احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے دیانند پر
اتمام حجت (حصہ دوم)
(گزشتہ سے پیوستہ)ایڈیٹررسالہ برادر ہند نے لکھا:
’’…لالہ شرمپت صاحب نے جو آریہ سماج قادیان کے سیکرٹری ہیں۔ ایک مضمون اثبات تناسخ پر ہمارے پاس برادرہند میں مشتہر کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ چنانچہ اسے ہم درج رسالہ کرتے ہیں۔ کس حیثیت کا وہ مضمون ہے۔ اور اس کا نفس مضمون کس سانچہ کا ڈھلا ہوا ہے۔ اور اس کی طرز عبارت سے راقم مضمون کی ذاتی لیاقت اور فضیلت کا کہاں تک اظہار ہوتا ہے۔ اور اصول مناظرہ سے اس کا ڈھنگ بیان کہاں تک موافق یا منافق ہے۔ اس کا فیصلہ ہم خود کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ اپنے ناظرین پر چھوڑتے ہیں۔
ہاں چند کلمے بطریق ہدایت دوستانہ لالہ صاحب اور نیز ان کے ہم خیال صاحبوں کے لئے یہاں پر درج کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔
اوّل۔ ہر کام کے لئے اس کے موافق انسان میں ایک خاص ملکہ ہونا ضروری ہے۔ اصول مناظرہ یا بحث بھی اس قاعدہ سے خالی نہیں۔ پس پیشتر اس کے کہ ہم کچھ کہنے یا لکھنے کی جرأت کریں ہمارے لئے یہ لازم ہے کہ اپنے تئیں اصول مذکورہ کی صفت سے متصف بنا لیں۔ اور یہ کوئی آسان بات نہیں۔ برسوں کی تعلیم اور خاص قِسم کی تربیت سے یہ ملکہ پیدا ہوتا ہے۔اگر یہ ملکہ نہیںتو پھر صرف بولنا کون نہیں جانتا۔ حیوانات بھی منہ سے آواز برآمد کر سکتے ہیں۔ اور بے نشانہ ہر ایک تیر بھی لگا سکتا ہے۔ پس بطور آئیں بائیں شائیں کچھ کہہ دینا یا کاغذ پر لکھ دینا بھی ویسا ہی ہے۔ جیسا کہ کمان اٹھا کر بے نشانہ کسی سمت میں تیر چھوڑ دینا۔ ایسا تیر ایک طرف جس طور سے نشانہ پر پہنچنے سے باز رہتا ہے۔ دوسری طرف چلانے والے کے وقت اور محنت اور تردد کو ضائع کرتا ہے۔
دوم۔ کسی اخبار یا رسالہ میں جس کے ہزاروں پڑھنے والے ہوتے ہیں۔ جب کوئی مضمون چھپوانا منظور ہوتو اس میں بالخصوص اصول مذکور کے مد نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ بے سروپا بکواس کے ساتھ کاغذ کو سیاہ کر کے ناظرین کے خیالات کو بگاڑنا، ان کی طبیعت کو منتشر کرنا اور خواہ مخواہ ان کی تضیع اوقات کرنا نہ صرف راقم مضمون کے لئے بے جا ہے۔ بلکہ ایڈیٹر کے لئے بھی (جو اندراج مضامین کے لئے پورا پورا ذمہ دار ہے۔ )یہ امر ناواجب ہے۔
اب دیکھنا چاہیئے کہ لالہ شرمپت صاحب نے کہاں تک ان اصولوں کی پابندی کی ہے۔ اول جو مضمون مرزا صاحب کا ابطال تناسخ پر ہمارے رسالہ میں مشتہر ہوا۔ لالہ صاحب نے اس کا جواب مطلق نہیں دیا۔ دوم باوجود مرزا صاحب کی طرف سے بطلب جواب خود مخاطب کئے جانے کے مضمون مذکور پر ’’بطور ثالث کے رائے‘‘ظاہر کرتے ہیں۔
سوم۔ اخبار سفیر ہند کا حوالہ دے کر اول ایک دلیل اپنے ہم ایمان باوا نرائن سنگھ صاحب کی بطور خلاصہ درج کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد مرزا صاحب کے دلائل کا لب لباب چند الفاظ میں فرضی رقم کرتے ہیں اور وہ یہ ہےکہ
’’مرزا صاحب کی یہ وجوہات ہیںکہ جس حالت میں خدا خالق ہے۔ تو پہلے روحوں کا جو تفاوت مرتبہ اور رنج اور راحت ہے۔ وہ کس اعمال کے بدلہ میں ہے۔‘‘
(اس کا نام وجوہات نہیں ہے۔ اور نہ جن لوگوں نے مرزا صاحب کے مضامین پڑھے ہیں۔ وہ کبھی باور کر سکتے ہیں۔ کہ مرزا صاحب اس قِسم کے چند حرفی جملہ کو کبھی وجوہات پر محمول کرنا اپنی طرف سے پسند کریں گے۔)
چہارم ۔یہاں تک دونوں طرف کی وجوہات بیان کر کے پھر مثل جج کے فیصلہ لکھتے ہیں۔ اور فیصلہ کو اس سوال کے ساتھ شروع کرتے ہیںکہ
’’ایک شخص دنیا میں گناہگارہے۔ وہ مرکر‘‘’’جب باعتقاد مرزا صاحب دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ تو وہ جب اپنے اعمال قبیحہ کی سزا بخوبی پا چکا تو پھر وہ دوزخ سے نکل کر کہاں جائے گا۔‘‘اور پھر آپ ہی اس کا ایک جواب فرضی دے کر کہ اگر وہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ تو ’’خدا کے عادل ہونے میں بہت سا بٹہ لگتا ہے۔‘‘چَٹ سے ایک فرضی فیصلہ بھی لکھ دیتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’باوا صاحب کی یہ وجہ کہ تفاوت مراتب راحت و رنج دلیل تناسخ کی ہے قابل اعتبار ہے۔‘‘اور پھر اخیر میں لکھتے ہیںکہ ’’اگر مرزا صاحب ہمارے اس فیصلہ سے منہ موڑیں تو ان پر لازم ہے۔ کہ دوزخ کی بابت جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے مفصل کیفیت جس کو عقل سلیم تسلیم کرے ہمارے سامنے بذریعہ اخبار کے پیش کریں۔ ورنہ ان کی ڈگری تناسخ کی منسوخ ہو گی۔‘‘
واہ کیا فرضی فیصلہ ہے !خدانخواستہ اگر ہمارے لالہ صاحب کسی عدالت کے جج ہوتے۔ تو مثل اوپر کے خوب پُر بہار فیصلہ لکھا کرتے۔ اور داد رسوں کے حقوق کی اپنی منطق کے زور میں خوب محافظت کرتے !!!
ہم نے اس مضمون کو بالخصوص رسالہ ہذا میں اس لئے درج کیا ہےکہ جن ناظرین نے مرزا صاحب کی وجوہات ابطال تناسخ کے بارے میں علم بیان اور اصول مناظرہ کے طریق پر ملاحظہ کی ہیں۔ وہ طرف ثانی کی ذکاوت طبع اور ڈھنگ بحث سے بھی واقف ہو جاویں۔
ہم آخر میں پھر اپنے کلام کا اعادہ کرتے ہیں۔ اور بادب تمام لالہ صاحب اور ان کے ہم رنگ صاحبان سے التماس کرتے ہیں کہ وہ یا تو عقل سلیم کو کام میں لا کر مرزا صاحب کی وجوہات کو جو ابطال تناسخ پر انہوں نے لکھی ہیں۔ خوب غور اور فکر سے جانچ پڑتال کر کے بشرط صحیح سمجھنے کے اپنے غلط اور فرضی عقیدہ سے طبیعت کو صاف کر لیں یا در صورت مرزا صاحب کی وجوہات کو ناقص سمجھنے کے ان کو نمبر وار دلائل لِمِّیاور اِنِّی اور اصول منطق اور مناظرہ کے ساتھ غلط ثابت کریں۔ اور جو کچھ طرف ثانی کے کلام کا حوالہ دیں اس کی تصدیق کے لئے اس کے کلام کو ٹھیک ٹھیک اُسی کے الفاظ میں پیش کریں۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہےکہ دوسرے کے کام کو ایک شخص یا تو خود نہیں سمجھتا یا بصورت سمجھنے کے جان بوجھ کر اس کی طرف سے اول ایک فرضی بات گھڑ کر تیار کر لیتا ہے۔ اور پھر اس کی تردید کر کے لوگوں میں خوش ہوہو کر ظاہر کرتا ہےکہ طرف ثانی کو اس نے پسپا کر دیا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ پس جو طریق ہم نے اوپر ظاہر کر دیا ہے۔ اس کے موافق اہل آریہ میں سے کوئی صاحب اگر مضمون رقم کر کے کسی اخبار کے ذریعہ مشتہر کریں گے۔ تو اس سے حق امر بھی ظاہر ہو جائے گا اور لوگ بھی مستفید ہوں گے۔ ورنہ مفت کی بے سروپا اور بے ڈھنگی بکواس کا سلسلہ قائم رکھنا عقلمندوں کے نزدیک ایک حرکت لغو شمار کی جاتی ہے۔ (ایڈیٹر)‘‘
(حیات احمد جلد اول ص 354 تا صفحہ359)
پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے ساتھ مباحثہ
باربارکی ہزیمت اور شرمندگی سے تنگ آکرقادیان کے ہندوؤں نے ایک پرجوش آریہ سماجی لیڈرپنڈت کھڑک سنگھ صاحب کوحضرت اقدسؑ سے مباحثہ کے لیے قادیان بلایا۔ یہ پنڈت اودوکی کے رہنے والے تھے۔
مباحثہ کے لیے بڈہن شاہ کاتکیہ مقررہواجوسرکاری پرائمری سکول کے پاس ہے۔ اس مباحثہ میں بھی پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کوایسی شکست ہوئی کہ آریہ سماج کوشکست کایہ صدمہ اوردھکاکبھی بھولنانہیں چاہیے۔ کیونکہ یہ پنڈت صاحب خودآریہ تعلیم وعقائد سے متزلزل ہوگئے اور بعدمیں آریہ سماج چھوڑکرعیسائیت اختیارکرلی اور پھرآریہ سماج کے خلاف لیکچر دینے لگے۔
حضرت اقدسؑ نے ایک دوسری جگہ اس کاذکرکرتے ہوئے لکھا:
’’اس وقت مجھے ایک اور پنڈت صاحب بھی یاد آگئے جن کا نام کھڑک سنگھ ہے۔ یہ صاحب ویدوں کی حمایت میں بحث کرنے کے لئے قادیان میں آئے اور قادیان کے آریوں نے بہت شور مچایا کہ ہمارا پنڈت ایسا عالم فاضل ہےکہ چاروں وید اسے کنٹھ ہیں۔ پھر جب بحث شروع ہوئی تو پنڈت صاحب کا ایسا برا حال ہوا کہ ناگفتہ بہ اور سب تعریفیں وید کی بھول گئے۔ دنیا طلبی کی وجہ سے اسلام تو قبول نہ کیامگر قادیان سے جاتے ہی وید کو سلام کر کے اصطباغ لے لیا اور اپنے لیکچر میں جو ریاض ہند اور چشمہ نور امرتسر میں انہوں نے چھپوایا ہے صاف صاف یہ عبارت لکھی کہ وید علوم الٰہی اور راستی سے بے نصیب ہیں۔ اس لئے وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتے۔ اور آریوں کا ویدوں کے علم اور فلسفہ اور قدامت کے بارے میں ایک باطل خیال ہے۔ اس نازک بنیاد پر وہ حال اور ابد کے لئے اپنی امیدوں کی عمارت اٹھاتے ہیں۔ اور اس ٹمٹماتی ہوئی روشنی کے ساتھ زندگی اور موت پر خوش ہیں۔‘‘
(شحنۂ حق صفحہ 24، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 360)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے بھی یہ اقتباس اسی ضمن میں حیات احمدؑ میں درج کیاہے اور اس کودرج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر پنڈت کھڑک سنگھ کی زندگی میں شائع ہوئی۔ اور آریوں نے ہمیشہ اسے پڑھا۔ مگر نہ تو قادیان کے کسی آریہ کو اور نہ خود پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کو حوصلہ ہواکہ اس کی تردید کریں۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 353)
حضرت اقدسؑ کاطریق بحث بہت اصولی ہواکرتاتھااور اصول پرگرفت بہت مضبوط ہوا کرتی تھی اوریہی وجہ ہے کہ اسلام کے مخالفین میں سے کوئی بھی بڑے سے بڑا پادری یاپنڈت حضورؑ کے سامنے اول توآتاہی نہیں تھا اور اگرآجاتاتو بہت بری طرح شکست سے دوچارہوتا ہاں آپؑ سے بحث کرنے والوں میں سے آفرین ہے ان مدمقابل لوگوں کی کہ جوبڑی ڈھٹائی اور چالاکی سے آئیں بائیں شائیں کرکے مباحثہ میں سے راہ فرار اختیارکرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ جس کی نمایاں مثال محمدحسین بٹالوی صاحب اورمولوی نذیرحسین دہلوی صاحب ہیں۔ بہرحال پنڈت کھڑک سنگھ نے جو مباحثہ کیا اس نے حضرت اقدسؑ کے طرزاستدلال اور طرزمباحثہ کی بابت جوکمنٹس دئیے وہ آب زرسے لکھنے کے قابل ہیں اور امر واقعہ کااظہارہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بیان کیاکہ ’’ہرشخص کاکام نہیں ہے کہ مرزاصاحب سے مباحثہ کرے۔ ان کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 354)
پنڈت کھڑک سنگھ کے اس مباحثہ کی تفصیل’’پرانی تحریریں ‘‘کے نام سے روحانی خزائن جلد2صفحہ3تا 19پرملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ نیزحیات احمدؑ جلداول صفحہ 375 تا381 میں دیکھی جاسکتی ہے۔
(باقی آئندہ)