حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دفاع اسلام کے لیے عظیم الشان خدمت
جب سے اسلام وجود میں آیا، اس اکمل و اتم دین پر ہر قسم کی تہمتیں اور اعتراضات اور الزامات لگائے جاتے رہے۔ ہر صدی کے سر پر آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مجدد تو آتے رہےمگر جب بارھویں صدی چڑھی تو اسلام کی یہ حالت تھی کہ مخالفینِ اسلام اور منکرینِ توحید ہر حد سے بڑھ چکے تھے اور دین مصطفیٰ کی حمایت کرنے والا بویا کوئی باقی نہ رہا۔ ایسے جیسے امت مسلمہ نے ہار مان لی ہو اور گھبرا کر بیٹھ گئی ہو ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو ہدایت دے دی تھی کہ اسلام کے خلاف تدابیر کی جاتی رہیں گی۔ اس لیے فرما یا:
اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ السَّیِّئَۃَ ؕ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَصِفُوۡنَ۔ (المؤمنون: 97)
ترجمہ: اس (طریق) سے جو بہترین ہے بدی کو ہٹا دے۔ ہم اُسے سب سے زیادہ جانتے ہیں جو وہ باتیں بناتے ہیں۔
پھر فرمایا کہ اسلام کی تبلیغ اور تربیت اور مدافعت کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ۔ (النحل: 126)
اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا ربّ ہی اسے، جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی ظاہر کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ ملت اسلامیہ کی اس نازک حالت اور اپنی بعثت کی حاجت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریّت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں …اب سوچ کر کہو کہ کیا اب ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 251تا252)
آپ علیہ السلام اس حالت کو دیکھ کر فی الفور اسلام کے دفاع میں لگ گئے۔ مگر آپ علیہ السلام نے کوئی تلوار نہ اٹھائی۔ آپؑ کا ہتھیار قلم تھا۔ آپؑ نے فرمایا:
’’جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ [مخالفین۔ ناقل] آئے ہیں، اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہیے اور وہ ہتھیار ہے قلم۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم اور میرے قلم کو ذو الفقار علی فرمایا۔ اس میں یہی سر ہے کہ زمانہ جنگ و جدل کا نہیں ہے، بلکہ قلم کا زمانہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ 214، ایڈیشن 2016ء)
چنانچہ آپؑ نے اسلام کے دفاع میں 80 سے زیادہ کتب تحریر فرمائیں۔ ان کتب کے ذریعہ سے آپؑ نے دین اسلام کی تعلیمات کو ترو تازہ کیا۔ اسلام کی تائید میں آپؑ نے وثوق دلائل سے باقی تمام مذاہب کو باطل اور نصرتِ الٰہی سے معدوم و محروم ثابت کیا اور تمام تر برکات و فیوض کا مرجع آنحضرتﷺ کے وجود کو ثابت فرما دیا اور سب مخالفین اور معترضین قرآنی آیت فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَکا مصداق ٹھہرے۔
غرض آپؑ کی ساری زندگی کا خلاصہ ہی دفاعِ اسلام ہے۔ آپ نے اپنی جان و مال کو اس مقصد کے لیے قربان کر دیا اور ہر طاقت اور قوت اس کام میں لگا دی۔ آپ کی زندگی کے کسی بھی حصے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ دفاعِ اسلام کے لیے ہی کام کر رہے تھے۔ آپ کے سفر، آپ کے مباحثات و مناظرات، آپ کی پیشگوئیاں اور نصرتِ الٰہی کے نشانات و معجزات، آپ کی تحریرات اور ملفوظات اور اشتہارات اور مکتوبات سب کے سب دفاع اسلام کی غرض سے تھے۔ آپ کی پاک سوانح یہ شہادت دیتی ہے کہ آپ کا ہستی کا مقصود دفاعِ اسلام تھا۔ آپؑ کی خدماتِ اسلام کا ذکر ایک مختصر مضمون میں کرنا سراسر ناممکن ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان کتب نے مذہبی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انہوں نے عیسائیت کی ’فتوحات‘ کا رخ پھیر دیا۔ ہندوؤں اور آریوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ دہریوں اور دیگر مذاہب والوں کا اسلام پر حملہ روک دیا۔ مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی، نئی زندگی عطا کی، نیا حوصلہ دیا، نئی امنگ پیدا کی۔ آج یہ کتب دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو کر ساری دنیا میں ایک روحانی بیداری پیدا کر رہی ہیں۔ آئیے ان میں سے چند کتب کا تعارف ملاحظہ کریں۔
براہینِ احمدیہ حصہ اوّل و دوم
1879ء میں خدا تعالیٰ نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ جب ہر مذہب اسلام پر حملہ آور ہے تو کیوں نہ ایک ایسی تصنیف تحریر کی جائے جو دین مصطفیٰ کے دفاع کا لا زوال کام کرتی رہے۔ چنانچہ اس تصنیف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ذاتی روحانی تجربات اور صداقت اسلام کے اعلیٰ نشانات پیش کیے اور اسلام کی فضیلت اور رسول اللہﷺ کی عظمت اور قرآن کریم کی فوقیت مثبت اور کلمہ شکن دلائل سے پائیدار کی۔ اسی کے ساتھ آپ نے دس ہزار روپیہ کا انعام مقرر کر کے یہ چیلنج دیا کہ اگر کوئی اس کتاب کی تمثیل لاسکتا ہے تو لائے۔ اب تک کوئی مخالف یا معترض ایسا نہیں جو ایسا کرنے پر قادر ہو سکا ہو۔
یہ کتاب جب 1880ء کو شائع ہوئی تو ہندوستان میں شور پڑ گیا۔ تمام مخالفینِ اسلام عاجز ہو گئے اور اسلام کو بہت دیر بعد ایک فتح عظیم بخشی گئی۔ نیز مسلمان قوم نے اس کتاب کو اسلامی مدافعت کا ایک زبردست شاہکار قرار دیا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے جن کو اہل حدیث کا سردار بھی مانا جاتا تھا اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں اس کتاب کو اسلامی تاریخ میں ایک خاص اسلامی خدمت قرار دیا۔ چونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کا شمار اس زمانے کے جید علماء میں ہوتا تھا اس لیے ان کا یہ تبصرہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں …اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ سماج سے اِس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو۔‘‘
(اشاعۃ السنہ جلد 7صفحہ 169تا170)
گو بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب حضورؑ کے سخت مخالف ہو گئے مگر ان کی یہ شہادت آج تک تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔
براہین احمدیہ حصہ سوم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو براہین احمدیہ حصہ اوّل اور دوم تحریر کیے ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا الہام ہوا جس سے اللہ تعالیٰ کی یہ غرض تھی کہ آپؑ جس کام پر لگے ہوئے تھے (یعنی دفاع اسلام) اسی کام کو اب اللہ تعالیٰ کی خاص راہ نمائی کے ساتھ سر انجام دیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور دین مصطفیٰ کی تجدید اور آپﷺ کی تعظیم اور قرآن کریم کی تفسیر کی از سر نو بنیاد رکھیں۔
آپؑ نے انہی دنوں میں براہین احمدیہ حصہ سوم تحریر فرمائی جس میں آپؑ نے ہر طالبِ حق کو یہ دعوت دی کہ جو اسلام کی سچائی اور زندہ مذہب کے زندہ نشانات کی شہادت کرنا چاہے وہ خلوص نیت سے حضورؑ کے پاس آ ئے اور ان کی صحبت میں رہے تو ضرور اللہ تعالیٰ کی تجلیات اور معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’انشاءاللہ تعالیٰ ہر یک طالب صادق اپنے مطلب کو پائے گا اور ہر یک صاحب بصارت اس دین کی عظمت کو دیکھے گا۔ مگر کون ہمارے سامنے آ کر اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ وہ آسمانی نور ہمارے کسی مخالف میں بھی موجود ہے۔ اور جس نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور فضیلت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کیا ہے۔ وہ بھی کوئی روحانی برکت اور آسمانی تائید اپنے شامل حال رکھتا ہے۔ کیا کوئی زمین کے اس سرے سے اس سرے تک ایسا متنفس ہے کہ قرآن شریف کے ان چمکتے ہوئے نوروں کا مقابلہ کر سکے۔ کوئی نہیں ایک بھی نہیں۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 291تا292 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)
یہ آپؑ کی اسلام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے ایک مضبوط دلیل تھی۔ یہ آسمانی دعوت حضورؑ نے اپنی ساری حیاتِ مبارکہ میں بر قرار رکھی اور بار بار دعوت دی کہ تااسلام کی صداقت اور اس کی عظمت مخالفین پر کھل جائے اور اسلام کا زندہ مذہب ہونا ثابت ہو جائے۔
فتح اسلام
1890ء کے آخر پر آپؑ نے’’ فتح اسلام ‘‘تحریر فرمائی جس میں پہلی دفعہ آپؑ نے مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور اسی دوران آپؑ پر اللہ تعالیٰ نے وفات مسیح کی حقیقت بیان فرمائی۔ اسلام کی حمایت اور مخالفین پر اتمام حجت کی غرض سے آپ نے فتح اسلام میں ملت اسلامیہ کی اشاعت اور اس کے پُر معارف حقائق کھولنے کی پانچ شاخیں بیان فرمائیں۔ آپ علیہ السلام نے امت مسلمہ کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:
’’اے دانشمندو! تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالیٰ نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور ایک بندہ کو مصلحتِ عام کے لئے خاص کر کے بغرض اعلائے کلمۂ اسلام و اشاعتِ نُور حضرت خیر الانام اور تائید مسلمانوں کے لئے اور نیز اُن کی اندرونی حالت کے صاف کرنے کے ارادہ سے دنیا میں بھیجا۔ تعجب تو اس بات میں ہوتا کہ وہ خدا جو حامی دین اسلام ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ تعلیم قرآنی کا نگہبان رہوں گا اور اسے سرد اور بے رونق اور بے نور نہیں ہونے دوں گا۔ وہ اس تاریکی کو دیکھ کر اور اِن اندرونی اور بیرونی فسادوں پر نظر ڈال کر چپ رہتا…اگر تعجب کی جگہ تھی تو یہ تھی کہ اُس پاک رسول کی یہ صاف اور کھلی کھلی پیشگوئی خطا جاتی جس میں فرمایا گیا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر خدا تعالیٰ ایک ایسے بندہ کو پیدا کرتا رہے گا کہ جو اس کے دین کی تجدید کرے گا سو یہ تعجب کا مقام نہیں بلکہ ہزار در ہزار شکر کا مقام اور ایمان اور یقین کے بڑھانے کا وقت ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کو پورا کر دیا اور اپنے رسول کی پیشگوئی میں ایک منٹ کا بھی فرق پڑنے نہیں دیا اور…آئندہ کے لئے بھی ہزاروں پیشگوئیاں اور خوارق کا دروازہ کھول دیا۔‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 6تا7)
اس کتاب میں آپؑ نے مسلمانوں کو بالخصوص مخاطب کیا تاکہ مسلمان اپنی اصلاح کرتے ہوئے اسلام کو بیرونی اور اندرونی حملوں سے بچائیں اور مخالفین کے سامنے ثابت قدمی سے پیش آتے ہوئے روشن دلائل سے دین کی مدافعت میں لگ جائیں۔
آئینہ کمالات اسلام
پھر آپؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘تحریر فرمائی جس میں دفاع اسلام کے سلسلےکو جاری رکھا۔ اس کتاب کا پس منظر یہ ہے کہ ایک طرف سے عیسائی پادری اسلام اور بانیٔ اسلام اور قرآن کریم پر بے تحاشا اعتراضات اور الزامات گھڑ رہے تھے۔ دوسری طرف علمائے اسلام ایسے مضر عقائد کے حامل تھے کہ عیسائی پادریوں کا کام آسان کر دیتے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کی آنحضرتﷺ پر فضیلت ثابت کر دیتے تھے جو در اصل دشمنان اسلام کی تقویت کا باعث بن رہے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی آئینہ کمالات اسلام کی غرض تالیف یہ تھی کہ اسلام کے محاسن اور خوبصورت تعلیمات کا مزین چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان اعتراضات اور الزامات اور غلط فہمیوں کو دور کریں جو دشمنان اسلام اور مسلمان قوم میں رائج ہو چکی تھیں۔ آپؑ نے اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور رسول اللہﷺ کی برتری اور فوقیت ثابت کی اور قرآنی حقائق اور زندہ نشانات سے دنیا کو متنبہ کیا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’اِس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہیئے کہ اب کیا کریں یقیناً سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے۔ یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا۔ حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں۔ کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے۔ میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں۔ یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الٰہی طاقت ایسا ضعیف کرے کہ کالعدم کر دیوے…‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 254تا255حاشیہ)
حجۃ الاسلام
اپریل 1893ء میں آپؑ نے رسالہ ’’حجۃ الاسلام‘‘ شائع فرمایا۔ ان دنوں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک جنڈیالہ ضلع امرتسر میں عیسائیوں کے مشن کا انچارج تھا اور اسلام کا سخت مخالف تھا۔ حضورؑ نے عیسائیوں کو مبہوت کرنے اور اسلام کو سچا مذہب ثابت کرنے کی غرض سے ان کو مباہلہ اور مباحثہ کا چیلنج دیا۔ حضورؑ نے اس رسالے میں اسے اور باقی عیسائی پادریوں کو مباہلہ کی پھر دعوت دی اور مباحثہ کی شرائط واضح کیں۔ نیز آپؑ نے فرمایا:
’’میں صرف اس حالت میں سچا قرار پاؤں گا کہ میری طرف سے ایک سال کے اندر ایسا نشان ظاہر ہو جس کے مقابلہ سے ڈاکٹر صاحب عاجز رہیں اور اگر ڈاکٹر صاحب بعد اشاعت اس اشتہار کے ایسے مضمون کا اشتہار بالمقابل شائع نہ کریں تو پھر صریح ان کی گریز متصور ہو گی اور ہم پھر بھی انکی منقولی و معقولی بحث کے لئے حاضر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس بارے میں یعنی نشان نمائی کے امر میں اپنا اور اپنی قوم کا اسلام کے مقابل پر عاجز ہونا شائع کر دیں یعنی یہ لکھ دیں کہ یہ اسلام ہی کی شان ہے کہ اس سے آسمانی نشان ظاہر ہوں اور عیسائی مذہب ان برکات سے خالی ہے۔‘‘
(حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 50)
نور الحق حصّہ اوّل
عیسائیوں سے حضورؑ کا مشہور مباحثہ ’’جنگ مقدس‘‘ 1893ء میں منعقد ہوا جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے دلائل و براہین کے ذریعہ اسلام کی برتری کو ثابت کیا اور عیسائیوں کو شکست فاش ہوئی۔ اس وجہ سے پادری گھبرائے ہوئے تھے۔ حضورؑ کی اس مباحثے میں کامیابی کا اس سے بھی بڑا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے کہ عیسائی پادری عقلی اور علمی دلائل کو چھوڑتے ہوئے توہین اور گالیاں دینے لگ گئے۔ چنانچہ پادری عماد الدین نے اسلام اور بانی اسلام کے خلاف ایک سخت اشتعال انگیز کتاب لکھی جس میں حضورﷺ کے خلاف بہت گندے حملے کیے۔ گو کسی مسلمان عالم کو اس کتاب کا جواب دینے کی توفیق نہ ہوئی مگر خدا کا شیر ایک دفعہ پھر میدان میں اُترا اور قلیل وقت میں کتاب کا جوا ب بنام ’’نور الحق ‘‘حصہ اوّل لکھ دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ساتھ ہی چیلنج دیا کہ اگر سارے پادری اکٹھے ہو کر تین ماہ میں حضورؑ کی کتاب کا جواب لکھ پائیں تو ان کو پانچ ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ جواب نہ لکھ پائے اور آنحضرتﷺ کی توہین کرنے سے باز نہ آئے تو خدا کی ان پر ایک ہزار لعنت ہو۔
سر الخلافہ
حضورؑ نے ایک کتاب ’’سر الخلافہ ‘‘تحریر فرمائی جس میں حضورؑ نے خلفاء راشدین کا دفاع کیا اور ان کے بلند مقام و مرتبہ کو فصیح و بلیغ زبان میں بیان فرمایا۔ خلفائے راشدین نے چونکہ اسلام کے باغ کو مزید مزین کیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت پائی اس لیے حضورؑ کو ان سے گہرا عشق تھا اوران کے لیے غیرت رکھتے تھے۔ پس ان پر الزامات اور تہمتیں لگانا حضورؑ کی نظروں میں گویا اسلام اور بانیٔ اسلام رسول اللہﷺ پر الزامات اور تہمتیں لگانا تھا۔ حضورؑ نے دلائل کے ذریعہ خلفائے ثلاثہ پر لگائے جانے والے غلط الزامات کا جواب دیا جبکہ حضرت علیؓ کی شخصیت کی طرف منسوب غلط فہمیوں کا زبردست دلائل کے ساتھ ازالہ فرمایا۔ یہ کتاب بلا شبہ امت مسلمہ میں سنی شیعہ اختلاف کے معاملات میں حکم کا درجہ رکھتی ہے۔
آریہ دھرم
1895ء میں قادیان کے آریہ سماج نے رسول کریمﷺ پر گندے الزامات لگائے۔ اس کے جواب میں حضورؑ نے کتاب ’’آریہ دھرم ‘‘تحریر فرمائی جس میں رسول اللہﷺ کی ذات گرامی و ناموس شخصیت کا دفاع کیا۔ آریوں کی نیوگ کی شرمناک تعلیم پر اپنی ذاتی تحقیق پیش کرتے ہوئے اسلام میں طلاق کی پر حکمت تعلیم پیش کی اور اس حوالے سے تمام اعتراضات کا جواب دیا۔ اس کتاب میں آپؑ کی دفاع اسلام کی مہمات نے بھی ایک نئی نوعیت پکڑ لی۔ آپؑ نے مخالفین اسلام کو ایک کھلا نوٹس دیا جس میں آپؑ نے برطانوی گورنمنٹ کے احسانات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’ہم نہایت ادب سے گورنمنٹ عالیہ کی جناب میں یہ عاجزانہ التماس کرتے ہیں کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان احسانوں کو یاد کر کے جواب تک ہم پر کئے ہیں ایک یہ بھی ہماری جانوں اور آبروؤں اور ہمارے ٹوٹے ہوئے دلوں پر احسان کرے کہ اس مضمون کا ایک قانون پاس کر دیوے یا کوئی سرکلر جاری کرے کہ آئندہ جو مناظرات اور مجادلات اور مباحثات مذہبی امور میں ہوں ان کی نسبت ہر یک قوم مسلمانوں اور عیسائیوں اور آریوں وغیرہ میں سے دو امر کے ضرور پابند رہیں۔
1۔ اول یہ کہ ایسا اعتراض جو خود معترض کے ہی الہامی کتاب یا کتابوں پر جن کے الہامی ہونے پر وہ ایمان رکھتا ہے وارد ہو سکتا ہو یعنی وہ امر جو بنا اعتراض کی ہے ان کتابوں میں بھی پایا جاتا ہو جن پر معترض کا ایمان ہے ایسے اعتراض سے چاہئے کہ ہر یک ایسا معترض پرہیز کرے۔
2۔ دوم اگر بعض کتابوں کے نام بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے کسی فریق کی طرف سے اس غرض سے شائع ہو گئے ہوں کہ در حقیقت وہی کتابیں ان کی مسلم اور مقبول ہیں تو چاہئے کہ کوئی معترض ان کتابوں سے باہر نہ جائے …یہ التماس ہے جس کا پاس ہونا ہم بذریعہ کسی ایکٹ یا سرکلر کے گورنمنٹ عالیہ سے چاہتے ہیں …‘‘
(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 84تا85)
اسلامی اصول کی فلاسفی
1896ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو اسلام کے دفاع کے لیے جلسۂ اعظم مذاہب کی صورت میں ایک عظیم الشان موقعہ نصیب کیا۔ اس جلسےکا مقصد یہ تھا کہ سچے مذہب کے کمالات اور خوبیاں ایک عام مجمع میں ظاہر کی جائیں اور اس کے دلائل اور براہین لوگ سمجھ سکیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جو اسلام کے دفاع کے لیے گذشتہ پندرہ سال سے مساعی کرتے رہے تھے، اس موقع کو پا کر مسرت کا اظہار کیا۔ اس سے جلسے کے سامعین کو بھی مختلف مذاہب میں تمیز اور موازنہ کرنے کی توفیق ملی۔ چنانچہ جب جلسہ منعقد کیا گیا اور حضورؑ کا مضمون پڑھا گیا تو انتظامیہ نے جلسہ کے ایام میں ایک اور دن بڑھا دیا تا کہ مضمون مکمل کیا جا سکے۔ لوگوں پر مضمون کا بہت گہرا اثر پڑا۔ ایک اخبار نے لکھا:
’’اس جلسہ میں سامعین کو دلی اور خاص دلچسپی مرزا غلام احمد قادیانیؑ کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حمایت و حفاظت میں ماہر کامل ہیں۔‘‘
(سول اینڈ ملٹری گزٹ بحوالہ روحانی خزائن جلد 10 تعارف کتب)
ایک اور اخبار نے لکھا:
’’مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دئیے اور تمام بڑے بڑے اصول اور فروعاتِ اسلام کو دلائل عقلیہ سے اور براہین فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا۔ ‘‘
(اخبار چودھویں صدی راولپنڈی بمطابق یکم فروری 1897ء بحوالہ روحانی خزائن جلد 10تعارف کتب)
ایک اور اخبار نے لکھا:
’’جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلّت و ندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا تعالیٰ کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اُس کو اِس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔ صرف اسی قدر نہیں بلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی…اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ بلکہ وہ ہمارے فخر و ناز کا موجب ہے اس لئے اِس میں اسلامی شوکت ہے۔ اور اِسی میں اسلامی عظمت اور حق بھی یہی ہے۔ ‘‘
(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب لاہور بحوالہ روحانی خزائن جلد 10تعارف کتب)
انجام آتھم
امرتسر میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک پہلے سے زیادہ پادریوں کو وعظ کرنے کی تلقین کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک غیور مسلمان نے اس حالت کو دیکھ کر انہیں مقابلےکی دعوت دی۔ مارٹن کلارک کو جب یہ خبر ملی تو اس نے مسلمانوں کو مباحثہ کا تحریری چیلنج دیا۔ اس غیور مسلمان نے علمائے اسلام کو لکھا کہ مباحثہ کے لیے تشریف لے آئیں۔ اس پر دیگر علماء نے توضد اور بہانے کر کے ٹال دیا مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس چیلنج کو خوشی سے قبول کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے دفاع کے لیے ایک موقع نصیب کیا۔ چنانچہ آپؑ نے قرآن کریم کی صداقت ناظرین پر ثابت کی اور اسلام کو ایک اور فتح عظیم حاصل ہوئی۔
مباحثہ کے آخری دن حضرت مسیح موعودؑ نے ایک عظیم الشان پیشگوئی بھی کی جس میں آپ نے تنبیہ کی کہ اگر باطل فریق بانیٔ اسلام کو دجال کہنے سے گریز نہ کرے اور جھوٹ اختیار کرے اور توحید سے انکار کرے تو وہ پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا۔ آپؑ نے آتھم کی طرف اس پیشگوئی کو جب سنایا تو اس پر اس پیشگوئی گا اتنا رعب پڑا کہ اس نے اسی مجلس میں یک لخت رجوع کر لیا۔ مگر حق کو چھپانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آیا اور اسلام کی صداقت کا ایک نشان ٹھہرا۔
حضورؑ کی پیشگوئی کے مطابق جب عبد اللہ آتھم راہیٔ ملک عدم ہوا تو حضورؑ نے اسلام کے اس تازہ نشان اور اسلام کی صداقت کو لوگوں پر ظاہر کرنے کی غرض سے تصنیف ’’انجام آتھم ‘‘تحریر فرمائی۔ اس تصنیف کے ضمیمہ میں حضورؑ نے اسلام اور بانیٔ اسلام کی صداقت پر ایک زبردست چیلنج دیا اور اعلان فرمایا کہ’’بالآخر میں پھر ہر یک طالب حق کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ دین حق کے نشان اور اسلام کی سچائی کے آسمانی گواہ جس سے ہمارے نابینا علماء بے خبر ہیں وہ مجھ کو عطا کئے گئے ہیں۔ مجھے بھیجا گیا ہے تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے۔ اور وہ کرامات مجھے عطا کئے گئے ہیں جن کے مقابلہ سے تمام غیر مذہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے مخالف بھی عاجز ہیں۔ میں ہر یک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے۔ موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسیٰ کے معجزات سے صد ہا درجہ زیادہ۔
میں بار بار کہتا ہوں۔ اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے۔ اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ہرگز ممکن نہیں۔
اے نادانوں ! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟ اور مردار کھانے میں کیا لذّت؟ !!!آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے۔ اور کس قوم کے ساتھ ہے۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے۔ اسلام اِس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا۔ آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں؟ کہ اس بات کو پرکھے۔ پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کر لیوے۔ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا ایک مردہ کفن میں لپیٹا ہوا۔ پھر کیا ہے؟ کیا ایک مشت خاک۔ کیا یہ مردہ خدا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ تمہیں کچھ جواب دے سکتا ہے؟ ذرہ آؤ! ہاں! لعنت ہے تم پر اگر نہ آؤ۔ اور اس سڑے گلے مردہ کا میرے زندہ خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کرو۔
دیکھو میں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گذریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا۔ نا پاک ہیں وہ دل جو سچے ارادہ سے نہیں آزماتے۔ اور پھر انکار کرتے ہیں۔ اور پلید ہیں وہ طبیعتیں جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف۔
او میرے مخالف مولویو! اگر تم میں شک ہو تو آؤ چند روز میری صحبت میں رہو۔ اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو۔ اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آؤ۔ میں اتمام حجت کر چکا۔ اب جب تک تم اس حجت کو نہ توڑ لو۔ تمہارے پاس کوئی جواب نہیں۔ خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں۔ کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچا دل لے کر میرے پاس آوے۔ کیا ایک بھی نہیں۔
’’دنیا میں ایک نذیر آیا۔ پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ ‘‘
(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 345تا347)
البلاغ
1898ء میں آنحضرتﷺ اور ازواج مطہرات کے خلاف ایک گندی اور خبیث زبان میں گالیوں سے بھری ہوئی کتاب لکھی گئی۔ اس کتاب کو بڑے وسیع پیمانے پر شائع کر کے مفت تقسیم کیا گیا۔ کتاب میں آنحضرتﷺ پر جو مسلمانوں کے نزدیک خیر الوراء اور سید الانبیاء ہیں ایسے اشتعال انگیز الفاظ استعمال کیے گئے کہ ہند کے مسلمانوں کو بہت دکھ پہنچا اور ان میں غم و غصہ کی لہر دوڑ اٹھی۔ کتاب کے خلاف بہت شور اٹھا اور اخبارات نے بھی بہت احتجاج کیا۔ مگر مسلمانوں کا رد عمل نہایت ناگوار تھا۔
انہی ایام میں حضورؑ نے ایک تصنیف تحریر فرمائی جس کا نام ’’البلاغ ‘‘تھا۔ اس میں حضورؑ نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ سکیم بنائی کہ دفاع اسلام کی غرض سے دنیا کی مختلف زبانوں میں اسلامی لٹریچر شائع کیا جائے۔ آپؑ نے فرمایا کہ
’’میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پادریوں کی کتابوں کا بد اثر دلوں سے محو کر دیں تو…ہمیں چاہئے کہ وہ تمام اعتراضات جمع کر کے نہایت برجستگی اور ثبوت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ ایک ایک کا مفصل جواب دیں اور اس طرح پر دلوں کو ان نا پاک وساوس سے پاک کر کے اسلامی روشنی کو دنیا پر ظاہر کریں۔ ‘‘
(البلاغ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 377)
حضورؑ فرماتے ہیں:
’’در حقیقت ایسے لاکھوں انسان ہیں جن کے دل خراب ہو رہے ہیں۔ ہزار ہا طبیعتیں ہیں جو بُری طرح بگڑ گئی ہیں۔ سو بڑا امر اور عظیم الشان امر جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہی ہے کہ ہم نظر اٹھا کر دیکھیں کہ ملک مجذوموں کی طرح ہوتا جاتا ہے اور شبہات کے زہریلے پودے بے شمار سینوں میں نشو و نما پا گئے ہیں اور پاتے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہمیں تمام قرآن شریف میں یہی ترغیب دیتا ہے کہ ہم دین اسلام کی حقیقی حمایت کریں اور ہمارا فرض ہونا چاہیے کہ مخالفوں کی طرف سے ایک بھی ایسا اعتراض پیدا نہ ہو جس کا ہم کمال تحقیق اور تنقیح سے جواب دے کر حق کے طالبوں کی پوری تسلی اور تشفی نہ کریں۔ ‘‘
(البلاغ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 379)
اسی کتاب میں آپؑ نے مدافعت اسلام کا کام کرنے والوں میں پائی جانے والی دس شرائط یا خصوصیات کا ہونا ضروری قرار دیا جو درج ذیل ہیں:
1۔ علم زبان عربی میں راسخ ہو۔
2۔ دینی معرفت کے ساتھ ساتھ تحقیق اور تدقیق اور لطائف اور نکات اور براہین یقینیہ پیدا کرنے کا خدا داد مادہ اس میں موجود ہو اور حکیم الامت اور زکی النفس ہو۔
3۔ کسی قدر علوم طبعی اور طبابت اور ہئیت اور جغرافیہ میں دسترس رکھتا ہو۔
4۔ وہ ضروری حصہ بائبل کا جو پیشگوئیوں وغیرہ میں قابل ذکر ہوتا ہے عبرانی زبان میں یاد رکھتا ہو۔
5۔ خدا سے حقیقی ربط اور صدق اور وفا اور محبت الٰہیہ اور اخلاص اور طہارۃ باطنی اور اخلاق فاضلہ اور انقطاع الی اللہ ہو۔
6۔ تاریخ کا علم ہو۔
7۔ کسی قدر ملکۂ علم منطق اور علم مناظرہ ہو۔
8۔ تحریری یا تقریری مباحثات کے لیے کثیر التعداد معتبر اور مسلم الصحت کتابوں کا جمع ہو۔
9۔ فراغت النفس اور صرف دینی خدمت کے لیے زندگی وقف ہو۔
10۔ اسے اعجازی طاقت حاصل ہو کیونکہ انسان حقیقی روشنی حاصل کرنے کے لیے اور کامل تسلی پانے کے لیے اعجازی طاقت یعنی آسمانی نشانوں کے دیکھنے کا محتاج ہے اور سچے مذہب کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ اس میں نشان دکھلانے والے پیدا ہوتے رہیں۔
(ماخوذ ازالبلاغ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ370تا375)
مذکورہ بالا تمام خصوصیات سب سے زیادہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ ہی میں پائی جاتی تھیں۔ اور آپؑ نے اپنی زندگی میں انہی خصوصیات کے تحت مدافعت کا کام سر انجام دیا۔ پھر آپؑ نے مسلمانوں کو بھی اپیل کی اور فرمایا:
’’اے بزرگو! یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہی دین اور دینوں پر غالب ہو گا جو اپنی ذاتی قوت سے اپنی عظمت دکھاوے۔ پس جیسا کہ ہمارے مخالفوں نے ہزاروں اعتراض کر کے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرہ کو بد شکل اور مکروہ ظاہر کریں ایسا ہی ہماری تمام کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہئیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا بپایۂ ثبوت پہنچاویں۔ …اور ان کو دکھلاویں کہ اسلام کا چہرہ کیسا نورانی کیسا مبارک اور کیسا ہر ایک داغ سے پاک ہے۔ ہمارا کام جو ہمیں ضرور ہی کرنا چاہیے وہ یہی ہے کہ یہ دجل اور افترا جس کے ذریعہ سے قوموں کو اسلام کی نسبت بد ظن کیا گیا ہے اس کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔ یہ کام سب کاموں پر مقدم ہے…‘‘
(البلاغ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ382تا383)
اس کتا ب میں حضورؑ نے بلاد اسلامیہ میں کتب کی مفت اشاعت کی بھی اصولی تجاویز پیش کیں اور آخر میں بطور ضمیمہ حضورؑ نے کتب حدیث، تفسیر، صَرف و نحو، معانی بیان، ادب، لغت، تاریخ، اصول، فقہ، علم کلام، منطق، اخلاق و تصوف، طب اور کتب مذاہب اور علوم مختلفہ کی تقریباً ڈیڑھ ہزار کتب کی فہرست بھی شامل کی جن سے مخالفین اسلام کے رد میں استفادہ کرنا ضروری ہے۔
(البلاغ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 458تا469)
نسیم دعوت
1903ء میں قادیان کے آریہ سماج نے نو مسلمانوں کی ایک معصوم دعوت الیٰ اللہ کے جواب میں ایک گالیوں سے بھرا اشتہار چھاپا جس میں رسول اللہﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی جماعت کی گستاخی کی اور یہ اعتراض کیا کہ نو مسلمان کا مسلمان ہونا اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ چاروں وید نہ پڑھے اور پھر آریہ دھرم کا اسلام سے موازنہ کرے۔
اس اشتہار میں اتنا گند تھا کہ حضورؑ نےاس کا جواب دینا گوارا نہ کیا۔ مگر خدا تعالیٰ نے آپؑ کو خاص وحی سے فرمایا کہ اس کا جواب دیا جائے۔ پس آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے رسالہ ’’نسیم دعوت ‘‘تحریر فرمایا۔ آپؑ نے فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس تحریر کا جواب لکھ اور میں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں۔ تب مجھے اس مبشر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں میں اکیلا نہیں۔ سو میں اپنے خدا سے قوت پا کر اٹھا اور اس کی روح کی تائید سے میں نے اس رسالہ کو لکھا اور جیسا کہ خدا نے مجھے تائید دی میں نے یہی چاہا کہ ان تمام گالیوں کو جو میرے نبی مطاع کو اور مجھے دی گئیں نظر انداز کر کے نرمی سے جواب لکھوں اور پھر یہ کار و بار خدا تعالیٰ کے سپرد کر دوں۔‘‘
(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 364)
اس کتاب میں حضورؑ نے آریہ سماج کے مذکورہ بالا اعتراض کی تردید کی اور فرمایا کہ صرف تین باتوں کا دیکھنا ضروری ہے۔ اوّل یہ کہ اس مذہب میں خدا کی نسبت کیا تعلیم ہے۔ دوم یہ کہ نفس انسانی کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے۔ سوم یہ کہ مذہب کوئی مردہ اور فرضی خدا تو نہیں پیش کرتا۔
(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 373تا374)
پھر حضورؑ نے اسلام کے دفاع میں فرمایا:
’’اب ہم ناظرین پر بڑے زور سے اس بات کا ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تینوں قسم کی خوبیاں محض اسلام میں پائی جاتی ہیں اور باقی جس قدر مذاہب روئے زمین پر ہیں۔ کیا آریہ اور کیا عیسائی اور کیا کوئی اور مذہب وہ ان سہ گو نہ خوبیوں سے خالی …‘‘
(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 376)
پس حضورؑ نے مدلل دلائل سے ثابت کیا کہ تمام مذاہب کے سامنے اسلام ہی اب زندہ مذہب ہے۔
تتمہ
الغرض حضرت مسیح موعودؑ کی ساری پاک سوانح کا لب لباب دفاع اسلام ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اگر آپؑ کی حیات مبارکہ پر ایک گہری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ دفاع اسلام ساری زندگی پر محیط تھی۔ آپؑ ہمارے لیے ایک روشن نمونہ ہیں اور آج تک آپؑ کے خلفاء نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہے۔ آج بھی ہم حضورؑ کی مساعی کی برکات و فیوض سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
مگر حضورؑ کا یہ اعلیٰ نمونہ ہم پر ایک عظیم ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے دفاع کا یہ سلسلہ جاری رکھیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں:
’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ مہم عظیم کے رو براہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اُس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا۔‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ10تا12)
نیز حضورؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اس وقت جو ہم پر قلم کی تلواریں چلائی جاتیں ہیں اور اعتراضات کے تیروں کی بو چھاڑ ہو رہی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوتوں کو بےکار نہ کریں اور خدا کے پاک دین اور اس کے برگزیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے اثبات کے لئے اپنے قلموں کے نیزوں کو تیز کریں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 213، ایڈیشن 2016ء)
پس اب ہمارا فرض ہے کہ ہم حضورؑ کے حقیقی جانشین بنتے ہوئے حضورؑ کے مشن کو جاری رکھیں۔
سلسلہ مدافعت اسلام آپؑ کے زندگی میں ختم نہیں ہوا بلکہ آپؑ کے خلفاء نے آپؑ کے ارشادات کے مطابق یہ سلسلہ جاری رکھا اور آج ہم حضرت مسیح موعودؑ کے پانچویں مظہر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مشاہدہ کر رہے ہیں جنہوں نے یہ کام جاری رکھا ہوا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کو اس طرف توجہ دلاتے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر فرمایا:
’’ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (حٰمٓ السجدۃ: 35)
کہ ایسی چیز سے دفاع کر جو بہترین ہو۔ تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا۔ پس بہترین دفاع اسلام کی خوبصورت تعلیم سے، اور اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے ہو گا۔ یہ سب الزامات جو آج اسلام پر لگائے جاتے ہیں اُن کو عملی نمونے کے ساتھ دھونے کے لئے، اس پیغام کو پہنچانا بہت ضروری ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍جون 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍جولائی2006ءصفحہ7)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے خاص فضل کے ساتھ اسلام کے حقیقی سلطان نصیر بننے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق دے۔ آمین۔
٭…٭…٭