متفرق مضامین

حصولِ تقویٰ

(سعید احمد انور۔ یوکے)

تقویٰ یوں تو ایک چھوٹا سا چار حرفی لفظ ہے لیکن اس کی حیثیت اور افادیت ایک بحر بے کنار کی سی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ وہ جب چاہے اور جسے چاہے عطا کر سکتا ہے۔ لیکن صرف اتنا کہہ دینے سے ہمارے اوپر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(سورۃ البقرۃ: آیت 187)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو برکات ودیعت کی ہیں۔ اگر ہم ان کا صحیح استعمال کریں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہماری مدد ضرور کرے گا۔ صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی نہیں کہ یہ اللہ کی عطا ہے وہ جب چاہے اور جسے چاہے عطا کر سکتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کہتے ہیں کہ بن روئے ماں بھی دودھ نہیں پلاتی۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاناہمارا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگرتم میری طرف چل کر آؤگے تو مَیں تمہاری طرف دوڑ کر آؤں گا۔

اس مضمون میں خاکسار اللہ تعالیٰ کے فرمودات کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کی چند تحریرات جو ہم سب کے لیے رہ نمائی کرتی ہیں ان کو بیان کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ کی آیات 3تا6میں فرماتا ہے:(ترجمہ)یہ ’’وہ‘‘کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اُتارا گیا اور اس پر بھی جو تجھ سے پہلے اُتارا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر قائم ہیں اور یہی ہیں وہ جو فلاح پانے والے ہیں۔

ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں یعنی جو تقویٰ کی راہوں پر چلنے کے خواہش مند ہیں ان کے لیے رہ نمائی فرما دی ہے کہ یہ کام بجا لاؤ گے تو تمہیں تقویٰ نصیب ہو گا۔

اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ مرد اور عورت کے نکاح کے موقع پر جو قرآنی آیات تلاوت کی جاتی ہیں ان میں بھی تقویٰ کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا:

(1) سورۃ النساء آیت 2

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءًۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا۔

اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں ) کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پر نگران ہے۔

(2)سورۃ الاحزاب آیت71تا72

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا۔ یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمہارے لئےتمہارے اعمال کی اصلاح کردے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور جوبھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یقیناً اُس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا۔

(3)سورۃ الحشرآیت19

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

ان آیات میں ایک ہی پیغام اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ڈ ر و اور تقویٰ اختیار کرو۔

جیسا کہ خاکسار نے اوپر بیان کیا ہے ان آیات کی نکاح کے موقع پر نکاح خوان تلاوت کرتا ہے اور ان آیات میں مرد اور عورت جن کے نکاح کا اعلان ہونے والا ہے ان کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم جب خاوند بیوی کے رشتہ میں منسلک ہو جاؤ تو یہ تمہارے لیے از حد ضروری ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنی زندگیاں گذارنے کی کوشش کرنا۔ یہ اس لیے بھی بے حد ضروری ہے کہ اس رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد جو تمہیں اولاد عطا ہو گی اس کی تربیت بھی تمہارے سپرد ہے۔ اگر تمہاری اپنی زندگی تقویٰ سے پُر ہو گی تو تم اپنی اولا د کی تربیت بھی اسی رنگ میں کر سکو گے لیکن اگر تمہاری اپنی زندگی اس معیار پر پوری نہیں اترے گی تو تمہاری اولاد میں بھی خدا کا خوف ناپید ہو گا کیونکہ اگر وہ بظاہر نہ بھی کہیں لیکن ان کے دلوں میں یہ بات ضرور ہو گی کہ ہمارے ماں باپ خود تو وہ زندگی اختیار نہیں کر رہے جس کے بارے میں ہمیں نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ پھر آج کل کے ماحول میں جب بچے ہمجولیوں کے ساتھ سکول میں یا ویسے ہی کھیل کود میں و قت گذاریں گے تو ان پر ماحول کا اثر ہونا لازمی ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ والدین خود اپنے بچوں کے سامنے ایسا نمونہ پیش کریں جس سے بچے خود بخود ہی یہ احساس کرنے لگ جائیں کہ جو طرز زندگی ہمارے ماں باپ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گھر میں، سکول میں یا اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنانے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس سے نہ صرف بچوں کے اندر اپنے دین کی تعلیمات کو اپنانے کی قوت پیدا ہو گی بلکہ والدین بھی اپنی زندگیوں سے انتہائی راحت محسوس کریں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ 25؍دسمبر1897ء میں تقویٰ کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے۔ کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ ا لَّذِیۡنَ ھُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ۔ (النحل:129)

جماعت احمدیہ کو خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے

ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رُو بہ دنیا تھے۔ اُن تمام آفات سے نجات پاویں۔

آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اُس بیماری کے لئے دوا نہ کی جاوے اور علاج کے لئے دُکھ نہ اُٹھایا جاوے۔ بیمار اچھا نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کُل منہ کو کالا نہ کر دے۔ اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پرہوتا ہے۔

صغائر سہل انگاری سے کبائر ہو جاتے ہیں

صغائر سہل انگاری سے کبائر ہو جاتے ہیں۔ صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کا ر کُل مُنہ کو سیاہ کر دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے ویسا ہی قہار اور منتقم بھی ہے۔ ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ اُن کا دعویٰ اور لاف و گزا ف تو بہت کچھ ہے اور ان کی عملی حالت ایسی نہیں۔ تو اُس کا غیظ و غضب بڑھ جاتا ہے۔ پھر ایسی جماعت کی سزا دہی کے لئے وہ کفار کو ہی تجویز کرتا ہے۔ جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کئی دفعہ مُسلمان کافروں سے تہ تیغ کئے گئے۔ جیسے چنگیز خان اور ہلاکو خاں نے مسلمانوں کو تباہ کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے ۔لیکن پھر بھی مسلمان مغلوب ہوئے۔ اس قسم کے واقعات بسا اوقات پیش آئے۔ اس کا باعث یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو پکارتی ہے لیکن اس کا دل اَور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل رُو بدُنیاہے تو پھر اُس کا قہر اپنارنگ دکھاتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ10تا11، ایڈیشن1984ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقویٰ کے بارے میں مزید فرماتے ہیں :

تقویٰ کے اجزاء

’’تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں۔ عجب، خود پسندی، مال حرام سے پرہیز اور بد اخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔ جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔

اِدۡ فَعۡ بِا لَّتِی ھِیَ اَحۡسَنُ (المومنون:97)

اب خیال کرو کہ یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے بلکہ اُس پر صبر کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گاکہ مخالف تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا۔ اور یہ سزا اُس سزا سے بہت بڑھ کر ہوگی جو انتقامی طور پر تم اُس کو دے سکتے ہو۔ یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدامِ قتل تک نوبت پہنچا سکتا۔ لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے۔ خوش اخلاقی ایک ایسا جوہر ہے کہ موذی سے انسان پر بھی اُس کا اثر پڑتا ہے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہےکہ

لُطف کُن لُطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش

(ملفوظات جلد 1صفحہ81، ایڈیشن1984ء)

تقویٰ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اشعار

آپؑ فرماتے ہیں :

وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سےدُور ہیں

ہر دم اسیرِ نخوت وکبر و غرور ہیں

تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو

کبرو غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو

ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ متقین اور تقویٰ کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’المُتَّقِیْن۔ متقی کی جمع ہے جو اِتَّقَی کا اسم فاعل ہے۔ اتقاء وقی سے باب افتعال کا فعل ماضی ہے وَقَی کے معنے ہیں بچا یا حفاظت کی۔ اور اِتَّقَی کے معنے ہیں بچا۔ اپنی حفاظت کی(اقرب) مگراس لفظ کا استعمال دینی کتب کے محاورہ میں معصیت اور بُری اشیا ءسے بچنے کے ہیں اور خالی ڈر کے معنوں میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ وقایۃ کے معنی ڈھال یا اس ذریعہ کے ہیں جس سے انسان اپنے بچاؤ کا سامان کرتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اتّقاء جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے توانہی معنوں میں آتا ہےیعنی اللہ تعالیٰ کو اپنی نجات کے لئے بطور ڈھال بنا لیا۔

قرآن کریم میں تقویٰ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حضرت ابو ہریرہؓ سے کسی نے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ کانٹوں والی جگہ پر سے گزرو تو کیا کرتے ہو۔ اُس نے کہا یا اس سے پہلو بچا کر چلا جاتا ہوں یا اس سے پیچھے رہ جاتا ہوں یاآگے نکل جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔ یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مقام پر کھڑا نہ ہواور ہر طرح اس جگہ سے بچنے کی کوشش کرے۔ ایک شاعر (ابن المعتزر) نے ان معنوں کو لطیف اشعار میں نظم کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں

خَل الذُّنُوْبَ صَغِیْرَھَا وَ کَبِیْرَھَا ذَاکَ التُّقٰی

وَصۡنَعۡ کَماشٍ فَوۡقَ ارۡضِ الشَّوۡکِ یَحۡذرُمَا یَریٰ

لَا تَحۡقَرَنَّ صَغِیْرَۃً اِنَّ الْجِبَالَ مِنَ الۡحَصیٰ

(ابن کثیر)

یعنی گناہوں کو چھوڑ دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے اور تو اس طریق کو اختیار کر جو کانٹوں والی زمین پر چلنے والا اختیار کرتا ہے۔ یعنی وہ کانٹوں سے خوب بچتا ہے۔ اور تو چھوٹے گناہ کو حقیر نہ سمجھ کیونکہ پہاڑ کنکروں سے ہی بنے ہوتے ہیں۔ ‘‘

(تفسیر کبیرجلد اوّل صفحہ73)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’پس ہمارے ہر عمل سے یہ ثابت ہونا چاہئے کہ ہم نے آپؑ کی بیعت میں آ کر اپنے اندر اخلاقی تبدیلیاں پیدا کیں، پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ اور پھر لوگوں کو یہ بتائیں بھی اور یہی تبلیغ کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے اخلاق میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنے اور ہر وقت اعلیٰ اخلاق کے اظہار کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ہی اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍جون2017ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جون 2017ءصفحہ9)

تقویٰ کے بارے میں شروع میں قولِ سدید کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ25؍ستمبر2009ء میں فرمایا:

’’احمدیوں کو اپنی گواہیوں میں بھی اور اپنے معاملات میں بھی جب پیش کرتے ہیں تو سو فیصد سچ سے کام لینا چاہئے۔ مثلاً عائلی معاملات ہیں۔ نکاح کے وقت اس گواہی کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم قول سدید سے کام لیں گے۔ سچ سے کام لیں گے۔ ایسا سچ بولیں گے جس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ جس سے کوئی اور مطلب بھی اخذ نہ کیا جا سکتا ہو۔ صاف ستھری بات ہو۔ لیکن شادی کے بعد لڑکی لڑکے سے غلط بیانی کرتی ہے اور لڑکا لڑکی سے غلط بیانی کرتا ہے۔ دونوں کے سسرال والے ایک دوسرے سے غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں اور یوں ان رشتوں میں پھر دراڑیں پڑتی چلی جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ختم ہو جاتے ہیں۔ صرف ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اگر بچے ہو گئے ہیں تو وہ بھی برباد ہو جاتے ہیں۔ پہلے بھی کئی مرتبہ مَیں اس بارہ میں کہہ چکا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے بھی اور بندوں کے حق ادا کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ایک مومن کو، ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو عبادالرحمن میں شمار کرتے ہیں ہر قسم کے جھوٹ سے نفرت ہو۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍ستمبر2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍اکتوبر2009ءصفحہ7)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی صحیح روح پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button