کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہیں؟
غیر احمدی علماء کی پیش کردہ ایک دلیل کا تجزیہ
غیراحمدی علماءحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ جسم سمیت آسمان پر ثابت کرنے کے لیے سورۃ الزخرف کی ایک آیت پیش کرکے اس سے استدلال کرتے ہیں۔ وہ آیت یہ ہے:
وَإِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۔ (الزخرف: 62)
’’اور یقین رکھو کہ وہ(یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) قیامت کی ایک نشانی ہیں اس لئے تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ ‘‘
(آسان ترجمہ قرآن تشریحات کے ساتھ از مفتی محمد تقی عثمانی، جلد 3، صفحہ 1500، سورۃ الزخرف: 61مکتبہ معارف القرآن کراچی )
استدلال کے طور پر یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ جب وہ دنیا میں جسم سمیت نازل ہوں گے تو یہ قیامت کے آنے کی علامت ہوگی اور پھراس کے بعد قیامت آجائے گی۔ غیر احمدی علماء کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس آیت کے اس استدلال پر علمائے سلف کا اجماع ہے۔
اس آیت کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے اور پھر زندہ جسم سمیت آسمان سے نازل ہونے کا براہِ راست ذکرنہیں ہے مزید برآں آیتِ کریمہ میں موجود ضمائر اور الفاظ سے متعدد مفاہیم اخذ کیے جاتے ہیں۔ غیر احمدی علماء اس آیت سے ایک خاص استنباط کرتے اور پھر اسے ایک خاص عقیدے کے لیے بطور دلیل پیش کر دیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ جسم سمیت آسمان پر لے گیا تھا اور انہیں زندہ جسم عنصری سمیت ہی نازل کرنا تھا تو اس امر کوواضح الفاظ میں بیان کر سکتا تھا۔
اور جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ تمام علماء اس آیت سے حیات مسیح کا ہی استدلال کرتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے۔ حیاتِ مسیح کے عقیدہ کے قائل، مشہور عالم دین اورجماعت اسلامی کے بانی جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی(1903تا1979ء)اس آیت کے متعلق تفہیم القرآن میں تحریر کرتے ہیں:
’’اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’وہ ‘‘ سے کیا چیز مراد ہے؟ حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے، یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کر سکتا ہے کہ قیامت آئے گی۔ لیکن یہ تفسیر سیاق و سباق سے بالکل غیر متعلق ہے۔ سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے۔ دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم ہیں اور یہی سیاق و سباق کے لحاظ سے درست ہے۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے؟ ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، قتادہ، سدی، ضحاک، ابوالعالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ قیامت اب قریب ہے۔ لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے۔ ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پا سکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ پس تم اس میں شک نہ کرو۔ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بے باپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جِلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے، اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کر سکتا ہے، اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پُتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔‘‘
(تفہیم القرآن از سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفسیر سورۃ الزخرف: 61، حاشیہ نمبر55صفحہ55تا56)
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مودودی صاحب خود حیات مسیح کے قائل ہیں لیکن انہوں نے اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے اور آنے کا کوئی استدلال نہیں کیا۔ بلکہ اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے استدلال کو ہی قبول نہیں کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بن باپ پیدا ہونے اور مٹی سے پرندہ بنانے کے عمل کو قیامت کی نشانی کے طور پر پیش کیا نہ اس بات کو کہ آئندہ زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قیامت کی نشانی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ متقدمین میں سے ’بعض‘ مفسرین یہی بات بیان کرتے ہیں۔
مودودی صاحب کے علاوہ موجودہ زمانے کے ایک مشہور دیو بندی عالم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ پیدا ہونے کو قیامت کی علامت قرار دیا۔ وہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ
’’یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ کے بغیر پیدا ہونا قیامت میں تمام انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی بھی ایک دلیل ہے، کیونکہ دوسری زندگی پر کافروں کو یہی تو اعتراض ہے کہ ایسا ہونا بہت عجیب اور خلاف عادت ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا بھی خلاف عادت اور عجیب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ واقعہ ہوا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تمام مُردوں کو دوسری زندگی ملے گی۔ یہ اس آیت کی ایک تفسیر ہے جو حضرت حکیم الامت نے بیان القرآن میں اختیار فرمائی ہے۔‘‘
(آسان ترجمہ قرآن تشریحات کے ساتھ از مفتی محمد تقی عثمانی، جلد 3، صفحہ1500، سورۃ الزخرف: 61مکتبہ معارف القرآن کراچی )
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے مفتی صاحب نے حکیم الامت کی ’’بیان القرآن‘‘ کا بھی حوالہ دیا کہ انہوں نے بھی یہی تفسیر بیان کی۔ حکیم الامت سے ان کی مراد دیوبندیوں کے مشہور عالم جناب اشرف علی تھانوی صاحب ہیں۔
مودودی صاحب، مفتی تقی عثمانی صاحب اور اشرف علی تھانوی صاحب کے علاوہ اَور بھی علماء ہیں جو اس آیت کی ایسی تفسیر بیان کرتے ہیں جس سے حیات مسیح کا اثبات نہیں ہوتا۔ انہوں نے اس آیت کی ضمائر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی مراد لے کر ایسی تفسیر بیان کی ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے بنسبت اس کے کہ اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت کی جائے۔ اس کے علاوہ متقدمین میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد ہی نہیں لیتے بلکہ وہ ضمیر کا مرجع قرآن قرار دیتے ہیں کہ قرآن کریم قیامت کی دلیل ہے کیونکہ وہ آخری کتاب ہے۔
قرآن کریم نے کسی اور جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے کے واقعہ کو واضح رنگ میں بیان نہیں کیا حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے کئی اور واقعات بڑی تفصیل سے بیان ہیں۔ پیدائش کا واقعہ ہی بڑی تفصیل سے، واضح رنگ میں بیان ہوا ہے۔ بن باپ پیدائش کوحضرت آدم علیہ السلام کی مثال قرار دیا گیا۔ (سورۂ آل عمران: 60)۔ زندہ جسم سمیت آسمان پر جانا پیدائش کے واقعہ سے اس لحاظ سے زیادہ اہم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم سمیت آسمان پر گئے اور آج تک اسی جسم کے ساتھ زندہ ہیں اور ابھی وہ نازل ہوں گے۔ ایسے واقعہ کی کوئی اور مثال نہیں اس لیے اس واقعہ کا واضح رنگ میں بیان ہونا ضروری تھا۔ پھر ایسی کسی آیت کو جس کے اور بھی مفاہیم ہوں، کیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے ثبوت کے طور پر پیش کیاجاسکتا ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت کو حضرت مسیح کے دوبارہ نزول سے شکی طورپر بھی کچھ تعلق نہیں بات یہ ہے کہ حضرت مسیح کے وقت میں یہودیوں میں ایک فرقہ صدوقی نام تھا جو قیامت سے منکر تھے پہلی کتابوں میں بطور پیشین گوئی کے لکھا تھا کہ ان کو سمجھانے کےلئے مسیح کی ولادت بغیر باپ کے ہوگی اور یہ ان کےلئے ایک نشان قرار دیا گیا تھاجیسا کہ اللّٰہ جلّ شانہٗ دوسری آیت میں فرماتا ہے
وَلِنَجعَلَہٗ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ(مریم: 22)
اس جگہ النَّاس سے مراد وہی صدوقی فرقہ ہے جو اس زمانہ میں بکثرت موجود تھا۔ چونکہ توریت میں قیامت کا ذکر بظاہر کسی جگہ معلوم نہیں ہوتا اس لئے یہ فرقہ مُردوں کے جی اٹھنے سے بکلی منکر ہوگیا تھا۔ اب تک بائیبل کے بعض صحیفوں میں موجود ہے کہ مسیح اپنی ولادت کے رو سے بطور عِلْمُ السَّاعَۃِ کے ان کیلئے آیا تھا۔ اب دیکھئے اس آیت کو نزول مسیح سے تعلق کیا ہے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ مفسرین نے کس قدر جدا جدا طور پر اس کے معنی لکھے ہیں ایک جماعت نے قرآن کریم کی طرف ضمیر اِنَّہٗ کی پھیر دی ہے کیونکہ قرآن کریم سے روحانی طور پر مردے زندہ ہوتے ہیں اور اگر خواہ نخواہ تحکم کے طور پر اس جگہ نزول مسیح مراد لیا جائے اور وہی نزول ان لوگوں کیلئے جو آنحضرت صلعم کے عہد میں تھے نشان قیامت ٹھہرایا جائے تو یہ استدلال وجود قیامت تک ہنسی کے لائق ہوگا اورجن کویہ خطاب کیا گیا کہ مسیح آخری زمانہ میں نزول کر کے قیامت کا نشان ٹھہرے گا! تم باوجود اتنے بڑے نشان کے قیامت سے کیوں انکاری ہوئے۔ وہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ دلیل تو ابھی موجود نہیں پھر یہ کہنا کس قدر عبث ہے کہ اب قیامت کے وجود پر ایمان لے آؤ۔ شک مت کرو ہم نے دلیل قیامت کے آنے کی بیان کردی۔ ‘‘
(الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 168تا169)
(مرسلہ: ابن قدسی)
٭…٭…٭