حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

رمضان… قسمتیں سنوارنے والا مہینہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:

’’حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کااقتباس ہے۔ آپؑ فرماتےہیں:

’’حدیث شریف میں آیاہےکہ دوآدمی بڑےبدقسمت ہیں۔ ایک وہ جس نےرمضان پایاپھررمضان گزر گیااوراس کےگناہ بخشے نہ گئےاوردوسراوہ جس نےوالدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور گناہ بخشے نہ گئے۔‘‘

یہ جو دوقسم کےانسانوں کاذکرہےدراصل اللہ کےتعلق میں لازماًیہی مضمون ہے جو رمضان کےساتھ گہرا تعلق رکھتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہی مضمون ہےجو رمضان کےحوالےسےسمجھانابہت ضروری تھا۔اورحضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ بات بیان فرمائی ہےکہ والدین کو پایا اورگناہ بخشے نہ گئے اسی حالت میں رمضان گزرگیایہ بہت ہی گہرا نکتہ ہےجس کا قرآنی تعلیم سے تعلق ہے۔ قرآن کریم فرماتاہے:

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهٖ شَيْئًا وَّبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (الانعام: 152)۔

توکہہ دےکہ آؤمیں تمہیں وہ بات بتاؤں جو خداتعالیٰ نےحرام کر دی ہےتم پر۔ ایک یہ کہ خداکاشریک نہیں ٹھہرانا۔ اپنی عبادت کواسی کے لئے خالص کرلو۔ دوسرایہ کہ ماں باپ سےلازماًاحسان کاسلوک کرناہےاورماں باپ کی نافرمانی کرکےخدا کی ناراضگی نہ کما بیٹھنا۔ تو شرک کامضمون خداتعالیٰ نےاس طرح بیان فرمایاکہ میرا شرک کروگےتویہ بہت ہی بڑا گناہ ہوگا۔ حرام کردیاہےتم پر۔ لیکن ماں باپ سےاحسان کروگےوہ میراشریک بنانانہیں ہے۔ شرک سے نیچے نیچے اگر کسی کی عظمت خداتعالیٰ نےقائم فرمائی ہےتووہ ماں باپ کےحقوق کی ادائیگی ہی نہیں اس سےبڑھ کران سےحسن سلوک کرناہے۔

پس حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم نےیہ فرمایا کہ رمضان شریف میں دوآدمی بڑےبدقسمت ہیں جو نہ خداکوپاسکیں، نہ ماں باپ کاکچھ کرسکیں۔ رمضان گزر جائے اور ان دوپہلوؤں سےان کےگناہ نہ بخشے گئے ہوں تویہ دو الگ الگ چیزیں نہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مربوط چیزیں ہیں۔ وجہ یہ ہےکہ اللہ کاسب سے بڑااحسان ہےاوراس احسان میں اورکوئی شریک نہیں ہے۔ یعنی اس نےآپ کوپیداکیا، اس نےسب کچھ بنایا اور ماں باپ بھی اس میں شریک ہوہی نہیں سکتےکیونکہ ماں باپ کوبھی اسی نےبنایااورماں باپ کو جو توفیق بخشی آپ کوپیداکرنےکی وہ اسی نےپیداکی ہے، اپنےطورپرتوکوئی کسی کوپیداکرہی نہیں سکتااپنےزورسے۔ ایک معمولی سا خون کا لوتھڑا بھی انسان پیدا نہیں کر سکتا اگر خداتعالیٰ نےاس کوذرائع نہ بخشےہوں۔

توپہلامضمون یہ ہےکہ اللہ خالق ہےاس لئےاس کاشریک ٹھہرانےکاکسی کوکوئی حق نہیں ہے۔ اورسب سے بڑاظلم ہےکہ خداجس نےسب کچھ بنایاہےاس کونظر انداز کرکے نعمتوں کےشکریےدوسروں کی طرف منسوب کر دئےجائیں۔ پھراس تخلیق کااعادہ ماں باپ کےذریعےہوتاہےاورپھرماں باپ کےساتھ آپ کاوجودبنتاہے۔ اگرایک تخلیق کوپیش نظررکھتےہوئےآپ احسان کاسلوک کریں گےتوجو عظیم خالق ہےلازماًاس کےلئےبھی دل میں امتنان اوراحسان کےجذبات زیادہ زورکےساتھ پیداہوں گےاورپرورش پائیں گے۔ پس یہ دومضمون جڑے ہوئے ہیں۔

جو ماں باپ کےاحسان کاخیال نہیں کرتااوران سےاحسان کاسلوک نہیں کرتا، اس سےیہ توقع کرلینا کہ وہ اللہ کےاحسان کاخیال کرےگایہ بالکل دورکی کوڑی ہے۔ پس ماں باپ کاایک تخلیقی تعلق ہےجسےاس مضمون میں ظاہرفرمایاگیاہےاوررمضان مبارک میں اللہ تعالیٰ نےرمضان کا مقصد خدا تعالیٰ کو پانا قرار دیاہے اور خدا تعالیٰ کوحاصل کرنابنیادی مقصدبیان فرمایاہے۔ پس اس تعلق سےحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم سب سےزیادہ قرآن کاعرفان پلائےگئےآپؐ نےیہ مضمون ہمارےسامنےاکٹھاپیش کیاکہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتےوقت ہرقسم کےمحسنوں کااحسان اتارنےکی کوشش کرو۔ ماں باپ کااحسان توتم اتارسکتےہوان معنوں میں کہ تم مسلسل ان سےاحسان کا سلوک کرتےرہو، عمربھرکرتےرہو۔ اگراحسان نہ بھی اترےتوکم سےکم تم ظالم اور بے حیا نہیں کہلاؤگے۔ تمہارے اندر کچھ نہ کچھ یہ طمانیت پیداہوگی کہ ہم نے اتنے بڑے محسن اور محسنہ کی کچھ خدمت کرکےتواپنی طرف سےکوشش کرلی ہےکہ جس حدتک ممکن تھاہم احسان کا بدلہ اتاریں۔ اللہ تعالیٰ کےاحسان کابدلہ نہیں اتارا جا سکتااورایک ہی طریق ہےکہ ہرچیزمیں اپنی عبادت کواسی کےلئےخالص کرلو، اس کاکوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ جنوری 1997ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍ مارچ 1997ء)

اسی طرح حضوررحمہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

’’ماں باپ کےاحسان کابدلہ احسان سےدینایہ مضمون توکسی حدتک سمجھ میں آجاتا ہے مگراللہ کابدلہ احسان سےکیسےدو۔ یہ مضمون حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم نےہمیں سمجھادیااوریوں سمجھایاکہ نمازمیں اس طرح نمازیں اداکرو، اس طرح حضور اختیار کروخداکےسامنےگویاوہ تمہیں سامنے کھڑا ہوادکھائی دے رہاہے۔ اوراگریہ نہیں کر سکتے تو اتنا ہی خیال رکھوکہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے۔ یہ جو احسان ہےیہ کامل توحیدکامظہرہے۔ جب دوسرےسب خدامٹ جاتےہیں، جب تمام ترتوجہ خداکی طرف ہوجاتی ہےاس وقت یہ احسان ہوتاہے، اس کےبغیرہونہیں سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ جنوری 1997ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍ مارچ 1997ء)

(مرسلہ:عبدالباسط شاہد۔ لندن)

برطانوی رپورٹ کی مذمت پر مذہبی امور کمیٹی تنقید کی زد میں

DWپر اس عنوان سے درج ذیل خبر شائع ہوئی:

’’برطانوی پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کی ایک کمیٹی نے پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور برطانوی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے پاکستانی حکومت سے بات چیت کرے۔

برطانوی پارلیمنٹ کی اس رپورٹ میں پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ ہونے والے متعصبانہ سلوک کا خصوصی تذکرہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف نفرت آمیز مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں احمدیوں کے خلاف امتیازی قوانین ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ احمدیوں کی طرف سے مذہبی لٹریچر چھاپنے کی پابندی کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام مذہبی برادریوں کو مکمل مذہبی آزادی دی جائے۔

پاکستان میں حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں اور موجودہ حکومت نے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے حال ہی میں اقلیتوں کی جائیدادیں ان کے حوالے کی ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کو بحال کیا ہے۔ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی رپورٹ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے مذہبی امور اور مذہبی ہم آہنگی نے یہ قرارداد بدھ 17 مارچ کو منظور کی تھی۔

مذمت افسوس ناک ہے

تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقلیتی راہ نما اس قرارداد مذمت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اس طرح حقائق سے منہ چھپا رہا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے نائب چیئرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کو رپورٹ کا جائزہ لے کر ٹھوس اقدامات اٹھانا چاہئیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں کم عمر لڑکیاں اغوا ہو رہی ہیں اور ان کو زبردستی مسلمان بنایا جارہا ہے۔ احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ان کے افراد کو قتل بھی کیا جا رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں مکمل مذہبی آزادی ہے۔ یہ حقائق سے منہ چھپانے کے مترادف ہے۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی نے مولویوں کو خوش کرنے کے لیے اس طرح کی قرارداد پاس کی ہے لیکن مولویوں کو جتنا خوش کریں گے، وہ اتنا ہی سر پر چڑھیں گے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، ’’ملک میں تمام لوگوں کے لیے مکمل مذہبی آزادی ہونی چاہیے لیکن احمدی سلام نہیں کر سکتے وہ مسلمان عبادات اپنا نہیں سکتے۔ ان تمام چیزوں کی موجودگی میں ہم کیسےکہہ سکتے ہیں کہ انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔‘‘

اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے امر لال ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ حکومت اس طرح کی رپورٹوں کی مذمت کرے: ’’ اگر حکومت کو اتنا یقین ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کو تمام حقوق مل رہے ہیں تو وہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی تنظیموں کو خود پاکستان آنے دیں تاکہ وہ آ کر خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں کہ یہاں پر اقلیتوں کو کس طرح کے حقوق حاصل ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ یہاں پر ناروا سلوک ہو رہا ہے، چاہے وہ احمدی ہوں، ہندو ہوں یا دوسرے مذاہب کے ماننے والے۔ جبری طور پر لوگوں کے مذاہب تبدیل کیے جا رہے ہیں اور مذہبی اقلتیں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس کے مندرجات اور سفارشات پر عمل کرنا چاہیے: ’’ہمیں اپنے قانون کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ یہ اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔‘‘

جماعت احمدیہ کا موقف

جماعت احمدیہ پاکستان کے ایک راہ نما عامر محمود نے ڈی ڈبلیو کو اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے بتایا، ’’جس دن قومی اسمبلی کی کمیٹی نے برطانوی ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ کی رپورٹ کی مذمت کی اسی دن گرمولہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ میں احمدی عبادت گاہ کے مینار پولیس نے مسمارکیے۔ یہ تو حال ہے پاکستان میں احمدیوں کے انسانی حقوق کا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 20 پاکستانی شہریوں کی مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے: ’’لیکن احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلتی ہے انہیں واجب القتل قرار دیا جاتا ہے، عوام کو احمدیوں کے بائیکاٹ پر اکسایا جاتا ہے اور تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کی جگہوں پر احمدیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔‘‘

مکمل آزادی ہے، پاکستانی حکام

پی ٹی آئی کے راہ نما اور رکن قومی اسمبلی فضل محمد خان کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو پورے حقوق حاصل نہیں ہیں جو حقائق کے منافی ہے: ’’پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو تمام طرح کے حقوق حاصل ہیں اور وہ دوسرے پاکستانی شہریوں کی طرح آزادانہ طور پر زندگی گزار رہے ہیں اور موجودہ حکومت نے تو مذہبی اقلیتوں کی بہت خدمت کی ہے اور ان کے بہت سارے مذہبی ادارے بحال کیے ہیں اور مذہبی اقلیتوں کی جائیدادوں کے حوالے سے بھی کام کیا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو پاکستان آنا چاہیے اور خود آکر مشاہدہ کرنا چاہیے: ’’میں اس بات کی پر زور تردید کرتا ہوں کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ کچھ عرصہ پہلے امریکہ نے بھی پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا اور یورپی یونین کی طرف سے اس طرح کی تشویش ماضی میں بھی ظاہر کی گئی ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں ان رپورٹوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔‘‘

(حوالہ: https://p.dw.com/p/3qpJQ)

(مرسلہ:ذیشان محمود، مربی سلسلہ سیرالیون)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button