یادِ رفتگاں

حضرت چودھری غلام احمد خاں صاحبؓ رئیس کاٹھگڑھ

(رانا عبد الرزاق خاں۔ لندن)

جماعت احمدیہ کاٹھگڑھ ہوشیار پور انڈیا

فہیم اور ذکی انسان

کاٹھگڑھ کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ایک بہادر سپوت کا ذکر نہ ہو جس کا نام نامی چودھری غلام احمد خاںؓ آف کاٹھگڑھ ہے۔ جو اپنے علاقے کے ایک فہیم اور ذکی انسان تھے۔ اور ارد گرد کے علاقے میں ان کی ملنساری اور معاشرتی میل جول مشہور تھا۔ آپؓ اس علاقے کی ایک سنجیدہ اور معقول شخصیت تھے۔ آپؓ کا خاندان اور عزیز و اقارب کی ایک معقول تعداد اس گائوں میں رہائش پذیر تھی۔ علاقے میں بڑے مالک سکھ سفید پوش تھے۔ بعض اوقات جب کبھی علاقے کے سرداروں سے کسی وجہ سے اختلاف ہوجاتا تو چودھری صاحب قائم ہو کر اپنی رائے کو منواتے۔ آپؓ بہت ہی ملنسار، خلق خدا کے ہمدرد اور خلیق تھے۔

کاٹھگڑھ کے پنچ

کاٹھگڑھ میں سات نمبرداریاں تھیں مگر سب سے بڑے اور مضبوط نمبردار اور رئیس چودھری صاحب غلام احمد خاں صاحبؓ ہی تھے۔ ہر مہمان کے لیے قیام اور طعام کا فراخدلانہ انتظام کرتے تھے۔ سرکاری عہدےداروں کے مقام کے مطابق ان کے حسب ِ مرتبہ سلوک اور خاطر تواضع کی جاتی تھی۔ علاقے میں جب بھی کوئی تصادم یا کوئی بے انصافی، چوری چکاری ہوجاتی تو اس کا فیصلہ حضرت چودھری صاحبؓ ہی فرمایا کرتے تھے۔ جب کبھی سکھوں سے کوئی معرکہ درپیش آتا تو آپ کے پاس ایک صد جوانوں کا جتھہ موجود ہوتا تھا۔ اس جتھے کا رعب سارے علاقے پر تھا۔ آپ بڑے زمیندار بھی تھے۔ اور علاقے کے عقیل اور فہیم شخص بھی۔ آپ کے والد کا نام چودھری عبدالرحیم خاں تھا۔ آپ کا ایک بیٹا 1903ء میں پیدا ہوا۔ جس کا نام عبدالرحیم رکھا گیا۔ آپ کے چچا زاد کے بیٹے چودھری محمد حسین صاحب تھے جو پشاور میں تحصیلدار تھے۔ ایک کزن سوہنے خان تھے جن کے بیٹے بابو عبدالحئی خان لاہور میں محکمہ ڈاک کے افسر تھے۔

قبول احمدیت

حضرت چودھری غلام احمد خاںؓ آف کاٹھگڑھ کا مسلک اہل حدیث تھا۔ اور آپ سر سید احمد خان سے متاثر تھے۔ اور ان سے رابطے میں تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی باز گشت سنی اور براہین احمدیہ نظر سے گزری تو آپ نے پہلے 1903ء میں قادیان جاکر بیعت کی اور پھر اپنے خاندان کے اکثر افراد کی حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرائی۔ یوں کاٹھگڑھ میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ گواس سے چند ماہ قبل آپ کی مسجد کے امام سید محمد علی شاہ صاحب احمدی ہوچکے تھے لیکن انہیں آپ نے مسجد کی امامت سے فارغ کر دیا تھا۔ اس واقعہ کی کچھ تفصیل بعد میں بیان کی جائے گی۔

اسی دَور میں آپ کے کزن مولوی عبدالسلام خاں صاحب اور بابو عبدالحئی خاں جو لاہور میں طالب علم تھے وہ بھی بیعت کر چکے تھے۔

تبلیغی کاوشیں

آپؓ کی تبلیغ سے علاقے کے راجپوتوں پر غیر معمولی اثر ہوا۔ اور دوآبے کے علاقے میں بھی چھوٹے چھوٹے دیہات میں جماعتیں قائم ہوئیں۔ آپ کے احمدی ہونے سے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور جن دیہات میں پہلے سے اکا دُکا اگر احمدی تھے تو وہاں مزید لوگ احمدی ہوئے اور جماعتوں کی تعداد بڑھی اور کاٹھگڑھ میں بڑے جلسے کروائے جاتے۔ جو دیہات کاٹھگڑھ سے ذرا دور تھے تو ان کے جلسے قریبی کسی بڑے گائوں میں منعقد کروائے جاتے جہاں مرکز قادیان سے مبلغین بلائے جاتے۔ علاقے کے غیر احمدی رئوسا کو بھی دعوتیں دی جاتیں اور کریام اور سڑوعہ سے بھی با اثر شخصیتیں تشریف لاتیں۔ بڑے بڑے مباحثے ہوئے۔ وفات مسیح ناصریؑ، ختم نبوت، امام مہدی کا ظہور، احادیث سے نشانیاں ثابت ہونے پر اس علاقے کے سعید فطرت لوگوں نے بیعتیں کیں۔ اور اس طرح ان دیہات میں احمدیت کی ترقی ہوئی۔ اخبار البدر سے آریہ سماج سے ایک مباحثے کا پتہ چلتا ہے جو جماعت کاٹھگڑھ کی کاوشوں سے ہوا۔ جس کے صدر سردار بختاور سنگھ تھے۔ مرکز سے علمائے کرام بھی تشریف لائے تھے۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

دیہات میں اثر و رُسوخ

ان دیہات کے نام یہ ہیں:

بیگم پور کنڈی، پنام، موہراں تحصیل گڑھ شنکر، ایمہ، انندپور، میٹیانہ، ضرب دیال، اہرانہ خورد، چنکوعہ، چنکوعی، مکیریاں، بیرم پور، ساہوہ، پھگلانہ، مہت پور، دیاں، گھوڑے واہ، میانی پٹھاناں، جھنگڑ کلاں، پنڈ بیگووال، نواں شہر، بکھلور، آٹھور، روپڑ، لنگڑوعہ، بنگہ، کریہہ، جاڈلہ، نکندپور، لنگیری، غوث گڑھ، جاولی، گڑھ، شنکر، کنکنہ، سمبلی، پھمبیاں ِعمرپور، منڈیراں، بہہ، کتنا، زبراں، اُڑمڑِ، میمووال، سحووال، میانی سیداں، کنگنی، پوی، ماہل پور، پنڈوری، کھرل، بھیووال، چھرماں کھٹانے، سرشت پور، سارچور، دسوہہ، شام چوراسی، کبیروالہ، چٹالہ، چجی، اوڑ، بازید پور، کلیان، بجواڑہ، بیرسیاں، کھماچوں، گُنا چور، بہرام، پھلور، گوڑ پور، ملسیاں، حاشنہ کلاں، بگوراں، تھابل، نکودر، رسول پور، صریح و گوڑہ، رامگڑھ، ہمبوال، ماچھیواڑہ، پووت، کوٹالہ، برج، چک لوہٹ، ٹانڈا چکلی، ہلواڑہ، کوم کلاں، رجاولی۔

جماعت احمدیہ کاٹھگڑھ کا قیام 1903ء

چودھری غلام احمد صاحب نمبردار رئیس کاٹھگڑھ کی قبولیت ا حمدیت کے وقت کاٹھگڑھ کے اکثر افراد نے بیعت کر لی تھی۔ اس موقع پر مولوی عبدالسلام خاں کے والد چودھری محمد حسین خاں صاحب تحصیلدار پشاور نے بھی باجماعت بیعت کی تھی۔ مولوی عبدالسلام خاں صاحب نے زمانہ طالب علمی میں لاہور میں چند ماہ پہلے جب بیعت کی تو ان کے والد چودھری محمد حسین تحصیلدار پشاور نے ناراضگی کا اظہار کیا بلکہ اُن کا ماہانہ خرچ بھی بند کردیا تھا۔ بعد ازاں چودھری غلام احمد نمبردار رئیس کاٹھگڑھ نے چودھری محمد حسین تحصیلدار پشاور سے بات چیت کی اور سمجھایا، پھر چودھری محمد حسین تحصیلدار پشاورنے خود بھی بیعت کرلی۔ اس طرح 1903ء میں ہی کاٹھگڑھ میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔

ایک روایت کے مطابق لاہور میں بابو عبدالحئی خاں ولد چودھری سوہنے خاں ملازم پوسٹ آفس نے بھی اس وقت بیعت کی تھی۔ مگر ان کا تعلق جماعت لاہور کے کھاتے میں آتا ہے۔

کاٹھگڑھ میں پہلے بیعت کنندہ سید محمد علی شاہ صاحب ہی قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ حضرت چودھری غلام احمد صاحبؓ رئیس کاٹھگڑھ نے آپ کو امامت سے ہٹا کر گائوں سے نکال دیا تھا۔ جب احمدیت کی حقیقت خود چودھری غلام احمد صاحبؓ پر کھلی تو پھر سید محمد علی شاہ صاحب کو واپس کاٹھگڑھ اسی شان سے واپس لایا گیا۔

کاٹھگڑھ کی جماعت اس وقت سے ترقی کرتی چلی گئی۔ جماعتی نظام کو وہاں مستحکم کردیا گیا۔ جماعتی نظام کو فوقیت دے کر بدعات کو ختم کرنے کی ترغیب دی گئی۔ ایک نیک اسلامی معاشرے کی شکل وہاں احمدیوں نے پیش کرنے کی کسی حد تک کوشش کی۔ جس میں سب احباب کا عمل دخل تھا۔ اس طرح جماعت احمدیہ کے نیک عمل، اتفاق و اتحاد کی دھاک سارے علاقے پر بیٹھ گئی۔

حضرت چودھری غلام احمد صاحبؓ رئیس کاٹھگڑھ کی فراست اور حکمت نے برادری کی عزت کو چار چاند لگادیے۔ اُس وقت کسی بھی جماعت میں احمدیہ ورنیکلر سکول نہیں تھا۔

نرینہ اولاد

حضرت چودھری غلام احمد صاحبؓ رئیس کاٹھگڑھ کی بیٹیاں ہی تھیں اور نرینہ اولاد کوئی نہ تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ قادیان تشریف لے گئے اور حضورؑ سے نرینہ اولاد کے لیے دعا کی گزارش کی۔ جس پر حضور علیہ السلام نے دعا کی۔ ایک سال بعد 1903ء میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک فرزند عنایت فرمایا۔ اس واقعہ سے آپ کی عقیدت میں مزید اضافہ ہوا۔

اس سے قبل حضرت چودھری صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے خواب میں ایک بچہ دکھلایااور بتایا کہ اس کا نام بشمرداس رکھنا۔ بچے کی پیدائش کو جب چند ماہ ہوئے تو حضرت چودھری صاحبؓ بچے کو لے کر قادیان گئے اور حضورؑ سے نام رکھنے کی درخواست کی۔ اس کے ساتھ چودھری صاحب نے حضورؑ کواپنی خواب بھی سنائی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ بشمرداس کا معنی اللہ کا بندہ ہے۔ لہٰذا میں اس کا نام عبدالرحیم رکھتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بچے کے سر پر پیار بھی دیا اور فرمایا کہ بچہ بلند اقبال ہوگا۔

یہ روایت ہمارے بڑوں کی زبانی چلی آرہی ہے۔ جس کا کوئی ثبوت اخبارات میں تو نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ واقعہ حضرت چودھری صاحبؓ کی بیعت سے قبل کا ہو۔

آپ کی اولاد میں ایک بیٹا اور 9؍بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹی چودھری عبدالمجید آف راہوں سے بیاہی گئی۔ جب 1945ء میں امارتوں کا نظام حضرت مصلح موعودؓ نے جاری فرمایا تو چودھری عبدالمجید آف راہوں امیر جماعت ہائے ضلع جالندھر مقرر ہوئے تھے۔

آپ نے کئی جلسوں کی صدارت بھی کی۔ ان تمام گائوں میں دورہ کرنے والے آپ کے بھتیجے مولوی عبدالسلام آگے آگے ہوتے تھے اور باقی رؤسا اپنے اثرو رسوخ سے علاقے میں جلسوں پر آکر لوگوں میں احمدیت کی سچائی کو ثابت کرتے تھے اور دیگر رؤسا کو صدارت کی کرسی پر بٹھاتے تھے۔ آپ خود بھی جلسوں کی صدارت فرماتے۔ اس طرح بڑی تیزی سے سب قریبی دیہات میں جماعتیں بڑھیں۔ اس علاقے کے سینکڑوں لوگ مشرف بیعت حضرت مسیح موعودؑ ہوئے۔ اب ان کی اولادیں پاکستان ہجرت کے بعد دوبارہ ہجرت کرکے ساری دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔

حضرت چودھری غلام احمد صاحبؓ نے ہر لحاظ سے احمدی احباب کی حوصلہ افزائی کی۔ اور ہرموقع پر جماعت کی تائید کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ آپ کی وفات 1924ء میں ہوئی جبکہ آپ کی عمر ایک سو سال کے قریب تھی۔ آپ کے بعد آپ کے اکلوتے بیٹے چودھری عبدالرحیم خاں صاحب کاٹھگڑھ کے نمبردار اور رئیس بنے اور تبلیغ کا سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوتا چلا گیا۔ علاقے میں احمدیت کے نفوذ کو مزید مواقع ملےاور بڑی بڑی جماعتیں بنیں۔

کاٹھگڑھ میں ہر سال جلسہ ہوتا تھا۔ مرکز سے علمائے سلسلہ آتے تھے۔ قیام و طعام کا بندوبست ہوتا تھا۔ گویا کہ کاٹھگڑھ ایک سنٹر بن چکا تھا۔ علاقے میں جماعت احمدیہ کی دھوم تھی۔ کاٹھگڑھ میں احمدیہ پرائمری سکول کا قیام بھی آپ کی کوششوں سے عمل میں لایا گیا۔ بعد ازاںاسے مڈل سکول کا درجہ بھی ملا۔ جس کی مالی امداد محترم چودھری صاحبؓ ہی کیا کرتے تھے جبکہ اس کے مدارالمہام آپ کے بھتیجے مولوی عبدالسلام صاحب تھے۔ عمارت کی تعمیر اور اس کی چھت کے لیے شہتیر چودھری صاحبؓ نے فراہم کیے تھے۔

مذبح خانہ کاٹھگڑھ کی منظوری

26؍اگست 1920ء کے دن جب ہمارے لوگ گائے مذبح خانے روپڑ کی طرف لے کر جارہے تھےجو چودھری غلام احمد خاں صاحبؓ ہی کے برادری کے افراد تھے۔ راستے میں کسی مخبری کی وجہ سے اُن سے گائے چھینی گئی۔ اور متعلقہ افراد کو زدو کوب کیا گیا۔ شکایت کرنے کے باوجود عملہ پولیس کسی وجہ سے ملزمان کو نہیں پکڑا گیا۔ تو چودھری صاحبؓ نے ان کو سزا دینے کی ٹھانی۔ آپ نے فی زمانہ حالات کے مطابق مخالفین کو خوب سبق سکھایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ ہندوئوں کو مسلمانوں کو کمتر سمجھنے اور کوئی شرارت کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد مذبح خانہ کاٹھگڑھ کی منظوری لی گئی اور سب احمدی بچوں کو آریہ اسکول سے خارج کرواکر احمدیہ مڈل اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اور اس کے بعد عمارت میں توسیع کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ راجپوت برادری کا رعب سارے گائوں پر تھا۔ بلکہ اس علاقے کے رئیس جو کہ سکھ برادری کے تھے۔ ان سے بھی چودھری غلام احمد نمبردار کے اچھے تعلقات تھے۔ علاقے کے باقی دیہات میں بھی چودھری غلام احمد خاں نمبردار کی اچھی شہرت تھی۔ لوگ احترام بھی کرتے تھے۔ بلکہ اس سارے علاقے میں چودھری غلام احمد خاں نمبردار کا سکہ چلتا تھا۔ اس علاقے میں زیادہ تر گھوڑے واہ راجپوت ہی تھے۔ آپس میں رشتہ داریاں بھی تھیں۔ راہوں اور گڑ شنکر کے راجپوتوں سے تعلقداری بھی تھی۔ باہم شادی غمی پر بھی جایا کرتے تھے۔ دوآبے کے علاقے میں راجپوتوں کی اکثریت تھی۔ جب اس برادری نے احمدیت کو قبول کیا تو مزید اخوت بڑھ گئی۔

جلسہ و مباحثہ آریہ سماج کاٹھگڑھ 1917ء

3؍مئی 1917ء کے اخبار نور قادیان سے پتہ چلتا ہے کہ 26؍اپریل 1917ء کو آریہ سماج کے ساتھ ایک مباحثہ رکھا گیا جس کے صدر سردار بختاور سنگھ تھے۔ جماعت کی طرف سے مرکز سے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، ماسٹر محمد یوسف صاحب، میر قاسم علی صاحب، مولوی قطب الدین صاحب تشریف لائے۔

(اخبار نور قادیان 3؍مئی 1917ء)

تاریخ جماعت احمدیہ کاٹھگڑھ از اخبارات سلسلہ

حضرت نور احمد خان صاحبؓ ولد چودھری بدر بخش صاحب لکھتے ہیں کہ

’’مجھے جلسہ سالانہ پر آنے کا اتفاق ہوا۔ دوآبہ یعنی ضلع جالندھر اور ہوشیار پور کے تمام احمدی ایک ہی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ چودھری غلام احمد صاحب رئیس کاٹھگڑھ بھی تھے۔ رات کو قادیان پہنچے تھے۔ کمرہ میں بستر رکھ کر تمام دوست بیٹھ گئے مگر نصف رات تک کھانا نہ ملا۔ لوگ بہت بھوکے تھے اور بار بار چودھری صاحب مذکورکے پاس شکوہ کرتے تھے کہ ابھی تک کھانا نہیں ملا۔ اخیر چودھری صاحب نے کہا کہ بازار میں جا کر دودھ پی لو۔ مگر اتنی بےچینی پیدا نہ کرو، کھانا مل جائے گا۔ لوگ کھانے کا انتظار کر کے تھک گئے، آخر بہت دوست بھوکے سو گئے۔ رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی، اچانک چند آدمی نمودار ہوئے، کہنے لگے کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ مہمان بھوکے ہیں، اُن کو کھانا کھلاؤ۔ بدیں وجہ لوگ کمروں میں جگا جگا کر کھانا دے رہے ہیں۔ ہمارے کمرے میں بھی چند آدمی کھانا لے کر آئے۔ چودھری صاحب نے تمام دوستوں کو جگا کر کھانا کھلایا، ہمارے ساتھ چودھری غلام قادر صاحب سڑوعہ والے بھی تھے انہوں نے کہا کہ یہ کھانا خدا نے جگا کر دیا ہے وہ بقیہ ٹکڑے بطور تبرک کے کہ یہ الہامی کھانا ہے اپنے پاس سڑوعہ کو لے گئے۔‘‘(جاتے ہوئے اپنے ساتھ ہی لے گئے)۔

(رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر6صفحہ273-274غیر مطبوعہ)

حضرت شیخ جان محمد صاحبؓ پنشنر انسپکٹر پولیس لکھتے ہیں کہ’’میری عمر اس وقت ستاسٹھ سال کی ہے۔ میں نے 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلے بذریعہ خط بیعت کی پھر 1904ء میں بمقام گورداسپور دورانِ مقدمہ مولوی کرم دین بھیں والے میں حاضر ہوا اور سعادۃًدستی بیعت سے مشرف ہوا۔ مَیں منٹگمری سے آیااور والد صاحب مرحوم اورچودھری غلام احمد خان صاحب مرحوم آف کاٹھگڑھ ضلع ہوشیار پور سے بمقام گورداسپور حاضر ہوئے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے چودھری صاحب مرحوم کی وجہ سے ……ایک علیحدہ چھولداری ہم کو دے دی جس میں ہم تین افراد ٹھہرے اور دیگر احباب بعض نیچے مکان میں اور بعض چھولداریوں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چودھری غلام احمد خان مذکور نے مجھے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ باورچی خانے میں بٹیرے پکائے گئے ہیں مجھے دو بٹیرے لا دو۔ چنانچہ مَیں نے باورچی خانے سے دریافت کیا تو اُس نے بتلایا کہ لاہور سے مہمان آئے ہوئے ہیں یہ اُن کے لئے پکائے گئے ہیں۔ مَیں ان سے اصرار کر رہا تھا کہ چودھری غلام احمد خان ایک امیر آدمی اور خوش خور ہیں اور میرے والد صاحب کے دوست ہیں تو ضرور دو بٹیرے دے دو۔ اسی اثناء میں حافظ حامد علی صاحب مرحوم بالائی حصہ مکان میں آ گئے اور یہ ماجرا انہوں نے سنا۔ باورچی نے بتلایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ آئے ہوئے ہیں، اُن کے لئے بٹیرے پکائے گئے ہیں تو مَیں مایوس ہو کرچھولداری میں آ گیا۔ تھوڑی دیر بعد حافظ حامد علی صاحب مرحوم ایک طشتری میں دو بٹیرے بُھنے ہوئے لے کر آگئے اور فرمایا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے ذکر کیا تھا۔ حضور نے فرمایا کہ جلد اُنہیں بٹیرے پہنچاؤ اور فرمایا کہ کل سب کے لئے بٹیرے پکائے جائیں۔ چنانچہ دوسرے دن ایک بڑے دیگچہ میں بٹیرے پکائے گئے اور سب کو کھلائے گئے۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر15صفحہ17غیر مطبوعہ)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی کاٹھ گڑھ میں آمد

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے سفرکاٹھ گڑھ کے حالات تاریخ احمدیت جلد 3 میں مذکور ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے لکھا ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے حکم سے اور جماعت احمدیہ کاٹھ گڑھ(ضلع ہوشیارپور) کی درخواست پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ 16؍دسمبر 1908ء کی صبح کو حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے ساتھ کاٹھ گڑھ تشریف لے گئے۔ اور غالباً 21؍دسمبر کو وارد قادیان ہوئے۔

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 73)

کاٹھ گڑھ میں ایک عجیب واقعہ

حضرت صاحبزادہ صاحب کے قیام کے دوران وہاں ایک واقعہ پیش آیا اور وہ یہ کہ جب آپؓ وہاں پہنچے تو بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ فلاں طرف رستہ میں چونکہ ایک شدید دشمن رہتا ہے اس لیےاندیشہ ہے کہ کہیں آپ پر حملہ نہ کر دے لیکن آپؓ نے اس بات کی ذرا پروا نہ کی اور اسی راستہ پر چل پڑے۔ جب اس شخص کی نظر آپؓ پر پڑی تو وہ دوڑ کر آپ کی طرف آیا آپ کے ساتھیوں نے سمجھا کہ شاید آپ پر حملہ کرنے آ رہا ہے اس لیے وہ لاٹھیاں لے کر اکٹھے ہو گئےلیکن وہ شخص انہیں دھکہ دیتے ہوئے آگے بڑھا اور کہنے لگا یہ صرف تمہارے ہی پیر نہیں بلکہ ہمارے بھی پیر ہیں کیا ہم ان کی زیارت بھی نہ کریں پھر اس نے ایک روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا یہ میری طرف سے نذرانہ ہے اسے قبول فرمائیں۔

(تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ220تا221)

صدر انجمن احمدی راجپوتانِ ہند کے صدر کےطورپرنامزدگی

حضرت چودھری غلام احمدصاحبؓ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا قاتوں کا ذکر رجسٹر روایات صحابہ میں کئی جگہ ملتا ہے۔ جلسہ سالانہ پر جانے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے مستفید ہونے کا ذکر ملتا ہے۔

حضرت چودھری غلام احمدصاحبؓ کوحضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے راجپوتوں میں تبلیغ کی خاطر انجمن احمدی راجپوتان ہند کا صدر مقرر فرمایا تاکہ راجپوت خاندانوں میں احمدیت کا نفوذ ہو۔ اس واقعہ کا ذکراخبار البدر 26؍جون 1910ء میں ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور آپ کی نسلوں کو آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button