فتوحات صرف اور صرف دعا سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
یہ زمانہ جو آخرین کا زمانہ ہے جس زمانے سے اسلام کی فتوحات وابستہ ہیں اور یہ فتوحات ہم سب جانتے ہیں کہ تلواروں یا بندوقوں یا توپوں اور گولوں سے نہیں ہوئیں اس میں سب سے بڑا ہتھیار دعا کاہے پھر دلائل و براہین کا ہتھیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا گیا ہے۔ اور اسی کے ذریعے سے انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے غالب آنا ہے۔ اور دعائوں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور برکات حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے ہم آیت میں دیکھ چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودبھیجو اور مختلف احادیث سے بھی ہم نے دیکھ لیا کہ یہ سب کچھ بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے ممکن نہیں ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی یہی بتایا ہے کہ مجھے جو مقام ملا ہے اسی درود بھیجنے کی وجہ سے ملا ہے۔ اور اسلام کی آئندہ فتوحات کے ساتھ بھی اس کا خاص تعلق ہے۔ اپنے اس مقام کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح و مہدی بنا کر دنیا میں بھیجنے کی صورت میں دیا۔ ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’ بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے کہ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْن۔
اور درود بھیج محمدؐ اور آل محمدؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔
فرمایا:’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا صلہ ہے۔ سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا مُحب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کامخدوم بنایا جاتا ہے‘‘۔ یعنی دنیا اس کی خادم ہو جاتی ہے۔ ’’اس مقام پر مجھ کو یا دآ یا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زُلال کی شکل پر نُور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں (فرشتے )لئے آتے ہیں اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمدؐ کی طرف بھیجی تھیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء ِدین کے لئے جوش میں ہے‘‘۔ دین کو نئے سر ے سے زندہ کرنے کے لئے ہے۔ ’’لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحیی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی‘‘ جس نے زندہ کرنا ہے پتہ نہیں لگ رہا وہ کون ہے۔ ’’اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھاکہ لوگ ایک مُحییکو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا۔ ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے‘‘۔ یعنی اس میں موجود ہے۔
’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سرّ ہے کہ افاضہ انوارِ الٰہی میں محبتِ اہلِ بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین اور طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 597 تا598 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہو کر کوشش کی جائے
پس آج احیائے دین کے لئے، اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لانے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑا ہونے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے جس جری اللہ کو کھڑا کیا ہے اس کے پیچھے چلنے سے اور اس کے دئیے ہوئے براہین اور دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بتائے ہیں اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا پوری آب و تاب اور پوری شان و شوکت کے ساتھ دنیا میں لہرائے گا۔ ان شاء اللہ۔ اور لہراتا چلاجائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اورلوگوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام پر کیسے سخت دن ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم فرمایا جو کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرے گا۔ اس لئے مسلمانوں کو فرمایا کہ اب اپنی ضدیں چھوڑو اور غور کرو کہ کیا اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں ان کی عزت قائم کرنے کے لئے جوش میں نہیں آیا؟ جبکہ وہ درود بھیجتا ہے۔
اقتباس پورا اس طرح ہے۔ فرمایا کہ’’یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ان پُرآشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا۔ مَیں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک د رد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے۔ وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہے جس میں اس قدر سبّ و شتم اور توہین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی ہو۔ اورقرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو۔ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہیں رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کرکے آپؐ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا۔ جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں کہ اس توہین کے وقت میں اس صلوٰۃ کا اظہارکس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کی صورت میں کیا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ8-9 ایڈیشن 2003ء)
یہ فقرہ دیکھیں کہ اس طرح جماعت احمدیہ پر بہت بڑی ذمہ واری پڑتی ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
پس جہاں ایسے وقت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہو اہے یقیناً اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر درُود بھیجتے ہوں گے، بھیج رہے ہوں گے، بھیج رہے ہیں۔ ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اورامام الزمان کے سلسلے اور اس کی جماعت سے منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعائوں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا درود صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعائیں اس درود کے وسیلے سے خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں۔ یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپؐ کی آل سے ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی عقل دے، سمجھ دے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کوپہچانیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت میں شامل ہوں جو صلح، امن اور محبت کی فضا کو دوبارہ دنیا میں پیداکر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بلند کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کے باوجود آج پھر دیکھ لیں چودہ سو سال کے بعد بھی اسی مہینے میں جب محرم کا مہینہ ہی چل رہا ہے اور اسی سرزمین میں پھر مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے مگر سبق کبھی بھی نہیں سیکھا اور ابھی تک خون بہاتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اس عمل سے باز آئیں اور اپنے دل میں خدا کا خوف پیدا کریں اور اسلام کی سچی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ یہ سب کچھ جو یہ کر رہے ہیں زمانے کے امام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انکار کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
پس آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس نے اس زمانے کے امام کو پہچانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبے کی وجہ سے بہت زیادہ درُود پڑھیں، دعائیں کریں، اپنے لئے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی تاکہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے بچا لے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی دعائوں میں امت مسلمہ کوبہت جگہ دیں۔ غیروں کے بھی ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ ابھی پتہ نہیں کن کن مزید مشکلوں اور ابتلائوں میں اور مصیبتوں میں ان لوگوں نے گرفتارہونا ہے اور ان مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑنا ہے۔ اور کیا کیا منصوبے ان کے خلاف ہو رہے ہیں۔ اللہ ہی رحم کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلا تا رہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہم شکرگزار بندے ہوں۔ اور اس کا شکر کریں کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی ہے۔ اور اب اس ماننے کے بعد اس کا حق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والا بنائے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭