مسلمان حکومتوں کو مفاد پرست ملّاں اور عناصر کی چال میں نہیں آنا چاہئے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
(گذشتہ سے پیوستہ) ڈنمارک کی حکومت بیچاری تو شاید اتنی عقل سے عاری نہ ہو لیکن یہ خبر لکھنے والے اور شائع کرنے والے بہرحال عقل سے عاری لگتے ہیں۔ اور سوائے اِن کے دلوں میں فتنے کے کچھ نظر نہیں آتا۔ سوائے مسلمانوں کو انگیخت کرنے کے، بھڑکانے کے کوئی اس خبر کا مقصد نظر نہیںآتا کہ اس نام پر مسلمان جوش میں آ جاتے ہیں۔ اس لئے جن مسلمان ملکوں میں ،بنگلہ دیش میں، انڈونیشیا میں یا پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فضا ہے وہاں اور فساد پیدا کیا جائے۔ اور کوئی بعید نہیں ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر نے اس بہانے ان ملکوں میں یہ تحریک شروع کی ہو کہ حکومتوں کے خلاف تحریک چلائی جائے۔ کیونکہ ہم نے ابھی تک عموماً یہی دیکھا ہے کہ احمدیوں کے خلاف چلی ہوئی تحریک آخر میں حکومتوں کے خلاف اُلٹ جاتی ہے۔ اس لئے ان ملکوں کی حکومتوں کو بھی عقل کرنی چاہئے اور مفاد پرست مُلّاں یا ان عناصر کی چال میں نہیں آنا چاہئے۔ جہاں تک ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا تعلق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جوشعر پڑھے تھے اس سے ہم نے دیکھ لیا، کچھ اندازہ ہو گیا اور ہر احمدی کے دل میںجو مقام ہے وہ ہر احمدی جانتا ہے۔ گزشتہ خطبات میں مَیں اس کاذکر بھی کر چکا ہوں۔ اس تعلق میں خطبات دے چکاہوں۔ تکلیف کا اظہار ہم کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ تمام دنیامیں ہماری طرف سے احتجاجی بیان بھی شائع ہوئے ہیں، پریس ریلیز بھی شائع ہوئی ہیں۔ اور یہ سب بیان ہم نے کوئی کسی کو دکھانے کے لئے یا کسی کی خاطر یا مسلمانوں کے خوف یا ڈر کی وجہ سے نہیں دئیے۔ بلکہ یہ ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق توڑکرہماری زندگی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند حوالے میں پڑھوں گا۔اس سے بات مزید کھولتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ
آپ ؑ فرماتے ہیں کہ’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔
ہمارا عتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے‘‘۔ یعنی کہ اسی ایمان کے ساتھ ہم اس دنیا سے جائیں گے۔ ’’یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعے سے انسان راہ راست کو اختیار کرکے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے‘‘۔
(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 169-170)
تو یہ ہے ہمارے ایمان کا حصہ اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ تو جس کا یہ ایمان ہو اس کے بارے میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس کے واسطے کے بغیر وہ خداتعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے یا نبوت مل گئی۔
پھرآپؑ فرماتے ہیں:’’صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اوراب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیرالناس ہیں جن کی پیروی سے خدا ئے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اورقرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے، اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3روحانی خزائن جلد 1 صفحہ557-558)
یعنی کہ اب جو کچھ بھی ملنا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ملنا ہے۔ اور آپؐ پر ہی نبوت کامل ہوتی ہے آپؐ کی تعلیم سے ہی جو اندھیرے ہیں وہ دُور ہوتے ہیں اور روشنی ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی اسی سے ملنا ہے۔ حقیقی نجات بھی اسی سے ملنی ہے اور دل کی گندگیاں اسی سے صاف ہونی ہیں جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپؐ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپؐ کے ظہور سے وہ تاریکی نُور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے، آپؐ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کاجامہ نہ پہن لیا۔ اور نہ صرف ا س قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جن کی نظیر دنیاکے کسی حصے میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی۔ یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانے میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جبکہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میںپڑا ہوا تھا اور طبعاً ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا۔ اور پھر آپؐ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جبکہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر توحید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی آداب سکھلائے‘‘۔جو وحشی قوم تھی اور جانوروں کی طرح زندگی گزارنے والے تھے ان کو انسانی آداب سکھلائے۔ ’’یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا‘‘ یعنی جانور کو انسان بنایا ’’اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا ۔ وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا۔ پس بلاشبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعے اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بارو بر نہ رہی۔ اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانے کے تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے۔ اور چونکہ آپؐ صفات الٰہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپؐ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی۔ اور آپؐ کے دو نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں۔ اور آپؐ کی نبوت عامہ کا کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتداء سے تمام دنیا کے لئے ہے‘‘۔
(لیکچر سیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ206-207)
یہ ہے جماعت احمدیہ کی تعلیم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان آج تک قائم ہے۔
(باقی آئندہ)