شہادت کی حقیقت
یہ بھی یاد رکھو کہ یہی شہادت نہیں کہ ایک شخص جنگ میں مارا جائے بلکہ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ جوشخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ثابت قدم رہتاہے اوراس کے لئے ہر دکھ درد اور مصیبت کو اٹھانے کے لئے مستعد رہتاہے اور اٹھاتاہے وہ بھی شہید ہے ۔شہید کامقام وہ مقام ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کوگویا دیکھتا اورمشاہدہ کرتاہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کی قدرتوں اور تصرفات پر وہ اس طرح ایمان لاتاہے جیسے کسی چیز کو انسان مشاہدہ کرلیتاہے۔ جب اس حالت پر انسان پہنچ جاوے پھر اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا بلکہ وہ اس میں راحت اور لذت محسوس کرتاہے۔ شہادت کا ابتدائی درجہ خدا کی راہ میں استقلال اور ثبات قدم ہے ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص نہ مرا اللہ کی راہ میں اور نہ تمنّا کی، مرگیا وہ نفاق کے شعبہ میں۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ کوئی شخص کامل مومن نہیں ہوتاجب تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنادُنیا کی زندگی سے وہ مقدم نہ کرے۔ پھر یہ کیسا گراں مرحلہ ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے دنیا کی حیات کو عزیزسمجھا۔ خداتعالیٰ کی راہ میں مرنے کے یہ معنے نہیں کہ انسان خواہ مخواہ لڑائیاں کرتا پھرے ۔بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ خداتعالیٰ کے احکام اور اوامرکو،اس کی رضا کو اپنی تمام خواہشوں اور آرزوئوں پر مقدم کرے۔ اور پھراپنے دل میں غور کرے کہ کیا وہ دنیا کی زندگی کوپسند کرتاہے یا آخرت کو اور خدا کی راہ میں اگر اس پر مصائب اور شدائد بھی پڑیںتو وہ ایک لذّت اور خوشی کے ساتھ انہیں برداشت کرے اوراگر جان بھی دینی پڑے توتردّد نہ ہو۔
اصل غرض مقامِ رضا کا حصول ہے
پس یہی وہ امر ہے جو مَیں اپنی جماعت میں پیدا کرناچاہتاہوںکہ ان میں صحابہؓ کا نمونہ قائم ہو ۔مجھے افسوس ہوتاہے کہ جب کثرت سے ایسے خطوط آتے ہیں کہ جن میں دُنیا اور اس کی خواہشوں کا ذکرہوتاہے اورلکھاجاتاہے کہ میرے لئے فلاں امرکے واسطے دعا کرو،میری فلاں آرزو پوری ہوجائے ۔ بہت ہی تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جومحض خدا کی رضا ہی کومقدم کرتے ہیں اوراسی کی ہی خواہش اور آرزوکرتے ہیں۔
بعض ایسے ہوتے ہیں کہ مکرسے لکھتے ہیں ۔یعنی پہلے تو ذکرکرتے ہیں کہ آپ دعا کریں کہ ہمارے دل میں ذوق شوق عبادت کا پید ا ہوجاوے اوریہ ہواوروہ ہو۔ پھر آخرمیں اپنی دنیوی خواہشوں کوظاہرکرتے ہیں۔ مَیں ایسی بدبودار تحریروں کو شناخت کرلیتاہوں کہ ان کی اصل غرض کیا ہے ۔ وہ نہیں جانتے کہ خداتعالیٰ عالم الغیب ہے اوروہ نیّات کوخوب دیکھتاہے ۔اس طرح پر تو گویا خدا کودھوکہ دیناہے۔ اس طریق کو بالکل چھوڑ دینا چاہئے ۔تمہیں چاہئے کہ خالصۃً اللہ کے لئے ہوجائو ۔اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کومقدم کروگے تویقینا ًسمجھو دنیا میں بھی ذلیل اورخوار نہیں رہوگے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے لئے غیرت ہوتی ہے ۔ وہ خود ان کا تکفّل فرماتاہے۔اورہر قسم کی مشکلات سے انہیںنجات اورمخلصی عطا فرماتاہے۔ مَیں یقیناً جانتاہوں اورکہتاہوںکہ اگر تم میں وہ تخم بویاگیا جوصحابہ ؓمیں بویاگیا تھا تواللہ تعالیٰ ہرطرح اپنافضل کرے گا ۔ایسے شخص پر کوئی شخص حملہ نہیں کرسکتا ۔اس امرکوخوب یاد رکھو۔ اگرخداتعالیٰ کے ساتھ سچا اورمضبوط تعلق ہوجاوے توپھرکسی کی دشمنی کی کیا پروا ہوسکتی ہے۔ مَیں نے پہلے بھی کہا تھاکہ میرے نزدیک عیسیٰ یاموسیٰ کا دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اصل غرض تو یہ ہے کہ مَیں مقام رضا حاصل کرنا چاہتاہوں۔ اوریہی سب کوکرنا چاہئے۔ یہ اس کا فضل اور محض فضل ہے کہ وہ اپنے انعامات سے حصّہ دے اوراس کے حضورکوئی کمی اور اس کی ذات میں کوئی بخل نہیں ۔ یہ کبھی خیال نہیں کرناچاہئے۔میرے نزدیک جوشخص ایساگمان کرتاہے وہ کافر ہوجاتاہے۔ اگر انبیاء ورسل کے انعامات کوحاصل نہیں کرسکتا توپھردنیا میں ان کے آنے سے کیا فائدہ اورکیاحاصل؟ خداتعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے والوں اورراستبازوں کی ساری امیدوں کا خون ہوجاوے۔ اوروہ توگویا زندہ ہی مرجاویں مگرنہیں ایسا نہیںہے۔ اللہ تعالیٰ ہرشخص پر وہی انعام کرسکتاہے جواس نے اپنے برگزیدہ بندوں پرکئے ۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اس قسم کا دل اوراخلاص لے کراس کے حضورآئو۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ423-425۔ایڈیشن 2003ء)