رمضان المبارک، آخری عشرہ، لیلۃ القدر، عید اور شش عید
رمضان المبارک اپنی پوری برکتوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اس مبارک مہینے میں خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل اور برکات نازل فرماتا ہے۔ اپنے بندوں کی دعائوں کو سنتا ہے اور ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا فرماتا ہے اور انہیں قرب خاص سے نوازتا ہے۔
روزہ اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ روزہ ایک عبادت ہے جس سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے روز ےکی اہمیت کے سلسلے میں یہ امر بھی بیان فرمایا ہے کہ سارے مذاہب اور تمام شرائع میں روزہ فرض ہوتا رہا ہے۔ گویا روزہ سارے مذاہب کی ایک مشترکہ اور بنیادی عبادت ہے۔ اسلام میں جو روزے کی شکل ہے وہ کامل ہے اور اس سے کامل روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ تندرست اور مقیم ہونے والے ہر بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہ کر دن بسر کرے۔ اسی طرح روزہ اجتماعی اور انفرادی طور پر بہت سی برکات لاتا ہے۔
رمضان المبارک سے اسلامی معاشرے میں روحانی و جسمانی دونوں لحاظ سے ایک پاک تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ سحری کے لیے عورتیں اور مرد اٹھتے ہیں۔ رمضان کے ایام میں نماز تہجد کا خاص اہتمام بھی ہوتا ہے۔
پس مومنوں کا فرض ہے کہ ہر قسم کی افراط و تفریط سے بچتے ہوئے شریعت اسلامی کے قانون کی پیروی میں رمضان المبارک کے روزے رکھ کر اس بابرکت مہینہ کی برکتوں سے وافر حصہ حاصل کریں۔
رمضان کا آخری عشرہ
رمضان کے آخری عشرے کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ ان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے ہمیں یہ عشرہ کس طرح گزارنا چاہیے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آخری عشرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عبادت کرتے تھے جوکبھی دوسرے دنوں میں نہیں دیکھی۔ ان کیفیات کو بیان کرنا انسان کی طاقت میں نہیں ہے۔
آپؐ ذکر الٰہی میں اپنے آپ کو گم کر دیا کرتے اور خیر کے جتنے بھی اعلیٰ پہلو ہیں ان سارے پہلوئوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی تیزی آئی ہوتی جیسے تیز آندھی اورجھکڑ چل رہا ہو۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رمضان کے آخری عشرےسے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب اور کوئی دن نہیں ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے تین عشروں کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات کا ہے۔
(کنز العمال جلد 8 صفحہ 463 حدیث 23668 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
لیلۃ القدر
رمضان المبارک کی ایک مقدس رات جس کا نام لیلۃ القدر ہے۔ یہ رات بڑی برکتوں و رحمتوں والی اور اہمیت و عظمت کے لحاظ سے اس کا بڑا اہم مقام و مرتبہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں اوروہ طبقہ جو کم علم ہے وہ غلط من گھڑت طریق پر چل پڑا ہے۔
لیلۃ القدر کے لغوی معانی جو لغت کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں وہ ہیں۔ (1) قسمت والی رات۔ (2) حرمت والی رات۔ (3) قوت والی رات۔ (4) وقار والی رات۔ (5) سہولت والی رات اور تقدیر کی رات۔
لیلۃ القدر کے اصطلاحی معانی
رمضان المبارک کی وہ رات جس میں قرآن کریم کے نزول کی ابتدا ہوئی جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّآ اَنۡزَلۡنٰـہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ (القدر: 2)
یقیناً ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے۔
پھر فرمایا:
وَمَآ اَدۡرٰ کَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ (القدر: 3)
اور تجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے۔
نبی کے نزول کا زمانہ رات کی طرح ہوتا ہے مگر رات ایسی جس میں آئندہ زمانہ کے متعلق خدا تعالیٰ کے فیصلے اترتے ہیں یعنی آئندہ زمانہ میں جو کچھ اس دنیا میں پیش آنے والا ہے وہ اس قرآن میں بیان کردیا ہے۔ (تفسیر صغیر صفحہ 836)رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے لیے اپنی خاص تجلی فرماتا ہے۔ جس طرح رمضان قرآن کے نزول کا مقدس مہینہ ہے اسی طرح یہ خاص رات آغاز نزول قرآن کی رات ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کی رات کو برکت والی رات قرار دیا اور فرمایا:
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ (الدخان: 4)
یقیناً ہم نے اسے ایک بڑی مبارک رات میں اُتارا ہے۔ ہم بہر صورت اِنذارکرنے والے تھے۔
اسی طرح قرآن کریم نے لیلۃ القدر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ (الدخان: 5)
اس (رات) میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
گویا یہ فیصلوں کی رات بھی ہے۔ اس لیے اسے دعائوں اور عبادات کے ساتھ گزارنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہمارے حق میں ہوں اور پھر ان پر دوام اختیار کرنا چاہیے۔
پھر فرمایا:
لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَھۡرٍ (القدر: 4)
قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
اس رات کی عبادات ہزار مہینے کی عبادات سے بہتر ہیں اور اس رات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا انقلاب ساری زندگی سے بہتر ہے۔ لیلۃ القدر کی ہی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ۔ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ۔ (القدر: 5تا6)
بکثرت نازل ہوتے ہیں اُس میں فرشتے اور روح القدس اپنے ربّ کے حکم سے۔ ہر معاملہ میں۔ سلام ہے۔ یہ (سلسلہ) طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے۔
یہ کیا ہی بابرکت اور بختوں والی رات ہے جس میں اللہ کے فرشتے اور خاص روح الامین بھی نازل ہوتے ہیں جن کا کام ہی اللہ کے نیک بندوں پر وحی و الہام کا لانا ہے۔ پس کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں لیلۃ القدر نصیب ہو اور وہ اللہ کے فرشتوں سے ہم کلام ہو رہے ہوں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے ایمان و احتساب کے ساتھ لیلۃ القدر کی رات عبادت میں گزاری اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
یعنی لیلۃ القدر سے فائدہ اٹھانے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شرائط فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ ایمان صحیح، صاف اور کھرا ہو۔ دوسرا انسان اپنے نفس، ایمان اور اقوال و اعمال کا محاسبہ کرکے ان کی بہتری اور اصلاح کی کوشش کر رہا ہو تب برکات لیلۃ القدر کو سمیٹنے والا ہوگا۔
لیلۃ القدر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کرنے اور اس سے استفادہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب فضل لیلۃ القدر)
لیلۃ القدر رمضان کی کس تاریخ کو آتی ہے
اس کے متعلق متعدد متفرق روایات ملتی ہیں۔ ایک تو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہو سکتی ہے یعنی رمضان کی 21، 23، 25، 27 یا 29 ویں رات۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات کی تاریخ کو معین نہیں فرمایا ہے۔ یہ قدر کی رات مختلف سالوں میں مختلف ملکوں میں اور افراد کے لیے مختلف تاریخوں پر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ وسعت دنیا اور فرق افق کی وجہ سے بعض ممالک ایک دن پہلے روزہ شروع کردیتے ہیں کوئی دو دن پہلے۔ اس طرح ان ملکوں کی طاق راتیں اکٹھی ہو ہی نہیں سکتیں۔
لیلۃ القدر کی پہچان
بعض روایات بزرگان امت کے مطابق رات کو بارش ہوتی ہے، ہوا چلتی ہے، بجلی چمکتی ہے اور زمین و آسمان کے درمیان نور کی لہریں نظر آتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی روحانی کیفیت کو تمام لوگ ایک ہی بار یا ہر کوئی دیکھ سکے کیونکہ یہ ایک روحانی کشفی نظارہ ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ لوگ ہر رات کے انتظار اور تلاش میں ہی رہتے ہیں۔ مگر بغیر کسی ظاہری تجلی کے سارا رمضان گزر جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ روزے رکھے اور سارا رمضان خلوص نیت کے ساتھ دعائوں میں لگا رہے۔ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے تا کہ اس کو کسی وقت لیلۃالقدر کی تجلی نصیب ہو جائے۔
لیلۃ القدر کے لیے خاص دعا
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا مانگوں؟ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں دعا کرنا۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی
(جامع ترمذی کتاب الدعوات)
اے میرے اللہ تو عفو و بخشش کو پسند کرتا ہے پس تو مجھ سے بھی عفو و در گزر کا سلوک فرما۔
قیام لیلۃ القدر من الایمان
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو لیلۃ القدر میں ایمان کی وجہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اٹھتا ہے تو جو بھی گناہ اس کے پہلے ہو چکے ان سے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔
(صحیح بخاری باب 25حدیث نمبر35)
امام بخاریؒ نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ لیلۃ القدر کی گھڑی پانے کی خاطر جس میں دعا قبول ہوتی ہے نماز تہجد کے لیے اٹھنا اورخدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا ضروری ہے۔ خوش دلی سے رمضان میں تہجد کے لیے اٹھنا اوررمضان کے روزے رکھنا یہ سب باتیں ایمان کی وجہ سے ہی میسر ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ لہٰذا یہ ہزار مہینوں کے 83 سال اور 4 ماہ بنتے ہیں جو ایک انسان کی مناسب عمر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لیلۃالقدر انسان کی ساری عمر سے بہتر ہے۔ کیا ہی خوش نصیب ہے وہ انسان جس کو اپنی زندگی میں لیلۃ القدر میسر آجائے۔ اللہ کرے ہمیں اپنی زندگی میں یہ روحانی رات نصیب ہو جائے اور ہم ہمیشہ کے لیے عباد الرحمن میں داخل ہوجائیں۔ آمین۔
رمضان المبارک کے ختم ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کی پہلی تاریخ کو مسلمانوں کو عید منانے کا حکم فرمایا ہے۔ یہ خوشی اس لیے منائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان المبارک کی عبادات ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ آپؐ نے اس خوشی کے اظہار کے لیے تمام مسلمانوں کو کسی کھلی جگہ پر جمع ہو کر دو رکعت نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور پھر اس نماز کے بعد جائز طور پر خوشی منائی جائے اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ البتہ عید الفطر کے اگلے دن یعنی دو شوال کو ’’ شش عید ‘‘ (شوال)کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اس کے چھ روزے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان روزوں کا بھی اہتمام کیا کرتے تھے اور اس کا بڑا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہ تمام برکتیں اور خوشیاں جو رمضان سے متعلق ہیں عطا فرمائے اور آئندہ بھی ایسی ہزاروں نعمتوں کا وارث بنائے۔ آمین ثم آمین۔