مکرم ناصر جاوید خان صاحب مرحوم
ناصر جاوید خان 1953ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور 13؍مارچ 2021ء کو 67 سال کی عمر میں وفات پائی۔
انّاللّٰہ و انا الیہ راجعون۔
آپ کے والد مرحوم و مغفور پاکستان ریڈ کراس کے جنرل سیکرٹری تھے اور اپنی اعلیٰ خدمات کی وجہ سے انہوں نے ستارۂ قائد اعظم اور ستارہ خدمت حاصل کیا تھا۔علاوہ ازیں ان کو آرڈر آ ف St. John کا اعزاز بھی دیا گیا۔
ان کے خاندان میں احمدیت ناصر کے دادا ملک عبد اللہ خان صاحب کے ذریعہ آئی۔انہوں نے غالباً 1920ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔وہ پولیس انسپکٹر تھے اور قادیان بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔ملک عبداللہ خان صاحب کی بیعت کے بعد ناصر کے والد صاحب صفدر علی خان صاحب نے بھی بیعت کر لی اور پھر خاندان کے دوسرے افراد بھی جماعت میں شامل ہو گئے۔
ناصر جاوید نے ابتدائی تعلیم کینٹ پبلک اسکول کراچی میں حاصل کی۔پھر تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخل ہوئےاور ان کے والد کی درخواست پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ان کا گارڈین ہونا منظور فرمایا ۔اس طرح ناصر جاوید کا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ساتھ پیار کا قریبی تعلق تھا اور اس کی وجہ سے خلافت کے ساتھ ناصر کے دل میں ہمیشہ اخلاص و وفا کا تعلق رہا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد کے ساتھ بہت محبت تھی اور ان کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔
ان کا خاندان ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھتا ہے۔یہ خاندان ہمیشہ جماعت کےلیے قربانیوں میں پیش پیش رہا اور خلافت سے عشق اور اطاعت میں سرشار رہا۔ناصر اپنی طبیعت کی وجہ سے ہر دلعزیز تھے اور جہاں بھی رہے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہوتا تھا۔بہت مہمان نواز اور لوگوں کے ہمدرد تھے۔اپنے غیر از جماعت تعلقات کی وجہ سے ہمیشہ جماعت کے مفاد کےلیے جو بھی کر سکتے تھے اس کےلیے کوشاں رہتے تھے۔قریباً 40 سال پاکستان کی اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں ملازمت کی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔جو بھی محکمہ خسارے میں جا رہا ہوتا تھاان کے سپرد کر دیا جاتا اور وہ تھوڑے ہی عرصہ میں منافع بخش ادارہ بن جاتا۔بہت محنتی اور دیانت دار تھےاور اس وجہ سے افسران ان کی بہت قدر اور عزت کرتے تھے۔ریٹائرمنٹ سے چند سال قبل حکومت نے ان کو Alphaانشورنس کمپنی کاچیف ایگزیکٹو آفیسر بنا دیا اور ان کی سربراہی میں اس کمپنی نے بہت ترقی کی۔
پبلک ریلیشنز کی خاص صلاحیت رکھتے تھے۔چند سال کےلیے حکومت نے ان کو دبئی بھجوا دیا اور یہ وہاں پاکستان ایمبیسی میں Trade Attacheکے طور پر کام کرتے رہے۔ اور اس قدر مشہور و معروف ہوئے کہ لوگ ان کو ہی ایمبیسڈر سمجھتے تھے۔ناصر بہت فرض شناس اور اصولوں کے پابند تھے۔جماعتی کاموں میں بھی ان کا یہی طریق تھا۔حضور انور کے ارشاد پر قریباً دس سال سے یہاں لندن منتقل ہو گئے تھے۔
یہاں جماعت میں Human Resourcesکا شعبہ جاری کیا اور بہت محنت سے اسے فعال کیا۔سب کے ساتھ اطاعت اور تعاون کا اعلیٰ معیار تھا۔کام کی ذمہ داریوں کا بےحد احساس تھا۔طبیعت خراب بھی ہوتی تو دفتر چلے جاتے اور جب نہ جا سکتے تو کام گھر پر منگوا لیتے۔
بیماری کی وجہ سے اکثر ہسپتال آنا جانا رہتا۔وہاں ہسپتال والے ان کی قابلیت سے اتنے متأثر ہوئے کہ ان کو سینٹ جارجز ہسپتال کا گورنر بنا لیا۔دیگر بہت سے رفاہی اور خیراتی اداروں کے ساتھ تعلق تھا اور آپ ان کی راہ نمائی اور خدمت کرتے۔جماعت کے نظام کے سختی سے پابندتھے۔خلافت کے ساتھ عشق تھا۔حضور کے ہر ارشاد پر فوری عمل کی کوشش کرتے۔
ایک وقت میں بیماری کی حالت تشویشناک ہو گئی اور ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ زیادہ سے زیادہ تین ماہ زندہ رہ سکتے ہیں۔قطعاً گھبرائے نہیں۔حضور کی دعائوں پر یقین تھا۔اور حضور کی دعائوں سے طبیعت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔اور اللہ تعالیٰ نے تین نہیں تیس ماہ زندگی کے اَور عطا کر دیے۔سبحان اللہ۔
نمازوں اور دیگر عبادات میں بہت باقاعدہ تھے اور گھر میں دینی ماحول قائم رکھنے کےلیے اپنے بچوں کو تلقین کرتے رہتے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔لواحقین میں ان کی بیگم مبارکہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا عمر صفدر علی خان آج کل دبئی میں ہے۔ایک بیٹی آسٹریلیامیں ہے۔ایک ابو ظہبی اور ایک لندن میں ۔اللہ تعالیٰ ان سب کو احمدیت کی تعلیم پر احسن رنگ میں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ ناصر جاوید خان صاحب کو اعلیٰ علیین میں خاص مقام عطا فرمائے۔آمین۔