہ کہ آپ اسلام کی طرف میلان رکھتے اور قرآن کریم کے پیغام سے متاثر تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کے عشق ومحبت میں سرشار تھے۔ آپ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک نعت رقم فرمائی۔ یہ نعتِ رسول اللہ ﷺ اس بات کی غماز ہے کہ آپ پر اسلام کی حقیقت منکشف ہوچکی تھی اور آپ ولیوں اور درویشوں کی طرح رسولﷺ کے مقام و مرتبہ سے آشنا ہوچکے تھے۔ سو الفاظ پر مشتمل یہ نعت چینی زبان میں 百字讃یعنی bǎizìzànکہلاتی ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے سو لفظوںکی نعت۔25مصرعوں پر مشتمل اس نعت کا ہر مصرعہ 4چینی الفاظ پر مشتمل ہے۔ چینی چونکہ تصویری زبان ہے لہذا ہر لفظ نہایت گہرے رموز ومعانی پر مشتمل ہے۔اس پاکیزہ نعت کے ذریعہ سو الفاظ میں اسلام اور رسول اللہ ﷺکانہایت جامع تعارف شاہِ چین کے علم وعرفان اور سعید فطرت کا مظہر ہے۔ یہ نعت درج ذیل ہے:
乾坤初始
天籍注名
傳教大聖
降生西域
授受天經
三十部册
普化衆生
億兆君師
萬聖領袖
協助天運
保庇國民
五時祈祐
默祝太平
存心真主
加志窮民
拯救患難
洞徶幽冥
超拔靈魂
脱離罪業
仁覆天下
道冠古今
降邪歸一
教名清真
穆罕默德
至聖貴人
穆罕默德
چینی زبان کے الفاظ اپنے اندر علوم ومعانی کا جہان رکھتے ہیں۔ بعض دفعہ ایک لفظ ہی جملہ کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذااس نعتیہ کلام کواردو زبان میں ڈھالنا ایک کٹھن چیلنج تھا،لیکن نہایت عاجزانہ کوشش کی گئی ہے کہ آسان فہم انداز میں اصل متن کے قریب تر رہتے ہوئے نعت کا منظوم ترجمہ کیا جائے۔چینی زبان کی فصاحت وبلاغت اور کم از کم الفاظ میں پیغام پہنچانے کی صلاحیت نعت کے ان سو الفاظ سے خوب عیاں ہے۔چینی زبان میں بیان فرمودہ علوم ومعانی کے جہان کواردو زبان میں منظوم صورت میں ڈھالنے کے لیے بعض جگہ شعری ضرورت کے تحت بامحاورہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔نیزاس نعت کے انداز اور ترتیب سے ظاہر ہے کہ عزت مآب Hongwuنے ایک پہیلی کے رنگ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو چینی قوم پر آشکار فرمایا ہے۔ لہٰذا ترجمہ کرتے ہوئے اکثر مقامات پر’’تھے‘‘ کے الفاظ میں ماضی کے صیغہ کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ اس نعتِ مبارکہ کا پہیلی کا اسلوب بھی برقرار رہے۔
جب سے ہے تکوین ِعالم کا وجود وسلسلہ
آپ کا اسمِ مبارک محورِ ارض وسماء
آپ تھے ایمان وحکمت کے امام وپیشوا
چین کا مغرب تھامولد اور مسکن آپ کا
اک صحیفہ آسمانی آپ کو رب سے ملا
تیس پاروں میں رقم ہے یہ خزینة الہدیٰ
آپ تھے انسانیت کے راہبر اور رہنما
آپ تھے سب بادشاہوں سے بھی افضل بادشاہ
آپ کو حاصل رہی ہے نصرتِ ربّ الوریٰ
آپ امت کے نگہباں،دردمندوں کی شفاء
بارگاہِ ایزدی میں بے قرار وغمزدہ
امن و راحت کے لیےتھی پانچ وقتوں کی دعا
آپ تھے روحانیت کے بادشاہ و پیشوا
آپ کمزوروں کے والی،آپ تھے حاجت روا
آپ تھے بے خانماؤں، بے کسوں کےآسرا
آپ پر اس کی عطا سے غیب کا در بھی کھُلا
آپ تھے ہر پاک فطرت کے لیے جائے پناہ
رحمتِ عالم مقام و مرتبہ تھا آپ کا
آپ کی راہ ہے گزشتہ اصفیا ء کا نقشِ پا
آپ کی آمد سے ہی توحید کا ڈنکا بجا
آپ کا مذہب ہے برحق اور رہِ صدق وصفا
آپ کا اسم مبارک ہے محمد مصطفیٰ
صلی اللہ علیہ وسلم
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبہ مذہبی علوم کے محقق Brendan Newlon اس نعت پر اپنے تحقیقی مقالہ میں عزت مآب شہنشاہ کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’چین میں مسلمانوں کے نفوذ اور کامیابیوں کی بڑی وجہ مِنگ عہد کے حکمران کی مسلمانوں کے بارہ میں پالیسیاں اور طرزعمل ہے۔ آپ اپنے ذاتی اور ریاستی دو نوں معاملات میں ہر طرف سے مسلمانوں میں گھرے ہوئے تھے۔آپ کے سپہ سالاروں میں Hu Dahai اورChang Yuchuجیسی شخصیات کٹر مسلمان تھیں۔اسی طرح چینی مسلم تاریخ کے مطابق ان کی اہلیہ Empress Maبھی مسلمان تھیں۔(12)
اس نعت کے بارہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہhis poem has indisputably been written in the authorial tone of a believerیعنی یہ نعت اس طرز پہ لکھی گئی ہے جیسے کوئی ایمان لانے والا شخص لکھتا ہے۔نیز نعت کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدح میں لکھی گئی یہ نعت چینی زبان میں اسلام کی تبلیغ کے سب سے قدیم ترین لٹریچر میں سے ایک ہے۔نہ صرف یہ کہ یہ نعت چینی زبان میں لکھی گئی بلکہ چین کی روایتی اور کلاسیکی شاعری کے انداز میں لکھی گئی ہے۔علاوہ ازیں اس میں جن الفاظ اور محاوروں کا استعمال کیا گیا ہے وہ اپنے اندر معانی کی کئی جہات اور گہرائی رکھتے ہیں اور اس زمانے کے چینی فلسفہ اور سیاق و سباق پر مشتمل ہیں۔‘‘(12)
یہ نعت علوم ومعرفت کا مجموعہ ایک ایسا پیغام ہے جس کے لفظ لفظ میں نہایت عمیق اور گہرے معانی پوشیدہ ہیں۔ کیلیفورینا یونیورسٹی کے شعبہ مذہبی علوم کے مذکورہ بالا محقق نے اس نعت کی تفسیر اور تشریح پر ایک نہایت جامع مقالہ تحریر فرمایا ہے۔ اس مقالہ کا اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے:
Whether or not Emperor Zhu Yuanzhang(Hongwu) intended to declare himself to be Muslim by glossing the Islamic testification of faith in the final lines of his poem praising the Prophet remains a matter of minor literary and historical debate, but the central message of his poem is clear: “Muhammad is the most noble sage (12).”
یعنی اس کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہےکہ شہنشاہ Hongwuنے اپنے منظوم کلام کے آخری اشعار میں آنحضور کی مدح کرتے ہوئے اپنے ایمان کی تصدیق کی ہے یا نہیں۔ یا پھر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنا چاہا ہے یا نہیں کیونکہ یہ آج تک ادبی اورتاریخی لحاظ سے بحث طلب ہے۔لیکن ان کی نظم کا مرکزی خیال بہت واضح ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی شان سب سے بلند اور ارفع ہے۔
حوالہ جات
1۔ The preaching of Islam ;a history of the propagation of the Muslim faith page 248
2۔ Ravished by Oranges by Simon Leys page 8
3۔ Firearms: a global history to 1700 by Kenneth Warren Chase page 42
4۔ Peking:temples and city life,1400-1900 by Susan Naquin , University of California Press page 214
5۔ Cheng Ho`s Expeditions by Liao page 254~256
6۔ Xi`an Daxuexi Alley Mosque:Historical and Architectural Study by H.Hagras Muhammad
7۔ The preaching of Islam ;a history of the propagation of the Muslim faith page 249
8۔ The mendate of heaven and the Great Ming Code Volume 21 of Asian Law series page 241
9۔ Cheng Ho and Islam in Southeast Asia by Tan Ta Sen page 170
10۔ The Integration of Religious Minorities in China : The Case of Chinese Muslims by Donald Daniel Leslie page 14
11۔ The Integration of Religious Minorities in China : The Case of Chinese Muslims by Donald Daniel Leslie page 14
12۔ Praising the Prophet Muhammad in Chinese
A new translation and analysis of Emperor Zhu Yuanzhang‘s Ode to the Prophet, by Brendan Newlon