رمضان کا مہینہ نفس کو پاک کرنے کےلیے خاص اثر رکھتا ہے
رمضان البارک میں ایک برائی ترک کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت تحریک
یہ مہینہ جیسا کہ احباب کو معلوم ہے ایک خاص مبارک مہینہ ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے بہت زیادہ قریب ہوجاتا ہوں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں خصوصیت سے عبادت اور ذکرالٰہی پر زور دیا جاتا ہے کیونکہ علاوہ روزوں کے جو خود اپنے اندر ایک نہایت درجہ مبارک عبادت کا رنگ رکھتے ہیں۔ رمضان کے مہینہ میں نوافل اور قرآن خوانی اور دعاؤں اور دیگر رنگ میں ذکرالٰہی پر خاص زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس مہینے کو اللہ تعالیٰ کی نظرمیں بہت بڑی برکت اور فضیلت حاصل ہے۔
پس سب سے پہلے تو میں احباب سے یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس مہینے کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس حقیقت کو سمجھ کر ان مبارک ایام کو اس رنگ میں گزاریں جس رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا منشاء ہے کہ انہیں گزارا جائے یعنی اوّل سوائے اس کے کہ کسی شخص کو کوئی شرعی عذر ہو سارے مہینے کے روزے پورے کئے جائیں اور روزہ رکھنے میں روزے کی اس مبارک حقیقت کو مدنظر رکھاجائے جو اسلام نے بیان کی ہے تاکہ روزہ صرف بھوکے اور پیاسے رہنے تک محدود نہ ہو بلکہ ایک زندہ روحانی حقیقت اختیار کرلے۔
دُوسرےیہ کہ رمضان کے مہینے میں تراویح کی نماز کو بالالتزام ادا کیا جائے۔ جس کے لئے بہتر وقت تو سحری کا ہے مگر بطریق تنزل نمازِ عشاء کے بعد بھی وہ ادا کی جاسکتی ہے۔
تیسرے یہ کہ اس مہینے میں تلاوتِ قرآن مجید پر خاص زور دیا جائے اور اس بات کی خاص کوشش کی جائے کہ کم از کم ایک دَور گھر پر مکمل ہوجائے۔
چوتھے یہ کہ رمضان کے مہینے میں دُعاؤں پر خاص طور پر زور دیا جائے۔ دعا علاوہ ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہونے کے حصول مطالب کے لئے بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دُعاؤں میں سب سے مقدم اسلام اور احمدیت کی ترقی کے سوال کو رکھنا چاہئے۔ اس کے بعد ذاتی دعائیں بھی کی جائیں۔
پنجم یہ کہ اس مہینے میں خاص طور پر صدقہ وخیرات پر زور دینا چاہئے کیونکہ صدقہ وخیرات کو ردِّ بلا اور حصولِ ترقیات میں بہت بڑا دخل حاصل ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست رمضان کے مبارک مہینے میں مندرجہ بالا پانچ باتوں کا خیال رکھیں اور رسم کے طور پر نہیں بلکہ دل کے اخلاص اور خشوع کے ساتھ ان باتوں کو اختیار کریں تو وہ انشاء اللہ تعالیٰ عظیم الشان روحانی فوائد سے متمتع ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ میں اس سال پھر وہ تحریک کرنا چاہتا ہوں جو میں بعض گزشتہ سالوں میں کرتا رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دوست اس رمضان کے مہینے میں اپنی کِسی ایک کمزوری کو مدنظر رکھ کر اسے دُور کرنے کی اور اس سے مجتنب رہنے کا خدا کے ساتھ پختہ عہد باندھیں تاکہ جب رمضان ختم ہو تو وہ کم ازکم اپنے ایک نقص سے کلّی طور پر پاک ہوچکے ہوں۔
یہ تحریک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمائی تھی اور خدا کے فضل سے تطہیرنفس کے لئے بہت مفید اور بابرکت ہے۔
چونکہ بعض دوست اپنے نفس کے محاسبہ کی عادت نہیں رکھتے اور اپنے اندر کمزوریاں رکھتے ہوئے بھی ان کی توجہ اس بات کی طرف مبذول نہیں ہوتی کہ ہمارے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں جنہیں ہمیں دور کرنا چاہئے اس لئے ایسے دوستوں کی راہ نمائی کے لئے ایک مختصر فہرست ذیل میں ان کمزوریوں کی درج کی جاتی ہے جوآج کل عام طور پر لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرکے ان کمزوریوں میں سے جو کمزوریاں ان میں پائی جاتی ہوں ان میں سے کسی ایک کو چن کر اس کے متعلق اپنے دل میں خداتعالیٰ کے ساتھ پختہ عہد باندھیں کہ وہ اس کے فضل اورتوفیق کے ساتھ آئندہ اس کمزوری سے کلّی طور پر مجتنب رہیں گے۔
1۔ فرض نماز میں سُستی۔
2۔ نماز باجماعت میں سُستی۔
3۔ امام الصلوٰۃ سے کِسی بات پر لڑ کر اس کے پیچھے نماز ترک کر دینا۔
4۔ نماز کے لئے طہارت وغیرہ کے معاملہ میں بےاحتیاطی کرنا۔
5۔ سنت نماز کی ادائیگی میں سستی۔
6۔ تہجد کی نماز میں سستی۔
7۔ روزہ رکھنے میں سستی یعنی بغیر واجبی عذر کے یونہی کسی بہانے پر روزہ ترک کردینا۔
8۔ جو روزے کسی عذر پر چھوڑے جائیں بعد میں ان کو پورا کرنے یا فدیہ دینے میں سستی۔
9۔ صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا کرنے میں سستی۔
10۔ اس بات کی تحقیق اور جستجو کرنے میں سُستی کہ آیا میں صاحبِ نصاب ہوں یا نہیں۔
11۔ جماعت کے مقررہ چندوں کو شرح کے مطابق ادا کرنے میں سستی۔
12۔ جماعت کے چندوں کو باقاعدہ بروقت ادا کرنے میں سستی۔
13۔ وصیت کی طاقت رکھنے کے باوجود وصیت کرنے میں سستی۔
14۔ یہ جانتے ہوئے کہ میرے مرنے کے بعد وصیت کی ادائیگی میں تنازع پیدا ہوسکتا ہے اپنی زندگی میں وصیت ادا کردینے یا اِس کی ادائیگی کا پختہ انتظام کردینے میں سستی۔
15۔ باوجود اس بات کی طاقت رکھنے کے وصیت کا اعلیٰ درجہ اختیار کرنے میں سستی۔
16۔ تبلیغ کا فرض ادا کرنے میں سستی۔
17۔ اپنے اہل وعیال اور ہمسایوں اور دوستوں کی تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ دینے میں سستی۔
18۔ اپنے گھر میں درسِ قرآن کریم یا درسِ کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے جاری کرنے یا جاری رکھنے میں سستی۔
19۔ اپنے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے اور اپنے ساتھ مسجد میں لانے میں سستی۔
20۔ مقامی جماعت کے کاموں میں خاطر خواہ حصہ اور دلچسپی لینے میں سستی۔
21۔ مقامی امیریا پریذیڈنٹ کی خاطر خواہ اطاعت کرنے میں بے پروائی اور بے احتیاطی۔
22۔ باوجود طاقت رکھنے کے مرکز میں بار بار آنے اور خلافت اور مرکز کے فیوض سے مستفیض ہونے میں سستی۔
23۔ باوجود طاقت رکھنے کے ’’الفضل‘‘اور دیگر مرکزی اخبارات ورسائل منگوانے میں سستی۔
24۔ فتنہ پردازوں اور منافق طبع لوگوں سے فتنہ اور نفاق کی باتیں سننے کے باوجود ان کے متعلق رپورٹ کرنے کے معاملہ میں سستی اور بے پروائی یا لحاظ داری۔
25۔ رشتہ داری یا دوستی وغیرہ کی وجہ سے سچی شہادت دینے میں تامل کرنا۔
26۔ جھوٹ بولنا۔
27۔ دوسروں پر جھوٹے افترا باندھنا۔
28۔ بیکاری یعنے باوجود اس کے کہ کام کی ہمت اور اہلیت ہو اس خیال سے کہ فلاں کام ہماری شان کے خلاف ہے یا اس میں معاوضہ کم ملتا ہے اپنے مفید اوقات کو بیکاری میں ضائع کردینا۔
29۔ باوجود فارغ وقت رکھنے کے اور اپنی خدمات کو آنریری طور پر سلسلہ کے لئے پیش کردینے کے قابل ہونے کے بیکاری میں وقت گزارنا۔
30۔ بدنظری۔
31۔ انسانی قوت کا غلط استعمال۔
32۔ اسلامی پردے کی حدود کو توڑنا۔
33۔ بدمعاملگی یعنی کسی سے روپیہ لے کر یا کوئی چیز لے کر روپیہ یا چیز کی قیمت وقت پر ادا نہ کرنا اور کمزور اور جھوٹے عذروں پر ادائیگی کو ٹالتے جانا۔
34۔ بدزبانی یعنی غصہ میں آکر خلاف تہذیب اور خلاف اخلاق الفاظ استعمال کرنا۔
35۔ حقہ نوشی یا سگریٹ نوشی۔
36۔ تمباکو کے دیگر ضرررساں استعمالات یعنی ان میں تمباکو کھانا یا نسوار استعمال کرنا وغیرہ۔
37۔ موجودہ تہذیب سے متاثر ہوکر اسلامی شعار کے خلاف ڈاڑھی منڈانا۔
38۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف احمدی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی لڑکے سے کرنا۔
39۔ مرکز کی اجازت کے بغیر غیر احمدی لڑکی کا رشتہ لینا۔
40۔ سلسلہ کی تعلیم کے خلاف غیراحمدی کا جنازہ پڑھنا۔
41۔ باوجود حج کی طاقت رکھنے اور دیگر شرائظ کے پورا ہونے کے حج میں سستی کرنا۔
42۔ ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری میں سستی کرنا۔
43۔ بیوی کے ساتھ بدسلوکی اور سختی سے پیش آنا یا عورت کی صورت میں خاوند کے ساتھ بدسلوکی اور تمرد سے پیش آنااور خاوند کی خدمت میں سستی کرنا۔
44۔ رشوت لینا۔
45۔ رشوت دینا
46۔ فرائض منصبی کے ادا کرنے میں بددیانتی یا سستی کرنا۔
47۔ شراب پینا یا دیگر منشّی اشیاء کا استعمال کرنا۔
48۔ سود لینا یا دینا۔ اس زمانہ میں سود کے معاملہ میں بہت غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ اور جھوٹے بہانوں کی آڑ میں ایسے لین دین کو جائز قرار دیا جارہا ہے جو حقیقتاً سود کا رنگ رکھتاہے۔
49۔ یتامیٰ کے مال میں خیانت یا بے جا تصرف کرنا۔
50۔ یتیموں کی پرورش میں سستی یا بے احتیاطی کرنا۔
51۔ نوکروں کے ساتھ نا واجب سختی اور ظلم سے پیش آنا۔
52۔ مقدمہ بازی کی عادت یعنی بات بات پر مقدمہ کھڑا کردینے کی عادت یا دیگر بہترذرائع سے فیصلہ کا رستہ کھلا ہونے کے باوجود مقدمہ کا طریق اختیار کرنا۔
53۔ سستی اور کاہلی یعنی اپنے وقت کی قیمت کو نہ پہچانتے ہوئے اپنے کام میں سستی اور کاہلی کا طریق اختیار کرنا۔
54۔ فضول خرچی یعنی اپنی آمد سے اپنے خرچ کو بڑھالینا۔
55۔ فضول اور ضرررساں کھیلوں میں وقت گزارنا یعنی شطرنج تاش وغیرہ۔
56۔ کھانے پینے میں اسراف۔
57۔ اولادکی ناواجب محبت۔
58۔ بدظنی کی عادت یعنی دوسرے کے ہرفعل کی تہ میں کسی خاص خراب نیت کی جستجو رکھنا۔
59۔ عزیزوں اور دوستوں کی موت پر ناجائز جزع فزع کرنا۔
60۔ شادیوں کے موقع پر اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنا۔
61۔ قرضہ لینے میں ناواجب دلیری سے کام لینا اور چھوٹی چھوٹی ضرورت پر بلکہ غیرحقیقی ضرورت پر قرضہ لے لینا وغیرہ وغیرہ۔
یہ چند کمزوریاں جو بغیر کسی خاص ترتیب کے اوپر درج کی گئی ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد کمزوری مدنظر رکھ کر ان کے متعلق اس رمضان کے مہینہ میں اپنے دل میں عہد کیا جائے کہ آئندہ خواہ کچھ ہو ہر حال میں ان سے کلّی اجتناب کیا جائے گا۔ اور پھر اس عہد پر دوست ایسی پختگی اور ایسے عزم کے ساتھ قائم ہوں کہ خدا کے فضل سے دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس عزم سے ہلانہ سکے۔
جو دوست اس تحریک میں حصہ لیں انہیں چاہئے کہ دفترہٰذا کو اپنے ارادے سے بذریعہ خط اطلاع کردیں۔ اس اطلاع میں اس کمزوری کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں جس کے متعلق عہدباندھا گیا ہو۔ بلکہ صرف اس قدر ذکرکافی ہے کہ میں نے ایک یا ایک سے زائد کمزوریوں کے خلاف دل میں عہد کیا ہے۔ نظارت ہذا اس کا وعدہ کرتی ہے کہ انشاء اللہ ایسے دوستوں کی ایک مکمل فہرست ہر روز مرتب کرکے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی تحریک کے ساتھ پیش کردیا کرے گی۔ وباللّٰہ التوفیق۔
(مطبوعہ الفضل 5؍نومبر1937ءصفحہ3تا4)