متفرق مضامین

رمضان المبارک اور قبولیتِ دعا کے مواقع

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

ہم کچھ دنوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کے بابرکت مہینے میں داخل ہوچکے ہیں الحمدللہ۔ جہاں رمضان المبارک روحانیت، تقرب الی اللہ کا مہینہ ہے وہاں پر قبولیت دعا کا بھی مہینہ ہے۔

اس سال کا رمضان گذشتہ رمضان کی طرح قدرے مختلف ہو گا۔ رمضان المبارک کی وہ گہماگہمی جو اسلامی ملکوں میں خاص طور پر نظر آتی ہے امسال اس طرح نظر نہ آئے گی لیکن خدا تو دلوں کے بھید کو جانتا ہے۔ وہ نیکی کی روح اور نیت سے خوب خوب واقف ہے اور اسی کے موافق ثواب ہو گا۔

امسال اکثر ممالک میں پابندی ہو گی یا تو بالکل مساجد میں آناجانا بند ہو گا یا ایک محدود پیمانے پر مساجد میں آمدورفت ہو گی۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں پاکستان میں ہمارے شہر میں رمضان کے دنوں میں لاؤڈ سپیکرز پر اذانوں کا سلسلہ ہوتا ۔ محلہ میں کنستر بجا کر بوقت سحر جگایا جاتا۔ کوئی ڈھول پیٹتا اور کہیں سے سائرن کی آواز آتی۔ رمضان میں مساجد میں بھی خوب رونق ہوتی تھی۔ مساجد میں افطاری کا اہتمام بھی ہوتا تھا اور پھر نماز تراویح کا انتظام بھی۔ ربوہ میں تو رمضان کی بالکل عجیب روحانی کیفیت رہتی تھی۔ صَلِّ عَلٰی پڑھ کر جگایا جاتا، مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں اور پھر بعد میں ہر مسجد میں درس القرآن کا اہتمام ہوتا ۔

امسال کورونا وائرس کی وجہ سے ابھی تک پابندیاں ہیں اور محدود پیمانے پر لوگ مساجد جائیں گے۔ اور اپنی عبادات کا اکثر حصہ گھروں میں ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سب کو رمضان کی برکتوں سے مالا مال کر دے اور سب کی عبادتوں کو درجہ قبولیت عطا فرمائے۔ اور جولوگ بھی اس کی راہ میں مجاہدہ کریں خدا تعالیٰ اس کے مبارک پھل انہیں عطا فرمائے۔ آمین۔

رمضان المبارک کی اہمیت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہر سال رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں رمضان کی اہمیت و برکات، دعاؤں کی اہمیت اور قبولیت، نماز جمعہ، تلاوت قرآن کریم، نمازوں میں باقاعدگی، ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھنے کی برکات پر احباب جماعت کو نصائح فرماتے ہیں۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍اکتوبر 2004ءمیں آپ نے رمضان المبارک کی اہمیت و برکات پر یہ حدیث مبارکہ پڑھی۔

’’حضرت ابومسعود غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان کے شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ

’’اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو میری امت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔‘‘ اس پر بنو خزاعہ کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی! ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا:

’’یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے۔ پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں۔‘‘

(الترغیب و الترھیب، کتاب الصوم، الترغیب فی صیام رمضان)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس خطبہ جمعہ میں یہ حدیث بھی بیان فرمائی :

طبرانی الاوسط میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے آنحضورﷺ سے سنا آپؐ فرما رہے تھے۔ رمضان آگیا ہے اور اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو اس میں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس نے رمضان کو پایااور اسے بخشا نہ گیا۔ اور وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا تو پھر کب بخشا جائے گا۔‘‘

(الترغیب والترھیب۔ کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان)

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 29؍اکتوبر2004ءصفحہ8)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 17؍جون 1983ء میں رمضان المبارک کے عظیم روحانی فوائد پر خطبہ ارشاد فرمایاجس میں آپ نے فرمایا :

’’آنحضورﷺ نے جب یہ فرمایا اِذَا دَخَلَ شَہْرُ رَمَضَانَ (سنن نسائی باب فضل شھر رمضان) کہ جب شھر رمضان داخل ہو جاتا تو اس سے یہ مراد نہیں کہ بالعموم ساری دنیا پر برکتیں نازل ہوتی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ وہاں وہاں برکتیں لے کر آتا ہے جہاں جہاں وہ داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس حدیث کے آغاز ہی میں آنحضورﷺ نے اس کو سمجھنے کی چابی رکھ د ی۔ آپؐ نے فرمایا اِذَا دَخَلَ شَہْرُ رَمَضَانَ کہ جب جب اور جہاں جہاں ماہ رمضان داخل ہو گا وہاں وہاں یہ کیفیات پیدا کرے گا اور مراد یہ ہے کہ رمضان جب اپنی پوری شرائط کے ساتھ کہیں داخل ہو گا تو انسان کے لئے برکتوں کا موجب بنے گا۔ ورنہ عملاً رمضان کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے جو شہروں میں داخل ہو جائے یا ملکوں میں داخل ہو جائے۔ یہ تو انسان کے وجود میں داخل ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس انسان کے وجود میں رمضان کا مہینہ داخل ہو جائے گا اس کے جہان میں نیک تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی اس کے زمین و آسمان میں تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی۔ یعنی جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ انسان جو اپنے آپ کو رمضان کے تابع کر دے گا تو گویا رمضان المبارک اپنی ساری برکتوں کے ساتھ اس انسان میں داخل ہو گیا۔ اس طرح ایسے انسان کےجہان میں جو بھی جنت کے دروازے ہیں وہ سارے کھل جائیں گے اور جہنم کے جتنے دروازے ہیں وہ بند کر دیئے جائیں گے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد دوم صفحہ 332)

ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص رمضان کا روزہ بغیر کسی رخصت (عذر)اور بغیر بیماری کے چھوڑتا ہے تو اگر ساری عمر بھی روزے رکھتا رہے تو اس کی قضا نہیں کر سکتا۔‘‘

(ترمذی ابواب الصوم)

اس حدیث میں رمضان کے فرض روزوں کی اہمیت کا ذکر ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کا ایک روزہ بھی بغیر کسی وجہ کے یعنی نہ وہ بیمار تھا، نہ وہ سفر میں تھا چھوڑتا ہے تو پھر اس کی جگہ وہ ساری عمر بھی روزہ رکھتا چلاجائے اس کے ثواب کے برابر نہیں پہنچ سکتا۔

رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت روزوں کی طرف توجہ کرتی ہے۔ نمازیں پڑھنے کی اور دعاؤں کی طرف بھی ایک خاص رجحان اور میلان ہوتا ہے۔ قرآن شریف بھی پڑھتے ہیں لیکن روزوں کے اختتام کے ساتھ یہ ان نیک کاموں کی بجاآوری میں بھی سستی دیکھنے میں آتی ہے۔

اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ہی رمضان کی عبادتوں میں نیکیوں پر قائم رہنے کے لیے دعا کرے۔ اس لیے خاکسار نے سوچا کہ رمضان المبارک میں قبولیت دعا کے مواقع بارے میں کچھ لکھوں تاکہ احباب زیادہ سے زیادہ ان امور سے فائدہ اٹھا سکیں۔

نماز تہجد اور نماز تراویح

ان بابرکت ایام میں لوگ مساجد میں نماز تراویح کا خصوصیت سے اہتمام کرتے ہیں۔ جس میں قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ قرآن کریم پڑھنا اور سننا انسان پر برکتوں اور رحمتوں اور کامیابیوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔

چونکہ یہ نفل نماز ہے اور نفل نماز کے بارے میں احادیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:

’’ہمارا رب ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کو جواب دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں؟ ‘‘

(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فی عقد التسبیح باللّٰہ)

اس حدیث کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’یہ رمضان کے ساتھ کوئی شرط نہیں ہے یہاں تو رمضان کے علاوہ بات ہو رہی ہے کہ جب بھی کوئی بندہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو بخشتا بھی ہوں، میں اس کو دیتا بھی ہوں، اس کی باتوں کا جواب بھی دیتا ہوں۔ تو یہ رمضان تو اللہ تعالیٰ نے ایک موقع دیا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍اکتوبر2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍نومبر2004ءصفحہ7)

حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، اور رات کو نماز پڑھو جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ اس طرح تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔

(ریاض الصالحین حدیث 1167)

اسی طرح آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے:

’’فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات کی نماز ہے۔‘‘یعنی نماز تہجد۔

اسی طرح حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

’’رات میں ایک گھڑی ہے جس مسلمان کو وہ میسر آجائے وہ اس میں دنیا و آخرت کے معاملہ میں کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرما دیتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات کو ہوتی ہے۔ ‘‘

(ریاض الصالحین حدیث نمبر1179)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ رمضان کے قیام میں رغبت دلاتے تھے، بغیر اس کے کہ آپ اس کے واجب ہونے کا حکم فرماتے۔ آپؐ فرماتے ہیں جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا، تو اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

(ریاض الصالحین حدیث نمبر 1189)

رمضان المبارک میں نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اصل میں یہ نماز تہجد ہی ہے جسے اوّل شب پڑھ لیا جاتا ہے یعنی کوشش کی جائے کہ اگر آپ نے تراویح پڑھ لی ہے پھر بھی نماز تہجد اور قیام اللیلکریں۔ یہ قبولیتِ دعا کا وقت ہے اور رمضان المبارک میں اس سے بہت فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ نہ کریں کہ اگر تراویح کی نماز پڑھی ہے تو تہجد نہ پڑھیں۔ تہجد کو ضرور لازم کریں۔

ہمارے خلفائے کرام نے خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ رمضان المبارک میں ضرور قیام اللیلکیا جائے بلکہ چھوٹے بچوں کو جن پر روزہ فرض نہیں ہے انہیں بھی کہا جائے کہ وہ اس وقت اٹھیں اور دو رکعت نماز تہجد پڑھ لیں اور سحری میں بھی شامل ہو جائیں یہ بھی برکت ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’اس مہینہ میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت ایسی ہوتی ہے جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی ہے، پھر سحری کے لئے سب کو اٹھنا پڑتا ہے اور اس طرح ہر ایک کو کچھ نہ کچھ عبادت کا موقع مل جاتا ہے۔ اسی وقت لاکھوں انسانوں کی دعائیں جب خداتعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں تو خداتعالیٰ ان کو ردّ نہیں کرتا بلکہ ان کو قبول فرماتا ہے۔ اس وقت مومنوں کی جماعت ایک کرب کی حالت میں ہوتی ہے پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان کی دعا قبول نہ ہو۔ ‘‘

(تحفۃ الصیام صفحہ 106)

افطاری کے وقت کی دعا

جیسا کہ لکھا گیا ہے کہ رمضان المبارک قرب الٰہی کا مہینہ ہے اور قبولیتِ دعا کا مہینہ بھی۔ اس سے حتی الوسع اور حتی الامکان فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چنانچہ قبولیتِ دعا کا ایک وقت افطاری کا وقت بھی ہے۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں :

لِلصَّائِمِ عِنْدَ فطْرِہٖ لَدَعْوَۃٌ مَا تُرَدُّ

(ابن ماجہ ابواب الصیام حدیث نمبر ۱۷۵۳)

کہ افطاری کے وقت روزے دار کی دعا قبولیت کا شرف پاتی ہے۔

پس اس وقت کو دعاؤں اور ذکرِ الٰہی میں صرف کرنا چاہیے۔ احادیث سے مزید پتہ چلتا ہے کہ رمضان میں ہر روز افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ بہت سے گناہگاروں کو آگ سے نجات دیتا ہے۔

اور یہ اس وجہ سے ہے کہ جب روزہ دار سارا دن بھوک پیاس کی تکلیف خدا تعالیٰ کی خاطر برداشت کرتا ہے اور اپنے اوقات عزیزہ کو ذکر الٰہی، عبادت، دعاؤں میں گزار رہا ہوتا ہے تو جوں جوں افطاری کا وقت قریب آتا ہے اس کے دل میں شکر اور سوز وگداز کی کیفیت پیدا ہوتی جاتی ہے اور اس کی توجہ کا سارا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہو جاتی ہے۔ جس کی خاطر اس نے روزہ رکھا ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے لوگ گھروں میں ہی یہ وقت باتوں میں یا افطاری کی تیاری میں گزار دیتے ہیں۔ اور اس طرح قبولیت دعا کی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چاہیے کہ افطاری کا سادہ سا انتظام پہلے کر لیا جائے اور اس وقت سےبھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور دعائیں کی جائیں۔

مجھے یا دہے، ہر سال رمضان المبارک میں اس کا اعادہ ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ جب خاکسار جامعہ میں طالب علم تھا۔ ہمارے مہربان و شفیق استاد پرنسپل جامعہ احمدیہ حضرت سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم اس بات کی طرف طلباء کو خاص طور پر توجہ دلایا کرتے تھے بلکہ کئی دفعہ بتایا بھی کہ یہ وقت کس طرح دعاؤں میں گزارنا چاہیے۔ ایک دفعہ خاکسار کو ذاتی طور پر بتایا کہ افطاری سے دس پندرہ منٹ پہلے تخلیہ میں بیٹھ کر خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں اور سجدہ میں دعائیں کریں۔ (کوئی یہ نہ کہے کہ وہ تو غروب آفتاب کا وقت ہوتاہے سجدہ ناجائز ہے۔ اس وقت نماز پڑھنی جائز نہیں۔ سجدہ آپ خدا کو کسی وقت بھی کر سکتے ہیں۔)

آج کل ٹی وی چینلز پر افطاری کےو قت، وقت ضائع کرنے والے پروگرامز نشر ہو رہے ہوتے ہیں جو وقت کے ضیاع کے علاوہ افطار کے وقت کی دعاؤں اور برکتوں سے محرومی کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ ہمیں تواللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں خداتعالیٰ نے ایم ٹی اے کی نعمت سے نوازا ہوا ہے جس پر تلاوت قرآن کریم اور درسِ قرآن جاری رہتا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آپ اس وقت تلاوت بھی کر سکتے ہیں۔ استغفار، درود شریف اور ذکر الٰہی بھی کر سکتے ہیں۔ ادعیۃ القرآن، ادعیۃ الرسولﷺ اور ادعیۃ المہدیؑ بھی بڑھ سکتے ہیں۔ جو رنگ بھی آپ کو پسند آئےاسے اختیار کریں۔ آج کل کے حالات میں جبکہ سب لوگ گھروں میں ہیں ان بابرکت ایام میں خاص تخلیہ سے فائدہ اٹھائیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ سفر و حضر میں ہر جگہ بیت الدعا بنا لیتے تھے۔ اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی اپنے گھروں میں کچھ حصہ عبادت کے لیے مخصوص کرنا چاہیے جہاں ہم بیٹھ کر خداتعالیٰ کو یاد کر سکیں۔

تین دعاؤں کی قبولیت کا ذکر

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ والدین کی دعا اولاد کے حق میں، روزہ دار کی دعا اور مسافر کی دعا خدا کے حضور قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: تین اشخاص کی دعا کبھی ردّ نہیں ہوتی:

ایک امام عادل، دوسرے روزہ دار کی دعا یہاں تک کہ وہ افطار کرے تیسرے مظلوم کی دعا۔ اور ان دعاؤں کے لیے آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عزت کی قسم اے دعا کرنے والے میں تیری مدد کروں گا خواہ کچھ وقت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔

(بحوالہ تحفۃ الصیام صفحہ 107)

پس جہاں یہ مہینہ رمضان کے روزے رکھ کر برکتوں کے حاصل کرنے اور قبولیت دعا کے ایام ہیں وہاں قبولیت دعا کے لیے والدین کی خدمت اور ان کی دعائیں بھی قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک حدیث بھی بیان فرمائی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے ہی بدقسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا پھر رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور گناہ بخشے نہ گئے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 289، ایڈیشن1988ء)

جب بندہ اللہ کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اکتوبر 2004ء میں آنحضرتﷺ کی یہ حدیث بیان کی۔ فرمایا:

’’پھر ایک روایت میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے۔ بڑا کریم اور سخی ہے، جب بندہ اس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔‘‘

یعنی صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کو رد نہیں کرتااس کو قبول کر لیتا ہے۔ اس لیے روازہ دار کو اپنا سارا دن اور سارے اوقات خداتعالیٰ کی یاد، ذکر الٰہی اور دعاؤں اور استغفار اور درود شریف میں گزارنے چاہئیں تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ قبولیت دعا نصیب ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اگر لوگ یہ سوال کریں کہ روزوں سے کیا فائدہ ہوتا ہے تو ایک تو یہاں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ: 184)اور دوم یہ کہ انسان کو خدا کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بہت قریب ہو جاتا ہوں اور دعائیں قبول کرتا ہوں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ307تا308)

درود شریف اور قبولیتِ دعا

آنحضرتﷺ نے درود شریف پڑھنے کی بہت اہمیت بیان فرمائی ہے۔ ترمذکی کتاب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ علی النبی میں حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں :

’’دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تو اپنے نبیﷺ پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی خداتعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لیے اوپر نہیں جاتا۔‘‘

اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اسی دوران ایک شخص آکر نماز پڑھنے لگا جب اس نے دعا کرنی شروع کی تو حمد و ثناء اور درود کے بغیر ہی یوں دعا کرنے لگا کہ اے اللہ! مجھے بخش دےا ور مجھ پر رحم فرما۔ جب وہ دعا کر چکا تو آنحضرتﷺ نے اسے فرمایا کہ اے نمازی! تم نے دعا میں جلد بازی کی ہے۔ جب تم نماز کے آخر میں تشہد کے لیے بیٹھو تو پہلے اللہ تعالیٰ کی ایسے طور پر حمد و ثنا بیان کرو جو اس کی شان کے لائق ہو اور مجھ پر دروود بھیجو اس کے بعد اللہ کے حضور جو دعا کرنی ہو کرو۔

(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فی جامع الدعوات عن النبیؐ )

حضرت فضیلہ بن عبیدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضورﷺ اس شخص کو یہ ہدایت دے چکے تو اس کے بعد ایک اور شخص آخر نماز پڑھنے لگا اور اس نے اپنے لیے دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور اس کے بعد آنحضرتﷺ پر درود بھیجا۔ اسی پر آنحضرتﷺ نے اسے فرمایا: اے نمازی! اب دعا کرو تمہاری دعا قبول ہو گی۔ پس

اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

کہ رمضان المبارک میں جو کہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے اس طور پر دعائیں کریں کہ وہ درود شریف سے خالی نہ ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا درود صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعائیں اس درود کے وسیلے سے خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍فروری 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍مارچ2006ءصفحہ8)

تلاوت قرآن کریم اور قبولیت دعا

رمضان المبارک کا قرآن کریم سے گہرا تعلق ہے۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ لوگ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی تلاوت ضرور کرتے ہیں کیونکہ یہ رمضان کا ہی مہینہ تھا جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزحضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک اقتباس پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فرمایا:’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر قرآن شریف سے اعراض صوری معنوی نہ ہو ‘‘نہ ظاہری طور پر نہ معنوں کے لحاظ سے۔ جو بھی تعلیم دی گئی اس پر عمل ہو’’تو اللہ تعالیٰ اس میں اور اس کے غیروں میں فرقان رکھ دیتا ہے ‘‘، فرق ظاہر کر دیتا ہے’’ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان پیدا ہوتا ہے اس کی قدرتوں کے عجائبات وہ مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی معرفت بڑھتی ہے۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کو وہ حواس اور قویٰ دیئے جاتے ہیں کہ وہ ان چیزوں اور اسرارقدرت کو مشاہدہ کرتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھتے۔ وہ ان باتو کو سنتا ہے کہ اوروں کو ان کی خبر نہیں ‘‘۔

(الحکم17؍اگست1905ء)

تو دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی قرآن کریم کا سیکھنا، پڑھنا، یاد کرنا ضروری ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍اکتوبر2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍نومبر2005ءصفحہ8)

حدیث میں آتا ہے حضرت ابوامامہ باہلی سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن کریم پڑھا کرو یقیناً وہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرے گا۔

ترمذی کتاب فضائل القرآن میں یہ حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے قرآن کا ایک حرف بھی پڑھا اس کو اس کے پڑھنے کی وجہ سے ایک نیکی ملے گی اور اس ایک نیکی کی وجہ سے دس اور نیکیاں ملیں گی۔ پھر فرمایا: میں یہ نہیں کہتا کہ الٓم ایک حرف ہے۔ ’’ الف ‘‘ایک حرف ہے اور ’’لام‘‘ ایک حرف اور ’’میم‘‘ایک حرف۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’آجکل ماشاء اللہ جہاں رمضان کی وجہ سے مسجدوں میں درسوں کے سننے اور پھر اس کا مختصر ترجمہ اور تفسیر یا اہم مقامات کی وضاحت سننے کا موقع میسر ہوتا ہے جس سے بڑے شوق کے ساتھ بہت سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ اور پھرنماز تراویح میں قرآن کریم کا دور مکمل ہو رہا ہوتا ہے اور خاصی تعداد اس سے بھی فائدہ اٹھاتی ہے، وہاں گھروں میں بھی قرآن کریم پڑھنے، اس کی تلاوت کرنے اور بعض کو اس کا ترجمہ پڑھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ عموماً ماشاء اللہ! اکثر احمدی گھروں میں رمضان میں قرآن کریم کے پڑھنے کی طرف خاص توجہ ہوتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍اکتوبر2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍نومبر2005ءصفحہ5)

دعاؤں کی اہمیت کے پیش نظر اور خصوصاً رمضان المبارک میں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ تلاوت قرآن مجید کا وقت دعاؤں کی قبولیت کے لیے خاص وقت ہوتا ہے اس لیے قرآن کریم پڑھتے ہوئے بھی موقع کی مناسبت سے دعائیں کی جائیں۔

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ تلاوت کرتے وقت بھی دعا ئیں کرتے تھے حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے حضرت نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ حضورﷺ تلاوت کرتے ہوئے جب آیت عذاب پڑھتے تو آپؐ رک جاتے اور اللہ کی پناہ طلب کرتے، اسی طرح آیت رحمت پر ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لیے دعا کرتے۔

(سنن نسائی جلد اول حدیث نمبر 1011)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔‘‘

(نزول قرآن مجید اور آداب تلاوت صفحہ 238)

اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے

ایک اور حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

جو لوگ اللہ کے گھروں میں کسی گھر میں سے جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ درس و تدریس کرتے ہیں تو اُن پر اللہ کی سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجود فرشتوں میں ان کا ذکر فرماتا ہے۔

(ریاض الصالحین حدیث نمبر 1023)

یہ کتنی پیاری حدیث ہمارے لیے نصیحت ہے کہ خدا کے گھروں میں جب قرآن کا درس و تدریس ہو تو تم پر خدا کی سکینت بھی نازل ہو گی۔ اللہ کی رحمت کے نیچے تم آجاؤ گے اور فرشتے بھی تمہیں گھیرے میں رکھیں گے اور خداتعالیٰ فرشتوں کے سامنے تمہارا ذکر کرے گا کہ یہ ہیں میرے بندے!

اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ رمضان المبارک میں خوب خوب تلاوت کریں اور اگرچہ مساجد میں اکٹھے ہو کر درس سننے کا موقع شاید نہ ملے لیکن جماعتی طور پر جو بھی انتظام کیا گیا ہے اس کے مطابق درس میں شامل ہوں تو ان تمام برکات سے حصہ پانے والے ہوں گے جو بیان کی گئی ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً بتایا گیا کہ

اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ۔

ہر قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔

ایک حدیث میں آتا ہےکہ حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہےجس شخص کو قرآن شریف کی مشغولی کی وجہ سے ذکر کرنے اور دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی، میں اس کو دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں۔

(ترمذی۔ بحوالہ منتخب احادیث مکتب فیض عام محمد یوسف کاندھلوی)

قرآن کریم کے دور کی تکمیل پر دعائیں

قرآن کریم تو شروع ہی سورۃالفاتحہ سے ہوتا ہے جو کہ ایک جامع دعا ہے اور پھر قرآن کریم کا اختتام بھی معوذتین دو دعاؤں پر ہے اور سارے کا سارا قرآن برکتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس لیے اس کی تلاوت میں برکت، رحمت اور ثواب ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’یاد رکھو یہ جو خداتعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتداء بھی دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا پر ہی کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جب تک خداتعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی نہیں کر سکتا۔ ‘‘

جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ وہ رمضان شریف میں اور رمضان کے علاوہ بھی باقاعدگی سے تلاوت کرتے اور پھر قرآن کریم کا دور مکمل کرتے ہیں۔ قرآن کریم کے دور کی تکمیل کے وقت انفرادی دعا بھی کرتے ہیں اور اجتماعی بھی۔ گھروں میں جب انفرادی طور پر قرآن کریم کا دور مکمل کیا جاتا ہے لوگ اپنے طور پر دعا کرتے ہیں یہ بھی قبولیت دعا کا خاص وقت ہے۔

بعض اوقات رمضان المبارک کے آخری دن حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی درس القرآن ارشاد فرماتے ہیں اور ایک اجتماعی دعا بھی کی جاتی ہے جس میں اکنافِ عالم میں بسنے والے شامل ہوجاتے ہیں۔

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍ اپریل میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بصیرت افروز ارشادات کی روشنی میں دعا، اس کی فلاسفی اور اس کی قبولیت کے انداز پر بہت ایمان افروز انداز میں روشنی ڈالی۔ ہمیں ہر خطبے کی طرح اس خطبے کو بھی بار بار سننا اور اسے سمجھ کر دعاؤں کی طرف مبذول ہونا چاہیے۔

جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ رمضان المبارک تو ہے ہی قبولیت دعا کا بابرکت مہینہ۔ ہر روز، دن رات، صبح و شام اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ذکر الٰہی، توبہ، استغفار، لاحول ولا قوۃ، تلاوت قرآن کریم، صدقہ و خیرات، نیکیوں میں سبقت، درسوں میں شمولیت، نماز تہجد، نوافل، نماز باجماعت کا قیام اور اہتمام، جمعہ کی ادائیگی سب نیکیوں کو سرانجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پتہ نہیں کس دروازہ سے انسان خدا کے حضور قبولیت پالے۔ ان بابرکت ایام میں کثرت سے دعائیں کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ شرف قبولیت عطا فرمائے اور سب دنیا سے شرک مٹا کر توحید کی طرف آنے کی توفیق دے، آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button